Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Sohail Azeemabadi's Photo'

سہیل عظیم آبادی

1911 - 1979 | پٹنہ, انڈیا

ترقی پسند افسانہ نگار، شاعر اور ڈرامہ نویس۔

ترقی پسند افسانہ نگار، شاعر اور ڈرامہ نویس۔

سہیل عظیم آبادی کے اشعار

2.6K
Favorite

باعتبار

پتھر تو ہزاروں نے مارے تھے مجھے لیکن

جو دل پہ لگا آ کر اک دوست نے مارا ہے

تیری بے پردگی ہی حسن کا پردہ نکلی

کام کچھ کر گئی ہر حال میں غفلت میری

کیا غم ہے جو ہم گمنام رہے تم تو نہ مگر بدنام ہوئے

اچھا ہے کہ میرے مرنے پر دنیا میں مرا ماتم نہ ہوا

کوئی محفل سے اٹھ کر جا رہا ہے

سنبھل اے دل برا وقت آ رہا ہے

وہ راتیں کیف میں ڈوبی وہ تیری پیار کی باتیں

نکل پڑتے ہیں آنسو جب کبھی ہم یاد کرتے ہیں

تمناؤں کی دنیا دل میں ہم آباد کرتے ہیں

غضب ہے اپنے ہاتھوں زندگی برباد کرتے ہیں

ہے یہ مطلب گردش ایام کا

پردہ رکھ لے کوشش ناکام کا

سہیلؔ ان دوستوں کا جی لگے کس طرح کالج میں

جو درس شوق لیتے ہیں کتاب روئے جاناں سے

کیا لطف ہے ایسے جینے کا جس کی نہ کسی کو پروا ہو

کس کام کا مرنا وہ مرنا جس کا کہ کسی کو غم نہ ہوا

سینہ فگار چاک گریباں کفن بہ دوش

آئے ہیں تیری بزم میں اس بانکپن سے ہم

ہر وقت کی آہ و زاری سے دم بھر تو ذرا ملتی فرصت

رونا ہی مقدر تھا میرا تو کس لیے میں شبنم نہ ہوا

المدد اے جذبہ ذوق محبت المدد

عشق نے آواز دی بے اختیارانہ مجھے

وہ لمحہ زیست کا لعنت ہے آدمی کے لیے

جھکے جو سر کہیں اظہار بندگی کے لیے

جنگل میں گئے گلشن میں گئے بستی میں گئے صحرا میں گئے

ہر طرح سے بہلایا دل کو پر دل کا دھڑکنا کم نہ ہوا

وہ کون دل ہے جہاں میں کہہ دوں جسے کہ یہ آپ کا نہیں ہے

غضب تو یہ ہے کہ میرا دل ہے مگر مرا ہم نوا نہیں ہے

اے حسرت دل گو وصل ہوا پر شوق ہمارا کم نہ ہوا

جس سے کہ خلش کچھ اور بڑھے وہ زخم ہوا مرہم نہ ہوا

خاک اچھالو جو زمیں پر تو فلک پر گر جائے

اب کھلا یہ کہ بہت پست ہے ہمت میری

دماغ کو کر رہا ہوں روشن میں داغ دل کے جلا رہا ہوں

اب اپنی تاریک زندگی کا نیا سراپا بنا رہا ہوں

دیکھیے دیکھیے ہے بندۂ بے دام سہیلؔ

نگہ نرگس مخمور ہے قیمت میری

Recitation

بولیے