شاکر دہلوی کے اشعار
سیاہ آنکھوں کی رنگت کی اک جھلک کے لئے
تری تلاش میں سرمہ فروش رہتے ہیں
اک ادھورا خواب جو اکثر ڈراتا تھا مجھے
تیرا جانا اس ادھورے خواب کی تعبیر ہے
روز تاریخ کلنڈر میں بدل جاتی تھی
پھر وہ تاریخ بھی آئی کہ کلنڈر بدلا
ہمارے گھر میں یہ تہذیب اب بھی زندہ ہے
بزرگ بولیں تو بچے خموش رہتے ہیں
نیند آئی تو دھوپ کھلے تک سوئیں گے
خوابوں کی فہرست بنا کر بیٹھے ہیں
دو میں کوئی ایک ہو تو پھر بھی بن جاتی ہے بات
مسئلہ یہ ہے کہ ہم دونوں ہی تھے ضدی بہت
ہو بھٹکنے کا جسے شوق مرے ساتھ چلے
جو ہو منزل کا طلب گار پلٹ جائے ابھی
ہم سے مل کر دیکھیے اچھا لگے گا آپ کو
آدمیت کے ابھی تک ان چھوئے پہلو ہیں ہم
یہ دل ول کا دھڑکنا کچھ نہیں ہے
ترے سینے میں جو ہلچل ہے میں ہوں
یہ تری یاد جو کر جاتی ہے بے چین ہمیں
یہ تری یاد کبھی باعث تسکین بھی تھی