شبھم شب کے اشعار
ماں خوش ہے کہ آخر بچے سیکھ گئے ہیں خوش رہنا
بچے خوش ہیں سیکھ گئے ہیں درد چھپانا اچھے سے
میں وہ تو بھول بیٹھا ہوں جو مجھ کو یاد رکھنا تھا
مگر جو بھول جانا تھا مجھے وہ یاد ہے اب تک
محبت یہ نہیں کہتی کہ اس کو باندھ کر رکھ لیں
کسی پنچھی کو اڑتا دیکھ کر جلتے نہیں ہیں ہم
یہ آخر ہے یہ آخر ہے یہ آخر ہے یہ آخر
اس کے ہر اک ظلم کو میں نے آخر سمجھا بھول ہوئی
کسی سے تم نہیں کرتے کوئی تم سے نہیں کرتا
مگر بس بات کرنے سے بہت کچھ ٹھیک ہوتا ہے
مجھے نفرت تھی جس کردار سے اب تک کہانی میں
اسی کردار کے مرنے پہ اب رونے لگا ہوں میں
نشہ کر لیں نشے کاٹیں منائیں ہجر یادوں کا
ہمیں ماں باپ نے اس واسطے تھوڑے ہی پالا تھا
سب سمجھانے آ جاتے تھے پر بوڑھی شبری کے دکھ کو
رام نہیں آئے تھے تب تک سننے والا کوئی نہ تھا