تمام
تعارف
غزل136
نظم7
شعر139
مزاحیہ11
ای-کتاب80
ٹاپ ٢٠ شاعری 20
تصویری شاعری 15
آڈیو 20
ویڈیو 7
قطعہ37
رباعی53
قصہ8
گیلری 1
بلاگ2
دیگر
مخمس1
اکبر الہ آبادی کے اشعار
عقل میں جو گھر گیا لا انتہا کیوں کر ہوا
جو سما میں آ گیا پھر وہ خدا کیوں کر ہوا
کالج سے آ رہی ہے صدا پاس پاس کی
عہدوں سے آ رہی ہے صدا دور دور کی
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلہ اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
ایمان بیچنے پہ ہیں اب سب تلے ہوئے
لیکن خریدو ہو جو علی گڑھ کے بھاؤ سے
ہنگامہ ہے کیوں برپا تھوڑی سی جو پی لی ہے
ڈاکا تو نہیں مارا چوری تو نہیں کی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
رہتا ہے عبادت میں ہمیں موت کا کھٹکا
ہم یاد خدا کرتے ہیں کر لے نہ خدا یاد
عشوہ بھی ہے شوخی بھی تبسم بھی حیا بھی
ظالم میں اور اک بات ہے اس سب کے سوا بھی
خلاف شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اجالے میں چوکتا بھی نہیں
آئی ہوگی کسی کو ہجر میں موت
مجھ کو تو نیند بھی نہیں آتی
دل وہ ہے کہ فریاد سے لبریز ہے ہر وقت
ہم وہ ہیں کہ کچھ منہ سے نکلنے نہیں دیتے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
ہر ذرہ چمکتا ہے انوار الٰہی سے
ہر سانس یہ کہتی ہے ہم ہیں تو خدا بھی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میرے حواس عشق میں کیا کم ہیں منتشر
مجنوں کا نام ہو گیا قسمت کی بات ہے
لیڈروں کی دھوم ہے اور فالوور کوئی نہیں
سب تو جنرل ہیں یہاں آخر سپاہی کون ہے
جوانی کی دعا لڑکوں کو نا حق لوگ دیتے ہیں
یہی لڑکے مٹاتے ہیں جوانی کو جواں ہو کر
لگاوٹ کی ادا سے ان کا کہنا پان حاضر ہے
قیامت ہے ستم ہے دل فدا ہے جان حاضر ہے
ان کو کیا کام ہے مروت سے اپنی رخ سے یہ منہ نہ موڑیں گے
جان شاید فرشتے چھوڑ بھی دیں ڈاکٹر فیس کو نہ چھوڑیں گے
مسجد کا ہے خیال نہ پروائے چرچ ہے
جو کچھ ہے اب تو کالج و ٹیچر میں خرچ ہے
لوگ کہتے ہیں بدلتا ہے زمانہ سب کو
مرد وہ ہیں جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
غضب ہے وہ ضدی بڑے ہو گئے
میں لیٹا تو اٹھ کے کھڑے ہو گئے
کمر یار ہے باریکی ث غائب ہر چند
مگر اتنا تو کہوں گا کہ وہ معدوم نہیں
ناز کیا اس پہ جو بدلا ہے زمانے نے تمہیں
مرد ہیں وہ جو زمانے کو بدل دیتے ہیں
ان کی آنکھوں کی لگاوٹ سے حذر اے اکبرؔ
دین سے کرتی ہے دل کو یہی غماز جدا
کعبے سے جو بت نکلے بھی تو کیا کعبہ ہی گیا جو دل سے نکل
افسوس کہ بت بھی ہم سے چھٹے قبضے سے خدا کا گھر بھی گیا
تحسین کے لائق ترا ہر شعر ہے اکبرؔ
احباب کریں بزم میں اب واہ کہاں تک
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
سید کی سرگزشت کو حالی سے پوچھئے
غازی میاں کا حال ڈفالی سے پوچھئے
بتوں کے پہلے بندے تھے مسوں کے اب ہوئے خادم
ہمیں ہر عہد میں مشکل رہا ہے با خدا ہونا
اکبر دبے نہیں کسی سلطاں کی فوج سے
لیکن شہید ہو گئے بیوی کی نوج سے
کیا ہی رہ رہ کے طبیعت مری گھبراتی ہے
موت آتی ہے شب ہجر نہ نیند آتی ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
شیخ جی گھر سے نہ نکلے اور مجھ سے کہہ دیا
آپ بی اے پاس ہیں اور بندہ بی بی پاس ہے
عروج قومی زوال قومی خدا کی قدرت کے ہیں کرشمے
ہمیشہ رد و بدل کے اندر یہ امر پولٹیکل رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
میری یہ بے چینیاں اور ان کا کہنا ناز سے
ہنس کے تم سے بول تو لیتے ہیں اور ہم کیا کریں
مزہ ہے اسپیچ کا ڈنر میں خبر یہ چھپتی ہے پانیر میں
فلک کی گردش کے ساتھ ہی ساتھ کام یاروں کا چل رہا ہے
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
دختر رز نے اٹھا رکھی ہے آفت سر پر
خیریت گزری کہ انگور کے بیٹا نہ ہوا
اب تو ہے عشق بتاں میں زندگانی کا مزہ
جب خدا کا سامنا ہوگا تو دیکھا جائے گا
حقیقی اور مجازی شاعری میں فرق یہ پایا
کہ وہ جامے سے باہر ہے یہ پاجامے سے باہر ہے
غمزہ نہیں ہوتا کہ اشارا نہیں ہوتا
آنکھ ان سے جو ملتی ہے تو کیا کیا نہیں ہوتا
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
لپٹ بھی جا نہ رک اکبرؔ غضب کی بیوٹی ہے
نہیں نہیں پہ نہ جا یہ حیا کی ڈیوٹی ہے
اثر یہ تیرے انفاس مسیحائی کا ہے اکبرؔ
الہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک پہنچا
آہ جو دل سے نکالی جائے گی
کیا سمجھتے ہو کہ خالی جائے گی
-
موضوع : آہ
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
خدا سے مانگ جو کچھ مانگنا ہے اے اکبرؔ
یہی وہ در ہے کہ ذلت نہیں سوال کے بعد
دعویٰ بہت بڑا ہے ریاضی میں آپ کو
طول شب فراق کو تو ناپ دیجئے
تشریح
یہ شعر اکبر الہ آبادی کے خاص ظریفانہ لہجے کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس میں طنز کے ساتھ مزاح کا پہلو بھی ہے۔ علم ریاضی کے دعویدار پر جہاں طنز ہے وہیں شبِ فراق کی لمبائی کو ناپنے میں مزاح کا پہلو ہے۔ شبِ فراق یعنی محبوب سے عاشق کی جدائی کی رات بہت لمبی تصور کی جاتی ہے۔ اس موضوع کی مناسبت سے اردو شاعروں نے طرح طرح کے مضامین پیدا کئے ہیں، مگر زیرِ بحث شعر کو اس کے ظرافتی پہلو نے دلچسپ بنایا ہے۔
غالب نے اپنے ایک شعر میں محبوب کی کمر کے بارے میں کہا ہے :
ہے کیا جو کس کے باندھیے میری بلا ڈرے
کیا جانتا نہیں ہوں تمہاری کمر کو میں
جس طرح غالب نے اپنے محبوب کی کمر کو موہوم یعنی نہ ہونے کے برابر مانا ہے اسی طرح اکبر الہ آبادی عاشق کی معشوق سے جدائی کی رات کی لمبائی کو اس قدر طویل مانتے ہیں کہ اس کی پیمایش ممکن نہیں۔ چونکہ اکبر الہ آبادی ایک خاص فکر کے شاعر ہیں اور وہ مغربیت کو مشرقیت کی روح کے لئے مضر مانتے ہیں اس لئے انہوں نے جگہ جگہ پر مغربی معاشرے، اس کے علوم وغیرہ پر طنز کئے ہیں۔ اس شعر کی ایک معنوی جہت یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص علمِ ریاضی کا بہت بڑا عالم ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو چونکہ علم ریاضی کا ایک پہلو پیمائش بھی ہے اس لئے میں اس کا دعویٰ تب حق تسلیم کروں گا، جب وہ شبِ جدائی کی طولانی ناپ کے دکھائے۔
شفق سوپوری
-
شیئر کیجیے
- غزل دیکھیے
- رائے زنی
- رائے
- ڈاؤن لوڈ
بس جان گیا میں تری پہچان یہی ہے
تو دل میں تو آتا ہے سمجھ میں نہیں آتا
قوم کے غم میں ڈنر کھاتے ہیں حکام کے ساتھ
رنج لیڈر کو بہت ہے مگر آرام کے ساتھ
تعلق عاشق و معشوق کا تو لطف رکھتا تھا
مزے اب وہ کہاں باقی رہے بیوی میاں ہو کر
نظر ان کی رہی کالج کے بس علمی فوائد پر
گرا کے چپکے چپکے بجلیاں دینی عقائد پر
شیخ اپنی رگ کو کیا کریں ریشے کو کیا کریں
مذہب کے جھگڑے چھوڑیں تو پیشے کو کیا کریں
اس قدر تھا کھٹملوں کا چارپائی میں ہجوم
وصل کا دل سے مرے ارمان رخصت ہو گیا
ہوئے اس قدر مہذب کبھی گھر کا منہ نہ دیکھا
کٹی عمر ہوٹلوں میں مرے اسپتال جا کر
سینے سے لگائیں تمہیں ارمان یہی ہے
جینے کا مزا ہے تو مری جان یہی ہے