جب تک سروں پہ دھوپ کا خدشہ نہیں ہوا
جب تک سروں پہ دھوپ کا خدشہ نہیں ہوا
سنسان راستوں میں بھی خطرہ نہیں ہوا
دکھ درد اپنے شعر میں رکھے تو ہیں مگر
تحریر باپ کا کوئی نقطہ نہیں ہوا
حالانکہ روز و شب میں کئی موڑ تھے مگر
اک باپ کے وجود سے فاقہ نہیں ہوا
جھریوں میں آ گئی تھی مسافت کی داستاں
یوں ہی تمام عمر کا رستہ نہیں ہوا
کتنے تفکرات کو سہتا رہا مگر
خوگر غموں سے باپ کا چہرہ نہیں ہوا
ہر غم میں غم گسار لگی کربلا ہمیں
دل میں سوا حسین کے غلبہ نہیں ہوا
عشق نبی بتول علی اور حسن حسین
صد شکر منکروں میں یہ ورثہ نہیں ہوا
اک تیر جس نے چھید دیا باپ کا جگر
آسان گھر لٹانے کا وعدہ نہیں ہوا
آنسو کی قدر جا کے سکینہ سے پوچھ لو
جی بھر کے جس سے باپ پہ گریہ نہیں ہوا
کیوں ہنس پڑا تھا گود میں اصغر سا گل بدن
حل آج بھی کسی سے یہ نکتہ نہیں ہوا
سجاد خوں اگلتے رہے ایک عمر تک
اوجھل نظر سے درد کا کوفہ نہیں ہوا
احسان کس طرح سے رقم ہوں کہ عمر بھر
خرمؔ تھکن کا باپ کی چرچا نہیں ہوا
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.