مرے حسین سے جو بد گمان ہو جائے
مری دعا ہے کہ وہ بے نشان ہو جائے
کروں گا پھر علی اکبر پہ گفتگو تجھ سے
خدا کرے ترا بیٹا جوان ہو جائے
منافقوں کی تسلی بہت ضروری ہے
غدیر خم کا ذرا پھر بیان ہو جائے
علی کے روپ میں ہوتا ہے یا علی پیدا
کوئی مکان اگر لا مکان ہو جائے
خدا سلاتا ہے نفس النبی کو بستر پر
جب اپنے گھر میں نبی بے امان ہو جائے
میں جب بھی ذکر کروں شام کے اسیروں کا
لہو لہو مرے دل کی فغان ہو جائے
تھے سارے امتی پر ایک امتی بھی نہ تھا
جو قیدیوں کے لیے سائبان ہو جائے
برہنہ پشت پہ ناقہ کی اک بندھا بیمار
برائے نسل علی ساربان ہو جائے
خموش ایسا کہ جیسے غلاف میں قرآں
جو لب کشا ہو تو نطق اذان ہو جائے
اگر نہ بغض ہو دل میں تو کیسے ممکن ہے
بیان حب علی چیستان ہو جائے
ہمارے عہد کا ہر ایک میثم تمار
یزیدی چاہتے ہیں بے زبان ہو جائے
ادا یہ رسم عزا یوں کرو عزا دارو
کہ اک شگاف سر آسمان ہو جائے
بہ نام آل علی مرتضیٰ بہ نام حسین
شہید کاش مرا خاندان ہو جائے
سلام لکھتے ہوئے ہچکیوں سے کی ہے دعا
کہ مجھ سا بد صدا رطب اللسان ہو جائے
میں اہل بیت کی نصرت لکھوں تو ایسے لکھوں
کہ حرف حرف مرا نردبان ہو جائے
فروغ فکر حسینی کو اتنا دوں واصفؔ
کہ مجھ سے راضی شہہ دو جہان ہو جائے
لکھی ہے منقبت اک راجپوت شاعر نے
ذرا سی داد شہ سیدان ہو جائے
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.