aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "متضاد"
ٹھاکر صاحب کے دو بیٹے تھے۔ بڑے کا نام شری کنٹھ سنگھ تھا۔ اس نے ایک مدت دراز کی جانکاہی کے بعد بی۔ اے کی ڈگری حاصل کی تھی۔ اور اب ایک دفتر میں نوکر تھا۔ چھوٹا لڑکا لال بہاری سنگھ دوہرے بدن کا سجیلا جوان تھا۔ بھرا ہوا چہرہ چوڑا سینہ بھینس کا دوسیر تازہ دودھ کا ناشتہ کر جاتا تھا۔ شری کنٹھ اس سے بالکل متضاد تھے۔ ان ظاہری خوبیوں کو انھوں نے دو انگریزی ح...
(۲)آپ نےاکثردیکھا ہوگا کہ گنجان محلوّں میں مختلف بلکہ متضاد تقریبیں ایک دوسرے میں بڑی خوبی سے ضم ہو جاتی ہیں۔ گویا دونوں وقت مل رہے ہوں۔ چنانچہ اکثر حضرات دعوت ولیمہ میں ہاتھ دھوتے وقت چہلُم کی بریانی کی ڈکار لیتے، یا سویم میں شبینہ فتوحات کی لزیز داستان سنا تے پکڑے جاتے ہیں۔ لذّتِ ہمسایگی کا یہ نقشہ بھی اکثر دیکھنے میں آیا کہ ایک کوارٹر میں ہنی مون منایا جارہا ہے تو رت جگا دیوار کے اس طرف ہورہا ہے۔ اور یوں بھی ہوتا ہے کہ دائیں طرف والے گھر میں آدھی رات کو قوال بلّیاں لڑارہے ہیں، تو حال بائیں طرف والے گھر میں آرہا ہے۔ آمدنی ہمسائے کی بڑھتی ہے تو اس خوشی میں ناجائز خرچ ہمارے گھرکا بڑھتا ہےاوریہ سانحہ بھی بارہا گزراکہ مچھلی طرحدار پڑوسن نے پکائی اور
منٹو کی افسانہ نگاری دو متضاد عناصر کے تصادم کا باعث ہے۔ اس کے والد خدا انہیں بخشے بڑے سخت گیر تھے اور اس کی والدہ بے حد نرم دل۔ ان دو پاٹوں کے اندر پس کر یہ دانۂ گندم کس شکل میں باہر نکلا ہو گا، اس کا اندازہ آپ کر سکتے ہیں۔ اب میں اس کی اسکول کی زندگی کی طرف آتا ہوں۔ بہت ذہین لڑکا تھا اور بے حد شریر۔ اس زمانے میں اس کا قد زیادہ سے زیادہ ساڑھے تین فٹ ہو گا۔ وہ اپنے باپ کا آخری بچہ تھا۔ اس کو اپنے ماں باپ کی محبت تو میسر تھی لیکن اس کے تین بڑے بھائی جو عمر میں اس سے بہت بڑے تھے اور ولایت میں تعلیم پا رہے تھے ان سے اس کوکبھی ملاقات کا موقع ہی نہیں ملا تھا، اس لیے کہ وہ سوتیلے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ اس سے ملیں، اس سے بڑے بھائیوں ایسا سلوک کریں۔ یہ سلوک اسے اس وقت نصیب ہوا جب دنیائے ادب اسے بہت بڑا افسانہ نگار تسلیم کر چکی تھی۔
(ہماری زندگی یہی ہے کہ ہم چین سے نہ بیٹھیں)فلسفہ سے ثابت ہوتا ہے کہ تمام عالم میں متضاد چیزیں ہیں اور ان میں مقابلہ اور مزاحمت ہے۔ مثلاً حرارت و برودت، سکون و حرکت، انحلال و ترکیب، بہار و خزاں، ظلمت و نور، عزت و ذلت، صبر و غضب، عفت و فسق، جود و بخل۔ انہی کی باہمی کشمکش اور موازنہ سے یہ عالم قائم ہے وگر نہ اگر ان میں صلح ہو جائے یعنی صرف ایک نوع کی چیزیں رہ جائیں تو عالم برباد ہوجائے، اس نکتہ کو مولانا روم نے ان مختصر لفظوں میں ادا کردیا،
عورتیں فطرتاً بہت راسخ العقیدہ ہوتی ہیں اور اپنے بنیادی عقائد کی خاطرعمر بھر سب کچھ ہنسی خوشی برداشت کرلیتی ہیں۔ مثلاً سات نمبر پاؤں میں پانچ نمبر کا جوتا۔ وزن کم کرنے کے لئے کیا کیا جتن نہیں کرتیں۔ غسل آفتابی، جاپانی مالش، یونانی جلاب، انگریزی کھانا، چہل قدمی، ورزش، فاقہ۔۔۔ پہلے چہل قدمی کو لیجئے کہ امرت دھارا کی طرح یہ ہرمرض کی دوا ہے۔ سوکھے سا...
وہم ایک ذہنی کیفیت ہے اور خیال وفکر کا ایک رویہ ہے جسے یقین کی متضاد کیفیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ انسان مسلسل زندگی کے کسی نہ کسی مرحلے میں یقین ووہم کے درمیان پھنسا ہوتا ہے ۔ خیال وفکر کے یہ وہ علاقے ہیں جن سے واسطہ تو ہم سب کا ہے لیکن ہم انہیں لفظ کی کوئی صورت نہیں دے پاتے ۔ یہ شاعری پڑھئے اور ان لفظوں میں باریک ونامعلوم سے احساسات کی جلوہ گری دیکھئے ۔
شاعری میں کوئی بھی لفظ کسی ایک معنی، کسی ایک رنگ، کسی ایک صورت ، کسی ایک ذہنی اور جذباتی رویے تک محدود نہیں رہتا ہے ۔ ساحل کو موضوع بنانے والے اس شعری بیانیے میں آپ اس بات کو محسوس کریں گے کہ ساحل پر ہونا سمندر کی سفاکیوں سے نکلنے کے بعد کامیابی کا استعارہ بھی ہے ساتھ ہی بزدلی ،کم ہمتی اور نامرادی کی علامت بھی ۔ ساحل کی اور بھی کئی متضاد معنیاتی جہتیں ہیں ۔ ہمارے اس انتخاب میں آپ ساحل کے ان مختلف رنگوں سے گزریں گے ۔
کانٹے پھولوں کے مقابلے میں ساری متضاد صفات رکھتے ہیں ۔ وہ سخت ہوتے ہیں ، بد صورت ہوتے ہیں ، چبھ کر تکلیف پہنچاتے ہیں لیکن ان کا یہ سارا کردار ظاہر ہوتاہے ۔ اس میں کوئی دوغلہ پن نہیں ہوتا وہ پھولوں کی طرح اپنی ظاہری چمک دمک سے لوگوں کو دھوکہ نہیں دیتے ۔ یہ اور اس طرح کے بہت سے موضوعات ہمارے منتخب کردہ ان شعروں میں نظر آئیں گے ۔ ان شعروں میں آپ یہ بھی دیکھیں گے کہ کس طرح پھول اور کانٹوں کے بارے ہمارے عمومی تصورات ٹوٹ پھوٹ گئے ہیں ساتھ ہی یہ بھی محسوس کریں گےکہ کس طرح پھول اور کانٹوں کا استعارہ زندگی کی کتنی متنوع جہتوں کو سموئے ہوئے ہے ۔
मुतज़ादمتضاد
opposite, contrary, contradictory, antonym
एक-दूसरे के विरुद्ध कथन आदि, (व्यक्ति नहीं) ।।
شیخ محمد بن عبد الوہاب کے بارے میں دو متضاد نظریے
مولانا محفوظ الرحمن فیضی
دین اسلام اور اولین مسلمانوں کی دو متضاد تصویریں
ابوالحسن علی ندوی
بعض احباب تو اس سوال سے چراغ پا یر کر ذاتیات پر اتر آتے ہیں۔ میں یہ نہیں کہتا کہ وہ جھوٹے الزام لگاتے ہیں۔ ایمان کی بات ہے کہ چھوٹے الزام کو سمجھ دار آدمی نہایت اعتماد سے ہنس کر ٹال دیتا ہے مگر سچے الزام سے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اس ضمن میں جو متضاد باتیں سننا پڑتی ہیں، ان کی دو مثالیں پیش کرتا ہوں۔ایک کرم فرما نے میری بیزاری کو محرومی پر محمول کرتے ہوئے فرمایا،
بعض حضرات یہ سن کرچیں بہ جبیں ہوں گے مگریہ حقیقت ہے کہ فیض کی شاعری کا کوئی مفہوم یا معنی کی کوئی پرت ان اٹھارہ ساختیوں سے باہر نہیں ہے۔ پورے معنیاتی نظام کے ساختیوں کو ان چھ سطروں میں سمیٹا جا سکتا ہے۔ البتہ ان کے شاعرانہ اظہار کی ان گنت شکلیں اور پیرایے ہیں۔ ساختیہ کی بنیادی پہچان یہ ہے کہ کوئی ساختیہ بالذات کوئی معنی نہیں رکھتا۔ معنی کا تصور تضا...
دوسرا حاصل یہ ہوتا ہے کہ ایک استعارہ بہ یک وقت کئی حقیقتوں کی طرف اشارہ کر سکتا ہے۔ اس طرح شعر کی روایتی خوبی، یعنی ایجاز تو حاصل ہوہی جاتی ہے، لیکن ساتھ ہی ساتھ اکثر یہ بھی ممکن ہو جاتا ہے کہ دو متضاد حقائق کو ایک ہی ساتھ ظاہر کر دیا جائے۔ اس سے بڑھ کر منزل یہ ہوتی ہے کہ دو متضاد حقائق کو اس طرح ظاہر کیا جائے کہ وہ دراصل ایک ہی نظر آئیں۔ بودلیئر ...
’’توفی اور عشق۔۔۔ دو متضاد چیزیں ہیں۔‘‘ ریاض کرسی پرسے اٹھا۔ اور سنجیدگی سے کہنے لگا، ’’کوئی اور ہی چیز ہوئی ہے جناب کو۔۔۔ میرا خیال ہے لاہور میں اس کا جی لگ گیا تھا۔ والد ٹھیک ہوگئے ہیں تو اب اسے واپس مری جانا پڑے گا۔‘‘
ناول نگاری کافی دنوں تک اعتبار فن سے محروم رہی لیکن بورژوا نظام کے عروج نے اس کے آرٹ کی حصار بندی کی۔ ناول اور حقیقت نگاری کے ضمن میں لکھتے ہوئے رالف فاکس نے اس طرف بھی خاصی توجہ دی ہے۔ فن ناول نگاری کو موجودہ صورت و سیرت اور ہیئت تک پہنچنے میں ارتقا کی کئی منازل سے گزرنا پڑا ہے جن سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ ناول ایک نثری صنف ادب ہے جو قصہ گوئی ک...
میں ہوں خود سے متقابل متبادل متضادروح ٹھہرے مرا عنواں کبھی قالب ٹھہرے
مگر تمیز بدونیک کی ہیں راہیں یادبہاؤ ایک ہے، وقت ایک اور اثر متضاد
مابعدِ جدیدیت کا فکری رجحان ایک سلبی رویے کا پروردہ ہے۔ اس رویے کا مرکزِ تحریک موجود سے اعراض اور مطلوب کو حتمیت کے ساتھ متعین کرنے سے گریز ہے۔ مابعد جدیدیت کے اساطین میں نٹشے، ہائیڈیگر اور سارتر ہیں ان سب کے ہاں مذکورہ بالا حقیقت کو آسانی سے دیکھا جاسکتا ہے۔ ان کے نزدیک متضاد اور باہم متصادم تصورات عقل کے لیے ناقابلِ قبول ہوں گے مگر زندگی انھی حق...
اقبال کی غزل کا مطالعہ اگر اصناف سخن کی قسمیات (Typology) کے نقطۂ نظر سے کیا جائے تو ہم بعض ایسے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں جو ہمیں کسی دوسرے اردو شاعر کے یہاں نہیں ملتے۔ تقریباً ہر صنف سخن اپنی جگہ پر بے مثال ہونے کے ساتھ ساتھ ایک وسیع تر قماش (Pattern) کا حصہ ہوتی ہے اور اس لیے کسی بھی صنف سخن کی ایسی تعریف ممکن نہیں جو ہر طرح سے جامع اور مانع ہو۔ ...
اسے ان تحریروں میں وہ باتیں نظر آئیں جو وہ خود ’’الجھے الجھے اور مبہم طریقے‘‘ سے سوچتا رہا تھا۔ بودلیر نے ۱۸۴۷ء میں پوکو پہلی بار پڑھا اور اس کا مشہور مجموعہ کلام ’’بدی کے پھول‘‘ (LESFLEURS DU MAL) ۱۸۵۷ء میں شائع ہوا۔ پوکا کلام پڑھنے کے پہلے بودلیر ’’خالص فن‘‘ اور فن کی اخلاقی قدر و قیمت کے دو متضاد تصورات میں الجھا ہوا تھا۔ پونے پہلی بار اس کی مش...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books