کبالہ
تو یوں ہے کہ وہ ایک فنکار کی باہوں میں مر گئی۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب اس نے ایک نیا حکمنامہ حاصل کرنے کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ میں عدالت کی بجائے عدالت عالیہ کا لفظ استعمال کروں تو زیادہ بہتر ہوگا۔ اسے عدالت عالیہ سے بڑی امیدیں تھیں کہ وہ اس کی بات ضرور سنیں گے اور ایسا قانون ضرور جاری کریں گے جس کے نفاذ کی وہ خواہاں تھی۔ یہ جانے بغیر کہ کیا آزاد اور مہذب معاشروں میں اس طرح کے کسی قانون کی جگہ بھی ہے یا نہیں۔ مجھے حیرت ہوتی تھی کہ آخر وہ اپنے رومانیت زدہ خوابوں کی تکمیل کے لیے قانون کی راہ کیوں اپنانا چاہتی ہے۔ کیا سماج کی نظر میں معزز کہلانا اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر بہت ضروری ہے تو پھر وہ اپنی خواہشات کی تکمیل چور راستوں سے بھی تو کر سکتی ہے، جیسے ازل سے آدم و حوا کی اولاد کرتی آئی ہے اور معزز بھی کہلاتی رہی ہے۔ مگر اسے وہ تمام آرزوئیں قانوناً جائز اور مبنی برحق ہو کر پوری کرنا تھیں تاکہ وہ قابل تقلید بن سکے اور اس کے بعد آنے والیوں کو کوئی مسئلہ نہ رہے۔ اس کی یہ خواہشات کیا تھیں؟ آپ کو ضرور تجسس نے گھیر رکھا ہوگا۔ یہ خواہشات تھیں یا محض کچھ سوال تھے۔ کچھ ایسے سوال جن کے جواب حاصل کرنے کے لیے تجربہ لازم ٹھہرتا ہے۔ میں ان سب سے واقف ہوں۔
میں اس کی مختصر زندگی کی تمام جزئیات سے واقف ہوں۔
اس وقت سے لے کر جب وہ ایک یہودی ربی کی کشتۂ تیر نظر بنی۔۔۔ اس وقت تک جب اس نے ایک فنکار کی باہوں میں آخری ہچکی لی۔
تالے کم رکھو، چابیاں تھوڑی لگانی پڑیں گی۔
اگر تمہارے پاس دو تالے ہیں تو چابیاں بھی دو ہی ہوں گی۔ اگر پہلی بار چابی غلط لگی ہے تو اگلی بار لازماً درست ہی لگے گی۔ کیا اس میں کوئی شک ہے؟
وہ ایک یہودی عالم تھا جو برلن کے ایک کمیون کے اندر تالمود کی تشریحات کر رہا تھا۔ کبالہ کی روشن یا پھر تاریک زندگی کا آغاز (اور یہاں روشن اور تاریک کا فیصلہ قاری پر ہے کہ وہ کیا طے کرتا ہے) اس یہودی عالم کے اونچے قداور دلکش آواز سے ہوا۔ اپنے سنہری بالوں پہ دُھندلے نیلے رنگ کا اسکارف جمائے وہ وہیں بیٹھی بیٹھی تحلیل ہو گئی۔ اس کا ہاتھ میرے ہاتھ کے اوپر تھا۔ میں نے اس کی ہتھیلی کو گیلی ہو کر ٹھنڈی پڑتے محسوس کیا تو مجھے اندازہ ہوا کہ تیر نظر چل چکا ہے اور پھر اس کے بعد کبالہ کی آرزوئیں، خواب یا پھر وہ سوال شروع ہو گئے جو آگے چل کر اس سارے المیے کی بنیاد بنے۔
وہ سوال اس نے عدالت میں اٹھانے سے قبل مجھ سے ہی کیے تھے۔
اس سانحہ میں حکم یعسوف کے ساتھ میں بھی گھن کی طرح پس گئی تھی۔ حکم یعسوف پہ مر مٹنے کا یارا مجھ میں نہ تھا۔ کیونکہ میں ضرورت سے زیادہ خوبصورت اور بااختیار لوگوں سے خوف کھاتی ہوں۔ یہ میرا نفسیاتی مسئلہ ہے۔ عہدہ، طاقت اور حُسن خوف میں مبتلا کرتے ہیں اور جہاں خوف ہو وہاں محبت نہیں ہوتی۔ میں نے حکم یعسوف کی شاندار اور وسیع مردانہ وجاہت کے سامنے خود کو نہایت کمترین محسوس کیا اور گھٹنے ٹیک دیے اور ویسے بھی اگر یہ کام میں کرتی تو پھر یہ کہانی کون لکھتا؟ وقت۔۔۔ تاریخ لکھنے والوں کو اندھے عشق سے محروم رکھتا ہے اور یہ محرومی ہی تو تاریخ لکھواتی ہے۔ اس کی مردانہ لوچ دار آواز، اس کی گہرا تاثر دیتی لبریز آنکھیں اور چوڑے کندھے کسی بھی عورت کے پاتال میں تسمہ ڈال کے باہر کھینچ لیتے تھے۔
جب میں اور کبالہ کمیون سے باہر نکلیں تو وہ لڑ کھڑا رہی تھی۔ اس کا بدن بخار میں تپ رہا تھا اور اس پر کچھ ایسی خماری چھا گئی تھی جیسے بہت کچھ پی کے آئی ہو۔ میں نے اسے سہارا دیا ہوا تھا۔ خیالات میرے دماغ میں کیڑوں کی طرح کلبلا رہے تھے۔ اس سے قبل کہ کوئی سوال میری نوک زباں پر آتا دفعتاً اس نے سوال کر دیا۔ یہ اس کے سوال یافتہ دور کا پہلا سوال تھا۔
کیا یہ محبت ہے جو میں محسوس کر رہی ہوں؟ ہم برلن کے ایک مضافاتی گاؤں کی ایک سرسبز شاداب سڑک کے کنارے ایک ہرے بھرے درخت کے نیچے بیٹھ گئیں۔ ہم دونوں میں سے کسی میں بھی آگے چلنے کی سکت نہ تھی۔ میں نے اس کی طرف دیکھا۔ تھکاوٹ یا پھر شدتِ جذبات سے اس کی ننھی سی ناک سرخ پڑ گئی تھی اور آنکھیں پانیوں سے لبریز تھیں۔
تم کیا محسوس کر رہی ہو۔ میں نے پوچھا۔
اس کی آنکھیں، اس کی بھاری آواز، اس کا ٹھہرا ہوا جاندار لہجہ، میرا جی چاہا کہ میں پوری کی پوری اس کے ساتھ لپٹ جاؤں۔ اس کے اندر سما جاؤں۔ اس کی آواز میری سماعت کو مطلوب ہے۔ میراجی چاہا کہ اس کے حلقوم کے اندر دانت گاڑ کے اس کی بھاری مردانہ آواز کا سارا رس پی جاؤں۔۔۔ کبالہ کی آواز لرز گئی۔
میرا ذہن اس وحشت انگیز خیال کے ساتھ اتفاق نہ کر سکا۔ حلقوم میں دانت گاڑ کر آواز کا رَس پینے سے اس کی کیا مراد تھی۔ کیا یہ شدت کی انتہا نہیں۔ میرا حقیقت پسند دماغ اس خیال کی توجیہہ تلاش کرنے سے قاصر تھا۔ ہو سکتا ہے رومانیت زدہ لوگوں کے پاس اس خیال کو سراہنے کی کوئی وجہ ہو مگر میرے پاس نہیں تھی۔ میں نے اس کی ظاہری حالت اور لرزتی آواز کو اس کی صحت کی خرابی پر محمول کیا۔ وہ اس وقت بخار ذدہ تھی اور اس پر ہیجانی کیفیت طاری تھی۔ میں نے ایک گھوڑا گاڑی کو روکا۔ کبالہ کو اس پر سوار کرایا۔ خود بھی ساتھ بیٹھی اور ٹاؤن واپس چلی گئیں۔
کچھ دن کے وقفے سے ہم دونوں نے پھر کمیون کا دورہ کیا۔ اس امید کے ساتھ کہ اب وہاں حکم یعسوف کے علاوہ کسی دوسرے ربی کا لیکچر ہوگا۔ مگر اسے خوش قسمتی کہیے یا بدبختی کہ سامنے سٹیج پر وہ اپنی وسیع شخصیت کے ساتھ براجمان تھا۔ اس دفعہ بھی وہ اسی محویت اور پاگل پن کے ساتھ یعسوف کو گھورتی رہی۔ واپسی پر جب ہم مضافات کی خوبصورت پتھریلی سڑک پر چل رہی تھیں۔ اس نے ایک نیا سوال تراش لیا۔
کیا میں اس خوبصورت انسان کے بچے کو جنم دے سکتی ہوں؟ اس لمحے اس کا ہاتھ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے اس کے بدن کو بے جان ہو کر ڈوبتے محسوس کیا۔ اس جذبے کا اظہار شاید اس کے لیے بےحد بھاری تھا۔ میرا بدن بھی پسینے میں بھیگ گیا۔ ہم دونوں وہیں بیٹھ گئیں۔ وہ ایک مذہبی عالم ہے اس کے بارے میں ایسا سوچا بھی کیسے جا سکتا ہے؟
بریدہ! سوچو۔ اگر اس شخص کا خلیہ میرے لہو سے آمیز ہو کر ایک انسان کی تشکیل کرے تو کیسا ہوگا۔۔۔ اس کی آواز مدھم سرگوشی جیسی تھی۔
سوچو! وہ بھی اتنی شدت اور طلب میں ٹوٹ کر بچہ میرے بدن کے حوالے کرے۔ جتنی شدت اور طلب میں اس وقت محسوس کر رہی ہوں تو اس بچے کی نفسیات کیسی ہوگی؟ وہ بچہ سیرت و کردار کے کس معراج پر ہوگا؟ میں یہ تجربہ کرنا چاہتی ہوں بریدہ! میرے ہونٹ خشک تھے اور حلق میں کانٹے اگ آئے تھے۔ دن ٹھہرا ہوا تھا۔ ماحول میں امس تھی۔ وجود کے اندر بھی ایسی ہی گرمی ہو اور باہر بھی ویسا ہی موسم ہو تو اندر باہر کے دونوں موسم آمیز ہوکر عجیب سی ہیجانی کیفیت پیدا کرتے ہیں۔ مجھے لگا کہ میرے نتھنے پھڑک رہے ہیں اور میں سسکاری لینے لگی ہوں۔ تب مجھے محسوس ہوا کہ کبالہ جو کچھ بھی محسوس کر رہی ہے وہ اس کے بطون کی کہیں گہرائیوں سے نکل رہا ہے۔ وہ اس معاملے میں بےبس اور لاچار ہو چکی ہے۔ اگر وہ یہ تجربہ کرنا چاہتی ہے تو اس میں کیا حرج ہے؟ مگر یہ فیصلہ میں نہیں کر سکتی تھی یہ سماج کا فیصلہ تھا اور سماج ایسے تجربوں کے درمیان حائل تھا۔
میں کچھ دنوں سے بے سمتی اور الجھاؤ کی شکار ہوں۔ میرے اندر بھی کچھ سوال ہیں اور یہ سوال میری شناخت اور شخصی آزادی کے ہیں۔ برلن یونیورسٹی میں میرے خلائی پراجیکٹ کا آخری دور چل رہا ہے۔ شعبہ کچھ لوگوں کو آسٹریلیا بھیج رہا ہے ان ممکنہ لوگوں میں میں بھی شامل ہوں۔ مجھے وہاں سیٹلائٹ سے ملنے والی تصویروں کے خصوصی تجزیے کی کلاسز لینی ہیں اور یہ کورس تین ہفتوں کا ہے۔ ہم نے تنہائی کے عوض آزادی کا سودا کیا ہے اور یہ سودا کچھ مہنگا بھی نہیں ہے۔ میں شناخت کا سوال اٹھاتی ہوں۔ میں جرمن ہوں۔ یہ میری شناخت ہے اور یہ شناخت مجھے اس پورے عالمی گاؤں کے اندر معتبر بناتی ہے مگر سوال تو وسائل کی فراہمی کا ہے۔ میں یہ سوچے بغیر نہیں رہ سکتی کہ کیا کبالہ سیرت و کردار کی انتہا پرپنپنے والے ایک غیرمعمولی بچے کو اس سماج کے لیے جنم دینا چاہتی ہے جو ایک دوسرے سے وسائل چھین لینے کی تگ و دو میں برسر پیکار ہے۔
دنیا میں کون سا ایسا معاشرہ ہے جو اخلاقی برتری کی بنیاد پر سپر پاور کہلاتا ہو؟ کوئی بھی نہیں۔ بلکہ مہلک اسلحے کی افراط ہی وہ بنیادی شرط ہے جس کی بناء پر سپرپاور کا خطاب ملتا ہے۔ برتری اور کمتری، بلندی اور پستی کے یہ معیارات سرمایے اور موت کے ساتھ جڑے ہیں۔ ایک طرف سرمایہ بڑھتا ہے دوسری طرف حیات گھٹتی ہے۔ جو جسم و جاں کی تگ و دو کرتا ہے اسے اتنا ہی ملتا ہے جس سے اس کی روح اس کے بدن کے ساتھ بنی رہے۔ میں کبالہ کو بھی اسی تناظر میں دیکھنے لگی تھی۔
وہ اس شخص کے قرب کے لیے چوبیس گھنٹے اپنے اعصاب کے ساتھ جنگ لڑتی تھی۔ اس کا لہو اس کے لمس کے لیے ابلتا اور پھر ٹھنڈا پڑتا اور اس جان توڑ اعصابی جنگ کے دوران وہ بدحال ہو جاتی۔ اس کی روح اور اس کے اعصاب اس رزق کے لیے جان توڑ کوشش کر رہے تھے جو کبھی اس کا نصیب نہ بنا اور دوسری طرف وہی شخص اپنی بیوی کو بہت آسانی اور بغیر کسی محنت کے میسر تھا محض اس لیے کہ وہ اس کی مالک تھی۔ وہ عورت جو اس کے حصول کے لیے کوئی روحانی یا جذباتی تگ و دو بھی نہیں کرتی اسے وہ حاصل ہے۔ وہ اسے اپنے بوسے کی حلاوت اور بدن کی حرارت سے فیض یاب کرتا ہے۔ اس کے ساتھ پورے کا پورا ملوث ہے۔ یہ انصاف نہیں تھا۔ کیا کبالہ کی طلب کی شدت اور اعصاب کی شکست و ریخت کوئی معنی نہیں رکھتے تھے۔ محض اس لیے کہ وہ مالک نہیں تھی بلکہ اپنی روح کی مزدور تھی۔ کیا ملکیت کے آگے محنت کی کوئی اوقات نہیں؟
مجھے اپنے الجھن بھرے ان سوالوں کے درمیان ہی آسٹریلیا جانا پڑا۔ میں نہیں جانتی تھی کہ میرے بعد کبالہ ایسی حماقت کرے گی کہ تاریخ بھی جس کو کبھی مٹا نہ پائےگی۔
انہیں دنوں کبالہ نے عدالت عالیہ سے رجوع کیا۔ مدعا یہ تھا کہ ربی یعسوف کو اس کے ساتھ ملاپ کی قانونی اجازت دی جائے تاکہ وہ اس کی اعلانیہ ولدیت کے ساتھ اس کا بچہ پیدا کر سکے۔ عدالت نے اس کی اس درخواست کو مبنی بر حماقت قرار دیا اور اسے سرزنش کی کہ آیندہ وہ حکم یعسوف جیسے کسی معزز ربی کو بدنام کرنے کی سازش نہ کرے اور بہتر ہے کہ کسی نوجوان کے ساتھ شادی کر کے خوش باش عائلی زندگی گزارے۔ ایک باکردار مذہبی عالم کے متعلق ایسے پراگندہ خیال رکھنا ہی اول تو جرم ہے اور اگر اس نے یہ جرم کر ہی لیا تھا تو یوں عدالت میں آ کے اسے ایک معزز عالم کو بدنام نہیں کرنا چاہیے تھا۔ میں جب اپنا پراجیکٹ مکمل کر کے واپس آئی تو کبالہ کی یہ حماقت شہر کا تبصرہ بن چکی تھی۔ میں اگر وہاں ہوتی تو اسے ایسا کوئی قدم نہ اٹھانے دیتی۔ مگر اب تیر چل چکا تھا اور اب ہمیں مقدر کا کھیل دیکھنا تھا۔ یہ دن گھٹن اور بے چینی کے تھے۔ کبالہ کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اس کے مقدمے میں آخر خرابی کیا ہے؟ جس طرح لوگ اپنے باقی حقوق کے لیے عدالتی جنگ لڑتے ہیں اسی طرح اس نے بھی محض اپنے حقوق کے لیے ایک فریاد کی ہے اس میں غلطی کیا ہے اور مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کبالہ کے دماغ کے اس ڈھیلے پرزے تک کیسے پہنچوں جسے کسنے کے بعد اس کا دماغ ٹھیک ہو سکے۔ انہی حبس زدہ دنوں کے دوران کبالہ کو ایک چٹھی موصول ہوئی۔ یہ چٹھی حکم یعسوف کی طرف سے تھی۔ متن یہاں درج کر رہی ہوں۔
خداوند لم یزل کے برگزیدہ بندے موسیٰ پر سلامتی ہو۔
میں تم سے عمر میں دوگنا بڑا ہوں۔ تم معصوم اور پاکیزہ ہو۔ خدا تمہاری پاکیزگی کو سلامت رکھے۔ مجھے معتوب مت کرو۔ ایک مذہبی انسان کا سب سے بڑا امتحان جنس اور عورت ہے۔ تم نے یا میرے رب نے مجھے اس امتحان میں ڈالا ہے۔ تو نکالے گا بھی وہی۔ وہ مجھے استقامت بخشے۔ میں تمہیں ہم کنار کروں۔ تمہارے ابلتے لہو کی حدت کو اپنے بدن کی حرارت سے ٹھنڈا کروں میں ایسا سوچ تو سکتا ہوں مگر کر نہیں سکتا۔ ہم میں سے ہر شخص سماج کے قاعدے قوانین اور اپنے خود ساختہ اصولوں کا قیدی ہے۔ محرومی صرف تمہیں ہی نہیں مجھے بھی ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ مگر اس شرف کی سب سے بھاری قیمت وہ اس جنس کے ضمن میں چکاتا ہے اور کوئی قربانی انسان اور اس کی روح پر اس قدر بھاری نہیں جتنی شہوت کی قربانی بھاری ہے۔ اور یہ قربانی دینے والوں کا درجہ بھی سب سے بلند ہے۔ تم بادشاہ سلیمان کے والد داؤد نبی کے حالات زندگی ضرور پڑھو۔ خدا تم پر اپنا کرم رکھے۔
احقر العباد
یعسوف
کبالہ نے اس رقعے کو کئی بار پڑھا۔ کبھی طیش اور کبھی ملامت کے ساتھ۔ یہی حال میرا تھا۔ چند لائنوں میں سمٹی اس تحریر کے اندر جہاں کبالہ کے لیے سرزنش تھی وہاں اس کے لیے ایک امید کا پیغام بھی تھا کہ حکم یعسوف اور کچھ نہیں تو کم از کم کبالہ کے لیے ہمدردانہ خیالات ضرور رکھتے ہیں اور اس کے لیے کچھ سوچتے بھی ہیں اور کبالہ کی وجہ سے ان کی جو سبکی ہوئی ہے اس کی طرف بھی انہوں نے کوئی اشارہ نہیں کیا تھا۔ میرے دل میں ان کی عظمت کچھ اور بھی پختہ ہو گئی تھی۔
میں نے پکا ارادہ کر لیا تھا کہ کبالہ کو ساتھ لے کر ان سے ملنے ضرور جاؤں گی کہ انہی دنوں حکم یعسوف کا سانحہ ارتحال ہو گیا۔ آہ۔ وہ کتنا شدید حادثہ تھا کہ شدت غم سے پسلیاں ٹوٹنے کو آئیں۔ چھیالیس سال کی عمر کوئی مرنے کی عمر نہیں ہوتی۔ سارے شہر کی توپوں کا رُخ کبالہ کی طرف ہو گیا تھا۔ ہر شخص کا یہی خیال تھا کہ ایک نو عمر جذباتی لڑکی کی احمقانہ محبت نے ایک عالم کی جان لے لی۔ حکم یعسوف کو دل کا دورہ پڑا تھا۔ یہ سچ تھا یا نہیں مگر اب سچ بن گیا تھا۔ یعسوف کا مرنا اسی دن لکھا تھا جس دن انہیں مرنا تھا مگر موت کا الزام کبالہ پر آنا بھی ممکن ہے تقدیر کا ہی کوئی حصہ ہو۔ اب تک تو میں ان باتوں کو نہیں مانتی تھی مگر اب مجھے بھی لگنے لگا تھا کہ کچھ واقعات کی تشکیل میں انسانوں کا کوئی عمل دخل یا ارادہ نہیں ہوتا۔ وہ محض طے ہو چکے کچھ واقعات کا حصہ بنا دیے جاتے ہیں۔ جیسے کبالہ بن گئی تھی، جیسے حکم یعسوف بن گئے تھے، یا پھر جیسے کوئی اور بھی بننے والا تھا۔
حکم یعسوف نے مرنے سے کچھ عرصہ قبل کبالہ کو جو خط لکھا تھا اس میں ایک پیغام یا حکم بھی تھا کہ داود نبی کے حالاتِ زندگی کو ضرور پڑھو اور یہی حکم کبالہ کی زندگی میں ایک نیا موڑ لے آیا۔ میں بھی اپنے خلائی مہارت کے طویل اور مہنگے کورس کو یکسر بھلا کر اس کے ساتھ لگ گئی تھی۔ ہم نے مقامی لائبریری سے انبیاء کے حالاتِ زندگی کے حوالے سے کچھ کتابیں ڈھونڈ نکالیں اور انہیں اپنے نام سے جاری کرا کے ساتھ لے آئیں۔ داؤد نبی کے حالات زندگی میں ایسا کیا تھا کہ جس کی طرف حکم یعسوف نے اشارہ کیا تھا۔ راتیں خنک تھیں مگر ایک شاندار آدمی کی یاد میں غمناک بھی تھیں۔ وہ آدمی جس کا مزار صرف کبالہ ہی نہیں بلکہ میرے دل میں بھی بن گیا تھا۔ ان تاریک خنک راتوں میں ہم نے انبیاء کے حالات زندگی کا مطالعہ جاری رکھا کبالہ کی آنکھیں پہلے سے بھی بڑی اور روشن ہو گئی تھیں جیسے اس کے اندر کوئی لائٹ ہاؤس اگ آیا ہو اور پھر ایک رات مطالعے کے دوران حضرت داؤد کے حالاتِ زندگی پڑھتے ہوئے ایک پیراگراف ہمارے سامنے آ گیا اور یوں ابھرا گویا ہائی لائٹر سے اجالا گیا ہو۔ متن یہاں درج کر رہی ہوں۔
’’اور پھر ایک شب داؤد نبی بہت بے قرار تھے۔ مشیر خاص نے بے چینی کو بھانپ لیا اور دست بستہ عرض کی کہ کیا حضور کو کسی بیوی یا کسی خاص حرم کی ضرورت ہے؟ مگر پیغمبر نے کوئی جواب نہ دیا۔ مشیر خاص نے دوبارہ عرض گذاری کہ حضور سبھی بیویاں نہا دھو کر تیار ہیں۔ مگر پیغمبر نے مشیر خاص کو جانے کا اشارہ کر دیا۔ رات ڈھل رہی تھی اور داؤد نبی دریچے میں کھڑے سامنے شہر کو دیکھ رہے تھے جب ان کے مشیر خاص اکتی فل کی پوتی بنتِ صبا غسل ضروری کرنے کنیز کے ہمراہ چھت پر آئی اور اس نے لباس الگ کیا اور غسل شروع کیا۔ داؤد نے بنتِ صبا کا نوخیز حسن ملاحظہ کیا اور پھر اسے اپنے محل میں بلوا کر اپنے وصل سے شاد کام کیا۔ اس پر خدا ناراض ہوا اور جس ہیکل کا خواب داؤد نبی نے دیکھا تھا اس کو ان کے بیٹے شاہ سلیمان نے مکمل کیا۔‘‘
وہاں خواب ٹوٹنے کی بات تھی مگر یہاں تو زندگی ہی ٹوٹ گئی تھی اور خواب بھی کہاں بچے تھے۔ دکھ کی بات تو یہ تھی کہ کوئی وصل بھی نہیں ہوا، کچھ بھی نہ ہوا اور سب کچھ ہو گیا۔ اس نے ساری خلق کے طعنے سنے اور ملامت اٹھائی اور تشنہ کام بھی رہی۔ کیا ہی اچھا ہوتا وہ بھی آدم کی دوسری بیٹیوں کی طرح چور راستہ اپناتی، یہ ذلت تو نہ سہنی پڑتی، یہ محرومی کا دکھ تو نہ ہوتا۔ آہ کتنی عظیم، کتنی ارفع، کتنی شاندار تھی وہ اور کتنی معتوب ہو گئی۔ اس کی لاحاصل محبت، اس کا ضبط، اس کی تشنہ کامی اور پھر اس پر ہونے والی ملامت کی میں گواہ ہوں۔ کیا اتنے بڑے امتحان سے گزرنے والے آدمی کی اصل شناخت کے لیے ایک گواہ کا ہونا کافی ہے؟ وہ ساری رات رویا کرتی۔ کبھی کبھی مجھے یوں لگتا کہ اس کی روح بڑے سمندر میں ڈھل گئی ہے جو ہر وقت بہتا رہتا ہے۔ وہ قطار اندر قطار آنسو بہاتی۔ اس آنسو بہانے میں بھی ایک لذت ہے۔ مجھے اس لذت کا تجربہ نہیں مگر میں نے اسے کبالہ کے بدن سے پھوٹتے دیکھا تھا۔ ہم ساتھ رہا کرتیں وہ رات کو سوتے وقت میری طرف پیٹھ پھیر لیتی اور پھر اس کا بدن ہولے ہولے لرزنے لگتا۔ چند لمحوں کی محبت، جس میں لمس کو پانے کی خواہش، وسیع سینے میں سما جانے کی آرزو اور جانے کیا کیا تھا۔
کیا حرج تھا اگر اس لرزتے بدن کو اس خاک ہو چکے جسم سے کچھ تھوڑا سا اثاثہ مل جاتا؟ کیا تھا جو اس مضطرب روح کو اس گمشدہ روح کی کچھ پرچھائیں مل جاتی؟ اتنی شدید طلب القاء کر کے فاصلے اتنے زیادہ کیوں بڑھا دیے گئے؟
آخر اس سے کیا مقصود تھا؟
کبالہ کی برداشت کا درجہ بڑھتا جا رہا تھا اور میرا گھٹتا جا رہا تھا۔ پتا نہیں کیوں مجھے یہ وہم لاحق ہو گیا تھا کہ برداشت کا درجہ بڑھنے سے آزمائش کے سلسلے دراز ہوتے چلے جاتے ہیں۔ وہ دن کو خاموش اور پرسکون رہتی تھی اور رات کو متلاطم، یہ کیفیت اس پر ٹھہر گئی تھی۔ اس جمود کو توڑنے کے لیے میں نے اس کے ساتھ جا کر فلم دیکھنے کا ارادہ کیا۔ مجھے کیا معلوم تھا کہ تقدیر ایک بار پھر اس کی گھات میں ہے۔ اتفاق سے یہ فلم شاہ سلیمان کے حالات زندگی پر مبنی تھی اور اس فلم میں مرکزی کردار ادا کر رہا تھا ’’معارب‘‘
معارب شکل سے یہودی لگتا تھا، نظریاتی حوالے سے ملحد اور جنسی لحاظ سے عرب۔ وہی لوچ دار مردانہ آواز، گہرا تاثر دیتی لبریز آنکھیں اور چوڑے کندھے، اس کو کوئی مذہبی خطبہ سننے سے زیادہ کوئی بھی اچھا سا کھانا پیٹ بھر کر کھانے سے دلچسپی تھی۔ وہ بہت سلیقے اور نزاکت سے کھاتا اور یہ نفاست اس کے قدرتی مزاج کا حصہ نہ تھی بلکہ اسے اس کے پیشے نے سکھائی تھی۔ تصنع اور بناوٹ، ہر معاملے میں اور ہر شخص کے سامنے بنے رہو اور تہذیب کا مظاہرہ کرو۔ کون جانے یہ لوگ اپنی تنہایوں میں کیا اور کیسے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ہم جیسے عام لوگ تو انہیں صرف پردہ سکرین پر ہی دیکھتے ہیں۔
وہی اونچا قد، گہرا تاثر دیتی لبریز آنکھیں اور چوڑے کندھے، یہ غلطی تھی یا تقدیر کا ٹکراؤ، میں پھر کوئی فیصلہ کرنے سے قاصر ہوں۔ ہم ہال کے اندر جا کر کرسیوں پر بیٹھ گئیں۔ وہ تب بھی پرسکون اور خاموش دکھائی دے رہی تھی۔ میرا ذہن دو طرف بٹ گیا۔ دماغ کی ایک رو میرے اپنے اس ہاتھ کی طرف تھی جس کے اوپر کبالہ کا ہاتھ رکھا تھا اور دوسری رو سکرین پر تھی۔ تقدیر کے اس کھیل کا تیسرا کونا ظہور پذیر ہو رہا تھا۔ اچانک کبالہ کا ہاتھ لرزا۔ شاہ سلیمان سامنے کھڑے تھے۔ وجاہت، تمکنت، وقار اور طنطنے کا پیکر اعظم، ہاتھ میں تلوار لیے جنات کو تہہ تیغ کرتے سالار اعظم۔
عقل غیاب جستجو، عشق حضور و اضطراب
فلم کے اختتام سے پہلے ہی وہ بے ہوش ہو چکی تھی۔
کارڈیالوجی کیئر یونٹ میں بےہوش پڑی کبالہ کی زبان پر ایک ہی جملہ رواں تھا ’’مجھے شاہ سلیمان سے ملنا ہے۔‘‘
معارب کے متعلق معلومات لینے میں مجھے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ وہ ترکی میں پیدا ہوا اور وہاں کے نائٹ کلبوں کی ایک مشہور چین کے مالک کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کی ماں جرمن تھی۔ ترکی اور جرمنی اس کے مشترکہ ٹھکانے تھے۔ معارب کو ڈھونڈنے اور رابطہ کرنے میں کئی مہینے لگ گئے۔ اس سے آگے کی کہانی ’’معارب‘‘ کی زبانی سنیے۔
مجھے میرے اسسٹنٹ نے برلن سے آنے والے ایک پیغام کی بابت بتایا جو بار بار آ رہا تھا کہ وہاں کے معروف کارڈیالوجی سنٹر میں زیر علاج ایک مریضہ مجھ سے ملنا چاہتی ہے۔ یہ پیغام ہسپتال کی انتظامیہ اور وہاں کے ایک معروف سماجی ادارے کی طرف سے آ رہا تھا جو ایس۔ او۔ ایس کے ساتھ کام کرتا ہے۔ میں اس طرح کے پیغامات کا عادی ہوں۔ ہماری زندگیوں میں اس طرح کے واقعات چلتے رہتے ہیں۔ اس لیے زیادہ سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ مگر اس پیغام میں کچھ الگ تھا اور دوسری بات یہ کہ اس سنجیدہ نوعیت کے پیغام کو دو حساس ادارے نشر کر رہے تھے۔ لہٰذا میں نے اپنی مصروفیت میں سے اس کام کے لیے ایک دن مختص کیا اور پیغام بھجوا دیا کہ میں فرینکفرٹ میں اپنے پرائیویٹ گھر کے اندر ایک دن کے لیے فارغ ہوں اور اس مریضہ سے ملنے کے لیے تیار ہوں۔ اچھا کھانا اور حسین عورتیں میرا شوق تھیں مگر اب نہیں ہیں۔ یہ تبدیلی مجھ میں اس مریضہ سے ملنے کے بعد آئی ہے۔
میں بےدلی کے ساتھ اس کا منتظر تھا جیسے یہ بھی کوئی روز مرہ کا کام ہو اور اسے ختم کرنے کے بعد ذاتی تفریح کے لیے کہیں جانا ہو۔ ابھی میں اسی کیفیت میں تھا کہ اسسٹنٹ نے مجھے اس کے آنے کی اطلاع دی۔ میں کمرہ ملاقات کی طرف بڑھا۔ یہ ملاقات خفیہ تھی مگر اس کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ ہسپتال انتظامیہ، سماجی ادارے یا اس کے خاندان کے لوگ سبھی کے چہروں پہ سنجیدگی اور حیرت تھی۔
میں نے اسے دیکھا، وہ دراز قد، شہد رنگ بالوں اور کشادہ روشن آنکھوں والی حسین لڑکی تھی۔ اس کے بدن پر سیاہ لبادہ تھا مگر اس کے کندھے عریاں تھے۔ اس نے سر کو ہلکے آسمانی رنگ کے اسکارف سے ڈھک رکھا تھا۔ مگر اسکارف کے نیچے سے گھنے لمبے بالوں کا آبشار بہہ کر دور نیچے تک چلا گیا تھا۔ وہ کھڑی ہو گئی تھی اور ٹکٹکی باندھے مجھے دیکھ رہی تھی۔ میری کیفیت بھی کچھ مختلف نہیں تھی میں بھی کچھ ایسا ہی محسوس کر رہا تھا۔ پھر وہ ایک دم دیوار کی طرف مڑ گئی۔ گھنے لمبے شہد رنگ بالوں کا آبشار اب میری نظروں کے سامنے تھا کہ وہ چیخ پڑی۔
نہیں۔ نہیں۔ یہ وہ نہیں ہیں یہ وہ نہیں ہیں۔ وہ انہیں الفاظ کو دوہرا رہی تھی۔ کمرے میں موجود سب لوگ حیرت زدہ تھے کہ اسے اچانک ہوا کیا تھا۔ سب حیران تھے کہ دفعتاً اس کی دوست جو اس کی محرم راز بھی تھی میرے قریب آئی اور مجھے کسی دوسرے کمرے میں جانے کی درخواست کی۔ میں معذرت خواہ ہوں سر! کیا آپ اس کی زندگی کی خاطر ایک بار بادشاہ سلیمان کے گیٹ اپ میں اس کے سامنے آئیں گے؟ میں حیران رہ گیا۔ اچھا تو یہ بات تھی۔ وہ معارب سے نہیں شاہ سلیمان سے ملنا چاہتی ہے۔ کچھ سوچنے کے بعد میں نے ہاں کہہ دی۔ فلم کے پروڈیوسر سے رابطہ کرنے کاسٹیوم منگوانے اور تیار ہونے میں خاصا وقت لگا مگر یہ میری زندگی کا سب سے انوکھا اور اچھوتا تجربہ تھا۔ آج میں لاکھوں، کروڑوں ناظرین کے لیے نہیں بلکہ صرف ایک، صرف اور صرف ایک ہستی کی خاطر تیار ہو رہا تھا۔ یہ چیز اور یہ احساس میرے اندر عجیب طلاطم پیدا کر رہے تھے۔ میں نے اپنی روح کے اندر ایسی سرشاری اور کھلبلی اس سے قبل کسی بھی فلم کے سین کے لیے تیار ہوتے وقت کبھی محسوس نہیں کی تھی۔ مگر آج کچھ خاص تھا۔ پیسے یا شہرت کی خاطر نہیں بلکہ ایک زندگی کی خاطر، کروڑوں لوگوں کے لیے نہیں بلکہ صرف ایک لڑکی کی خاطر۔ آہ۔
میں کیسے بیان کروں؟ جیسے میں ایک دولہا ہوں اور دولہن بیاہنے جا رہا ہوں اور پھر میں شاہ سلیمان کے گیٹ اپ میں تیار تھا۔
میں نے قدم اس کمرے کی طرف بڑھائے جس کے اندر وہ تھی تو مجھے لگا کہ میرا دل اچھل کر بدن سے باہر آ جائے گا۔ تیز شور مچاتی دھک دھک سے بچنے کے لیے میں نے قدم مضبوطی سے جما لیے اور پھر اس کی طرف دیکھا۔ وہ کسی عامل کے معمول کی طرح اٹھی۔ بہت آہستہ سے چلتی ہوئی میری طرف بڑھی۔ اس کاروئی کے گالے ایسا نرم و نازک بدن میری بانہوں میں تھا۔ وہ اپنے ہونٹوں اور سانسوں سے میری گردن، رخساروں اور سینے کے بوسے لے رہی تھی۔ یکدم میں نے اس کے بدن کو ڈھیلا پڑتے محسوس کیا۔ میرے دل کی دھڑکن بےحد تیز ہو گئی تھی۔ تاب نہ لاکر میں نے ایک جھٹکے سے اسے بازوؤں سے پکڑ کر خود سے الگ کیا۔ میں اس کے ایمان شکن ہونٹوں کا بوسہ لینا چاہتا تھا۔
جونہی میرے ہونٹ اس کی ناک کے قریب گئے مجھے لگا کہ اس کی سانس رک گئی ہے۔ آہ۔ بوسہ ادھورا ہی رہا۔ وہ جا چکی تھی۔ وہ میرے بازوؤں میں جھول گئی تھی۔
اچھا کھانا اور حسین عورتیں میرا شوق تھیں مگر اب نہیں ہیں۔
میرے ایک دوست کا کہنا ہے کہ مجھ پر ’’کبالہ‘‘ کا اثر ہے۔ (یاد رہے کہ یہودی مذہب میں کبالہ ایک کالے جادو کا نام ہے) میرا یہ دوست میری زندگی میں در آنے والے اس حادثے سے واقف نہیں۔ میں اسے بتانا بھی نہیں چاہتا کہ وہ ایک ادھورا بوسہ ہی دراصل میری اب تک کی ساری زندگی کی ذاتی شے ہے۔ ورنہ تو کتنے ہی بو سے ہیں جنہیں کروڑوں ناظرین دیکھ چکے ہیں۔ وہ تو صرف اپنی کہتا ہے اور میں اس کی بات کو سچ مانتا ہوں کہ وہ بھی جھوٹ نہیں بولتا۔
وہ نہیں جانتا کہ اس کا نام بھی ’’کبالہ‘‘ تھا۔
اور میں ایک ادھورے بوسے کے لامختتم دائرے میں ٹھہر گیا ہوں۔
’’کبالہ‘‘ بھی تو یہی ہے۔ ایک لامختتم دائرے کا پرسکون ٹھہراؤ۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.