شعیب نظام کے اشعار
خود سے فرار اتنا آسان بھی نہیں ہے
سائے کریں گے پیچھا کوئی کہیں سے نکلے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تجھے شناخت نہیں ہے مرے لہو کی کیا
میں روز صبح کے اخبار سے نکلتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
اتنا نور کہاں سے لاؤں تاریکی کے اس جنگل میں
دو جگنو ہی پاس تھے اپنے جن کو ستارہ کر رکھا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میاں بازار کو شرمندہ کرنا کیا ضروری ہے
کہیں اس دور میں تہذیب کے زیور بدلتے ہیں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
تمہارے خواب لوٹانے پہ شرمندہ تو ہیں لیکن
کہاں تک اتنے خوابوں کی نگہبانی کریں گے ہم
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مری تلاش میں اس پار لوگ جاتے ہیں
مگر میں ڈوب کے اس پار سے نکلتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
یہ ایک سایہ غنیمت ہے روک لو ورنہ
یہ روشنی کے بدن سے لپٹنے والا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کیا ختم نہ ہوگی کبھی صحرا کی حکومت
رستے میں کہیں تو در و دیوار بھی آئے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
کدھر ڈبو کے کہاں پر ابھارتا ہے تو
یہ کیسا رنگ ہے دریا تری روانی کا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
مری تلاش میں وہ بھی ضرور آئے گا
سو میں بھی چشم خریدار سے نکلتا ہوں
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ