شمس فرخ آبادی کے دوہے
آنکھیں دھوکا دے گئیں پاؤں چھوڑ گئے ساتھ
سبھی سہارے دور ہیں کس کا پکڑیں ہاتھ
بھلے برے برتاؤ کا ہے اتنا سا راز
گونجے پلٹ کے جس طرح گنبد کی آواز
بچھڑے ہوؤں کے آج پھر خط کچھ ایسے آئے
جیسے پٹری ریل کی دور پہ اک ہو جائے
ایک بگولہ سانس کا ہوا جسے تیرائے
ہوا ہوا میں جا ملے بس ماٹی رہ جائے