aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ذریعہ"
خدا بخش آدمی محنتی تھا۔ سارا دن ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنا پسند نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ اس نے ایک فوٹو گرافرسے دوستی پیدا کی جو ریلوے اسٹیشن کے باہر منٹ کیمرے سے فوٹو کھینچا کرتا تھا۔ اس لیے اس نے فوٹو کھینچنا سیکھ لیا۔ پھر سلطانہ سے ساٹھ روپے لے کر کیمرہ بھی خرید لیا۔ آہستہ آہستہ ایک پردہ بنوایا، دو کرسیاں خریدیں اور فوٹو دھونے کا سب سامان لے کر اس ...
فلم چل رہا تھا۔ مادر زار برہنگی مختلف آسن اختیار کرتی دوڑ رہی تھی۔ اشوک نے اٹھ کر سوئچ اوف کردیا۔۔۔ پردے پرسب کچھ بجھ گیا۔ مگر اس نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں۔ اس کا دل و دماغ شرمساری میں ڈوبا ہوا تھا۔ یہ احساس اس کو چبھ رہا تھا کہ اس سے ایک نہایت ہی نازیبا۔۔۔ نہایت ہی واہیات حرکت سرزد ہوئی۔ اس نے یہاں تک سوچا کہ وہ کیسے اپنی بیوی سے آنکھ ملا ...
اپنے ذہن میں ہم نے ہوسٹل میں اپنی حیثیت ایک مادر مہربان کی سی سوچ لی، جس کے ارد گرد نا تجربہ کار طلبہ مرغی کے بچوں کی طرح بھاگتے پھریں گیں۔ سپرنٹنڈنٹ صاحب کو جو کسی زمانے میں ہمارے ہم جماعت رہ چکے تھے، لکھ بھیجا کہ جب ہم ہاسٹل میں آئیں گے تو فلاں فلاں مراعات کی توقع آپ سے رکھیں گے اور فلاں فلاں قواعد سے اپنے آپ کو مستشنی سمجھیں گیں۔ اطلا عاً عرض ہے...
خورشید عالم اب وائلن کبھی نہیں بجائیں گے۔یہ صرف ڈیڑھ سال پہلے کا ذکر ہے، کہ الماس اپنے ملک التجار باپ کی عالی شان کوٹھی میں مالا بار بل پر رہتی تھی۔ وہ سوشل ورک کر رہی تھی، اور عمر زیادہ ہو جانے کے کارن شادی کی امید سے دست بر دار ہو چکی تھی۔ جب ایک دعوت میں ان کی ملاقات خورشید عالم سے ہوئی اور ان کی جہاں دیدہ خالہ بیگم عثمانی نے ممکنات بھانپ کر اپنے جاسوسوں کے ذریعہ معلومات فراہم کیں۔ لڑکا یوپی کا ہے، یورپ سے لوٹ کر تلاش معاش میں سر گرداں ہے مگر شادی پر تیار نہیں کیونکہ فرانس میں ایک لڑکی چھوڑ آیا ہے اور اس کی آمد کا منتظر ہے۔ بیگم عثمانی فوراً اپنی مہم پر جٹ گئیں۔ الماس کے والد نے اپنی ایک فرم میں خورشید عالم کو پندرہ سو روپے ماہوار پر ملازم رکھ لیا، الماس کی والد نے انہیں اپنے ہاں مدعو کیا اور الماس سے ملاقاتیں خود بخود شروع ہو گئیں، مگر پھر بھی لڑکے نے لڑکی کے سلسلے میں کسی گرم جوشی کا اظہار نہیں کیا۔ دفتر سے لوٹ کر انہیں بیشتر وقت الماس کے ہاں گزارنا پڑتا اور اس لڑکی کی سطحی گفتگو سے اکتا کر اس پر فضا بالکنی میں جا کر کھڑے ہوتے جس کا رخ سمندر کی طرف تھا، پھر وہ سوچتے ایک دن اس کا جہاز آ کر اس ساحل پر لگے لگا، اور وہ اس میں سے اترے گی، اسے ہمراہ ہی آ جانا چاہئیے تھا مگر پیرس میں کالج میں اس کا کام ختم نہیں ہوا تھا۔ اس کا جہاز ساحل سے آگے نکل گیا، وہ بالکنی کے جنگلے پر جھکے افق کو تکتے رہتے۔ الماس اندر سے نکل کر شگفتگی سے ان کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پوچھتی، ”کیا سوچ رہے ہیں۔“ وہ ذرا جھینپ کر مسکرا دیتے۔
’’اچھا جی!‘‘ یہ کہہ کر بشیر چلا گیا۔ناشتہ بے حد لذیذ تھا، خاص طور پر مچھلی کے ٹکڑے ۔اس نے کھانا شروع کرنے سے پہلے بشیر کے ذریعہ سے اس برمی لڑکی کو بلا بھیجا مگر وہ نہ آئی۔ بشیر نے کہا، ’’جی وہ کہتی ہیں کہ بعد میں کریں گی وہ ناشتہ‘‘
خواتین پر مردوں کی تحریریں یہاں پڑھیں۔ اس صفحہ پر خواتین پر مردوں کے ذریعہ لکھی گئی بہترین کتابیں موجود ہیں۔
تحریک آزادی میں ضبط شدہ کتابوں کو یہاں پڑھیں۔ ایسی کتابیں جو تحریک آزادی میں انگریز حکومت کے ذریعہ ضبط کرلی گئی تھیں۔ ریختہ نے اپنے قارئین کے لئے تحریک آزادی کی ضبط شدہ کتابوں کا ایک عمدہ کلیکشن تیار کیا ہے، آپ کو ضرور استفادہ کرنا چاہئے۔
اخبار اس کھڑکی کا کام کرتے ہیں جن کے ذریعہ ہم دنیا بھرمیں ہونے والے واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اخبار دنیا کا عکس اور عکاس، دونوں بن جاتا ہے۔ یہاں کچھ بہترین شعر پیش کئے جا رہے ہیں جن میں شاعر نے بڑی خوبی سے اخبار کو استعارہ بنا کر عالمی منظر نامہ،انسانوں اور اخباروں اور صحافت پر اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہیں۔
ज़रीयाذریعہ
source
ज़रियाذریعہ
ज़रीयेذریعہ
via/source/through
عروض
سید کلیم اللہ حسینی
علم عروض / عروض
گلہائے داغ
آفتاب احمد صدیقی رودولوی
انتخاب
سوانح عمری مولانا آزاد
نواب سید محمد آزاد
نثر
اردو بحیثیت ذریعۂ تعلیم
مولوی عبدالحق
زبان
اردو بحیثیت ذریعہ تعلیم
عبدالرشید ارشد
آپریشن وینس
اکرم الہ آبادی
جاسوسی
یوگ
محمد بدر الاسلام
طب
ہنستے ہنستے
برق آشیانوی
اردو ذریعۂ تعلیم اور اصطلاحات
آفتاب حسین
تعلیم
سوکھا اور اس کا ذریعہ ہومیوپیتھی علاج
اسد اللہ خان
ہومیوپیتھی
حقیقی ذریعہ ہندو مسلم اتحاد
ناصر الدین عبداللہ
کھیل کے ذریعے تعلیم
عبدالغفار مدہولی
مظہر الاعجاز ذریعہ نجات
نامعلوم مصنف
تصوف
وسیلہ شرف و ذریعۂ دولت
فرزند علی صاحب منیری
فیض معظم
محمد شاہ
دیگر
صحت مند ہونا بڑی اچھی چیز ہے مگر دوسروں پر اپنی صحت کو بیماری بنا کر عائد کرنا بالکل دوسری چیز ہے۔ راج کشور کو یہی مرض لاحق تھا کہ وہ اپنی صحت، اپنی تندرستی، اپنے متناسب اور سڈول اعضا کی غیر ضروری نمائش کے ذریعے ہمیشہ دوسرے لوگوں کو جواس سے کم صحت مند تھے، مرعوب کرنے کی کوشش میں مصروف رہتا تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں دائمی مریض ہوں، کمزور ہوں، میرے ایک پھیپھڑے میں ہوا کھینچنے کی طاقت بہت کم ہے مگر خدا واحد شاہد ہے کہ میں نے آج تک اس کمزوری کا کبھی پروپیگنڈا نہیں کیا، حالانکہ مجھے اس کا پوری طرح علم ہے کہ انسان اپنی کمزوریوں سے اسی طرح فائدہ اٹھا سکتا ہے جس طرح کہ اپنی طاقتوں سے اٹھا سکتا ہے مگر میراایمان ہے کہ ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے۔
چند دن ہی میں اخلاق اور اس لڑکی میں اشارے شروع ہوگئے۔ ہر روز صبح نو بجے وہ انار کلی کی اس گلی میں پہنچتا۔ کھڑکی کھلتی وہ سلام کرتا ،وہ جواب دیتی، مسکراتی۔ ہاتھ کے اشاروں سے کچھ باتیں ہوتیں۔ اس کے بعد وہ چلی جاتی۔ایک روز انگلیاں گھما کر اس نے اخلاق کو بتایا کہ وہ شام کے چھ بجے کے شو سنیما دیکھنے جارہی ہے۔ اخلاق نے اشاروں کے ذریعہ سے پوچھا،’’کون سے سینما ہاؤس میں؟‘‘اس نے جواب میں کچھ اشارے کیےمگر اخلاق نہ سمجھا۔ آخرمیں اس نے اشاروں میں کہا،’’کاغذ پر لکھ کر نیچے پھینک دو۔‘‘
بڑھاپا اکثر بچپن کا دورِثانی ہواکرتا ہے۔ بوڑھی کاکی میں ذائقہ کے سوا کوئی حس باقی نہ تھی اور نہ اپنی شکایتوں کی طرف مخاطب کرنے کا، رونے کے سوا کوئی دوسرا ذریعہ۔ آنکھیں، ہاتھ، پیر سب جواب دے چکے تھے۔زمین پر پڑی رہتیں اور جب گھر والے کوئی بات ان کی مرضی کے خلاف کرتے، کھانے کا وقت ٹل جاتا یا مقدار کافی نہ ہوتی یا بازار سے کوئی چیز آتی اور انھیں نہ مل...
ان مفروضوں کے بعد دو مسائل اور ہیں جو شروع میں اٹھائے ہوئے سوالوں سے متعلق ہیں۔ اول تو یہ کہ ہم صرف انھیں خواص یا نشانیوں کو شعر کی نشانیاں ٹھہرا سکتے ہیں جو نثر اور شعر میں مشترک نہیں ہیں۔ انتہائی اسفل سطح پر تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ شعر میں الفاظ خوب صورت طریقے سے استعمال کیے جاتے ہیں۔ اس پہچان میں پہلی قباحت تو یہ ہے کہ خوب صورت کی تعریف کیا ...
کہا جاتاہے کہ انسان کو دنیا اور عاقبت کے درمیان ربط اور ہم آہنگی پیدا کرنا اور قائم رکھنا چاہئے۔ لیکن غالب کے نزدیک اس کی کوشش کرنا انسانی زندگی کے مدعا اور مقصد سے غافل ہو جانے کے برابر ہے۔ زندگی کا مدعا یہ ہے کہ انسان شوق کو رہنما بنائے۔ جوش عشق، حسن پرستی، تخیل کی جولانی کو اصل حیات سمجھے، اگر کبھی تھکن معلوم ہو تو یہ نہ خیال کرے کہ اس کا سبب م...
امید چشم مروت کہاں رہی باقیذریعہ باتوں کا جب صرف ٹیلیفون ہوا
کچھ شاعری ذریعہ عزت نہیں مجھےمیں معاف کیجیے گا قبلہ! میں نےمحض انٹرویو کے شروعات کی غرض سے یہ بات پوچھ لی ورنہ آپ کی شاعری ہی کے بارے میں آپ سے کچھ دریافت کرنا مقصود ہے۔ حقیقت میں آپ کا پورا اردو کلام موتیوں میں تولنے کے قابل ہے۔ رشید احمد صدیقی نے سچ کہا ہے کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ ہندوستان کو مغلیہ سلطنت نے کیا دیا تو میں بے تکلف تین نام لوں گا۔ غالب اردو اور تاج محل! آپ کے مجموعہ کلام کی سی غیر معمولی اہمیت اور مقبولیت آج تک اردو کے کسی دوسرے شعری مجموعے کو نصیب نہیں ہو سکی۔ اردو کے علاوہ دنیا کے بے شمار متمدن زبانوں میں بھی اس کے بےشمار ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ آپ اپنے آپ کو ’’ہزار گلشن نا آفریدہ‘‘ کا عندلیب کہیں لیکن ہمارے اس دور کے ایک مشہور شاعر تلوک چند محروم کے بقول،
اظہار حال کا بھی ذریعہ نہیں رہادل اتنا جل گیا ہے کہ آنکھوں میں نم نہیں
ذرا غور سے دیکھئے تو یہ وہی چارپائی ہےجس کی سیڑھی بناکر سگھڑ بیویاں مکڑی کے جالے اور چلنلے لڑکے چڑیوں کے گھونسلے اتارتے ہیں۔ اسی چارپائی کو وقت ضرورت پٹیوں سے بانس باندھ کر اسٹیریچر بنا لیتے ہیں اور بجوگ پڑ جائے تو انھیں بانسوں سےایک دوسرے کو اسٹیریچر کے قابل بنایا جا سکتا ہے۔ اسی طرح مریض جب گھاٹ سے لگ جائے تو تیماردار مؤخرالذِکر کے وسط میں بڑا سا...
میں نے ہمیشہ مے کو افکار سے نجات کا ذریعہ سمجھا اور اگر اس دارالجزا میں بھی میری قسمت میں افکار سے رہائی ناممکن ہے تو مجھے اس’’مئے اندازہ ربا‘‘ کے دو جرعے پینے سے گریز نہیں۔ (کراماً کاتبین اس جرأت رندانہ پر اپنی جگہ متحیر رہ گئے۔)
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books