امید فاضلی
غزل 19
اشعار 15
یہ سرد رات یہ آوارگی یہ نیند کا بوجھ
ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے
تشریح
یہ شعر اردو کے مشہور اشعار میں سے ایک ہے۔ اس میں جو کیفیت پائی جاتی ہے اسے شدید تنہائی کے عالم پر محمول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تلازمات میں شدت بھی ہے اور احساس بھی۔ ’’سرد رات‘‘، ’’آوارگی‘‘اور ’’نیند کا بوجھ‘‘ یہ ایسے تین عالم ہیں جن سے تنہائی کی تصویر بنتی ہے اور جب یہ کہا کہ ’’ہم اپنے شہر میں ہوتے تو گھر گئے ہوتے‘‘ تو گویا تنہائی کے ساتھ ساتھ بےخانمائی کے المیہ کی تصویر بھی کھینچی ہے۔ شعر کا بنیادی مضمون تنہائی اور بےخانمائی اور اجنبیت ہے۔ شاعر کسی اور شہر میں ہیں اور سرد رات میں آنکھوں پر نیند کا بوجھ لے کے آوارہ گھوم رہے ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ شہر میں اجنبی ہیں اس لئے کسی کے گھر نہیں جا سکتے ورنہ سرد رات، آوارگی اور نیند کا بوجھ وہ مجبوریاں ہیں جو کسی ٹھکانے کا تقاضا کرتی ہیں۔ مگر شاعر کا المیہ یہ ہے کہ وہ تنہائی کے شہر میں کسی کو جانتے نہیں اسی لئے کہتے ہیں اگر میں اپنے شہر میں ہوتا تو اپنے گھر گیا ہوتا۔
شفق سوپوری
چمن میں رکھتے ہیں کانٹے بھی اک مقام اے دوست
فقط گلوں سے ہی گلشن کی آبرو تو نہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
اے دوپہر کی دھوپ بتا کیا جواب دوں
دیوار پوچھتی ہے کہ سایہ کدھر گیا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
گر قیامت یہ نہیں ہے تو قیامت کیا ہے
شہر جلتا رہا اور لوگ نہ گھر سے نکلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے