Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

فسادات پر لکھی گئیں منتخب اردو کہانیاں

اردو افسانہ رومانیت

سے حقیقت نگاری کی طرف سفر طے کر رہا تھا کہ اسی درمیان تقسیم ہند کا سانحہ ہوا اور اچانک پوری فضا بدل گئی۔اس وقت کے حالات نے اردو افسانے پر ایک گہرا اثر ڈالا جس کی بازگشت اب تک سنائی دیتی ہے ۔اس موضوع پر بڑے موثر افسانے لکھے گئے اس کے علاوہ ہندوستان ایک کثیر المذاہب ملک ہے جہاں مذہب کے نام پرفسادات ہوتے رہتےہیں اور ان حالات کا اثر ادب اور پورے سماج ہوتا ہے ۔اسیسی لیے اردو افسانے میں بھی ان فسادات کی جھلکیاں موجود ہیں ۔چند افسانے اس موضوع پر پیش کیے جا رہے ہیں جنھیں پڑھ کر آپ کے سامنے پوری صورت حال واضح ہو جائے گی ۔

12.2K
Favorite

باعتبار

ٹھنڈا گوشت

ایشر سنگھ جونہی ہوٹل کے کمرے میں داخل ہوا، کلونت کور پلنگ پر سے اٹھی۔ اپنی تیز تیز آنکھوں سے اس کی طرف گھور کے دیکھا اور دروازے کی چٹخنی بند کردی۔ رات کے بارہ بج چکے تھے، شہر کا مضافات ایک عجیب پراسرار خاموشی میں غرق تھا۔ کلونت کور پلنگ پر آلتی پالتی

سعادت حسن منٹو

ٹوبہ ٹیک سنگھ

اس افسانہ میں نقل مکانی کے کرب کو موضوع بنایا گیا ہے۔ تقسیم ہند کے بعد جہاں ہر چیز کا تبادلہ ہو رہا تھا وہیں قیدیوں اور پاگلوں کو بھی منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا۔ فضل دین پاگل کو صرف اس بات سے سروکار ہے کہ اسے اس کی جگہ ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ سے جدا نہ کیا جائے۔ وہ جگہ خواہ ہندوستان میں ہو یا پاکستان میں۔ جب اسے جبراً وہاں سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے تو ایک ایسی جگہ جم کر کھڑا ہو جاتا ہے جو نہ ہندوستان کا حصہ ہے اور نہ پاکستان کا اور اسی جگہ پر ایک فلک شگاف چیخ کے ساتھ اوندھے منھ گر کر مر جاتا ہے۔

سعادت حسن منٹو

کھول دو

امرتسر سے اسپیشل ٹرین دوپہر دو بجے کو چلی اور آٹھ گھنٹوں کے بعد مغل پورہ پہنچی۔ راستے میں کئی آدمی مارے گیے۔ متعدد زخمی ہوئے اور کچھ ادھر ادھر بھٹک گیے۔ صبح دس بجے۔۔۔ کیمپ کی ٹھنڈی زمین پر جب سراج الدین نے آنکھیں کھولیں اور اپنے چاروں طرف مردوں، عورتوں

سعادت حسن منٹو

لاجونتی

لاجونتی ایمانداری اور خلوص کے ساتھ سندر لال سے محبت کرتی ہے۔ سندر لال بھی لاجونتی پر جان چھڑکتا ہے لیکن تقسیم کے وقت کچھ مسلمان نوجوان لاجونتی کو اپنے ساتھ پاکستان لے جاتے ہیں اور پھر مہاجرین کی ادلا بدلی میں لاجونتی واپس سندر لال کے پاس آجاتی ہے۔ اس دوران لاجونتی کے لیے سندر لال کا رویہ اس قدر بدل جاتا ہے کہ لاجوانتی کو اپنی وفاداری اور پاکیزگی پر کچھ ایسے سوال کھڑے دکھائی دیتے ہیں جن کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

راجندر سنگھ بیدی

گڈریا

یہ کہانی فارسی کے ایک سکھ ٹیچر کے گرد گھومتی ہے، جو اپنے مسلم طالب علم کو نہ صرف مفت میں پڑھاتاہے، بلکہ اسے اپنے گھر میں بھی رکھتا ہے۔ پڑھائی کے بعد طالب علم نوکری کے لیے شہر چلا جاتا ہے۔ تقسیم کے دوران وہ واپس آتا ہے تو ایک جگہ کچھ مسلم نوجوانوں کو کھڑے ہوئے پاتا ہے۔ پاس جاکر کیا دیکھتا ہے کہ انہوں نے اس کے ٹیچر کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔ ٹیچر ڈرا ہوا خاموش کھڑا ہے۔ وہ ان کے چنگل سے ٹیچر کو بچانے کی کوشش کرتا ہے۔ مگر نفرت کی آگ میں بھڑکی خون کی پیاسی بھیڑ کے سامنے بے بس ہوکر رہ جاتا ہے۔

اشفاق احمد

پشاور ایکسپریس

جب میں پشاور سے چلی تو میں نے چھکا چھک اطمینان کا سانس لیا۔ میرے ڈبوں میں زیادہ تر ہندو لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ یہ لوگ پشاور سے ہوتے مردان سے، کوہاٹ سے، چارسدہ سے، خیبر سے، لنڈی کوتل سے، بنوں، نوشہرہ، مانسہرہ سے آئے تھے اور پاکستان میں جان و مال کو محفوظ

کرشن چندر

امرتسر آزادی سے پہلے

جلیان والا باغ میں ہزاروں کا مجمع تھا۔ اس مجمع میں ہندو تھے، سکھ بھی تھے اور مسلمان بھی۔ ہندو مسلمانوں سے اور مسلمان سکھوں سے الگ صاف پہچانے جاتے تھے۔ صورتیں الگ تھیں، مزاج الگ تھے، تہذیبیں الگ تھیں، مذہب الگ تھے لیکن آج یہ سب لوگ جلیان والا باغ

کرشن چندر

امرتسر آزادی کے بعد

پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان آزاد ہوا۔ پاکستان آزاد ہوا۔ پندرہ اگست 1947ء کو ہندوستان بھرمیں جشن آزادی منایا جا رہا تھا اور کراچی میں آزاد پاکستان کے فرحت ناک نعرے بلند ہو رہے تھے۔ پندرہ اگست 1947ء کو لاہور جل رہا تھا اور امرت سر میں ہندو مسلم ،سکھ

کرشن چندر

موتری

تقسیم ہند سے ذرا پہلے کی صورت حال کی عکاسی اس کہانی میں کی گئی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان دونوں کے خلاف پیشاب گاہ میں مختلف جملے لکھے ملتے تھے۔ مسلمانوں کی بہن کا پاکستان مارا اور ہندوؤں کی ماں کا اکھنڈ ہندوستان مارا کے نیچے راوی نے دونوں کی ماں کا ہندوستان مارا لکھ کر یہ محسوس کیا تھا کہ ایک لمحے کے لیے موتری کی بدبو مہک میں تبدیل ہو گئی ہے۔

سعادت حسن منٹو

ازدواج محبت

یہ ایک ایسے فرد کی کی کہانی ہے، جو کبھی حیدرآباد کی ریاست میں ڈاکٹر ہوا کرتا تھا۔ وہاں اسے لیڈیز ڈسپینسری میں کام کرنے والی ایک لیڈی ڈاکٹر سے محبت ہو جاتی ہے۔ وہ اس سے شادی کر لیتا ہے۔ مگر اس شادی سے ناراض ہوکر ریاست کے حکام اسے 48 گھنٹے میں ریاست چھوڑنے کا حکم سنا دیتے ہیں۔ اس حکم سے ان کی زندگی پوری طرح بدل جاتی ہے۔

سجاد حیدر یلدرم

جڑیں

سب کے چہرے فق تھے گھر میں کھانا بھی نہ پکا تھا۔ آج چھٹا روز تھا۔ بچے اسکول چھوڑے گھروں میں بیٹھے اپنی اور سارے گھر والوں کی زندگی وبال کیے دے رہے تھے۔ وہی مارکٹائی، دھول دھپا، وہی اودھم اور قلابازیاں جیسے ۱۵اگست آیا ہی نہ ہو۔ کمبختوں کو یہ بھی خیال

عصمت چغتائی

اور عائشہ آگئی

’’یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو تقسیم کے وقت بمبئی سے کراچی ہجرت کر جاتا ہے۔ وہاں وہ بطور روزگار کئی کام کرتا ہے، لیکن اسے کامیابی نہیں ملتی۔ پھر کچھ لوگ اسے دلالی کرنے کے لیے کہتے ہیں، لیکن اپنی دیندار بیٹی کے لیے وہ اس کام سےانکار کر دیتا ہے۔ بیٹی کی شادی کرنے کے لیے وہ انھیں کاموں میں پوری طرح سے لگ جاتا ہے اور بہت امیر ہو جاتا ہے۔ شادی کے ایک عرصے بعد جب اس کی بیٹی اس سے ملنے آنے والی ہوتی ہے تو وہ ان سب کاموں سے توبہ کر لیتا ہے۔‘‘

قدرت اللہ شہاب

پرمیشر سنگھ

ملک کے تقسیم کے وقت اپنے گھر والوں کے ساتھ پاکستان جاتے ہوئے پانچ سال کا اختر اپنے گھر والوں سے بچھڑ جاتا ہےاور ہندوستان میں ہی رہ جاتا ہے۔ سرحد پر وہ بچہ سکھوں کے ایک گروہ کو ملتا ہے۔ ان میں سے ایک پرمیشر سنگھ اسے اپنا بیٹا کرتار سنگھ بنا کر گھر لاتا ہے۔ کرتار سنگھ بھی فسادات کے دوران کہیں کھو گیا ہے۔ اختر کے ساتھ پرمیشر سنگھ کی بیٹی اور بیوی کا رویہ اچھا نہیں ہے۔ اختر اپنی امی کے پاس جانے کی رٹ لگائے رکھتا ہے۔ ایک روز بچھڑے لوگوں کو واپس لے جانے کے لیے فوج کی گاڑی گاؤں میں آتی ہے تو پرمیشر سنگھ اختر کو چھپا دیتا ہے۔ اختر کے ضد کی وجہ سے پرمیشر سنگھ اسے بارڈر پر لاکر چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اپنے ملک اپنی ماں کے پاس پہنچ جائے۔ فوج کی نگاہ پرمیشر سنگھ پر پڑتے ہی اس پر گولی چلا دیتے ہیں، یہ منظر دیکھ کر اختر واپس پرمیشر سنگھ کے پاس دوڑا چلا آ تا ہے۔

احمد ندیم قاسمی

ہندوستان سے ایک خط

ملک کی آزادی نے صرف ملک کو تقسیم ہی نہیں کیا تھا بلکہ تباہی و بربادی بھی ساتھ لیکر آئی تھی۔ 'ہندوستان سے ایک خط' ایسے ہی ایک تباہ و برباد خاندان کی کہانی ہے، جو بھارت کی طرح (ہندوستان، پاکستان و بنگلہ دیش) خود بھی تین حصوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ اسی خاندان کا ایک فرد پاکستان میں رہنے والے اپنے ایک عزیز کو یہ خط لکھتا ہے جو فقط خط نہیں، بلکہ ایک خاندان کے ٹوٹنے اور ٹوٹ کر بکھر جانے کی داستان ہے۔

انتظار حسین

میری موت

یہ ایک سچا واقعہ ہے۔ اس کہانی کا خاص کردار ایک فرقہ پرست مسلمان ہے۔ وہ مسلمان سرداروں سے ڈرتا ہے اور ان سے نفرت بھی کرتا ہے۔ وہ اپنے پڑوسی سردار پر ذرا بھی بھروسہ نہیں کرتا۔ تقسیم کے وقت جب فسادات ہوتے ہیں تب وہی پڑوسی سردار اس مسلمان کو بچاتا ہے۔

خواجہ احمد عباس

آدمی

کھڑکی کے نیچے انہیں گزرتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر یکایک کھڑکی زور سے بندکی۔ مڑکر پنکھے کا بٹن آن کیا۔ پھرپنکھے کا بٹن آف کیا۔ میز کے پاس کرسی پہ ٹک کردھیمے سے بولا، ’’آج توکل سے بھی زیادہ ہیں۔ روز بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔‘‘ سرفرازنے ہتھیلیوں پرسے سر اٹھایا

سید محمد اشرف

گیس چیمبر

کرفیو کے دوران پیدا ہونے والے بچے کی موت و زیست کی کشمکش کو اس کہانی میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک نوزائدہ جس کو زندگی کے لئے صرف ہوا، دودھ اور نیند کی ضرورت ہے، وہ کرفیو کی وجہ سے ان تینوں چیزوں سے محروم ہے۔ آنسو گیس کی وجہ سے وہ آنکھیں نہیں کھول پا رہا ہے، کرفیو کی وجہ سے دودھ والا نہیں آ رہا ہے اور وہ ڈبے کے دودھ پر گذارہ کر رہا ہے، دھماکوں کے شور کی وجہ سے وہ سو نہیں پا رہا ہے اور آلودگی کی وجہ سے اس کو صاف ستھری ہوا میسر نہیں، گویا یہ دنیا اس کے لئے ایک گیس چیمبر بن گئی ہے۔

مستنصر حسین تارڑ

سنگھاردان

اس افسانے میں فسادات کے بعد کی انسانی صورت حال کو موضوع بنایا ہے۔ سنگھاردان جو نسیم جان (طوائف) کا موروثی سنگھاردان تھا، کے ذریعے برجموہن کے خاندان کی سوچ اور طرز فکر کو طلسماتی طور پر تبدیل ہوتے دکھایا گیا ہے۔ برجموہن، نسیم جان کا قیمتی سنگھاردان اس سے چھین کر اپنے گھر لے آتا ہے جسے وہ خود، اس کی بیوی اور تینوں بیٹیاں استعمال کرنے لگتی ہیں لیکن اس کے استعمال کے بعد گھر کے تمام لوگوں کا طرز احساس یکایک تبدیل ہونے لگتا ہے اور ایک طوائف کی خصلتیں ان میں پنپنے لگتی ہیں۔ یہاں کرداروں کی قلب ماہئیت کو جس طلسماتی پیرایے میں پیش کیا گیا ہے وہ معاشرے کے تشکیلی عناصر کے متعلق کئ حوالوں سے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔

شموئل احمد

دم

فسادات میں گھرے ایک خاندان کی کہانی۔ وہ تین بھائی تھے۔ تینوں میں سے دو گھر پر تھے اور ایک کہیں باہر گیا ہواتھا۔ جب وہ لوٹ کر آیا تو اس نے روتی ہوئی اپنی ماں کو بتایا کہ وہ تین کو ٹھکانے لگاکر آیا ہے۔ ماں اس سے ہر بات کو تفصیل سے پوچھتی ہے۔ باہر گلیوں میں پولس گشت کر رہی ہے اور دونوں گروہ نعرہ لگا رہے ہوتے ہیں۔ بعد میں پتہ چلتا ہے کہ نعرے تو محلے کا پاگل آدمی لگا رہا ہے۔ نعرے سن کر پولس بھی اس گھر میں گھس آتی ہے۔ لیکن پولس پاگل کو پکڑنے کے بجائے گھر والوں کو پکڑ کر لے جاتی ہے۔

عبدالصمد

شکر گزار آنکھیں

یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جو فسادیوں کے ایک ایسے گروہ میں شامل ہوتا ہے، جو ایک ٹرین کو گھیر کر روک لیتا ہے۔ گروہ ٹرین میں بیٹھے مسلمانوں کو اتار لیتا ہے۔ ان میں ایک نوبیاہتا جوڑا بھی ہوتا ہے۔ وہ شخص نوبیاہتا جوڑے میں دولہے کو مار دیتا ہے اور پھر دلہن کی التجا پر اسے بھی موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ مگر مرتے وقت دلہن کی آنکھوں میں کچھ ایسا جذبہ تھا جسے وہ ساری زندگی کبھی بھلا نہیں پایا۔

حیات اللہ انصاری

لکیر

آج سورج غروب ہونے سے پہلے بادلوں بھرے آسمان پر عجب طرح کا رنگ چھا گیا تھا۔ یہ رنگ سرخ بھی تھا اور زرد بھی۔ ان دونوں رنگوں نے آسمان کودرمیان سے تقسیم کر دیا تھا۔ جس مقام پر دونوں رنگ مل رہے تھے، وہاں ایک گہری لکیر دکھائی دیتی تھی۔ دھیان سے دیکھنے پر

طارق چھتاری

سانپوں سے نہ ڈرنے والا بچہ

’’یہ ایک ایسے فرد کی کہانی ہے، جو گھر والوں سے دور ایک معمولی سی تنخواہ کی نوکری کرتا ہے۔ اپنے کنبے کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے وہ ایک دوست کی صلاح پر قرض لے لیتا ہے اور گھر جانے سے پہلے بہت ساری خریداری کرتا ہے۔ شام کو وہ دوست کے ساتھ ایک پارک میں جاتا ہے، جہاں کبھی وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آیا کرتا تھا۔ اگلے دن گاڑی میں بیٹھ کر وہ اس شہر کی جانب چل دیتا ہے جہاں کئی انہونیاں اس کا انتظار کر رہی ہوتی ہیں۔‘‘

شوکت حیات

اجنتا

یہ کہانی سچے واقعات پر مبنی ہے۔ اس کہانی میں اجنتا کے ذریعے گیتا کے اپدیشوں کو بہت خوبصورت انداز میں پیش کیا گیا ہے۔ کہانی کا ہیرو فسادات سے بھاگ کر اجنتا کی گپھاؤں میں پناہ لیتا ہے، وہاں اسے گُپھاوں میں گیتا کا اپدیش ملتا ہے، 'عمل کر، نتیجے کی فکر مت کر۔' اپدیش پڑھ کر ہیرو کو اپنے فرض کا احساس ہوتا ہے وہ واپس بمبئی چلا جاتا ہے۔

خواجہ احمد عباس

دہشت

فسادات کے دوران کرفیو میں گھرے ایک ایسےعام آدمی کی کہانی، جو دہشت کی وجہ سے بول تک نہیں پاتا۔ وہ آدمی ڈرتے ہوئے کسی طرح اپنے محلے تک پہنچتا ہے۔ وہاں اسے اندھیرے میں ایک سایہ لہراتا نظر آتا ہے۔ اس سائے سے خود کو بچانے کے لیے وہ اسے اپنا سب کچھ دینے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ سائے کو اپنی جانب بڑھتا دیکھ خوف سے وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ اگلے ہی لمحہ اسے محسوس ہوتا ہے کہ سایہ اس کے قدموں میں پڑا اس سے رحم کی بھیک مانگ رہا ہے۔

سلام بن رزاق

ان کی عید

یہ افسانہ بابری انہدام کے دوران ہوئے فسادات میں اپنے عزیزوں اور املاک کو کھو دینے والے ایک مسلم خاندان کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ہے۔ ممبئی میں ان کا اپنا ایک اچھا سا گھر تھا اور چلتا ہوا کاروبار بھی۔ انہوں نے اپنے ایک دو عزیزوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا تھا۔ پھر شہر میں فساد بھڑک اٹھا اور دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ تباہ و برباد ہو گیا۔ وہ واپس گاؤں لوٹ آئے، مایوس اور بدحال۔ گاؤں میں یہ ان کی دوسری عید تھی، لیکن دلوں میں پہلی عید سے کہیں زیادہ غم تھا۔

ذکیہ مشہدی

بھائی

ایسے شخص کی کہانی جو فسادزدہ شہر میں ایک سڑک کے کنارے کھڑا سواری گاڑی کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ تبھی اس کی بغل میں ہی ایک دوسرا شخص بھی آ کھڑا ہوتا ہے۔ وہ باربار اس کی طرف دیکھتا ہے اور اس سے دفاع کے لیے اپنی جیب میں اینٹ کا ایک ٹکڑا اٹھاکر رکھ لیتا ہے۔ تبھی ایک سواری گاڑی رکتی ہے اور وہ دونوں اس میں سوار ہو جاتے ہیں۔ آگے جانے پر اس گاڑی کو بلوائی گھیر لیتے ہیں۔ بلوائی جب اسے مارنے کے لیے ہتھیار اٹھاتے ہیں تو دوسرا شخص اسے بچاتا ہوا کہتا ہے کہ وہ اس کا بھائی ہے۔

شوکت حیات

بیچ بھنور ندیا گہری

اقبال صا حب نے اخبار کی سرخی پڑھنے کے بعد پوری خبر کوپڑھنا بھی ضروری نہیں سمجھا اوراسے غصے سے کتابوں کے ریکٹ کی طرفا چھال دیا اور سوچنے لگے، حد ہو گئی اب تو ایسا لگتا ہے مسلمانوں سے ان کا اللہ بالکل ہی روٹھ گیا ہے اور انھیں آر ایس ایس کے حوالے کرکے بےفکر

نورالحسنین

روح سے لپٹی ہوئی آگ

کہانی انسانی جبلت کی اس سوچ پر ضرب لگاتی ہے جسے فساد برپا کرنے اور قتل و غارت گری کے لیے کوئی بہانہ چاہیئے۔ ایسے مزاج کے لوگوں کے لیے کوئی جھوٹی افواہ ہی کافی ہوتی ہے۔ بھیڑ بھرے بازار ویران ہونے لگتے ہیں، لوگ سڑکوں سے غائب ہو جاتے ہیں اور اپنے گھروں یا کسی محفوظ جگہ پناہ لے لیتے ہیں۔ دوکانیں لوٹ لی جاتی ہیں اور گھروں کو آگ لگا دیا جاتا ہے۔

عابد سہیل

مہاجر پرندے

’’ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے، جس کے ماں باپ اسے فسادیوں سے بچانے کے لیے گاؤں سے دور بھیج دیتے ہیں۔ وہاں سے بھاگ کر وہ ایک پادری کے گھر میں پناہ لیتا ہے۔ اس کے وہاں آنے کے کچھ دن بعد ہی دائیں بازو کے گروہ کا ایک رکن پادری کا قتل کر دیتا ہے اور پولس اس قاتل کو پکڑنے کی بجائے پادری پر ہی زبردستی تبدیلی مذہب کا الزام لگا کر شمبھو کو اس کی گواہی دینے کے لیے کہتی ہے۔‘‘

شفق

سوا نیزے پر سورج

شیعہ سنی تفریق پر لکھی ایک علامتی کہانی ہے۔ گھر کے بچے ہر وقت کھیلتے رہتے ہیں۔ وہ اس قدر کھیلتے ہیں کہ ہر کھیل سے عاجز آ جاتے ہیں۔ ابو جی انھیں سونے کے لیے کہتے ہیں لیکن وہ چپکے سے اٹھ کر دوسرے کمرے میں چلے جاتے ہیں۔ جہاں وہ سب مل کر شیعہ سنی کی لڑائی کا کھیل کھیلتے ہیں۔

عابد سہیل

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے