بھاشا کا سوال
میں ناگری رسم الخط کی مخالفت نہیں کرتا۔ جیسا کہ ہر ایک رسم الخط میں اصلاح کی ضرورت ہے، اسی طرح ناگری رسم الخط میں لمبی اصلاح کی گنجائش ہے۔ جب ناگری زبان والے اردو رسم الخط کی مخالفت کرتے ہیں تب اس میں مجھے حسد کی، تعصب کی بو آتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ہندوستانی کے حق میں ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ ناگری اور اردو رسم الخط میں سے آخرکار جیت ناگری رسم الخط کی ہی ہوگی۔ اسی طرح رسم الخط کا خیال چھوڑ کر بھاشا کا خیال کریں تو جیت ہندوستانی کی ہی ہوگی، کیونکہ سنسکرت لباس والی ہندی بناوٹی ہے اور ہندوستانی قدرتی ہے۔ اسی طرح فارسی لباس والی اردو غیر قدرتی اور بناوٹی ہے۔ میری ہندوستانی میں سنسکرت اور فارسی کے لفظ بہت کم آتے ہیں اور وہ سب سمجھ لیتے ہیں۔ نام کا جھگڑا مجھے بالکل پسند نہیں ہے۔ نام کچھ بھی ہو لیکن کام ایسا ہو کہ جس سے سارے ملک کا، دیش کا بھلا ہو۔ اس میں کسی نام سے نفرت نہیں ہونی چاہیے اور سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘‘ اقبال کے اس وچن کو سن کے کس ہندوستانی کا دل نہیں اچھلے گا؟ اگر نہ اچھلے تو میں اسے کم نصیب مانوں گا۔ اقبال کے اس وچن کو میں ہندی کہوں، ہندستانی کہوں یا اردو۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس میں ہندوستانی بھاشا نہیں بھری پڑی ہے، اس میں میٹھاس نہیں ہے، خیال کی بلندی نہیں ہے۔ بھلے ہی اس خیال کے ساتھ میں آج اکیلا مانا جاؤں مگر یہ صاف ہے کہ سنسکرت کے لباس میں ہندی اور فارسی کے لباس میں اردو کی جیت نہیں ہونے والی ہے۔ جیت تو ہندوستانی کی ہی ہو سکتی ہے جب ہم اندرونی حسد کو بھول جائیں گے تبھی ہم اس بناوٹی جھگڑے کو بھول جائیں گے۔ اس سے شرمندہ ہوں گے۔
ہری جن سیوک، 25 جنوری 1948
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.