سید شکیل دسنوی کے اشعار
رشتہ رہا عجیب مرا زندگی کے ساتھ
چلتا ہو جیسے کوئی کسی اجنبی کے ساتھ
موت کے خونخوار پنجوں میں سسکتی ہے حیات
آج ہے انسانیت کی ہر ادا سہمی ہوئی
گرد سفر کے ساتھ تھا وابستہ انتظار
اب تو کہیں غبار بھی باقی نہیں رہا
اس سے بچھڑا تو یوں لگا جیسے
کوئی مجھ میں بکھر گیا صاحب
شکیلؔ ہجر کے زینوں پہ رک گئیں یادیں
اسی مقام پر آ کر ٹھہر گئی شب بھی
پھر کوئی چوٹ ابھری دل میں کسک سی جاگی
یادوں کی آج شاید پروائی چل رہی ہے
اہرمن کا رقص وحشت ہر گلی ہر موڑ پر
بربریت دیکھ کر ہے خود قضا سہمی ہوئی