سہیل عظیم آبادی کے افسانے
الاؤ
گاؤں سے پورب ایک بڑا سا میدان ہے۔ کھیت کی سطح سے کچھ اونچا اور چورس۔ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے زمانے میں کسی راجہ کا یہاں پر راج محل تھا، اسی کی مٹی اور اینٹ سے زمین اونچی ہو گئی ہے۔ میدان کے پوربی کنارے پر پیپل اور برگد کے پیڑ ہیں اور اس کے بعد کھیت، اتر
دل کا روگ
چمپا نگر سینی ٹوریم۔ سسکتی ہوئی روحوں کی بستی۔ لرزتی ہوئی زندگیوں کی دنیا۔ مضطرب اور جھلملاتی ہوئی شمعوں کی انجمن۔ پرفضا مقام، شاداب درختوں کے جھنڈ میں لمبا چوڑا میدان، میدان میں سبز گھاس کا نظر فریب فرش۔ ان میں لال رنگ کی صاف سڑکیں۔ خوب صورت عمارتیں۔
اندھیرے اور اجالے میں
اندھیرے میں رات کے بارہ بج چکے تھے، بنگلہ سے باہر باغ میں کبھی کبھی الو کے بولنے کے آواز گونج اٹھتی تھی، ورنہ ہر طرف بھیانک سناٹا چھایا ہوا تھا، اس خوبصورت اور لمبے چوڑے مکان میں صرف تین آدمی تھے، دو نوکر اور ایک مالک۔ باغ کا مالی، دور ایک کونے پر
بھوک
بھوک نے جب کروٹ لی تو آنتوں کے ساتھ ہی راؔمو کے دل و دماغ میں بھی ہلچل مچ گئی۔ وہ سوچنے لگا اب کیا کرنا چاہئے۔ بھوکے رہنے کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، ”فاقہ‘‘ کو چار شام تو ہو چکے، صبح ہوگی تو پانچواں ہوگا۔ تین دن سے کام ڈھونڈتا پھر رہا ہوں لیکن کام نہیں
چوکیدار
رات کو جب گاؤں‘‘ کے سب چھوٹے بڑے چین کی نیند سوتے تو رام لال چوکیدار کندھے پر اپنی پرانی لاٹھی لے کر جھوپڑے سے باہر نکل آتا اور گاؤں کی اندھیری گلیوں میں پھرا کرتا، کہ کہیں کوئی چور تو نہیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر پر وہ چلا اٹھتا، ’’جاگ کے سونا۔‘‘ اس کی آواز
دو مزدور
چھوٹے سے ریلوے اسٹیشن کے پاس ہی چینی کا ایک بڑا سا کارخانہ تھا۔ اسٹیشن اور کارخانہ کے درمیان کچی سڑک پر پھوس کی ایک جھوپڑی کے دروازے پر ایک تختی لٹکی تھی جس پر لکھا تھا، ’’گرم چائے۔‘‘ جھوپڑی کے اندر مٹی کا ایک چبوترہ تھا، میز کرسی کے بدلے تاڑ کے پتّوں
شرابی
جب اس کی آنکھ کھلی تو سورج اونچا اٹھ چکا تھا اور اس کی تیز کرنیں اس کے چہرے پر پڑ رہی تھیں، اس نے اٹھتے ہی چاروں طرف نظر پھرا کر دیکھا، ہر طرف سناٹا تھا، اس نے سر میں ہلکا ہلکا درد محسوس کیا، ماتھے پر ہاتھ‘‘ پھیرتے ہی اس کا ہاتھ پسینے سے بھیگ گیا تھا،
جوانی
بیاہ ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا مگر سریندر نے پربھا سے ایک لفظ بھی نہ کہا تھا۔ وہ باہر سے آتا اور چپ چاپ پربھا کے پاس بیٹھ جاتا۔ کبھی کوئی کتاب اٹھا لیتا، کبھی کوئی رسالہ اور وقت کاٹ دیتا۔ پھر باہر چلا جاتا، ماں باپ نے اس کا بیاہ کر دیا تھا، وہ ان کی خوشی،
پیٹ کی آگ
برسات کا موسم ختم ہو چکا تھا اور دھیرے سردی اپنا پرا جما رہی تھی، جب تیز ہوا چلتی تھی تو ٹھنڈ بجلی کی لہروں کی طرح بدن میں دوڑ جاتی تھی۔ بھیانک اور کالی رات آدھی سے زیادہ جا چکی تھی، سارے شہر پر سناٹا چھایا ہوا تھا، بازاری کتے ادھر ادھر مارے پھر رہے