aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "तख़्लीक़"
بزم تخلیق ادب، کراچی
ناشر
مرکز تخلیق ادب، بنگلہ دیش
مکتبۂ تخلیق ادب، کراچی
وہ بولی، ’’ڈوب جانے دو۔‘‘وہ پورے چاند کی رات مجھے اب تک نہیں بھولتی۔ میری عمر ستر برس کے قریب ہے، لیکن وہ پورے چاند کی رات میرے ذہن میں اس طرح چمک رہی ہے جیسے ابھی وہ کل آئی تھی۔ ایسی پاکیزہ محبت میں نے آج تک نہیں کی ہو گی۔ اس نے بھی نہیں کی ہو گی۔ وہ جادو ہی کچھ اور تھا۔ جس نے پورے چاند کی رات کو ہم دونوں کو ایک دوسرے سے یوں ملا دیا کہ وہ پھر گھر نہیں گئی۔ اسی رات میرے ساتھ بھاگ آئی اور ہم پانچ چھ دن محبت میں کھوئے ہوئے بچوں کی طرح ادھر ادھر جنگلوں کے کنارے ندی نالوں پر اخروٹوں کے سائے تلے گھومتے رہے، دنیا و مافیہا سے بے خبر۔ پھر میں نے اسی جھیل کے کنارے ایک چھوٹا سا گھر خرید لیا اور اس میں ہم دونوں رہنے لگے۔ کوئی ایک مہینہ کے بعد میں سری نگر گیا اور اس سے یہ کہہ کے گیا کہ تیسرے دن لوٹ آؤں گا۔ تیسرے دن میں لوٹ آیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ وہ ایک نوجوان سے گھل مل کے باتیں کر رہی ہے۔ وہ دونوں ایک ہی رکابی میں کھانا کھا رہے تھے۔ ایک دوسرے کے منہ میں لقمے ڈالتے جاتے ہیں اور ہنستے جاتے ہیں۔ میں نے انہیں دیکھ لیا۔ لیکن انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ وہ اپنی مسرت میں اس قدر محو تھے کہ انہوں نے مجھے نہیں دیکھا۔ اور میں نے سوچا کہ یہ پچھلی بہار یا اس سے بھی پچھلی بہار کا محبوب ہے، جب میں نہ تھا اور پھر شاید اور آگے بھی کتنی ہی ایسی بہاریں آئیں گی، کتنی ہی پورے چاند کی راتیں، جب محبت ایک فاحشہ عورت کی طرح بے قابو ہو جائے گی اور عریاں ہو کے رقص کرنے لگے گی۔ آج تیرے گھر میں خزاں آ گئی ہے۔ جیسے ہر بہار کے بعد آتی ہے۔ اب تیرا یہاں کیا کام۔ اس لئے میں یہ سوچ کر ان سے ملے بغیر ہی واپس چلا گیا اور پھر اپنی پہلی بہار سے کبھی نہیں ملا۔
مری تخلیق کی مجھ کو جہاں کی پاسبانی دیسمندر موتیوں مونگوں سے کانیں لعل و گوہر سے
کوئی پکارتا ہے ہر اک حادثے کے ساتھتخلیق کائنات دگر کر رہے ہیں ہم
اس میں اس نے نہایت درد بھرے لہجے میں اس سے کہا، ’’زہرہ! میں نے بہت کوشش کی کہ میں تمہارے کہے پر عمل کر سکوں مگر دل پر میرا اختیار نہیں ہے۔ یہ میرا آخری خط ہے۔ کل شام کو میں لکھنؤ چھوڑ دوں گا۔ اس لیے تمہیں اپنے والد صاحب سے کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ تمہاری خاموشی میری قسمت کا فیصلہ کر دے گی۔ مگر یہ خیال نہ کرنا کہ تم سے دور رہ کر تم سے محبت نہیں کروں ...
یہ بازار بہت خوبصورت نہیں ہے۔ اس کے مکین بھی خوبصورت نہیں ہیں۔ اس کے بیچوں بیچ ٹرام کی گڑ گڑاہٹ شب و روز جاری رہتی ہے۔ جہاں بھر کے آوارہ کتے اور لونڈے اور شہدے اور بے کار اور جرائم پیشہ مخلوق اس کی گلیوں کا طواف کرتی نظر آتی ہے۔ لنگڑے، لولے، اوباش، مدقوق تماش بین، آتشک و سوزاک کے مارے ہوئے، کانے، لنجے، کوکین باز اور جیب کترے اس بازار میں سینہ تان ...
ہجر محبّت کے سفر میں وہ مرحلہ ہے , جہاں درد ایک سمندر سا محسوس ہوتا ہے .. ایک شاعر اس درد کو اور زیادہ محسوس کرتا ہے اور درد جب حد سے گزر جاتا ہے تو وہ کسی تخلیق کو انجام دیتا ہے . یہاں پر دی ہوئی پانچ نظمیں اسی درد کا سایہ ہے
ایک صحت مند مزاح زندگی کے ہر لمحے میں ضروری ہوتا ہے، یہاں ہم آپ کے لیے اہم اردو شاعروں کی ۱۵ ایسی نظموں کا انتخاب پیش کر رہے ہیں جو مزاح سے بھر پور ہیں، آپ انہیں پڑھیے اور زندگی کے بھاری پن کو کچھ کم کیجیے
موت ایک ایسا معمہ ہے جو نہ سمجھنے کا ہے اور نہ سمجھانے کا۔ شاعروں اور تخلیق کاروں نے موت اور اس کے ارد گرد پھیلے ہوئے غبار میں سب سے زیادہ ہاتھ پیر مارے ہیں لیکن حاصل ایک بےاننت اداسی اور مایوسی ہے ۔ یہاں ہم موت پر اردو شاعری سے کچھ بہترین اشعار پیش کر رہے ہیں۔
तख़्लीक़تخلیق
creation, compilation
تخلیق، تخئیل اور استعارہ
معید رشیدی
شاعری تنقید
شعر اقبال
سید عابد علی عابد
اقبالیات تنقید
تخلیق و تنقید
عبد السلام
تنقید
تخلیقی عمل
وزیر آغا
تحقیق و تنقید
جامعہ ملیہ اسلامیہ، تخلیق و تنقید کی دستاویز
شہاب الدین انصاری
تحقیق
تنقیدی اسمبلاژ
حقانی القاسمی
شمارہ نمبر-002
اظہر جاوید
Feb 2005تخلیق، لاہور
غالب کی تخلیقی حسیت
شمیم حنفی
سانحۂ کربلا بطور شعری استعارہ
گوپی چند نارنگ
تاریخ، تہذیب اور تخلیقی تجربہ
Feb 2006تخلیق، لاہور
شمارہ نمبر۔010
Oct 2010تخلیق، لاہور
شمارہ نمبر۔002
ظہیر حسن
Sep 2017تخلیق و تحقیق
مشفق خواجہ
تخلیق، کراچی
Feb 2003تخلیق، لاہور
ویرانوں سے آ رہی ہے آوازتخلیق جنوں رکی نہیں ہے
فکر تخلیق سخن مسند راحت پہ حفیظباعث کشف و کرامات نہیں ہوتی ہے
تیری تخلیق نہیں ہے مری تخلیق نہیںہم اگر ضد بھی کریں اس پہ تو تصدیق نہیں
کہ توڑڈالا قلم کو ساتھیپکڑ کے ہاتھوں میں ایک ہتھوڑا
نئی شاعری کی بنیاد ڈالنے کے لیے جس طرح یہ ضروری ہے کہ جہاں تک ممکن ہو سکے اس کے عمدہ نمونے پبلک میں شائع کیے جائیں، اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ شعر کی حقیقت اور شاعر بننے کے لیے جو شرطیں درکار ہیں ان کو کسی قدر تفصیل کے ساتھ بیان کیا جائے۔ (حالی۔ مقدمۂ شعروشاعری)کیا شاعری کی پہچان ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو کیا اچھی اور بری شاعری کو الگ الگ پہچاننا ممکن ہے؟ اگر ہاں، تو پہچاننے کے یہ طریقے معروضی ہیں یا موضوعی؟ یعنی کیا یہ ممکن ہے کہ کچھ ایسے معیار، ایسی نشانیاں، ایسے خواص مقرر کیے جائیں یا دریافت کیے جائیں جن کے بارے میں یہ کہا جا سکے کہ اگر یہ کسی تحریر میں موجود ہیں تو وہ اچھی شاعری ہے، یا اچھی شاعری نہ سہی، شاعری تو ہے؟ یا اس سوال کو یوں پیش کیا جائے، کیا نثر کی پہچان ممکن ہے؟ کیوں کہ اگر ہم نثر کو پہچاننا سیکھ لیں تو یہ کہہ سکیں گے کہ جس تحریر میں نثر کی خصوصیات نہ ہوں گی، اغلب یہ ہے کہ وہ شعر ہوگی۔
آ کہ لفظوں کی صورت فضاؤں میں مل کر بکھر جائیں ہماک نیا لفظ تخلیق کر جائیں ہم
جانے کتنے لوگ شامل تھے مری تخلیق میںمیں تو بس الفاظ میں تھا شاعری میں کون تھا
پھر میں اپنی اس حسین دنیا کو جس کی تخلیق پر محض دس روپئے صرف ہوئے تھے، تصور میں بسائے بازار چلا گیا۔ میرے سوا انارکلی سے گزرنے والے ہر ذی عزّت آدمی نے گرم سوٹ پہن رکھا تھا۔ لاہور کے ایک لحیم و شحیم جنٹل مین کی گردن نکٹائی اور مکلّف کالر کے سبب میرے چھوٹے بھائی کے پالتو بلی کتے، ٹائیگر کی گردن کی طرح اکڑی ہوئی تھی۔ میں نے ان سوٹوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
تخلیق عظیم ہے کہ خالقانسان جواب چاہتا ہے
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books