Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام

مرزا غالب

ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام

مرزا غالب

MORE BYمرزا غالب

    دلچسپ معلومات

    ۱۸۵۱ء

    ہاں مہ نو سنیں ہم اس کا نام

    جس کو تو جھک کے کر رہا ہے سلام

    دو دن آیا ہے تو نظر دم صبح

    یہی انداز اور یہی اندام

    بارے دو دن کہاں رہا غائب

    بندہ عاجز ہے گردش ایام

    اڑ کے جاتا کہاں کہ تاروں کا

    آسماں نے بچھا رکھا تھا دام

    مرحبا اے سرور خاص خواص

    حبذا اے نشاط عام عوام

    عذر میں تین دن نہ آنے کے

    لے کے آیا ہے عید کا پیغام

    اس کو بھولا نہ چاہیے کہنا

    صبح جو جائے اور آئے شام

    ایک میں کیا کہ سب نے جان لیا

    تیرا آغاز اور ترا انجام

    راز دل مجھ سے کیوں چھپاتا ہے

    مجھ کو سمجھا ہے کیا کہیں نمام

    جانتا ہوں کہ آج دنیا میں

    ایک ہی ہے امید گاہ انام

    میں نے مانا کہ تو ہے حلقہ بگوش

    غالبؔ اس کا مگر نہیں ہے غلام

    جانتا ہوں کہ جانتا ہے تو

    تب کہا ہے بہ طرز استفہام

    مہر تاباں کو ہو تو ہو اے ماہ

    قرب ہر روزہ بر سبیل دوام

    **

    تجھ کو کیا پایہ روشناسی کا

    جز بہ تقریب عید ماہ صیام

    جانتا ہوں کہ اس کے فیض سے تو

    پھر بنا چاہتا ہے ماہ تمام

    ماہ بن ماہتاب بن میں کون

    مجھ کو کیا بانٹ دے گا تو انعام

    میرا اپنا جدا معاملہ ہے

    اور کے لین دین سے کیا کام

    ہے مجھے آرزوئے بخشش خاص

    گر تجھے ہے امید رحمت عام

    جو کہ بخشے گا تجھ کو فر فروغ

    کیا نہ دے گا مجھے مئے گلفام

    جب کہ چودہ منازل فلکی

    کر چکے قطع تیری تیزی گام

    تیرے پرتو سے ہوں فروغ پذیر

    کوئے و مشکوئے و صحن و منظر و بام

    دیکھنا میرے ہاتھ میں لبریز

    اپنی صورت کا ایک بلوریں جام

    پھر غزل کی روش پہ چل نکلا

    توسن طبع چاہتا تھا لگام

    زہر غم کر چکا تھا میرا

    تجھ کو کس نے کہا کہ ہو بدنام

    مے ہی پھر کیوں نہ میں پیے جاؤں

    غم سے جب ہو گئی ہو زیست حرام

    بوسہ کیسا یہی غنیمت ہے

    کہ نہ سمجھیں وہ لذت دشنام

    کعبے میں جا بجائیں گے ناقوس

    اب تو باندھا ہے دیر میں احرام

    اس قدح کا ہے دور مجھ کو نقد

    چرخ نے لی ہے جس سے گردش وام

    بوسہ دینے میں ان کو ہے انکار

    دل کے لینے میں جن کو تھا ابرام

    چھیڑتا ہوں کہ ان کو غصہ آئے

    کیوں رکھوں ورنہ غالبؔ اپنا نام

    کہہ چکا میں تو سب کچھ اب تو کہہ

    اے پری چہرہ پیک تیز خرام

    کون ہے جس کے در پہ ناصبہ سا

    ہیں مہ و مہر و زہرہ و بہرام

    تو نہیں جانتا تو مجھ سے سن

    نام شاہنشہ بلند مقام

    قبلۂ چشم و دل بہادر شاہ

    مظہر ذوالجلال والاکرام

    شہسوار طریقۂ انصاف

    نو بہار حدیقۂ اسلام

    جس کا ہر فعل صورت اعجاز

    جس کا ہر قول معنی الہام

    بزم میں میزبان قیصر و جم

    رزم میں اوستاد رستم و سام

    اے ترا لطف زندگی افزا

    اے ترا عہد فرخی فرجام

    چشم بد دور خسروانہ شکوہ

    لوحش اللہ عارفانہ کلام

    جاں نثاروں میں تیرے قیصر روم

    جرعہ خواروں میں تیرے مرشد جام

    وارث ملک جانتے ہیں تجھے

    ایرج و تور و خسرو و بہرام

    زور بازو میں مانتے ہیں تجھے

    گیو و گودرز و بیژن و رہام

    مرحبا موشگافیٔ ناوک

    آفریں آب داریٔ صمصام

    تیر کو تیرے تیر غیر ہدف

    تیغ کو تیری تیغ خصم نیام

    رعد کا کر رہی ہے کیا دم بند

    برق کو دے رہا ہے کیا الزام

    تیرے فیل گراں جسد کی صدا

    تیرے رخش سبک عناں کا خرام

    فن صورت گری میں تیرا گزر

    گر نہ رکھتا ہو دست گاہ تمام

    اس کے مضروب کے سر و تن سے

    کیوں نمایاں ہو صورت ادغام

    جب ازل میں رقم پذیر ہوئے

    صفحہ ہائے لیالی و ایام

    اور ان اوراق میں بہ کلک قضا

    مجملاً مندرج ہوئے احکام

    لکھ دیا شاہدوں کو عاشق کش

    لکھ دیا عاشقوں کو دشمن کام

    آسماں کو کہا گیا کہ کہیں

    گنبد تیز گرد نیلی فام

    حکم ناطق لکھا گیا کہ لکھیں

    خال کو دانہ اور زلف کو دام

    آتش و آب و باد و خاک نے لی

    وضع سوز و نم و رم و آرام

    مہر رخشاں کا نام خسرو روز

    ماہ تاباں کا اسم شحنۂ شام

    تیری توقیع سلطنت کو بھی

    دی بدستور صورت ارقام

    کاتب حکم نے بموجب حکم

    اس رقم کو دیا طراز دوام

    ہے ازل سے روائیٔ آغاز

    ہو ابد تک رسائیٔ انجام

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے