سویٹ ہارٹ
(دل جیسی اک بوند کی کیا اوقات سمندر بیچ)
’’اچھا سویٹ ہارٹ اب میں اسٹڈی کرنے جا رہا ہوں۔ Please Don't Disturb‘‘
یہ کہتے ہوئے اس نے ہونٹ چومے اور اس کے روم روم میں اپنا وجود چھوڑ کر شب خوابی کا لباس پہنتے ہی کمرے سے باہر چلا گیا اور کمرے کا دروازہ بند کر دیا۔
اسٹڈی روم تنہا بیڈروز کی طرح اس کا منتظر تھا۔ اس نے لیمپ لائٹ آن کی، کمرے کا دروازہ بند کیا اور آرام سے ٹیک لگاکر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ پھر بیٹھے بیٹھے خود ہی مسکرانے لگا۔۔۔
’’یہ عورتیں بھی کتنی بے وقوف ہوتی ہیں، ان کے جذبوں پر نہ تعلیم کا اثر ہوتا ہے، نہ حالات کا۔ اگر ہوتا ہے تو زبان کا۔۔۔ چاہے مرد کی زبان کتنا ہی جھوٹ بولتی ہو۔۔۔‘‘
مسکراہٹ مزید پھیلی تو اس کے گالوں پر ستارے ٹمٹمانے لگے۔۔۔
اس نے کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگا۔ لیکن اس کے پاس پڑھنے کو کتاب سے زیادہ دلچسپ چیز تھی۔ سو اس نے کتاب بند کرکے رکھ دی ا ور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے موبائل نکالا۔ ہاں جان۔۔۔ سویٹ ہارٹ۔ کیسی ہو؟
ابھی وہ سچ مچ اس کی جان تھی۔ کیونکہ اس نے ابھی تک اس کی جان نہیں نکالی تھی۔ وہ خود بھی جانتا تھا کہ مرد کی جان عورت میں تب تک ہوتی ہے جب تک وہ اسے تسخیر نہیں کر لیتا۔
’’میں نے تمہیں کہا تھا نا، اتنے فون نہ کیا کرو۔ یہ اچھا نہیں ہے، مجھے تمہاری عادت ہوگئی تو؟محبت ہو گئی تو؟‘‘
’’اوہ ہو۔۔۔ یار تم بھی ناں۔۔۔ مستقبل کے خوف میں حال خراب کرنے والی بات ہے۔۔۔ اچھا بس مَیں اپنے لیے کرتا ہوں فون۔ سمجھیں۔۔۔ تم۔‘‘
اور وہ اسے یہ تک نہ کہہ سکی ’’کتنے خود غرض ہو۔۔۔‘‘
وہ فقط مسکرا کر دیکھتی اور خاموش ہو جاتی۔
’’تمہیں پتا ہے جان تم بہت خوبصورت ہو۔ بہت پیاری سی، جب مَیں نے تمہیں پہلی بار دیکھا تھاناں۔۔۔
لیکن پتا نہیں۔۔۔ خوبصورت لڑکیوں کے مقدر کیوں اچھے نہیں ہوتے۔‘‘
’’اچھا پلیز بس کرو، سب ہی مرد ہر عورت کی تعریف کرتے ہیں، یونیورسٹی میں ہمارے ایک پروفیسر تو کہا کرتے تھے، عورت بد صورت ہوتی ہی نہیں۔ بس کچھ زیادہ خوبصورت ہوتی ہیں۔ کچھ کم۔۔۔
چھوڑو۔۔۔ میرے ساتھ یہ دوسرے مردوں کی باتیں نہ کیا کرو۔ مجھے اچھا نہیں لگتا، صرف اپنی باتیں کیا کرو۔۔۔ صرف اپنی۔۔۔‘‘
وہ جانتا تھا کہ عورت کو صرف باتوں سے تسخیر و مسمار کیا جا سکتا ہے اور باتیں۔۔۔ وہ تو گفتگو کے تاج محل تعمیر کر سکتا تھا۔ ماہر آرکیٹیکٹ تھا۔
’’پتا ہے اعیان میرا دل کرتا ہے کہ مَیں ہواؤں میں اڑوں، باغوں میں تتلیوں کی طرح پھولوں پہ رقص کروں، بارشوں میں نہاؤں۔۔۔‘‘
’’اچھا یہ بتاؤ تمہارا دل کرتا ہے کہ تم آزاد دنیا میں گھومو۔۔۔ ایک مرتبہ مَیں ایوبیا سے بھی کہیں آگے نکل گیا۔ وہاں مَیں نے ایک کپل دیکھا دونوں نے جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔ لڑکا لڑکی کی گود میں سر رکھے لیٹا تھا۔۔۔ لڑکی ذرا جھکتی تو اس کے بال لڑکے کے چہرے کو چھو جاتے تھے۔ مجھے بہت ہی اچھا لگا۔
میری تو خواہش ہی رہی۔۔۔ بہرحال۔۔۔ کبھی تم نے ایسا کچھ دیکھا۔۔۔‘‘
’’پلیز نہ کیا کرو ایسی باتیں، تم جانتے ہو، میری حساسیت۔۔۔ میرا رومان۔۔۔ رو پڑوں گی مَیں۔۔۔ حقیقت تو نہیں البتہ ایک پینٹنگ دیکھی تھی کہ ایک لڑکی دیوان پر ٹیک لگائے سستا رہی ہے اور ایک لڑکا اسے نرمی سے چوم رہا تھا۔ کاش مَیں وہ تصویر اپنے بیڈ روم میں لگا سکتی۔۔۔‘‘
’’تم میں جادو ہے جان۔۔۔ تم سے نجانے کیوں بات کرتے ہی میں ہَوٹ ہو جاتا ہوں۔ مجھ سے برداشت ہی نہیں ہوتا۔ مَیں سوچتا ہوں اگر تم میری بیوی ہوتیں تو مجھے کیسے برداشت کرتیں، اتنے ہوٹ مین کو۔۔۔ اچھا کپڑے اتار دو۔۔۔ میں اپنے ہونٹوں سے تمہارے بدن کو محسوس کرنا چاہتا ہوں۔۔۔‘‘
اس کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے۔ کبھی تو وہ رو پڑتی کہ اعیان کو اسے باقاعدہ تسلیاں دینا پڑتیں مگر پھر بھی اعیان اس کے دل کے تار بار بار بجادیتا اور وہ تڑپ تڑپ کر بجنے لگتی۔۔۔ کہ آخر اس کا سارا وجود لاحاصل عشق میں گرفتار ہوکر ناسورِ جاں بن گیا۔
’’اعیان پلیز ایسی باتیں نہ کیا کرو‘‘ اس کی آواز بھرا گئی۔
’’اچھا آئندہ کوشش کروں گا نہ کروں۔ اچھا جان سوتا ہوں، مجھے صبح دفتر بھی جانا ہے‘‘
اور flying kiss کی آواز نے اسے یک دم لرزا اور تھر تھرا دیا۔
’’چلو اب مجھے بھی پاری کر دو ناں۔۔۔‘‘
’’نہیں اعیان تم نے ایک دن چلے ہی جانا ہے۔ پھر کس کو کروں گی۔ تب مرا دل کرے گا تو کیا کروں گی۔‘‘
وہ یہ کہتے ہوئے روپڑی۔
’’اچھا چلو اب اس لمحے کو خراب نہ کرو۔ آنسو صاف کرو، ورنہ میں بھی روپڑوں گا، پاری کرو نا‘‘
اس نے اتنے پیار اور مان سے کہا کہ سونیا نے روتے روتے kiss کی اور فون بند کر دیا۔
اعیان اٹھا اپنے کمرے میں گیا اور اپنی بیوی سے لپٹ کر سو گیا اور وہ بہت دیر تک نجانے کس بات کو یاد کرکے روتی رہی۔۔۔
یہ آنکھ مچولی روز ہوتی رہی اور روز فون نہ کرنے کی تکرار، مگر روز ہی سونیا کو فون کا انتظار رہتا اور اعیان کو فون کرنے کا۔۔۔ کبھی کبھی دن طویل لگتے۔۔۔ تو کبھی وقت تھما تھما سا لگتا مگر۔۔۔
’’سویٹ ہارٹ۔۔۔ ڈارلنگ۔۔۔ آج مَیں نے تمہیں بہت مس کیا۔۔۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘ یہ کہتے ہوئے اس کی آواز بھر آئی۔
’’میرا دل کرتا ہے میں تمہیں چھولوں۔۔۔ کیا تم مجھے چھونے دوگی؟‘‘
’’نہیں‘‘
’’مگر کیوں؟ مَیں ریپ نہیں کروں گا تمہارا۔۔۔ میں ایسا بندہ نہیں ہوں۔۔۔ اگر تم مجھے آج سے کچھ سال پہلے ملی ہوتیں ناں تو آج میری بیوی ہوتیں۔۔۔ I am one woman person تم سے جو تعلق ہے بس پہلا اور آخری ہے۔ اس کے بعد کسی سے نہیں ہو سکتا۔‘‘
یہ سنتے ہی وہ رونے لگی اور اعیان بولتا ہی چلا گیا۔
’’اور پتا ہے ہم دور پہاڑوں میں تنہا نکل جاتے، ہمارے کمرے سے باہر آسمان ہوتا یا پہاڑ اور اندر ہم دونوں۔۔۔ میری اور تمہاری پسند یکجا ہو جاتی ریشم کا بستر اور آف وائٹ لائٹس۔۔۔ اور اچانک میری آنکھ کھلتی تو مَیں دیکھتا کہ تم پلنگ پہ نہیں ہو، اضطراب میں ادھر ادھر دیکھتا، باہر آتا تو تم سلیپنگ سوٹ میں ملبوس آسمان کے تاروں سے باتیں کر رہی ہوتیں، میں تمہیں گود میں اٹھاتا۔۔۔ اور کمرے میں لے جاتا اور کمرہ لاک کر لیتا۔۔۔
ہے ناں۔۔۔ اور اس کے بعد میری آنکھ کھل جاتی۔۔۔ آہ۔۔۔ چھوڑو یار ابھی تم رو پڑو گی۔۔۔ کہ ایسی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔ نہیں کرتا یار۔۔۔ تم بھی تو کچھ بولو۔۔۔‘‘
’’کیا بولوں؟ کچھ بچا ہی نہیں بولنے کو۔‘‘ اس نے ضبط کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا اگر کوئی تمہیں چھونا چاہے تو اس کی کیا شرط ہوگی؟‘‘
’’نکاح‘‘
’’نکاح۔۔۔! میں کروں گا تم سے نکاح۔۔۔‘‘ مگر لہجے کا کشکول نفی کا طلبگار تھا۔
’’مگر مَیں نہیں کروں گی۔‘‘
’’لیکن مَیں کروں گا۔‘‘
اس نے اصرار کیا مگر اس کی آواز میں روح ہی نہیں تھی۔ اگر روح ہوتی تو وہ سونیا کی جان کی طرح اس کی روح بھی قبض کر لیتا۔
’’نہیں میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔‘‘
’’اچھا ہم ہمیشہ دوست تو رہیں گے نا۔ ہمارا تعلق کبھی ختم نہیں ہوگا۔‘‘
’’پتا نہیں اعیان، میں ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتی۔۔۔ دوستی ہے یہ۔۔۔؟ اس کے دل کو جھٹکا سا لگا۔
’’ہاں ہاں کیونکہ تمہاری شادی ہو جائے گی اور تم۔۔۔‘‘ اعیان نے جھلا کر کہا۔
’’پلیز‘‘
سونیا نے روتے ہوئے فون بند کر دیا۔ اسے یوں لگا جیسے کوئی اس کے جذبوں کی توہین کر رہا ہے۔ کہ اس کے لہجے میں تو زمانے سے ٹکرانے کی طاقت ہی نہیں تھی۔ جو طاقت اس کی باتوں میں تھی اس کا لہجہ اس قوت سے خالی تھا۔
کچھ دن بعد اس کا تبادلہ کسی اور محکمے میں ہو گیا اور فون کم ہوتے ہوتے ختم ہونے لگے۔ وہ سم جو سونیا کے لیے لی تھی وہ بند رہنے لگی۔ ریگولر نمبرپہ سونیا کال کرتی نہیں تھی۔ اب صرف دفتر کا نمبر تھا جس پہ صرف اعیان کی آواز سن سکتی تھی۔
مگر اعیان کے پاس اب آواز سنانے کے لیے بھی وقت نہیں تھا۔ لیکن پھر بھی ایک دن اس کا مختصر سا فون آیا اور اس نے وسیع و عریض باتیں کر دیں۔
’’جان۔۔۔ کیسی ہو۔۔۔؟ سناؤ۔۔۔! ہاں جان علی سے میری بات ہوئی تھی۔ میں نے اسے بتایا ہے کہ تمہیں اس کی ڈاکومینٹری بہت اچھی لگی۔‘‘
ہاں اس کا ای میل ملا تھا۔‘‘ اس نے بے دلی سے جواب دیا۔
’’جان من یہ مت سمجھنا کہ مَیں بھول گیا۔ یار تمہیں پتا نہیں یہاں کتنی مصروفیت ہوتی ہے۔ میں تمہیں بہت مس کرتا ہوں۔۔۔ سویٹ ہارٹ اب تم اپنے اردگرد خوشیاں تلاش کرو۔۔۔ آئی مس یو۔۔۔‘‘
یہ کہتے ہی اس نے فون بند کر دیا۔ اس کے لہجے میں ہلکا سا مکر تھا۔ وہ تڑپ اٹھی۔
میں نے کون سی خوشیاں مانگ لی تھیں اعیان تم سے۔۔۔ سچے جذبوں کی بھیک تک تو مانگی نہیں۔۔۔ کبھی تمہارے لفظوں و جملوں کے نشتروں تک کی شکایت تو کی نہیں تم سے۔۔۔ اور تم کہہ رہے ہو۔۔۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔
وہ جو چشم تصّور میں اس کے سینے پر سر رکھ کر سونے کی عادی ہو گئی تھی، اسے معلوم ہوا کہ چند ماہ سے اسے چشمِ تصّور میں بھی اس کے سینے پر جگہ کیوں نہیں مل رہی تھی۔
وہ کھلی کھلی آنکھیں جو باتوں سے اس کا دیدار کرتی تھیں رو رو کر مرجھا گئیں جیسے چاند کے گرد ہالے پڑے ہوتے ہیں۔
اور عشق ظالم نے تڑپ کر ایک رات اعیان کے اس نمبر پر اچانک کال کر دی جو اس کا تھا۔ فون مصروف تھا۔ ایک دو مرتبہ پہلے کی طرح آج بھی مصروف۔۔۔
اس کی تڑپ ٹیسوں میں بدل گئی اور اس نے سیل ہی بند کر دیا اور بستر کی آغوش میں اپنے دکھ بانٹنے لگی۔ حقیقتاً آج بہت کچھ کھو گیا تھا۔ اس کا اپنا وجود بھی۔۔۔
اعیان نے چند ہی لمحوں میں سونیا کو کال بیک کیا مگر اس کا فون اس کے مقدر کی طرح سویا ہوا تھا۔
اسے ذرا بوکھلاہٹ ہوئی۔
مجھے ہمیشہ کی طرح سم چینج کر لینی چاہیے تھی۔ برا وقت بتا کے تھوڑی آتا ہے۔
آہ، افسوس میری و جہ سے کسی کو تکلیف ہوئی، اف گاڈ۔۔۔ میری و جہ سے کسی کا دل دکھا۔ لیکن چند ساعتوں میں وہ پرسکون ہو گیا۔
مسکرایا اور اسی نمبر پر کال کردی۔
’’اور سناؤ سویٹ ہارٹ۔۔۔ آئی مس یو۔۔۔ تم میں جادو ہے جان۔۔۔‘‘
وہ سلگنے لگی تو اعیان اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ اس کا دل کہیں تھا دماغ کہیں۔۔۔
ڈیئر اعیان۔۔۔ ریلیکس۔۔۔ سچ یہی ہے۔۔۔ جو ہوا سو ہوا۔۔۔ اور ایسی خوبصورت لڑکیاں تو دنیا اور زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ یوں بھی یار علی کی اور اس کی ہیلو ہائے ہو گئی ہے اور یہ مجبور اور بے بس لڑکیاں۔۔۔ تو باتوں کی بانہوں میں جلد آ جاتی ہیں۔ ویسے بھی اچھی لڑکی ہے۔ خوبصورت بھی ہے۔ علی سب سنبھال لے گا۔ جنید نے یہ حسین تحفہ مجھے دیا تھا اور آج یہ خوبصورت گفٹ میں علی کو دے رہا ہوں۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.