aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "गालियों"
مرزا غالب
1797 - 1869
شاعر
غالب ایاز
born.1981
غالب احمد
born.1928
محمودہ غازیہ
born.1951
غالب عرفان
born.1938
غالب اکیڈمی، دہلی
ناشر
غالب انسٹی ٹیوٹ، نئی دہلی
زرقا نسیم غالب
غالب دریب
born.2003
اسد اللہ غالب
غالب نما پبلی کیشنز، لاہور
ادارہ یادگار غالب، کراچی
ادارہ مطالعات غالب، سرینگر
غالب اکیڈمی، کراچی
محمد غالب بھونگیری
مصنف
واں گیا بھی میں تو ان کی گالیوں کا کیا جوابیاد تھیں جتنی دعائیں صرف درباں ہو گئیں
ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکندل کے خوش رکھنے کو غالبؔ یہ خیال اچھا ہے
ادھر سے دھڑا دھڑ فائر ہوئے۔ ادھر سے بھی جواباً گولیاں چلنے لگیں۔۔۔صوبیدار رب نواز نے دوربین سے دشمن کی پوزیشن کا بغور مطالعہ کیا۔ وہ غالباً بڑے بڑے پتھروں کے پیچھے محفوظ تھے۔ مگر یہ محافظ دیوار بہت ہی چھوٹی تھی۔ زیادہ دیر تک وہ جمے نہیں رہ سکتے تھے۔ ان میں سے جو بھی ادھر ادھر ہٹتا، اس کا صوبیدار رب نواز کی زد میں آنا یقینی تھا۔تھوڑی دیر فائر ہوتے ر...
عشق نے غالبؔ نکما کر دیاورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
نالیوں میں حیات دیکھی ہےگالیوں میں بڑا اثر دیکھا
مرزا غالب نے کئی نسلوں کو متسصر کیا ہے - شاعر انکے مضامین، اسلوب اور زبان سے کافی کچھ سیکھا - یہی وجہ ہے کہ شاعروں نے انکی زمینوں پر غزلیں کہی اور انھیں خراج پیش کیا - ہم یہاں چند غالب کی ہم زمین غزلیں شایع کر رہے ہیں - پڑھیں اور لطف لیں -
یہ کلیکشن مرزا غالب کی ان لازوال غزلوں پر مشتمل ہے، جنہیں جگجیت سنگھ نے اپنی دل نشین اور روح کو چھو لینے والی آواز میں گایا ہے۔ ان منتخب غزلوں میں عشق کی شدت، ہجر کا کرب، اور زندگی کی گہرائیوں سے پھوٹتی ہوئی فکر کی وہ لطیف پرتیں شامل ہیں جو دل و دماغ کو یکساں طور پر متاثر کرتی ہیں۔ یہ انتخاب سننے والوں کو کلاسیکی اردو شاعری کے جمال اور غزل گائیکی کی لطافت سے آشنا کرتا ہے — ایک ایسا امتزاج جو دل کو چھو جائے، اور دیر تک ذہن میں گونجتا رہے۔ آیئے، اس نایاب انتخاب کو پڑھیے، سنیے، غزل اور آواز کی اس خوبصورت ہم آہنگی میں ڈوب جائیے۔
نام خواجہ محمد امیر، تخلص صباؔ ۔۱۴؍اگست۱۹۰۸ ء کو آگرہ میں پیدا ہوئے۔ شاعری کا آغاز ۱۹۲۰ء سے ہوا اور اپنے عربی فارسی کے استاد اخضر اکبرآبادی کی شاگردی اختیار کی۔ ۱۹۳۰ء میں محکمہ تعلیم میں بطور کلرک ملازم ہوگئے۔ بعدازاں متعدد تجارتی اور کاروباری اداروں سے منسلک رہے۔ تقسیم ہندکے بعد پاکستان آگئے اور کراچی میں بودوباش اختیار کی۔۱۹۶۱ء میں تقریباً ایک برس محترمہ فاطمہ جناح کے پرائیوٹ سکریٹری رہے۔ بھر جناح کالج اور دوسرے تعلیمی اداروں میں ۱۹۷۳ء تک کام کرتے رہے۔ غزل، رباعی، نظم ، مرثیہ ہرصنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ وہ ایک قادر الکلام شاعر تھے۔ ان کے مجموعہ ہائے کلام’’اوراق گل‘‘ اور ’’چراغ بہار‘‘ کے نام سے شائع ہوچکے ہیں۔ انھوں نے پورے دیوان غالب کی تضمین کے علاوہ عمر خیام کی کوئی بارہ سو رباعیات کو اردو رباعی میں ترجمہ کیا ہے جس کا ایک مختصر انتخاب ’دست زرفشاں‘ کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔ صبا صاحب کے ترجمے کی دوسری کتاب’’ہم کلام‘‘ ہے جس میں غالب کی رباعیات کا ترجمہ پیش کیا گیا ہے ۔ ان کی مرثیوں کی تین کتابیں ’سربکف‘، ’شہادت‘اور ’خوناب‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں۔ صبا اکبرآبادی ۲۹؍اکتوبر۱۹۹۱ء کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
गालियोंگالیوں
abuse
دیوان غالب
دیوان
شرح دیوان غالب
یوسف سلیم چشتی
شرح
بیان غالب
آغا محمد باقر
غالب ان انگلش ورس
روشن چفلا
ترجمہ
غالب کے پتر
شری رام شرما، شری نواس شرما
خطوط
انتخاب خطوط غالب
دیوان غالب اردو
نوائے سروش
خطوط غالب
غیر افسانوی ادب
غالب
گوپی چند نارنگ
تنقید
دیوان غالب جدید
ان عورتوں کے لئے جو علاقہ منتخب کیا گیا وہ شہر سے چھ کوس دور تھا۔ پانچ کوس تک پکی سڑک جاتی تھی اور اس سے آگے کوس بھر کا کچا راستہ تھا، کسی زمانہ میں وہاں کوئی بستی ہو گی مگر اب تو کھنڈروں کے سوا کچھ نہ رہا تھا۔ جن میں سانپوں اور چمگادڑوں کے مسکن تھے اور دن دہاڑے اْلّو بولتا تھا۔ اس علاقے کے نواح میں کچے گھروندوں والے کئی چھوٹے چھوٹے گاؤں تھے۔ مگر...
محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کااسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
داؤجی سے علیک سلیک تو ہو ہی گئی تھی اس لئے میں کوشش کر کے گلی میں سے اس وقت گزرنے لگا جب وہ آ جا رہے ہوں۔ انہیں سلام کر کے بڑا مزا آتا تھا اور جواب پا کر اس سے بھی زیادہ۔ اس سے بھی زیادہ جیتے رہو کچھ ایسی محبت سے کہتے کہ زندگی دو چند سی ہو جاتی اور آدمی زمین سے ذرا اوپر اٹھ کر ہوا میں چلنے لگتا۔ سلام کا یہ سلسلہ کوئی سال بھر یونہی چلتا رہا اور اس ا...
جیناں کو اس کی یہ باتیں بہت ناگوار معلوم ہوئی تھیں مگر وہ اس سے محبت کرتی تھی،اس لیے اکیلے میں اس نے کئی گھنٹے سوچ سوچ کر اس کی ان باتوں میں معنی پیدا کیے اور آخر خود کو یہ سمجھنے پر آمادہ کرلیا کہ کریم داد جو کچھ کہتا ہے ٹھیک ہے۔۔۔!شادی کا سوال آیا تو بڑے بوڑھوں نے مخالفت کی مگر یہ مخالفت بہت ہی کمزور تھی۔ وہ لوگ سوگ منا منا کر اتنے نحیف ہوگئے تھے کہ ایسے معاملوں میں سو فیصدی کامیاب ہونے والی مخالفتوں پر بھی زیادہ دیر تک نہ جمے رہ سکے۔۔۔ چنانچہ کریم داد کابیاہ ہوگیا۔ باجے گاجے آئے، ہر رسم ادا ہوئی اور کریم داد اپنی محبوبہ جیناں کودلہن بنا کر گھر لے آیا۔
مادھو نے اشارے سے اسے اپنے پاس بیٹھنے کو کہا۔ نتھو بیٹھ گیا اور اس کا ایک ہاتھ غیر ارادی طور پر اپنے بالوں کے اس گچھے کی طرف بڑھ گیا جس کی جڑیں کافی ہل چکی تھیں۔ اب وہ ان لوگوں کی باتیں سننے کے لیے بالکل تیار تھا۔مادھو اس کو اپنے پاس بٹھا کر خاموش ہو گیامگر اس کے کپکپاتے ہوئے ہونٹ صاف ظاہر کر رہے تھے کہ وہ کچھ کہنا چاہتا ہےلیکن فوراً نہیں کہہ سکتا۔...
اس محبوب کے عادات و خصائل بھی عجیب تھے۔ مثلاً گالیاں بہت دیتا تھا۔ مرزاپوچھتے ہیں، واں گیا میں بھی تو ان کی گالیوں کاکیا جواب
جھبو بھیا کو شروع ہی سے بیاہ کا شوق تھا۔ اسے بیڑی کا، تاڑی کا، کسی چیز کا شوق نہیں تھا۔ شوق تھا تو اس صرف اس بات کا کہ اس کی شادی جلد سے جلد ہو جائے۔ جب اس کے پاس ستر اسی روپے اکٹھے ہو گئے تو اس نے اپنے دیس جانے کی ٹھانی تاکہ وہاں اپنی برادری سے کسی کو بیاہ لائے، مگر پھر اس نے سوچا ان ستر اسی روپوں سے کیا ہو گا، آنے جانے کا کرایہ بھی بڑی مشکل سے پ...
دل ناداں تجھے ہوا کیا ہےآخر اس درد کی دوا کیا ہے
اف وہ پیاسے معززین جنہیںرس بھری گالیوں نے مار دیا
اتنا یہ نازک کہ عاشق کوچۂ جاناں کے دو ایک پھیروں میں ہی گھبراجاتا ہے۔ مگر ذرا پرانے عاشق کی ہمت تو ملاحظہ فرمائیے، اس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا، کیا ذلیل
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books