وفا نقوی کے اشعار
زمیں اٹھے گی نہیں آسماں جھکے گا نہیں
انا پرست ہیں دونوں کے خاندان بہت
ایک ہی رنگ میں جینے کا ہنر سیکھا ہے
ہم سے ہر بات پہ چہرہ نہیں بدلا جاتا
اس بھیڑ میں دنیا کی ہم تم نہ بچھڑ جائیں
میں تم پہ نظر رکھوں تم مجھ پہ نظر رکھنا
آیا نہ پھر بھی چاند اتر کر زمین پر
کرتے رہے درخت اشارے تمام رات
اہل جنوں پسند نہ تھے اس کو اس لیے
ٹھکرا دیا گیا مجھے مجذوب دیکھ کر
اب یہ خواہش ہے کریں لوگ ہماری غیبت
پھیل جائیں تری گلیوں میں خبر کی صورت
بس اک نشان سا باقی تھا کچے آنگن میں
پرندہ لوٹ کے آیا تو مر چکا تھا درخت
یہ سازشوں کا دور ہے اے تشنہ لب حیات
پانی تلاش کرنا سمندر کو چھوڑ کر
چھپا رہتا ہے دست آرزو خود دار لوگوں کا
بڑی مشکل سے اپنی ذات کا اظہار کرتے ہیں
سب لوگ چل رہے تھے سڑک پر ملا کے ہاتھ
دیکھا جو غور سے تو کسی کا کوئی نہ تھا
اب ان سے پائی ہے تکلیف تو شکایت کیا
ہمیں نے سر پہ چڑھایا تھا کچھ کمینوں کو
بس ایک پل کی تمنائے وصل کی خاطر
تمام عمر لگا دی گئی سنورنے میں
ہمیں سے اجنبی لہجے میں بات کرتی ہے
ہمارے گھر کی ہمارے دیار کی مٹی
یہ کسے زنجیر بستہ کر کے لائی ہے حیات
قید خانہ ہو رہا ہے کیوں منور دیکھنا
ہر دور کا شہید ترے قافلے میں ہے
ہوتی نہیں حسین تری کربلا تمام
کوئی کیسے پا سکے گا سائبانی میں سکون
دھوپ جب بیٹھی ہوئی ہو سایۂ دیوار میں
خزاں آنے نہیں دوں گا کبھی میں اپنے پھولوں پر
گلستاں کو لہو دے کر سنواروں گا یہ وعدہ ہے