Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Waseem Barelvi's Photo'

وسیم بریلوی

1940 | بریلی, انڈیا

مقبول عام شاعر

مقبول عام شاعر

وسیم بریلوی کے اشعار

174.4K
Favorite

باعتبار

اپنے چہرے سے جو ظاہر ہے چھپائیں کیسے

تیری مرضی کے مطابق نظر آئیں کیسے

جہاں رہے گا وہیں روشنی لٹائے گا

کسی چراغ کا اپنا مکاں نہیں ہوتا

تشریح

اس شعر میں کئی تلازمات ایسے ہیں جن سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وسیم بریلوی شعر میں معنی کے ساتھ کیفیت پیدا کرنے کے فن سے واقف ہیں۔ ’جہاں‘ کی مناسبت سے ’وہیں‘، اور ان دونوں کی رعایت سے ’مکاں‘، ’چراغ‘ کی مناسبت سے ’روشنی‘ اور اس سے بڑھ کر کسی، یہ سب ایسے تلازمات ہیں جن سے شعر میں معنی آفرینی کا عنصر پیدا ہوا ہے۔

شعر کے معنیٔ قریب تو یہ ہوسکتے ہیں کہ چراغ اپنی روشنی سے کسی ایک مکاں کو روشن نہیں کرتا ہے، بلکہ جہاں جلتا ہے وہاں کی فضا کو منور کرتا ہے۔ اس شعر میں ایک لفظ ’مکاں‘مرکزی حیثیت کا حامل ہے۔ مکاں سے یہاں مراد محض کوئی خاص گھر نہیں بلکہ اسپیس ہے۔

اب آئیے شعر کے معنیٔ بعید پر روشنی ڈالتے ہیں۔ دراصل شعر میں ’چراغ‘، ’روشنی‘ اور ’مکاں‘ کو استعاراتی حیثیت حاصل ہے۔ چراغ استعارہ ہے نیک اور بھلے آدمی کا، اس کی مناسبت سے روشنی استعارہ ہےنیکی اور بھلائی کا۔ اس طرح شعر کا مفہوم یہ بنتا ہے کہ نیک آدمی کسی خاص جگہ نیکی اور بھلائی پھیلانے کے لئے پیدا نہیں ہوتے بلکہ ان کا کوئی خاص مکان نہیں ہوتا اور یہ اسپیس کے تصور سے بہت آگے کے لوگ ہیں۔ بس شرط یہ ہے کہ آدمی بھلا ہو۔ اگر ایسا ہے تو بھلائی ہر جگہ پھیل جاتی ہے۔

شفق سوپوری

تجھے پانے کی کوشش میں کچھ اتنا کھو چکا ہوں میں

کہ تو مل بھی اگر جائے تو اب ملنے کا غم ہوگا

آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے

بھول جاتا ہے زمیں سے ہی نظر آتا ہے

وہ جھوٹ بول رہا تھا بڑے سلیقے سے

میں اعتبار نہ کرتا تو اور کیا کرتا

رات تو وقت کی پابند ہے ڈھل جائے گی

دیکھنا یہ ہے چراغوں کا سفر کتنا ہے

دکھ اپنا اگر ہم کو بتانا نہیں آتا

تم کو بھی تو اندازہ لگانا نہیں آتا

ویسے تو اک آنسو ہی بہا کر مجھے لے جائے

ایسے کوئی طوفان ہلا بھی نہیں سکتا

شام تک صبح کی نظروں سے اتر جاتے ہیں

اتنے سمجھوتوں پہ جیتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

تم آ گئے ہو، تو کچھ چاندنی سی باتیں ہوں

زمیں پہ چاند کہاں روز روز اترتا ہے

آتے آتے مرا نام سا رہ گیا

اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

شرطیں لگائی جاتی نہیں دوستی کے ساتھ

کیجے مجھے قبول مری ہر کمی کے ساتھ

مسلسل حادثوں سے بس مجھے اتنی شکایت ہے

کہ یہ آنسو بہانے کی بھی تو مہلت نہیں دیتے

تم میری طرف دیکھنا چھوڑو تو بتاؤں

ہر شخص تمہاری ہی طرف دیکھ رہا ہے

وہ دن گئے کہ محبت تھی جان کی بازی

کسی سے اب کوئی بچھڑے تو مر نہیں جاتا

محبت میں بچھڑنے کا ہنر سب کو نہیں آتا

کسی کو چھوڑنا ہو تو ملاقاتیں بڑی کرنا

پھول تو پھول ہیں آنکھوں سے گھرے رہتے ہیں

کانٹے بیکار حفاظت میں لگے رہتے ہیں

ایسے رشتے کا بھرم رکھنا کوئی کھیل نہیں

تیرا ہونا بھی نہیں اور ترا کہلانا بھی

اسی کو جینے کا حق ہے جو اس زمانے میں

ادھر کا لگتا رہے اور ادھر کا ہو جائے

ہمارے گھر کا پتا پوچھنے سے کیا حاصل

اداسیوں کی کوئی شہریت نہیں ہوتی

میں بولتا گیا ہوں وہ سنتا رہا خاموش

ایسے بھی میری ہار ہوئی ہے کبھی کبھی

میں نے چاہا ہے تجھے عام سے انساں کی طرح

تو مرا خواب نہیں ہے جو بکھر جائے گا

بہت سے خواب دیکھو گے تو آنکھیں

تمہارا ساتھ دینا چھوڑ دیں گی

وہ میرے گھر نہیں آتا میں اس کے گھر نہیں جاتا

مگر ان احتیاطوں سے تعلق مر نہیں جاتا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے

اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

غم اور ہوتا سن کے گر آتے نہ وہ وسیمؔ

اچھا ہے میرے حال کی ان کو خبر نہیں

ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف

پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستا ملے

نہ پانے سے کسی کے ہے نہ کچھ کھونے سے مطلب ہے

یہ دنیا ہے اسے تو کچھ نہ کچھ ہونے سے مطلب ہے

میں جن دنوں ترے بارے میں سوچتا ہوں بہت

انہیں دنوں تو یہ دنیا سمجھ میں آتی ہے

شرافتوں کی یہاں کوئی اہمیت ہی نہیں

کسی کا کچھ نہ بگاڑو تو کون ڈرتا ہے

میں اس کو آنسوؤں سے لکھ رہا ہوں

کہ میرے بعد کوئی پڑھ نہ پائے

جھوٹ کے آگے پیچھے دریا چلتے ہیں

سچ بولا تو پیاسا مارا جائے گا

میں بھی اسے کھونے کا ہنر سیکھ نہ پایا

اس کو بھی مجھے چھوڑ کے جانا نہیں آتا

کوئی اشارہ دلاسا نہ کوئی وعدہ مگر

جب آئی شام ترا انتظار کرنے لگے

سبھی رشتے گلابوں کی طرح خوشبو نہیں دیتے

کچھ ایسے بھی تو ہوتے ہیں جو کانٹے چھوڑ جاتے ہیں

وہ پوچھتا تھا مری آنکھ بھیگنے کا سبب

مجھے بہانہ بنانا بھی تو نہیں آیا

چراغ گھر کا ہو محفل کا ہو کہ مندر کا

ہوا کے پاس کوئی مصلحت نہیں ہوتی

کسی سے کوئی بھی امید رکھنا چھوڑ کر دیکھو

تو یہ رشتہ نبھانا کس قدر آسان ہو جائے

مجھے پڑھتا کوئی تو کیسے پڑھتا

مرے چہرے پہ تم لکھے ہوئے تھے

ان سے کہہ دو مجھے خاموش ہی رہنے دے وسیمؔ

لب پہ آئے گی تو ہر بات گراں گزرے گی

تحریر سے ورنہ مری کیا ہو نہیں سکتا

اک تو ہے جو لفظوں میں ادا ہو نہیں سکتا

جو مجھ میں تجھ میں چلا آ رہا ہے برسوں سے

کہیں حیات اسی فاصلے کا نام نہ ہو

ہم یہ تو نہیں کہتے کہ ہم تجھ سے بڑے ہیں

لیکن یہ بہت ہے کہ ترے ساتھ کھڑے ہیں

کچھ ہے کہ جو گھر دے نہیں پاتا ہے کسی کو

ورنہ کوئی ایسے تو سفر میں نہیں رہتا

کیا دکھ ہے سمندر کو بتا بھی نہیں سکتا

آنسو کی طرح آنکھ تک آ بھی نہیں سکتا

کبھی لفظوں سے غداری نہ کرنا

غزل پڑھنا اداکاری نہ کرنا

کسی نے رکھ دیے ممتا بھرے دو ہاتھ کیا سر پر

مرے اندر کوئی بچہ بلک کر رونے لگتا ہے

تھکے ہارے پرندے جب بسیرے کے لیے لوٹیں

سلیقہ مند شاخوں کا لچک جانا ضروری ہے

بھرے مکاں کا بھی اپنا نشہ ہے کیا جانے

شراب خانے میں راتیں گزارنے والا

ترے خیال کے ہاتھوں کچھ ایسا بکھرا ہوں

کہ جیسے بچہ کتابیں ادھر ادھر کر دے

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

Get Tickets
بولیے