aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "ہتھیار"
ساحر ہوشیار پوری
1913 - 1972
شاعر
ابھیسار گیتا شکل
born.1994
میرزا اختیار حسین کیف نیازی
مصنف
سید طیب واسطی
born.1938
ہریہر ناتھ شاستری
ہریہر پرساد گپت
خواجہ عبدالغفار عیار
جگدیش سہائے ہتھکاری
ناشر
لالہ کیول رام ہوشیار
1831 - 1905
قمر ہوشیار پوری
مترجم
سید اختیار جعفری
خانہ اخیار، کراچی
دی ادیار لائبریری، چنئی
ابھیان
پنڈت ہوشیار سنگھ
جنگ کا ہتھیار طے کچھ اور تھاتیر سینے میں اتارا اور ہے
جب فریضے کو ادا کر چکے وہ خوش کردارکس کے کمروں کو بصد شوق لگائے ہتھیار
فتح و ظفر تھی مثلِ علی اختیار میںپنجے میں تھا وہی جسے تاکا ہزار میں
میرا ہتھیاراپنی وفا پر بھروسہ ہے اور کچھ نہیں
ساری سپر میں مہر نبوت کی شان تھیہتھیار ادھر لگا چکے آقائے خاص و عام
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
غرور زندگی جینے کا ایک منفی رویہ ہے ۔ آدمی جب خود پسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے تو اسے اپنی ذات کے علاوہ کچھ دکھائی نہیں دیتا ۔ شاعری میں جس غرور کو کثرت سے موضوع بنایا گیا ہے وہ محبوب کا اختیار کردہ غرور ہے ۔ محبوب اپنے حسن ،اپنی چمک دمک ، اپنے چاہے جانے اور اپنے چاہنے والوں کی کثرت پر غرور کرتا ہے اور اپنے عاشقوں کو اپنے اس رویے سے دکھ پہنچاتا ہے ۔ ایک چھوٹا سا شعری انتخاب آپ کے لئے حاضر ہے
دریا کا استعمال کلاسیکی شاعری میں کم کم ہے اور اگر ہے بھی تو دریا اپنے سیدھے اور سامنے کے معنی میں برتا گیا ہے ۔ البتہ جدید شاعروں کے یہاں دریا ایک کثیرالجہات استعارے طور پر آیا ہے ۔ وہ کبھی زندگی میں سفاکی کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا ہے کہ جو اس کے سامنے آتا ہے اسے بہا لے جاتا اور کبھی اس کی روانی کو زندگی کی حرکت اور اس کی توانائی کے استعارے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ دریا پر ہمارا یہ شعری انتخاب آپ کو یقیناً پسند آئے گا ۔
हथियारہتھیار
arms
الکشنی جہاد اور اس کے ہتھیار
محمد منظور نعمانی
میلہ اکھیاں دا
انور مسعود
لڑائی کے ہتھیار
تشکیل جدید الھیات اسلامیہ
علامہ اقبال
لیکچر
شاعری میں صوفیانہ اصطلاحات
شاعری تنقید
کیفیات
مجموعہ
باادب بامحاورہ ہوشیار!
نادر خان سرگروہ
طنز و مزاح
تذکرہ مشاہیر اکبرآباد
سعید احمد مارہروی
تذکرہ
دیوان عیار
دیوان
بوستان اخیار
عیار غالب
مالک رام
با ادب با محاورہ ہوشیار
نثر
مومن کا ہتھیار
محمد یونس
اسلامیات
ہمارے ہتھیار
وقار احسن
آگرہ میں اردو صحافت
صحافت
ناطق وجود ان لوگوں کو ملعون و مطعون گردانتے ہوئے اور گزشتہ واقعات کی افسوس ناک تصویر دکھاتے ہوئے اس بات کا طالب تھا کہ میں آئندہ سے اپنا دل پتھر کا بنا لوں اور محبت کو ہمیشہ کے لیے باہر نکال پھینکوں، لیکن جذباتی وجود ان افسوسناک واقعات کو دوسرے رنگ میں پیش کرتے ہوئے مجھے فخر کرنے پر مجبور کرتا تھا کہ میں نے زندگی کا صحیح راستہ اختیار کیا ہے۔ اس کی ...
کیلے کو کاٹنا بھی اتنا آسان نہیں، جتنا کسان سے بدلا لینا۔ ان کی ساری کمائی کھیتوں میں رہتی ہے یا کھلیانوں میں،کتنی ارضی و سماوی آفات کے بعد اناج گھر میں آتا ہے اور جو کہیں آفات کے ساتھ عداوت نے میل کرلیا تو بے چارہ کسان کانہیں رہتا۔ جھینگر نے گھر آکر اور لوگوں سے اس لڑائی کا حال کہا تو لوگ سمجھانے لگے۔ جھینگر تم نے بڑا برا کیا۔ جان کر انجان بنتے ہو...
سن سینتالیس کے ہنگامے آئے اور گزر گئے۔ بالکل اسی طرح جس طرح موسم میں خلافِ معمول چند دن خراب آئیں اور چلے جائیں۔ یہ نہیں کہ کریم داد، مولا کی مرضی سمجھ کر خاموش بیٹھا رہا۔ اس نے اس طوفان کا مردانہ وار مقابلہ کیا تھا۔ مخالف قوتوں کے ساتھ وہ کئی بار بھڑا تھا۔ شکست دینے کے لیے نہیں، صرف مقابلہ کرنے کے لیے نہیں۔ اس کو معلوم تھا کہ دشمنوں کی طاقت بہت زی...
حاضر درِ دولت پہ ہیں، سب یاور و انصارکوئی تو کمر باندھتا ہے اور کوئی ہتھیار
دولت فرض کی اس خام کارانہ جسارت اور اس زاہدانہ نفس کشی پر جھنجھلائی اور اب ان دونوں طاقتوں کے درمیان بڑے معرکہ کی کش مکش شروع ہوئی۔ دولت نے پیچ و تاب کھا کھا کر مایوسانہ جوش کے ساتھ کئی حملے کیے۔ایک سے پانچ ہزار تک، پانچ سےدس ہزار تک دس سےپندرہ، پندرہ سے بیس ہزار تک نوبت پہنچی لیکن فرض مردانہ ہمت کے ساتھ اس سپاہ عظیم کے مقابلےمیں یکہ و تنہا پہاڑ ...
ہوئی صبح اور گھر سے کان پر رکھ کرقلم نکلےایک شعر سے پتہ چلتا ہےکہ ابنائے روزگار کی بے مہریوں سے تنگ آکر گدا گری بھی اختیار کی لیکن لطف کی بات یہ ہے کہ اس حالت میں بھی عاشقی کو ترک نہیں کیا۔ کہتے ہیں،
بیٹھتے جب ہیں کھلونے وہ بنانے کے لیےان سے بن جاتے ہیں ہتھیار یہ قصہ کیا ہے
فرمانے لگے حضرت عباسؔ علمدارہاں غازیو اب تم بھی سجو جنگ کے ہتھیار
ہارنے والوں نے اس رخ سے بھی سوچا ہوگاسر کٹانا ہے تو ہتھیار نہ ڈالے جائیں
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books