aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "گزرے"
گلوبل گرے
ناشر
بارکلے گرے
مصنف
ہنری گرے
1827 - 1861
گورے لال تیواری
عمر گزرے گی امتحان میں کیاداغ ہی دیں گے مجھ کو دان میں کیا
دام ہر موج میں ہے حلقۂ صد کام نہنگدیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہوتے تک
پھر کئی لوگ نظر سے گزرےپھر کوئی شہر طرب یاد آیا
کارواں گزرے ہیں جن سے اسی رعنائی کےجس کی ان آنکھوں نے بے سود عبادت کی ہے
تیرا پہلو ترے دل کی طرح آباد رہےتجھ پہ گزرے نہ قیامت شب تنہائی کی
ہمارا یہ انتخاب عاشق کی معشوق کے دیدار کی خواہش کا بیان ہے ۔ یہ خواہش جس گہری بے چینی کو جنم دیتی ہے اس سے ہم سب گزرے بھی ہیں لیکن اس تجربے کو ایک بڑی سطح پر جاننے اور محسوس کرنے کیلئے اس شعری متن سے گزرنا ضروری ہے ۔
ہمیں اپنی روز مرہ کی زندگی میں کسی نہ کسی عزیز اور دل کے قریب شخص کا استقبال کرنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن ایسے موقعے پر وہ مناسب لفظ اور جملے نہیں سوجھتے جو اس کی آمد پر اس کے استقبال میں کہے جاسکیں۔ اگر آپ بھی کبھی اس پریشانی اور الجھن سے گزرے ہیں یا گزر رہے ہیں تو استقبال کے موضوع پر کی جانے والی شاعری کا ہمارا یہ انتخاب آپ کے لیے مدد گار ثابت ہوگا۔
گاؤں ہر اس شخص کے ناسٹلجیا میں بہت مضبوطی کے ساتھ قدم جمائے ہوتا ہے جو شہر کی زندگی کا حصہ بن گیا ہو ۔ گاؤں کی زندگی کی معصومیت ، اس کی اپنائیت اور سادگی زندگی بھر اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ ان کیفیتوں سے ہم میں سے بیشتر گزرے ہوں گے اور اپنے داخل میں اپنے اپنے گاؤں کو جیتے ہوں گے ۔ یہ انتخاب پڑھئے اور گاؤں کی بھولی بسری یادوں کو تازہ کیجئے ۔
गुज़रेگزرے
pass, go, decline, die
جون ایلیا-خوش گزراں گزر گئے
نسیم سید
مقالات/مضامین
سرسری اس جہاں سے گزرے
قمر اعظم ہاشمی
خود نوشت
گزرے وقتوں کی عبارت
ریاض مجید
غزل
نظرے خوش گزرے
انیس قدوائی
تذکرہ
یاد کی رہ گزر
شوکت کیفی
دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ
جیلانی بانو
گزرے تھے ہم جہاں سے
افضل توصیف
سفر نامہ
مجموعہ
سمندر اگر میرے اندر گرے
وزیر آغا
مضامین
موت کا فریب
تشریح (اناٹمی) عظمیات (آسٹیالوجی)
سائنس
اب رات گزرنے والی ہے
آشا رانی لکھوٹیا
روشن روشن راہ گزر
خنسا خان
ساون گزر گئے
عندلیب صدیقی
تشریح اناٹمی
نفرت کا گماں گزرے ہے میں رشک سے گزراکیوں کر کہوں لو نام نہ ان کا مرے آگے
اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہوپہلے بھی تو گزرے ہیں
سنا ہے درد کی گاہک ہے چشم ناز اس کیسو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں
اب تو ہر ہاتھ کا پتھر ہمیں پہچانتا ہےعمر گزری ہے ترے شہر میں آتے جاتے
گلی سے کوئی بھی گزرے تو چونک اٹھتا ہوںنئے مکان میں کھڑکی نہیں بناؤں گا
جو ہم پہ گزرے تھے رنج سارے جو خود پہ گزرے تو لوگ سمجھےجب اپنی اپنی محبتوں کے عذاب جھیلے تو لوگ سمجھے
ہم سے پہلے بھی مسافر کئی گزرے ہوں گےکم سے کم راہ کے پتھر تو ہٹاتے جاتے
اور کچھ دیر نہ گزرے شب فرقت سے کہودل بھی کم دکھتا ہے وہ یاد بھی کم آتے ہیں
قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دوخوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو
سو اک معمول ہے عمران کے گھر کا عجب سا کچھحسنؔ نامی ہمارے گھر میں اک سقراطؔ گزرا ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books