Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر
Ada Jafarey's Photo'

ادا جعفری

1924 - 2015 | کراچی, پاکستان

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

اہم پاکستانی شاعرہ، اپنی نرم وشگفتہ شعری آواز کے لیے معروف

ادا جعفری کے اشعار

19.6K
Favorite

باعتبار

وہ آئیں گے تو آئیں گے جنون شوق ابھارنے

وہ جائیں گے تو جائیں گے خرابیاں کیے ہوئے

دل کی آزردگی بجا لیکن

وہ بھی محروم یک نگاہ رہے

ادھر بھی اک نظر اے جلوۂ رنگین و بیگانہ

طلوع ماہ کا ہے منتظر میرا سیہ خانہ

آمادۂ کرم ہے یہ کس کی نگاہ ناز

دل شکوۂ ستم سے پشیماں ہے آج کیوں

دل کے ویرانے میں گھومے تو بھٹک جاؤ گے

رونق کوچہ و بازار سے آگے نہ بڑھو

امید کا گھروندا پل میں گرا دیا ہے

تجھ کو بھی کیا کسی نے دل سے بھلا دیا ہے

کس کو خبر ہیں کتنے بہکتے ہوئے قدم

مخمور انکھڑیوں کا سہارا لیے ہوئے

شاید کسی نے یاد کیا ہے ہمیں اداؔ

کیوں ورنہ اشک مائل طوفاں ہے آج پھر

اور کچھ دیر لب پہ آہ رہے

اور کچھ ان سے رسم و راہ رہے

یہ کس نے نقاب اپنے رخ سے الٹ دی

گلے مل رہے ہیں بہم کفر و ایماں

سجدے تڑپ رہے ہیں جبین نیاز میں

سر ہیں کسی کی زلف کا سودا لیے ہوئے

یہ پھر کس نے دزدیدہ نظروں سے دیکھا

مچلنے لگے سینکڑوں شوخ ارماں

وہ بے نقاب سامنے آئیں بھی اب تو کیا

دیوانگی کو ہوش کی فرصت نہیں رہی

پھر نگاہوں کو آزما لیجے

پھر وفاؤں پہ اشتباہ رہے

نہ ہوتا خانماں تو خانماں برباد کیوں ہوتی

اداؔ یہ رنگ لائی آرزوئے آشیاں میری

پیام زندگیٔ نو نہ بن سکیں صد حیف

یہ اودی اودی گھٹائیں یہ بھیگی بھیگی بہار

مستی بھری ہواؤں کے جھونکے نہ پوچھیے

فطرت ہے آج ساغر و مینا لیے ہوئے

صدیوں سے مرے پاؤں تلے جنت‌ انساں

میں جنت‌ انساں کا پتا ڈھونڈھ رہی ہوں

ریت بھی اپنی رت بھی اپنی

دل رسم دنیا کیا جانے

گل پر کیا کچھ بیت گئی ہے

البیلا جھونکا کیا جانے

ہمارے شہر کے لوگوں کا اب احوال اتنا ہے

کبھی اخبار پڑھ لینا کبھی اخبار ہو جانا

اگر سچ اتنا ظالم ہے تو ہم سے جھوٹ ہی بولو

ہمیں آتا ہے پت جھڑ کے دنوں گل بار ہو جانا

بس ایک بار منایا تھا جشن محرومی

پھر اس کے بعد کوئی ابتلا نہیں آئی

ابھی صحیفۂ جاں پر رقم بھی کیا ہوگا

ابھی تو یاد بھی بے ساختہ نہیں آئی

مزاج و مرتبۂ چشم نم کو پہچانے

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

سب سے بڑا فریب ہے خود زندگی اداؔ

اس حیلہ جو کے ساتھ ہیں ہم بھی بہانہ ساز

ہوا یوں کہ پھر مجھے زندگی نے بسر کیا

کوئی دن تھے جب مجھے ہر نظارہ حسیں ملا

جو دل میں تھی نگاہ سی نگاہ میں کرن سی تھی

وہ داستاں الجھ گئی وضاحتوں کے درمیاں

آ دیکھ کہ میرے آنسوؤں میں

یہ کس کا جمال آ گیا ہے

کن منزلوں لٹے ہیں محبت کے قافلے

انساں زمیں پہ آج غریب الوطن سا ہے

بڑے تاباں بڑے روشن ستارے ٹوٹ جاتے ہیں

سحر کی راہ تکنا تا سحر آساں نہیں ہوتا

نہ بہلاوا نہ سمجھوتا جدائی سی جدائی ہے

اداؔ سوچو تو خوشبو کا سفر آساں نہیں ہوتا

آپ ہی مرکز نگاہ رہے

جانے کو چار سو نگاہ گئی

خلش تیر بے پناہ گئی

لیجئے ان سے رسم و راہ گئی

بجھی ہوئی ہیں نگاہیں غبار ہے کہ دھواں

وہ راستہ ہے کہ اپنا بھی نقش پا نہ ملے

کٹتا کہاں طویل تھا راتوں کا سلسلہ

سورج مری نگاہ کی سچائیوں میں تھا

ہونٹوں پہ کبھی ان کے مرا نام ہی آئے

آئے تو سہی بر سر الزام ہی آئے

جس کی جانب اداؔ نظر نہ اٹھی

حال اس کا بھی میرے حال سا تھا

وہ کیسی آس تھی ادا جو کو بہ کو لیے پھری

وہ کچھ تو تھا جو دل کو آج تک کبھو ملا نہیں

جس کی باتوں کے فسانے لکھے

اس نے تو کچھ نہ کہا تھا شاید

لوگ بے مہر نہ ہوتے ہوں گے

وہم سا دل کو ہوا تھا شاید

متاع درد پرکھنا تو بس کی بات نہیں

جو تجھ کو دیکھ کے آئے وہ ہم کو پہچانے

ہزار کوس نگاہوں سے دل کی منزل تک

کوئی قریب سے دیکھے تو ہم کو پہچانے

خزینے جاں کے لٹانے والے دلوں میں بسنے کی آس لے کر

سنا ہے کچھ لوگ ایسے گزرے جو گھر سے آئے نہ گھر گئے ہیں

کچھ اتنی روشنی میں تھے چہروں کے آئنہ

دل اس کو ڈھونڈھتا تھا جسے جانتا نہ تھا

ایک آئینہ رو بہ رو ہے ابھی

اس کی خوشبو سے گفتگو ہے ابھی

ورنہ انسان مر گیا ہوتا

کوئی بے نام جستجو ہے ابھی

بولتے ہیں دلوں کے سناٹے

شور سا یہ جو چار سو ہے ابھی

وہ تشنگی تھی کہ شبنم کو ہونٹ ترسے ہیں

وہ آب ہوں کہ مقید گہر گہر میں رہوں

ہاتھ کانٹوں سے کر لیے زخمی

پھول بالوں میں اک سجانے کو

Recitation

Jashn-e-Rekhta | 8-9-10 December 2023 - Major Dhyan Chand National Stadium, Near India Gate - New Delhi

GET YOUR PASS
بولیے