aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "اعتراض"
اعتبار ساجد
شاعر
اہتمام صادق
ہاجرہ مسرور
1930 - 2012
مصنف
احترام اسلام
ہاجرہ نور زریاب
مرزا فرحان عارض
اعتزاز احسن
زین احترام
ہاجرہ نازلی
1921 - 2004
اعتقاد پبلیشنگ ہاؤس، نئی دہلی
ناشر
احترام الدین احمد شاغل
1896 - 1971
عارض کاشمیری
ہاجرہ شکور
پرویز عارض
ہاجرہ ولی الحق
مدیر
ہر طرف اعتراض ہوتا ہےمیں اگر روشنی میں آتا ہوں
چنانچہ جب گرمیوں کی تعطیلات میں، میں وطن کو واپس گیا، چند مختصرمگر جامع اور مؤثر تقریریں اپنے دماغ میں تیار رکھیں۔ گھر والوں کو ہوسٹل پر سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ وہاں کی آزادی نو جوانوں کے لئے از حد مضر ہوتی ہے۔ اس غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے ہزار ہا واقا ت ایسے تصنیف کئے جن سے ہاسٹل کے قوائد کی سختی ان پر اچھی طرح روشن ہو جائے۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب ک...
مجھ ایسے لوگوں کا ٹیڑھ پن قدرتی ہے سو اعتراض کیساشدید نم خاک سے جو پیکر بنے گا یہ طے ہے خم بنے گا
دہقانوں کی یہ مختصر سی ٹولی اپنی بے سر و سامانی سے بے حس اپنی خستہ حالی میں مگر صابر و شا کر چلی جاتی تھی۔ جس چیز کی طرف تاکتے، تاکتے رہ جاتے اور پیچھے سے بار بار ہارن کی آواز ہونے پر بھی خبر نہ ہوتی تھی۔ محسن تو موٹر کے نیچے جاتے جاتے بچا۔وہ عید گاہ نظر آئی۔ جماعت شروع ہو گئی ہے۔ املی کے گھنے درختوں کا سایہ ہے نیچے کھلا ہوا پختہ فرش ہے۔ جس پر جاجم بچھا ہوا ہے اور نمازیوں کی قطاریں ایک کے پیچھے دوسرے خدا جانے کہاں تک چلی گئی ہیں۔ پختہ فرش کے نیچے جاجم بھی نہیں۔ کئی قطاریں کھڑی ہیں جو آتے جاتے ہیں پیچھے کھڑے ہوتے جاتے ہیں۔ آگے اب جگہ نہیں رہی۔ یہاں کوئی رتبہ اور عہدہ نہیں دیکھتا۔ اسلام کی نگاہ میں سب برابر ہیں۔ دہقانوں نے بھی وضو کیا اور جماعت میں شامل ہو گئے۔ کتنی باقاعدہ منظم جماعت ہے، لاکھوں آدمی ایک ساتھ جھکتے ہیں، ایک ساتھ دو زانو بیٹھ جاتے ہیں اور یہ عمل بار بار ہوتا ہے ایسا معلوم ہو رہا ہے گویا بجلی کی لاکھوں بتیاں ایک ساتھ روشن ہو جائیں اور ایک ساتھ بجھ جائیں۔ کتنا پر احترام رعب انگیز نظارہ ہے۔ جس کی ہم آہنگی اور وسعت اور تعداد دلوں پر ایک وجدانی کیفیت پیدا کر دیتی ہے۔ گویا اخوت کا رشتہ ان تمام روحوں کو منسلک کئے ہوئے ہے۔
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے، ان کے دام انہیں اچھے وصول ہو گیے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لیے تیا ر تھے۔ چنا نچہ انہوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھانی۔ ایک اونچی اور ہموار...
مرزاغالبؔ بلاشبہ اردو کے ایسے عظیم شاعرہیں جنھیں عالمی ادب کے چنندہ شاعروں کی فہرست میں فخر کے ساتھ شامل کیا جا سکتا ہے۔ غالبؔ کی شاعری کی ایک خاص خوبی یہ بھی ہے کہ ان کے کلام میں بڑی تعداد میں موقع کی مناسبت سے استعمال کئے جانے والے اشعار موجود ہیں۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ غالبؔ کے ۲۰ بہترین اشعار جو ضرب ا لمثل کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں آپ حضرات کے لئے یکجا کئے جائیں۔ غالبؔ کے کلام سے صرف ۲۰ اشعار کا انتخاب کرنا کتنا مشکل ہے اس کا اندازہ آپ بخوبی لگا سکتے ہیں۔ ہمیں اعتراف ہے کہ غالب ؔ کے کئی بہترین اشعار ہماری فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہیں۔ از راہ کرم ہمیں اپنی پسند کے ایسے اشعار کی بلا تکلف نشاندہی فرمائیں جو اس فہرست میں شامل ہونے سے رہ گئے ہوں۔ ہمارا ادارتی عملہ آپ کے تجویز کردہ اشعار کو ٹاپ ۲۰ فہرست میں شامل کرنے پر غور کرے گا۔ امید ہے آپ اس انتخاب سے محظوظ ہونگے اور اس فہرست کو مزید بہتر بنانے میں ریختہ کے ساتھ تعاون کریں گے اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہیں گے۔
اعتبار شاعری
غالب کی عظمت کا اعتراف کس نے نہیں کیا ۔ نہ صرف ہندوستانی ادبیات بلکہ عالمی ادب میں غالب کی عظمت اور اس کے شعری مرتبے کو تسلیم کیا گیا ہے ۔ غالب کے ہم عصر اور ان کے بعد کے شاعروں نے بھی ان کو ان کی استادی کا خراج پیش کیا ہے ۔ ایسے بہت سے شعر ہیں جن میں غالب کے فنی و تخلیقی کمال کے تذکرے ملتے ہیں ۔ ہم ایک چھوٹا سا انتخاب پیش کر رہے ہیں ۔
ए'तिराज़اعتراض
objection
سب افسانے میرے
افسانہ
مصباح الحکمت
محمد فیروز الدین
طب
امراض نسواں
ڈاکٹر کاشی رام
قدیم علم الامراض
حکیم ملک وامق امین
عجائبات فرنگ
یوسف خاں کمبل پوش
سفر نامہ
اردو انشائیہ اور بیسویں صدی کے اہم انشائیہ نگار
ہاجرہ بانو
مضامین/ انشائیہ
علاج الامراض اردو
ہادی حسن
امراض و علاج
نامعلوم مصنف
طب یونانی
اسمائے امراض
حکیم محمد کبیرالدین
اقبال کی شخصیت پر اعتراضات کا جائزہ
ڈاکٹر ایوب صابر
تنقید
مسلمان عورت کے حقوق اور ان پر اعتراضات کا جائزہ
سید جلال الدین عمری
فرہنگ عامرہ
محمد عبد اللہ خان خویشگی
لغات و فرہنگ
اکسیر الامراض
سید علمدار حسین
جنسی امراض کا علاج
حکیم محمد حسن قرشی
کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ کو معطل کردیتی ہے، خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بےڈھنگی حرکات وسکنات (...
یہ دنیا بھی عجیب و غریب ہے۔۔۔ خاص کر آج کا زمانہ۔۔۔ قانون کو جس طرح فریب دیا جاتا ہے ،اس کے متعلق شاید آپ کو زیادہ علم نہ ہو۔ آج کل قانون ایک بے معنی چیز بن کر رہ گیا ہے ۔ ادھر کوئی نیا قانون بنتا ہے، ادھر یار لوگ اس کا توڑ سوچ لیتے ہیں، اس کے علاوہ اپنے بچاؤ کی کئی صورتیں پیدا کر لیتے ہیں۔کسی اخبار پر آفت آنی ہو تو آیا کرے، اس کا مالک محفوظ و مامون رہے گا، اس لیے کہ پرنٹ لائن میں کسی قصائی یا دھوبی کا نام بحیثیت پرنٹر پبلشر اور ایڈیٹر کے درج ہوگا۔ اگر اخبار میں کوئی ایسی تحریر چھپ گئی جس پر گورنمنٹ کو اعتراض ہو تو اصل مالک کے بجائے وہ دھوبی یا قصائی گرفت میں آ جائے گا۔ اس کو جرمانہ ہوگا یا قید۔ جرمانہ تو ظاہر ہے اخبار کا مالک ادا کر دے گا، مگر قید تو وہ ادا نہیں کرسکتا۔ لیکن ان دو پارٹیوں کے درمیان اس قسم کا معاہدہ ہوتا ہے کہ اگر قید ہوئی تو وہ اس کے گھر اتنے روپے ماہوار پہنچا دیا کرے گا۔ ایسے معاہدے میں خلاف ورزی بہت کم ہوتی ہے۔
قتل پر جن کو اعتراض نہ تھادفن ہونے کو کیوں نہیں تیار
بہت اب ہو چکی دنیا سے یاریادھر سے اعتراض آنے لگا ہے
یاراں تمہیں جو مجھ سے گلہ ہے تو کس لئےمجھ کو تو اعتراض خدا پر بھی کچھ نہیں
اہل ہنر کو مجھ پہ وصیؔ اعتراض ہےمیں نے جو اپنے شعر میں ڈھالے تمہارے خط
الماس بیگم کا اگر بس چلے تو وہ اپنے طرحدار شوہر کو ایک لمحے کے لیے اپنی نظروں سے اوجھل نہ ہونے دیں اور وہ جوان جہان آیا کو ملازم رکھنے کی ہر گز قائل نہیں۔ مگر تارا بائی جیسی بے جان اور سگھڑ خادمہ کو دیکھ کر انھوں نے اپنی تجربہ کار خالہ کے انتخاب پر اعتراض نہیں کیا۔ تارا بائی صبح کو بیڈ روم میں چائے لاتی ہے۔ بڑی عقیدت سے صاحب کے جوتوں پر پالش اور کپڑوں پر استری کرتی ہے، ان کے شیو کا پانی لگاتی ہے، جھاڑو پوچھا کرتے وقت وہ بڑی حیرت سے ان خوبصورت چیزوں پر ہاتھ پھیرتی ہے، جو صاحب اپنے ساتھ پیرس سے لائے ہیں، ان کا وائلن وارڈ روب کے اوپر رکھا ہے، جب پہلی بار تارا بائی نے بیڈروم کی صفائی کی تو وائلن پر بڑی دیر تک ہاتھ پھیرا، مگر پرسوں صبح حسب معمول جب وہ بڑی نفاست سے وائلن صاف کر رہی تھی تو نرم مزاج اور شریف صاحب اسی وقت کمرے میں آ گئے اور اس پر برس پڑے کہ وائلن کو ہاتھ کیوں لگایا اور تارا بائی کے ہاتھ سے چھین کر اسے الماری کے اوپر پٹخ دیا، تارا بائی سہم گئی اور اس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور صاحب ذرا شرمندہ سے ہو کر باہر برآمدے میں چلے گئے، جہاں بیگم صاحبہ چائے پی رہی تھی۔ ویسے بیگم صاحبہ کی صبح ہئیر ڈریسر اور بیوٹی سلیون میں گزرتی ہے۔ مینی کیور، پیڈی کیور، مساج کیور، فیشل، سونا باتھ۔۔۔ ایک سے ایک بڑھیا ساڑھیاں، درجنوں رنگ برنگے سینٹس، اور عطر کے ڈبے اور گہنے ان کی الماریوں میں پڑے ہیں۔ مگر تارا بائی سوچتی ہے، بھگوان نے میم صاحب کو دولت بھی، اجت بھی اور ایسا سندر پتی دیا، بس شکل دینے میں کنجوسی کر گئے۔
بدھو۔ بس یہی تو آدمی کا دھرم ہے۔ مگر بھائی کرودھ (غصّہ) کے بس میں ہوکر بدھی الٹی ہوجاتی ہے۔پھاگن کا مہینہ تھا۔ کسان ایکھ بونے کے لیے کھیتوں کو تیار کررہے تھے، بدھو کا بازار گرم تھا۔ بھیڑوں کی لوٹ مچی ہوئی تھی۔ دوچار آدمی روزانہ دروازہ پر کھڑے خوشامد کیا کرتے۔ بدھو کسی سے سیدھے منہ بات نہ کرتا۔ بھیڑ بٹھانے کی اجرت دوگنی کردی تھی۔اگر کوئی اعتراض کرتا تو بے لاگ کہتا، بھیا،بھیڑیں تمھارے گلے تو نہیں لگاتا ہوں۔ جی نہ چاہے تو نہ بٹھلاؤ لیکن میں نے جو کہہ دیا ہے اس سے ایک کوڑی بھی کم نہیں ہوسکتی۔ غرض تھی لوگ اس کی بے مروّتی پر بھی اسے گھیرے ہی رہتے تھے، جیسے پنڈے کسی جاتری کے پیچھے پڑے ہوں۔
میری سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ انھیں یا کسی اور کو میرے معاملات سے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ وزیر کا کیریکٹر بہت خراب تھا اور میرا کریکٹر بھی کوئی خاص اچھا نہیں تھا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لوگ کیوں میری فکر میں مبتلا تھے اور پھر جو ان کے من میں تھا صاف صاف کیوں نہیں کہتے تھے۔ وزیر پر میرا کوئی حق نہیں تھا اور نہ وہ میرے دباؤ میں تھی۔ اکرام صاحب یا کوئی او...
عبدالرحیم سینڈو کے باتیں کرنے کا اندازہ بالکل نرالا تھا۔ کنٹی نیوٹلی۔ دھڑن تختہ اور اینٹی کی پینٹی پو ایسے الفاظ اس کی اپنی اختراع تھے جن کو وہ گفتگو میں بے تکلف استعمال کرتا تھا۔ میرا تعارف کرانے کے بعد وہ بابو گوپی ناتھ کی طرف متوجہ ہوا جو بہت مرعوب نظر آتا تھا۔ ’’آپ ہیں بابو گوپی ناتھ۔ بڑے خانہ خراب۔ لاہور سے جھک مارتے مارتے بمبئی تشریف لائے ہیں...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books