aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair
jis ke hote hue hote the zamāne mere
تلاش کا نتیجہ "पर्चा-ए-अबयात"
جادو کی پڑی پرچۂ ابیات تھا اس کامنہ تکیے غزل پڑھتے عجب سحر بیاں تھا
سخن وران کہن اس پہ رشک کرتے ہیںجو درد پرچۂ ابیات پر اترتا ہے
برا ہو بد گمانی کا وہ نامہ غیر کا سمجھاہمارے ہاتھ میں تو پرچۂ اخبار تھا کیا تھا
’’آج ایک صاحب نے گفتگو میں رازی کا ذکر کیا۔ تم جانتے ہو میں تو شاعر آدمی ہوں۔ آخر کیا کیا پڑھوں؟ اس وقت یہ پوچھنے کو تکلیف دی ہے کہ یہ رازی کون صاحب تھے اور ان کا فلسفہ کیا تھا۔‘‘ میں دل ہی دل میں ہنسا کہ دیکھو اللہ والے لوگ ایسے ہوتے ہیں۔ بہرحال تعمیل ارشاد میں میں نے امام فخر الدین رازی اور ان کے مکتب فکر کا سیرحاصل احاطہ کیا اور اجازت چاہی۔ ع...
पर्चा-ए-अबयातپرچۂ ابیات
paper of verses
کچھ نہ کچھ ثاقبؔ نے پیدا کر لیایہ زمیں تو دشمن ابیات تھی
پرچۂ جاں کے ہر شمارے میںواہمہ اشتہار دیتا ہے
یک پرچۂ اشعار سے منہ باندھے سبھوں کےجادو تھا مرے خامے کی گویا کہ زباں میں
کچھ عشق کے نصاب میں کمزور ہم بھی ہیںکچھ پرچۂ سوال بھی آسان چاہیئے
اشکوں کے نشاں پرچۂ سادہ پہ ہیں قاصداب کچھ نہ بیاں کر یہ عبارت ہی بہت ہے
ہم اس نعمت کے منکر ہیں نہ عادینام کی مناسبت سے پائے اگر چار ہوں تو مناسب ہے ورنہ اس سےکم ہوں، تب بھی خلق خدا کے کام بند نہیں ہوتے۔ اسی طرح پایوں کےحجم اور شکل کی بھی تخصیص نہیں۔ انھیں سامنے رکھ کر آپ غبی سے غبی لڑکے کو اقلیدس کی تمام شکلیں سمجھا سکتے ہیں اوراس مہم کو سر کرنے کے بعد آپ کو احساس ہوگا کہ ابھی کچھ شکلیں ایسی رہ گئی ہیں جن کا صرف اقلیدس بلکہ تجریدی مصوری میں بھی کوئی ذکر نہیں۔ دیہات میں ایسے پائےبہت عام ہیں جو آدھے پٹیوں سے نیچے اور آدھے اوپر نکلے ہوتے ہیں۔ ایسی چارپائی کا الٹا سیدھا دریافت کرنےکی آسان ترکیب یہ ہےکہ جس طرف بان صاف ہووہ ہمیشہ ”اُلٹا“ ہوگا۔ راقم الحروف نے ایسےان گھڑپائے دیکھےہین جن کی ساخت میں بڑھئی نے محض یہ اصول مدنظر رکھا ہوگا کہ بسولہ چلائے بغیر پیڑ کو اپنی قدرتی حالت میں جوں کاتوں پٹیوں سے وصل کر دیا جائے۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ ہماری نظر سے خراد کے بنے ایسے سڈول پائے بھی گزرے ہیں جنھیں چوڑی دار پاجامہ پہنانے کو جی چاہتا ہی۔ اس قسم کے پایوں سےنٹو مرحوم کو جو والہانہ عشق رہا ہوگا اس کا اظہار انھوں نے اپنے ایک دوست سے ایک میم کی حسین ٹانگیں دیکھ کر اپنے مخصوص انداز میں کیا۔ کہنےلگے،
.My God! What a lovely home is this home!sweet homeصغراں بی بی کا رنگ ہلدی کی طرح ہے اور ہلدی ٹی بی کے مرض میں بےحد مفید ہے۔ اس کے ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں ہیں۔ مہینے کے آخر میں جب اس کا خاوند اسے پیٹتا ہے تو ان میں سے اکثر ٹوٹ جاتی ہیں۔ چنانچہ اب وہ اس ہر ماہ کے خرچ سے بچنے کے لیے سونے کے موٹے کنگن بنوا رہی ہے۔ کم از کم وہ ٹوٹ تو نہیں سکیں گے۔ صغراں بی بی کے چاروں بچوں کا رنگ بھی زرد ہے اور ہڈیا ں نکلی ہوئی ہیں۔ ڈاکٹر نے کہا ہے انہیں کیلشیم کے ٹیکے لگاؤ۔ ہر روز صبح مکھن، پھل، انڈے، گوشت اور سبزیاں دو۔ شام کو اگر یخنی کا ایک ایک پیالہ مل جائے تو بہت اچھا ہے اور ہاں انہیں جس قدر ممکن ہو گندے کمروں، بد بو دار محلوں اور اندھیری کوٹھریوں سے دور رکھو۔
اور میں چق اٹھا کر تیزی سے اس کے پاس پہنچ گیا۔ عظمی کے ساتھ ایک اور لڑکی بیٹھی تھی جسے میں نے بالکل نہ دیکھا اور جس نے مجھے دیکھ کر منہ جلدی سے دوسری طرف پھیر لیا۔ میں ذرا ٹھٹک گیا۔ اتنے میں بھانجی بھی آ گئی اور اس لڑکی کو مجھ سے پردا کرتے دیکھ کر بول اٹھی، ’’حد ہوگئی۔ بھلا ماموں سے کیا پردا؟‘‘’’ہاں بھئی، بھلا یہ بھی کوئی پردے کا موقع ہے۔‘‘ عظمی نے اس لڑکی کو اپنی طرف کھینچتے ہوئے کہا۔ اس دوران میں وہ لڑکی شرم سے سکڑی جا رہی تھی اور اس کے کانوں کی لویں سرخ ہو رہی تھیں۔ میں عظمی اور بھانجی سے باتیں کر رہا تھا۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے دو تین بار نظریں بچا کر اس لڑکی کو دیکھا۔ باریک ہونٹ، ستواں ناک، جھالریں اور پلکیں اور ہلکا گلابی رنگ۔ چپ چاپ بے زبان جیسے موم بتی۔۔۔ یہ تھی راجدہ۔
ہم اور رسم بندگی آشفتگی افتادگیاحسان ہے کیا کیا ترا اے حسن بے پروا ترا
Devoted to the preservation & promotion of Urdu
A Trilingual Treasure of Urdu Words
Online Treasure of Sufi and Sant Poetry
World of Hindi language and literature
The best way to learn Urdu online
Best of Urdu & Hindi Books