آئے ہے بے کسی عشق پہ رونا غالب
اس گردش ِ ایام نےکسی اورکو بگاڑا ہو یا نہ بگاڑا ہو مگرعشق کوعرش سےفرش پروہ پٹخنی دی ہےکہ اگراس دورمیں آنسوؤں پراتنا شدید پہرہ نہ ہوتا تو یقیناً اس کی بے کسی پررونا آجاتا۔ یوں دہائی دیتےتو پھربھی لوگ نظر آ ہی جاتے ہیں،
پھرتے ہیں دشت دشت دوانے کدھر گئے
وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے
ہائے ہائے۔ کیسےکیسےزمانے دیکھے ہیں عشق نے۔۔۔ جدھر نظر ڈالیے بس عشق ہی عشق کا راج تھا۔ اندازہ ہوتا ہے کہ اس زمانے میں کیا عوام کیا خواص، کیا شاعر، کیا طبیب سب کا پیشہ عشق تھا۔ طول وعرض میں پھیلی ہوئی اس وسیع کائنات کسی اور چیز سےدل چسپی نہیں۔ کسی کام سے مطلب نہیں۔ کسی بات کی فکر نہیں۔ دل پرخوں کی ایک گلابی سےعمر بھر شرابی شرابی رہتے ہیں اور پراہیبیشن ایکٹ کے تحت پکڑے بھی نہیں جاتے۔۔۔
در پر بن کہے گھر بنا لیتے ہیں اور نہ محبوب انھیں وہاں سے کان پکڑ کر نکالتا ہے، نہ اسٹیٹ آفیسر دعوا دائر کرتا ہے۔۔۔ تیغ و کفن باندھے ہوئے جاتے ہیں اور خود کشی کا الزام بھی عائد نہیں ہوتا۔۔۔
اوراس دورکےعاشق کوخود کوعاشق ثابت کرنےکےلیےکچھ کہنےسننے کی توخیرضرورت ہی نہیں تھی۔۔۔ حلیہ دیکھ کرہی لوگ سمجھ جاتےتھے۔ جناب نحیف ونزاراتنےکہ اعضا دیدۂ زنجیرکی مژگانی کریں۔۔۔ کسی محفل میں بٹھا دیےجائیں تو دوربین خوردبین کی مددکےبغیرنظرنہ آئیں۔ بستر پرلیٹیں تواس کی شکن میں گم ہوجائیں۔۔۔ اول تو بےلباسی طرۂ امتیاز۔۔۔ جو بالفرض لباس ہو بھی تو گریبان چاک چاک اوردامن تار تار۔۔۔ چہرے پرہوائیاں۔۔۔ پاؤں میں چھالے۔۔۔ ایک ہاتھ میں دل۔۔۔ دوسرےمیں جگر۔۔۔ آنکھوں سےجوئےخون بہہ رہی ہیں تومنہ سےآہوں کےساتھ شعلےنکل رہے ہیں۔۔۔ اب اس حلیےکےبعد بھلا اظہارِعشق کی ضرورت ہی باقی کہاں رہ جاتی ہے۔۔۔ یہ توچلتا پھرتا اشتہارہوا۔۔۔ آنکھ کےاندھےاورکان کے بہرے اورگانٹھ کے پورے کوبھی آپ کے مجنوں کے بھائی بند ہونے میں ذرا شبہ نہیں رہتا۔۔۔ (ویسے روایت یہی ہے کہ آج تک دنیا کا کوئی محبوب اندھا بہرا یا گانٹھ کا پورا نہیں ہوا)
جوذرا سلیقہ مند عاشق ہوا۔۔۔ اورجس نےدامن وگریبان سے بغاوت نہ کی اور نہ ہی بوئے خوں اور آہِ آتشیں سے کچھ زیادہ واسطہ رکھا تو پھراس کا کچھ اس قسم کا حلیہ ہوتا تھا،
کہتا تھا کسو سےکچھ تکتا تھا کسو کا منہ
کل میرکھڑا تھا یاں سچ ہےکہ دیوانہ تھا
آج یوں اگر کوئی سرجھاڑمنہ پہاڑ کھڑا جس تس کا منہ تکا کرے تو لوگ بجائے کوچۂ محبوب کے، چندہ کر کے سیدھے رانچی پہنچا آئیں۔ اب تو بہ عالمِ ہوش وحواس اوربصد چین وسکون عشق کرنا پڑتا ہے۔ اورعاشق غریب کی آدھی زندگی اسی الجھن کی نذر ہو جاتی ہے کہ وہ اپنےعاشق ہونے کا اعلان کیسے کرے۔۔۔ محبوب کےزوروستم اسےگھلاتے ہوں یا نہ گھلاتے ہوں، مگر یہ الجھن اسے ضرورآدھا کردیتی ہے۔ (دنیا میں ہر قسم کےکاموں میں مشورہ دینے والی کمپنیاں اور بیورو کھل چکے ہوں کاش کوئی صاحبِ ذوق اور ہمدرد ملک و قوم اس طرف بھی توجہ دے)
جانےخون سفید ہوگئے ہیں یا بناسپتی چیزیں کھاتے کھاتے اوربناسپتی باتیں کرتے کرتے جسم میں خون رہا ہی نہیں۔ بہرحال آج کا عاشق خون کےآنسو نہیں روتا۔ بلکہ وہ سرے سےآنسو بہانےکےفن سے ہی ناواقف ہوتا ہے۔ موقع بےموقع قہقہےالبتہ لگا لیتا ہے۔۔۔ اورقہقہوں کواظہارِعشق کا ذریعہ اب تک تسلیم نہیں کیا گیا۔۔۔
وہ بطور رسید غش کھا کرگرپڑنے والی خاص ادا ہواکرتی تھی، وہ آج نہ جانےکیوں روایتی سینگوں کی حیثیت اختیارکرچکی ہے۔۔۔ غالباً اس لیےکہ سڑکیں آج کل پکی ہونےلگی ہیں۔۔۔ اگرابتدائےعشق میں ہی اسے یوں سر پکڑ کررونا پڑے (بلکہ بہت ممکن ہےکہ مرہم پٹی بھی کروانی پڑے) تو آگے آگےجوکچھ بھی ہوگا اسےدیکھنے کی ہمت اس میں کہاں باقی رہ جائے گی۔۔۔
توعاشق آج نہ روسکتا ہےنہ غش کھا کرگرسکتا ہے۔ نہ پاؤں میں آبلے ہوتے ہیں۔ نہ آہیں بال ِعنقا کوجلا دینے والی۔۔۔ اوردامن وگریبان کو تارتار کرنا کیا معنی ایک ذراسی کھونچ کپڑوں میں لگ جائےتو قیمت کا خیال آتے ہی عاشق کےٹوٹےٹٹائےدل پرایک بال اور پڑجاتا ہے۔ اسی لیےتوآج کا شاعرکہتا ہے،
وہ جو اب چاک گریباں بھی نہیں کرتے ہیں
دیکھنے والو کبھی ان کا جگر تو دیکھو
اب ظاہر ہے جگر ڈاکٹر کے سوا کوئی نہیں دیکھ سکتا۔ اور ہرایک کا محبوب ڈاکٹر تو ہوتا نہیں۔ لیجئے۔ حضرت عشق اپنا سا منہ لےکر رہ گئے۔۔۔
عاشق ِقدیم کو کھانے کمانے کی تو کوئی فکر ہوتی نہیں۔ عالباً وہ غم ہی کو من و سلویٰ سمجھ کرکھا لیا کرتا تھا۔ اورخونِ جگر کو شربتِ روح افزا سمجھ کر پی لیتا تھا۔ لہٰذا جب دیکھئے وہ حضرت کوچۂ دلدار ہی میں پائےجاتے تھے،
جیتے جی کوچۂ دلدار سے جایا نہ گیا
اس کی دیوار کا سر سے میرے سایہ نہ گیا
آج کا عاشق دن بھرتوکوچۂ افسردہ دفترمیں جان گنواتا ہے۔ شام کو جو ذرا بن سنور کر کوچۂ دلدار کی نیت باندھ کےدروازے کے باہر قدم رکھا اور گھر کے سب خورد و کلاں نےشک و شبہ کی نظروں سے دیکھا اورمعنی خیز انداز میں مسکرانے لگے۔ باواجان نے کڑک دارآوازمیں پوچھا، ’’حضور کی سواری اس وقت کہاں تشریف لےجارہی ہے۔‘‘
لیجئے اب کوئی فی البدیہ بہانہ گھڑیئے۔۔۔ جس میں یہ شاعرانہ صلاحیت اور تخیل کی بلند پروازی نہ ہوئی وہ ہکلاتے نظر آنے لگے، ’’وہ۔۔۔ وہ۔۔۔ عمران کے پاس جا رہا ہوں۔‘‘
’’میاں صاحب زادے عمران خود آپ کی اطلاع کے مطابق آج صبح جبل پور گیا ہے۔‘‘
’’جی ہاں۔ جی ہاں۔ تو ذرا سنٹرل لائیبریری ہی چلا جاؤں گا۔‘‘
’’یہ تمہاری لائیبریری پیر کوکب سےکھلنے لگی۔۔۔؟‘‘
اور اب عاشق بیچارہ بال بگڑجانے کے ڈرسےسرتک نہیں پیٹ سکتا۔۔۔
جانے پرانے زمانے کےعاشقوں پر یہ روک ٹوک کیوں نہیں تھی۔ شاید اس زمانے میں عاشق کا کوئی رشتہ دارکوئی والی وارث ہوتا ہی نہیں ہوگا۔ بس آزادی ہی آزادی تھی۔ عاشقی ہرایک کا پیدائشی حق تھا۔ بلکہ کارِثواب۔۔۔ اور ترکِ عاشقی گمراہی سمجھی جاتی تھی،
اللہ رے گمر ہی بت و بت خانہ چھوڑ کر
مومن چلا ہے کعبہ کو اک پارسا کے ساتھ
لیکن آج یہ بڑی ہمت کا کام ہے۔ غیروں کے ناوکِ دشنام۔ اپنوں کی طرزِ ملامت۔ طعنے تشنے، کانا پھوسی اور رسوائی سربازار۔۔۔ عشق سے پہلےعاشق کا خاتمہ یقینی۔۔۔
عمرِ رفتہ کےمحبوب اس قدر قتل وغارت اور فتنہ و شربرپا کرنےکے باوجود بھی بیچارے برے بھلےاورخدا ترس بندے ہوا کرتے تھے۔ گھر ہمیشہ ایسے تنگ و تاریک کوچوں میں بستےتھےکہ جس میں دھوپ کا کہیں ذکر نہیں۔ ہمیشہ دیوار کا سایہ ہی رہا کرتا تھا اورتاریکی ایسی کہ ساری زندگی دیوار کے سائے کے تلے گذار دیجئے کیا مجال جوکسی راہ گیرتک کی نظر پڑ جائے۔۔۔
خدا جانےآج کل وہ تنگ وتاریک کوچےکہاں جابسے۔ یہ لمبے چوڑے راستے اورجلتی ہوئی تارکول کی سڑکیں آگئیں کہ اتنا بھی تو سایہ نہیں ہوتا کہ عاشق دریا کےسامنےدم بھرکو سُستالے۔ اورجووہ ذرا کسی درخت کے سائے میں یا دیوارکی آڑمیں امیدوبیم کی حالت میں دل کی تیزہوتی ہوئی دھڑکنوں کو گنتا۔ دروازے پرنظریں گاڑےکھڑا ہوگیا۔ یااچک اچک کراندرکےحالات کا جائزہ لینےکی کوشش کی۔ یاسڑک کےدو چار چکر لگائے تو پولس چور اچکا سمجھ کر پیچھے لگ گئی۔ اور دریا کے بجائے حضرتِ عاشق درِکوتوالی پرنظرآنےلگے۔۔۔ وہ یہ تک نہیں کہہ سکتا،
دیرنہیں حرم نہیں در نہیں آستاں نہیں
بیٹھے ہیں راہ گزر پہ ہم کوئی ہمیں اٹھائے کیوں
اوراگرپولیس کےدستِ رسا سےبچ بھی گئے۔ تو ہرآن دندناتی ہوئی گزرنےوالی موٹروں کی زد میں آجانا یقینی ہے۔۔۔
چارچھ چکر لگانے کے بعد ذرا جاں باز قسم کےعاشق اندرداخل ہونے یا صدا دینے کا ارادہ بھی کر لیں توسیاستِ درباں تو نہیں البتہ دل نعرۂ درباں سے ضرور ڈر جاتا ہے۔۔۔ جب دربان اشرف المخلوقات میں سےہوا کرتے تھے، عاشق کبھی تو ان کےقدم لے لیا کرتے تھےاور کبھی اس کی گالیوں کے جواب میں دعائیں دے کراسے خوش کرتے تھے۔۔۔ مگران فیل تن برق رفتار۔ رعد گفتارکتوں کےقدم کوئی کس طرح لے۔۔۔
چلیے۔۔۔ یہ مجنوں کےرشتہ دار منہ لٹکائے بے نیل و مرام کوچۂ جاناں سےلوٹ آئے۔
اتنا یہ نازک کہ عاشق کوچۂ جاناں کے دو ایک پھیروں میں ہی گھبراجاتا ہے۔ مگر ذرا پرانے عاشق کی ہمت تو ملاحظہ فرمائیے،
اس نقشِ پا کے سجدے نے کیا کیا، کیا ذلیل
میں کوچۂ رقیب میں بھی سر کے بل گیا
کوچۂ رقیب اورپھرسرکےبل۔۔۔؟ داد نہیں دی جاسکتی اس بےجگری کی۔۔۔ عاشقی کاہے کو ہوئی اچھی خاصی نٹ گری ہوگئی۔ (ویسےعاشق کےلیے اس فن کا ماہرہونا یوں بھی ضروری ہے) آج سر کے بل کسی کوچے میں چلنے سےمحبوب تو نہیں سرکس میں نوکری ضرورمل سکتی ہے۔۔۔
بڑی آسانی کی بات تو اس دور میں یہ تھی کہ شہرمیں بس ایک ہی حسین اور ایک ہی محبوب ہوا کرتا تھا۔ کیوں کہ خیال یہ تھا کہ
جو شہر میں تم سے ایک دو ہوں تو کیونکر ہو
لیجئےصاحب۔۔۔ انتخاب کی ساری الجھنیں ختم۔۔۔ آج کل تو شہر کےجس کونے میں چاہے حسینوں کوایک پورا قہقہے لگاتا رنگ و نور کا طوفان لیے آنکھوں کو چکا چوند کرتا گزرجائےگا اورآپ ٹریفک کےاصولوں کی اس طرح خلاف ورزی کرنےکی رپورٹ بھی کسی کوتوالی میں درج نہیں کراسکیں گے۔۔۔
توشہر بھرا ہےحسینوں سے۔۔۔ اور ہرعاشق کا اپنا ایک محبوب ہے۔۔۔ بلکہ بیک وقت کئی کئی محبوب ہوا کرتے ہیں۔ اظہارِعشق کا مسئلہ اورٹیڑھا ہوگیا۔۔۔
اس ترقی پسندی، تہذیب وتمدن اوراس ایڈیکیٹ نے توعشق کواورڈبو دیا۔۔۔ اشارے کنائے، زبان بے زبانی سب ختم ہوگئے۔۔۔ جب تک آپ اپنا مقصد فٹ نوٹس کے ساتھ بیان نہ کریں تب تک آپ کا کیا یا خود آپ سمجھ لیجئے یا اگر خدا کو ہنگامہ ہائے شش جہت سے فرصت مل گئی تو وہ سمجھ لے گا مگر اس بیسویں صدی کا پڑھا لکھا عقل مند محبوب تو نہیں سمجھ سکتا۔۔۔
آپ نے ایک لمبی سی ٹھنڈی آہ بھری۔۔۔ اوروہ یہ سمجھ کر کہ آپ کو سانس لینے میں تکلیف ہو رہی ہےفوراً آپ کی خدمت میں پانی پیش کردے گا۔ (خواہ مارے جھنجھلاہٹ کے آپ اس میں ڈبکیاں ہی کیوں نہ لگانے کا تہیہ کرلیں)
آپ نے دل کے درد کی شکایت کی۔۔۔ وہ آپ کو شہر کے بہترین ڈاکٹر کے پاس لے جاکردل کا کارڈیوگرام کروادے گا۔۔۔ شکستگی کا اظہار کیجئے۔ سرجیکل ڈپارٹمنٹ سے رجوع کرنےکا مشورہ ملے گا۔۔۔
بیماری میں اگران کو دیکھ کرچہرے پہ رونق آجائے تواس ڈاکٹرکا تفصیلی پتہ اورشجرۂ نسب پوچھا جائے گا جس کاعلاج آپ کروا رہے ہیں۔۔۔ اور وہ تمام دوائیں دیکھی اورچکھی جائیں گی جواستعمال کی جارہی ہیں۔۔۔
اتفاقیہ طورپرکہیں ملاقات ہو جانےپراگرآپ کی آنکھوں سے خوشی دمکنے لگی اور ہونٹوں پر مسکراہٹ ناچنے لگی تواسےرسمی اخلاق پرمحمول کیا جائےگا۔۔۔ کچھ وضاحت کےخیال سے آپ نےقہقہہ لگایا اورآپ پرہتک عزت کا دعویٰ۔۔۔
ان کی پیروی میں بلیک کافی، کولڈ کافی، مینڈک کا اچار، کچھوے کا مربہ جیسی واحیات چیزیں زہرمار کیجئے۔۔۔ آپ کے ذوق کا ارتقا اورنخراکی داد دی جائے گی۔۔۔
ہجر میں تارے گنئے۔۔۔ وہ سمجھیں گےحساب کی قابلیت بڑھائی جارہی ہے۔ گھرکےآگے پیچھے چکر لگائیے۔ خیال ہوگا کہ سڑکیں ناپ کرانجینئرنگ میں کسی نئے باب میں اضافے کی تیاری ہے۔۔۔
زلفیں پریشاں کیجئے۔۔۔ فلسفی کا خطاب ملے گا۔
کھانا پینا چھوڑ دیجئے۔۔۔ گمان گزرے گا کچھ اورنازک اوراسمارٹ بننےکی کوشش کی جارہی ہے۔
اور جو تنگ آکر سچ مچ مرجائیے۔۔۔ تو دعائے مغفرت کے بعد کہا جائےگا۔ خلل تھا دماغ کا۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.