خلاف کہتی ہیں حوریں کہ ہے قمر کا سا
خلاف کہتی ہیں حوریں کہ ہے قمر کا سا
ہمیں نظر نہیں آتا ہے اس بشر کا سا
نظر تو آتا ہے مٹتا وہ نقشہ شر کا سا
دعا میں دیتا ہے معلوم کچھ اثر کا سا
گھروندے یوں تو بہت دیکھ ڈالے بیگم نے
مزا ملا نہ مگر شیخ جی کے گھر کا سا
ہوئے نہ کسبی کو دل دے کے آخرش حیران
میں پہلے سمجھی تھی سودا ہے یہ ضرر کا سا
نہیں وہ پان سے کرتے ہیں سرخ سوت کا منہ
لگاتے ہیں دل بسمل میں ایک چرکا سا
اٹھائی رخ سے دلائی جو دولہا نے باجی
ضیائے حسن سے جلوہ ہوا قمر کا سا
تمہارے دل سا نہ کھو جائے کوئی عالم میں
نہ کوئی گم ہو جہاں میں مری کمر کا سا
یہ خط نواب کو پہنچا دو ماما میں واری
بنا لو روپ بوا آج نامہ بر کا سا
ہزار چاہتی ہوں بولوں ان سے ہو کے نڈر
یہی تو ڈر ہے کہ لگتا ہے مجھ کو دھڑکا سا
وہ ڈانٹا شیخ کو بیگم کی چشم پر خوں نے
ہوا ذرا میں وہ معلوم واں سے سرکا سا
نگوڑی وصل کی شب بھی ہوا نہ چین نصیب
لگا رہا بوا کھٹکا موئی سحر کا سا
سخن کی پریوں کو لے کر سریر مضموں پر
ہوا میں اڑتا ہے محسنؔ لگا کے پر کا سا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.