Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اخبارپر 20 منتخب اشعار

اخبار اس کھڑکی کا کام

کرتے ہیں جن کے ذریعہ ہم دنیا بھرمیں ہونے والے واقعات پر نظر رکھتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے اخبار دنیا کا عکس اور عکاس، دونوں بن جاتا ہے۔ یہاں کچھ بہترین شعر پیش کئے جا رہے ہیں جن میں شاعر نے بڑی خوبی سے اخبار کو استعارہ بنا کر عالمی منظر نامہ،انسانوں اور اخباروں اور صحافت پر اپنی راۓ کا اظہار کرتے ہیں۔

عرصے سے اس دیار کی کوئی خبر نہیں

مہلت ملے تو آج کا اخبار دیکھ لیں

آشفتہ چنگیزی

کچھ خبروں سے اتنی وحشت ہوتی ہے

ہاتھوں سے اخبار الجھنے لگتے ہیں

بھارت بھوشن پنت

رات کے لمحات خونی داستاں لکھتے رہے

صبح کے اخبار میں حالات بہتر ہو گئے

نصرت گوالیاری

دس بجے رات کو سو جاتے ہیں خبریں سن کر

آنکھ کھلتی ہے تو اخبار طلب کرتے ہیں

شہزاد احمد

کچھ حرف و سخن پہلے تو اخبار میں آیا

پھر عشق مرا کوچہ و بازار میں آیا

عرفان صدیقی

وسیمؔ ذہن بناتے ہیں تو وہی اخبار

جو لے کے ایک بھی اچھی خبر نہیں آتے

وسیم بریلوی

ایسے مر جائیں کوئی نقش نہ چھوڑیں اپنا

یاد دل میں نہ ہو اخبار میں تصویر نہ ہو

خلیل مامون

تجھے شناخت نہیں ہے مرے لہو کی کیا

میں روز صبح کے اخبار سے نکلتا ہوں

شعیب نظام

ناخدا دیکھ رہا ہے کہ میں گرداب میں ہوں

اور جو پل پہ کھڑے لوگ ہیں اخبار سے ہیں

گلزار

سرخیاں خون میں ڈوبی ہیں سب اخباروں کی

آج کے دن کوئی اخبار نہ دیکھا جائے

مخمور سعیدی

کھلے گا ان پہ جو بین السطور پڑھتے ہیں

وہ حرف حرف جو اخبار میں نہیں آتا

رؤف خیر

کھینچو نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو

جب توپ مقابل ہو تو اخبار نکالو

اکبر الہ آبادی

اس وقت وہاں کون دھواں دیکھنے جائے

اخبار میں پڑھ لیں گے کہاں آگ لگی تھی

انور مسعود

رات بھر سوچا کیے اور صبح دم اخبار میں

اپنے ہاتھوں اپنے مرنے کی خبر دیکھا کیے

محمد علوی

عشق اخبار کب کا بند ہوا

دل مرا آخری شمارہ ہے

فرحت احساس

اخبار میں روزانہ وہی شور ہے یعنی

اپنے سے یہ حالات سنور کیوں نہیں جاتے

محبوب خزاں

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

ادا جعفری

عدل گاہیں تو دور کی شے ہیں

قتل اخبار تک نہیں پہنچا

ساحر لدھیانوی

چشم جہاں سے حالت اصلی چھپی نہیں

اخبار میں جو چاہئے وہ چھاپ دیجئے

اکبر الہ آبادی

چہرے پہ جو لکھا ہے وہی اس کے دل میں ہے

پڑھ لی ہیں سرخیاں تو یہ اخبار پھینک دے

شہزاد احمد
بولیے