aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "مسجدیں"
دارالکتاب جامع مسجد، دہلی
ناشر
سینٹرل بکڈپو جامع مسجد، دہلی
مکتبہ العزیز، جامع مسجد دیوبند، دیوبند
سہا سہا مجدی
مصنف
القلم پبلیکیشنز، جامع مسجد، دہلی
تاج الدین مسجد فتح پوری، دہلی
کتب خانہ نذیریہ اردو بازار جامع مسجد
محشر خیال بک ڈپو، جامع مسجد، دہلی
جامعہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد، امروہہ
ادارۂ انشائے ماجدی،کلکتہ
مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہےیعنی وہ صاحب اوصاف حجازی نہ رہے
یہ چودہ بیسوائیں اچھی خاصی مالدار تھیں۔ اس پر شہر میں ان کے جو مملوکہ مکان تھے، ان کے دام انہیں اچھے وصول ہو گیے تھے اور اس علاقہ میں زمین کی قیمت برائے نام تھی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ ان کے ملنے والے دل و جان سے ان کی مالی امداد کرنے کے لیے تیا ر تھے۔ چنا نچہ انہوں نے اس علاقے میں جی کھول کر بڑے بڑے عالیشان مکان بنوانے کی ٹھانی۔ ایک اونچی اور ہموار...
حاکم شہر یہ بھی کوئی شہر ہےمسجدیں بند ہیں مے کدہ تو چلے
خموشی اوڑھ کے سوئی ہیں مسجدیں ساریکسی کی موت کا اعلان بھی نہیں ہوتا
لائی پھر اک لغزش مستانہ تیرے شہر میںپھر بنیں گی مسجدیں مے خانہ تیرے شہر میں
مسجد شاعری
واعظ کلاسیکی شاعری کا ایک اہم کردار ہے جو شاعری کے اور دوسرے کرداروں جیسے رند ، ساقی اور عاشق کے مقابل آتا ہے ۔ واعظ انہیں پاکبازی اور پارسائی کی دعوت دیتا ہے ، شراب نوشی سے منع کرتا ہے ، مئے خانے سے ہٹا کر مسجد تک لے جانا چاہتا ہے لیکن ایسا ہوتا نہیں بلکہ اس کا کردار خود دوغلے پن کا شکار ہوتا ہے ۔ وہ بھی چوری چھپے میخانے کی راہ لیتا ہے ۔ انہیں وجوہات کی بنیاد پر واعظ کو طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور اس کا مزاق اڑا جایا جاتا ہے ۔ آپ کو یہ شاعری پسند آئے گی اور اندازہ ہوگا کہ کس طرح سے یہ شاعری سماج میں مذہبی شدت پسندی کو ایک ہموار سطح پر لانے میں مدد گار ثابت ہوئی ۔
کشتی ،ساحل ، سمندر ، ناخدا ، تند موجیں اور اس طرح کی دوسری لفظیات کو شاعری میں زندگی کی وسیع تر صورتوں کے استعارے کے طور پر برتا گیا ہے ۔ کشتی دریا کی طغیانی اور موجوں کی شدید مار سے بچ نکلنے اور ساحل پر پہنچنے کا ایک ذریعہ ہے ۔ کشتی کی اس صفت کو بنیاد بنا کر بہت سے مضامین پیدا کئے گئے ہیں ۔ کشتی کے حوالے سے اور بھی کئی دلچسپ جہتیں ہیں ۔ ہمارا یہ انتخاب پڑھئے ۔
मस्जिदेंمسجدیں
mosques
مسجد سے مے خانے تک
عامر عثمانی
مضامین
بہار کی تاریخ ساز مسجدیں
شاہ نواز حق
اسلامیات
ہندوستان کی مسجدیں
ڈاکٹر ضیاء الدین دیسائی
مسجد نبوی شریف
محمد الیاس عبدالغنی
تاریخ مسجد نبوی
محمد معراج الاسلام
رامپور کی مسجدیں
فریدالدین
سانحہ مسجد اقصٰی
سید ابوالاعلیٰ مودودی
علی گڑھ کی مسجد قرطبہ
رشید احمد صدیقی
خطوط ماجدی
عبد الماجد دریابادی
خطوط
دہلی کی جامع مسجد
جگن ناتھ آزاد
نظم
مطالب الغالب
مسجد لاہور
عبد اللہ چغتائی
کتب خانہ جامع مسجد بمبئی میں اردو مخطوطات
حامد اللہ ندوی
مخطوطات
بادشاہی مسجد لاہور
محمد عبداللہ چغتائی
سیاحت ماجدی
وہ گھبرا کر پھر کھڑکی کی طرف دوڑا اور ٹکراتا لڑتا کھڑکی تک پہنچا۔ اس کو کھولا اور دیکھا کہ ہوا کچھ ٹھہری ہے اور بجلی کی کڑک کچھ تھمی ہے پر رات ویسی ہی اندھیری ہے۔ اس کی گھبراہٹ کچھ کم ہوئی اور پھر اپنی جگہ آبیٹھا۔ اتنے میں اس کو اپنا ادھیڑ پنا یاد آیا جس میں نہ وہ جوانی رہی تھی اور نہ وہ جوانی کا جوبن۔ نہ وہ دل رہا تھا اور نہ دل کے ولولوں کا جوش۔ اس نے اپنی اس نیکی کے زمانہ کو یاد کیا جس میں وہ بہ نسبت بدی کے نیکی کی طرف زیادہ مائل تھا۔ وہ اپنا روزہ رکھنا، نمازیں پڑھنی، حج کرنا، زکوٰۃ دینی، بھوکوں کو کھلانا، مسجدیں اور کنوئیں بنوانا یاد کر کے اپنے دل کو تسلی دیتا تھا۔ فقیروں اور درویشوں کی جن کی خدمت کی تھی، اپنے پیروں کو جن سے بیعت کی تھی، اپنی مدد کو پکارتا تھا۔ مگر دل کی بے قراری نہیں جاتی تھی۔ وہ دیکھتا تھا کہ اس کے ذاتی اعمال کا اسی تک خاتمہ ہے۔ بھوکے پھر ویسے ہی بھوکے ہیں۔ مسجدیں ٹوٹ کر یا تو کھنڈر ہیں اور پھر ویسے ہی جنگل ہیں۔ کنوئیں اندھے پڑے ہیں۔ نہ پیر اور نہ فقیر۔ کوئی اس کی آواز نہیں سنتا اور نہ مدد کرتا ہے۔ اس کا دل پھر گھبراتا ہے اور سوچتا ہے کہ میں نے کیا کیا جو تمام فانی چیزوں پر دل لگایا۔ پچھلی سمجھ پہلے ہی کیوں نہ سوجھی۔ اب کچھ بس نہیں چلتا اور پھر یہ کہہ کر چلا اٹھا،
مسجدیں ہیں نمازیوں کے لیےاپنے گھر میں کہیں خدا رکھنا
مسجدیں شہر کی اے پیر مغاں خالی ہیںمے کدے میں تو جماعت کی جماعت آئی
مسجدیں سب کو بلاتی ہیں بھلائی کی طرفآئیں نہ آئیں پکارے تو سبھی جائیں گے
مندر بھی صاف ہم نے کئے مسجدیں بھی پاکمشکل یہ ہے کہ دل کی صفائی نہ ہو سکی
کھیم جب رات کا کھانا کھا کر سونے چلی گئی۔ اور سارے گھر میں خاموشی چھا گئی تو ڈاکٹر آفتاب رائے چھت کی منڈیر پر آکھڑے ہوگئے۔ باغ اب سنسان پڑے تھے۔ گرمیوں کا موسم نکلتا جارہا تھا۔ اور گلابی جاڑے شروع ہونے والے تھے۔ پروائی ہوا آہستہ آہستہ بہ رہی تھی۔ نیچے ٹھکرائن کی بگیاوالی گلی کے برابر سے مسلمانوں کا محلہ شروع ہوتا تھا، اس کے بعد بازار تھا۔ جس می...
سب سے پہلے فیاض کو حیدری خاں کی ظاہری حالت سدھارنے کی فکر ہوئی۔ حیدری خاں بہتیرا منع کرتا رہا، مگر اس نے ایک نہ سنی۔ اس نے خاں صاحب کے لیے ایک نیا جوڑا سلوایا۔ اس کے پاس بڑھیا سیاہ کپڑے کی ایک شیروانی تھی جسے وہ کبھی کبھی پہن لیا کرتا تھا۔ یہ شیروانی دو ایک جگہ سے مسک تو گئی تھی مگر ابھی اچھی حالت میں تھی۔ وہ اسے ایک درزی کے پاس لے گیا اور اس میں ق...
پاک باز رندوں کو اور ہم کہاں ڈھونڈھیںمسجدیں بھی سونی ہیں مے کدہ بھی خالی ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books