aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "وہسکی"
عاصم واسطی
شاعر
شوکت واسطی
1922 - 2009
بدر واسطی
نیر واسطی
1901 - 1982
سید عالم واسطی
1930 - 1992
کاظم واسطی
سید صبا واسطی
سہیل واسطی
سید جمیل واسطی
1905 - 1981
مصنف
فاتح واسطی
زاہد علی واسطی
سید طیب واسطی
ناصر علی خان واسطی بلگرامی
واسطی پرائیویٹ لمیٹڈ، لاہور
ناشر
فطرت واسطی
پہلی تاریخ کو جب تنخواہ بٹ چکی اور لوگ اپنے اپنے گھروں کو چلے گئے تو نئے مینجر نے سدھا کو کسی کام سے روک لیا اور اسے اپنی میز کے سامنے کرسی پر بٹھا لیا۔ پھر اس نے ایک کینٹ کھول کر اس میں سے ایک گلاس نکالا اور وہسکی کی بوتل اور سوڈا۔ اور پہلا پیگ وہ غٹا غٹ چڑھا گیا۔ سدھا اسے حیرت سے دیکھنے لگی اور غصے سے اٹھ کر جانے لگی کہ مینجر نے نہایت نرمی سے اس ...
بڑھ گئی ہے بہت مری وہسکیاہل ملک کے لئے اس صورت حال کا آخر علاج کیا ہے؟ جتنی زبانیں اتنی باتیں، اکبر کی تشخیص اور طریق علاج سب سے مختلف ہے، وہ کہتے ہیں کہ پرندہ جال میں کیوں پھنسا؟ کس نے اسے مجبور کیا؟ کسی نے بھی نہیں، بجز خود اس کی ہوس و طمع کے، اکبر بے نیازی، بے طمعی، بے غرضی کا آئڈیل (مطمح نظر) پیش کر کے سیاسیات کے ساتھ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر تصوف کی تعلیم دیے جاتے ہیں۔
’’اس کے لیے غالباً اب تمہاری عمر نہیں ہے۔۔۔‘‘’’شٹ اپ؟‘‘ اس نے اسکاچ وہسکی کا دوسرا گلاس بھرا۔ ’’ثوث تم شراب بہت پینے لگے ہو‘‘، پدما نے نرمی سے کہا۔ ثوث نے جھنجھلا کر جواب دیا۔۔۔ ’’مجھ سے بیویوں کی طرف بات مت کرو۔‘‘
بھیا اس سے نو برس بڑے تھے مگر اس کے سامنے لونڈے سے لگتے تھے۔ ویسے ہی سڈول کسرتی بدن والے، روز ورزش کرتے، بڑی احتیاط سے کھانا کھاتے بڑے حساب سے سگریٹ پیتے۔ یونہی کبھی وہسکی بیئر چکھ لیتے۔ ان کے چہرے پر اب لڑکپن تھا۔ تھے بھی تیس اکتیں برس کے۔ مگر چوبیس پچیس برس کے ہی لگتے تھے۔اف بھیا کو جین اور اسکرٹ سے کیسی نفرت تھی۔ انہیں یہ نئے فیشن کی بے استنبول کی بدن پر چپکی ہوئی قمیص سے بھی بڑی گھن آتی تھی۔ تنگ موری کی شلواروں سے تو وہ ایسے جلتے تھے کہ توبہ خیر، بھابی بے چاری تو شلوار قمیض کے قابل رہ ہی نہیں گئی تھی۔ وہ تو بس زیادہ تر بلاؤز اور پیٹی کوٹ پر ڈریسنگ گاؤن چڑھائے گھوما کرتی۔ کوئی نئی جان پہچان والا آجاتا تو بھی بے تکلفی سے وہی اپنا نیشنل ڈریس پہنے رہتی۔ کوئی پرتکلف مہمان آتا توعموماً وہ اندر ہی بچوں سےسرمارا کرتی جوکبھی باہر آنا پڑتا تو ملگجی سی ساڑھی لپیٹ لیتی۔ وہ گھر ہستن تھی، بہو تھی اور چہیتی تھی، اسے رنڈیوں کی طرح بن سنور کر کسی کو لبھانے کی کیا ضرورت تھی۔
’’میرے کوٹ میں کیا ہو سکتا ہے۔۔۔ وہسکی کی بوتل تھی۔۔۔ وہ تو میں نے باہر ہی ختم کر کے پھینک دی تھی۔۔۔ لیکن ہو سکتا ہے رہ گئی ہو۔‘‘’’لیجیے،آپ کا کوٹ یہ رہا۔‘‘
व्हिस्कीوہسکی
whisky
سلمیٰ و اختر
دیکھ لیا ملتان
عالمی تاریخ
طب العرب
وقت کی اڑان
پوستو وسکی
خواتین کے تراجم
سطح آئینہ
کہتا ہوں سچ
خود نوشت
طب یونانی کی سرگذشت
طب یونانی
کلیات شوکت واسطی
کلیات
کرن کرن اندھیرا
مجموعہ
ترا احسان غزل ہے
غزل
افسانہ کہ حقیقت
ظفر واسطی
خلد خیال
عباس تابش
آگ کی صلیب
بہکی باتیں
عصاہے پیرکواورسیف ہےجواں کے لیےان کے قہقہے میں جو گونج اور گمک ہے، وہ سندھ کلب کےانگریزوں کی صحبت اور وہیں کی وہسکی سے کشید ہوئی ہے۔ خوش باش، خوش لباس، شاہ خرچ۔ ناجائزآمدنی کو انہوں نے ہمیشہ ناجائزمیں خرچ کیا۔ طتی دھوپ گھڑی کی مانندجوصرف روشن ساعتوں کا شمار رکھتی ہے۔ قومی ہیکل، چوڑی چھاتی، کھڑی کمر، کندھے جیسے خربوزے کی پھانک، کھلتی برستی جوانی۔ اورآنکھیں؟ ادھردو تین سال سےعینک لگانے لگے ہیں، مگر دھوپ کی۔ وہ بھی اس وقت جب سینڈزپٹ کے لباس دشمن ساحل پرغلج آفتابی کےناحرے سےان کی گدلی گدلی آنکھوں میں ایک ہزار’’اسکینڈل پاور‘‘کی چمک پیدا ہوجاتی ہے اور وہ گھنٹوں کسی کو نظروں سے غسل دیتے رہتے ہیں۔ پاس کی نظر ایسی کہ اب تک اپنی جوان جہان پوتیوں کے نام کے خط کھول کر بغیرعینک کے پڑھ لیتے ہیں۔ رہی دور کی نظر، سو جتنی دورنارمل آدمی کی نظر جا سکتی ہے، اتنی دوربری نظر سے دیکھتے ہیں۔
آ گیا تھا ایک شاعر دوست پاکستان سےچائے سے ٹھہرا رہا وہسکی پلانے سے گیا
سرِ شام ہی ملک گردھاری لال مدن کے گھر آگیا اور ساتھ ہی وہسکی کی ایک بوتل بھی لیتا آیا۔ پریم لتا نے جلدی سے پاپڑ تلے، بیسن اور پیاز کے پکوڑے تیار کئے اور پلیٹوں میں سجا کر بیچ بیچ میں خود آکر انہیں پیش کرتی رہی۔چوتھے پیگ پروہ پالک کے ساگ والی پُھلکیاں پلیٹ میں سجا کر لائی تو ملک گردھاری لال نے بے اختیار ہو کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولا، ’’پتیم لتا! تو بھی بیٹھ جا اور آج ہمارے ساتھ وہسکی کی چُسکی لگا لے۔ تیرا پتی میرا اسسٹینٹ ہونے جا رہا ہے۔‘‘
سامنے مرزا خاموش زانوئے تلذذ تہ کئے بیٹھے تھے۔ کچھ برفانی ہوا، کچھ گنڈیری کا اثر۔ ان کا ہاتھ اپنی ناک پر پڑا تو ایسا لگا جیسے کسی دوسرے کی ہے۔ پھر ندی کے پانی میں ہاتھ ڈالا تو محسوس ہوا، گویا پگھلی ہوئی برف ہے اور یہ اس لئے محسوس ہوا کہ وہ واقعی پگھلی ہوئی برف تھی جس سے فائدہ اٹھانے کے لئے بلیک اینڈ وہائٹ کی دوسری بوتل کی گردن مرزا کی ٹائی سے باندھ...
اتنے میں پاپا بیچ والے کمرے میں چلے آئے، جہاں میں کھڑی تھی۔ میرے خیالوں کا وہ تار ٹوٹ گیا۔ پاپا آج بڑے تھکے تھکے سے نظر آئے تھے، کوٹ جو وہ پہن کر دفتر گئے تھے، کاندھے پر پڑا ہوا تھا۔ ٹوپی کچھ پیچھے سرک گئی تھی۔ انہوں نے اندر آ کر ایسے ہی کہا، ’’بیٹا‘‘ اور پھر ٹوپی اٹھا کر اپنے گنجے سر کو کھجایا۔ ٹوپی پھر سر پر رکھنے کے بعد وہ باتھ روم کی طرف چلے گئ...
بہت دیر تک وہ دونوں سنسان فاصلہ خاموشی میں طے کرتے رہے۔ آخر ان میں سے سائیکل سے اتر کر اپنے سرد ہاتھ منہ کی بھاپ سے گرم کرنے لگا۔’’سخت سردی ہے۔‘‘اس کے ساتھی نے بریک لگائی اور ہنسنے لگا۔’’بھائی جان!وہ۔۔۔۔۔۔وہ وہسکی کہاں گئی؟‘‘
’’تمباکو کے بارے میں پہلی بات تو یہ یاد رکھیے کہ کراچی کی آب و ہوا اسے موافق نہیں آسکتی۔ اسے ہی کیا، کسی کو راس نہیں آتی۔ البتہ جیسا تندرست، قیمتی اور خالص گدھا یہاں دیکھا، روئے زمین پر اس کا جوڑی دار نہیں ملنے کا۔ عجب شہر ہے۔ ہر بات الٹی۔ وہ قصہ نہیں سنا؟ دھوبی والا۔ بریلی سے تازہ ہجرت کر کے آیا۔ ایک ہزار روپے لے کر گدھا خریدنے نکلا تو گدھے بیچنے ...
’’پگلے! یہ تو خود ایک کتاب ہے!‘‘ انہوں نے شہادت کی انگلی سے سڑک پر ان خواندگان کی طرف اشارہ کیا جو ایک فرلانگ سے اس کے پیچھے پیچھے فہرست مضامین کا مطالعہ کرتے چلے آرہے تھے۔دیکھا گیا ہے کہ وہی کتب فروش کامیاب ہوتے ہیں جو کتاب کے نام اور قیمت کے علاوہ اور کچھ جاننے کی کو شش نہیں کرتے۔ کیونکہ انکی نا واقفیت عامہ جس قدر وسیع ہوگی، جس قدر عمیق اور متنوع ہوگی، اتنی ہی بھر پور خود اعتمادی اور معصوم گمراہی کے ساتھ وہ بری کتاب کو اچھا کر کے بیچ سکیں گے۔ اس کے بر عکس کتابیں پڑھتے پڑھتے (ادھوری ہی سہی) ہمارے ہیرو کو اسلامی ناولوں کے جوشیلے مکالمے حفظ ہو گئے تھے اور بغدادی جم خانے میں کبھی ویسی وہسکی کی زیادتی سے موصوف پر ہذیانی کیفیت طاری ہو جاتی تو دشمنان اسلام پر گھونسے تان تان کر تڑاق پڑاق ایسے ڈائیلاگ بولتے، جن سے شوق شہادت اس طرح ٹپکا پڑتا تھا کہ پیروں تک ایمان تازہ ہو جاتا ۔مسلسل ورق گردانی کے سبب نئی نویلی کتابیں اپنی کنواری کراری مہک اور جلد کی کساوٹ کھو چکی تھیں۔ بیشتر صفحات کے کونے کتے کے کانوں کی طرح مڑ گئے تھے اور بعض پسندیدہ اوراق کی یہ کیفت تھی کہ،
ایک نے شاید وہسکی پی تھیدوسرے نے شمپین کی بوتل
اس طرح گھر کا سارا کوڑا کرکٹ نظروں سے اوجھل رکھ دیا گیا۔ میت اٹھنے سے پہلے ہی نواب زادی اٹھ کر چل دیں اور ساتھ ساتھ وہ داماد بھی۔ مگر بڑے حساس دل کا مالک ہے۔ وہ سب کچھ سمجھتا ہے اور اس کے دل پر برف کے گھونسے ہر دم لگا کر تے ہیں۔ اس لیے وہ جلد از جلد اس ماحول میں سمونے کی کوشش کرتا رہتا ہے اور خود فراموشی کے لیے شراب پیتا ہے۔ تب وہ سب کچھ بھول جاتا ...
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books