Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آبیاژہ

غضنفر

آبیاژہ

غضنفر

MORE BYغضنفر

    تگ و دو کے بعد بھی کنواں جب پیاسوں کے ہاتھ سے نکل گیا تو کسی گہرائی سے زور دار قہقہے بلند ہوئے۔ جیسے کوئی اپنی طاقت اور دوسرے کی ہزیمت کا احساس دلا رہا ہو۔

    پیاس، یاس اور شکست کے احساس نے پیاسوں کو ایسا مضطرب اور مشتعل کیا کہ ان کے چہرے کی زردیوں میں بھی سرخیاں لپلپانے لگیں۔ ان کے اندر کا ہیجان باہر بھی نظر آنے لگا۔ ان کا سراپاہیبت ناک بن گیا۔

    وہ وہاں سے اس طرح نکلے جیسے وہ ساری کا ئنات کو روند ڈالیں گے۔ سب کچھ توڑ پھوڑ کر رکھ دیں گے۔ ان کی آنکھوں کی چنگاریاں سب کچھ جلا کر راکھ کر دیں گی۔ ان کے سخت جبڑے خاموش نہیں بیٹھیں گے۔ ان کی تنی ہوئی بھویں اپنے تیر چلاکر رہیں گی۔ ان کے بھینچے ہوئے ہونٹ چپ نہیں رہیں گے۔ ان کے مشتعل ہاتھوں کے پتھر رکیں گے نہیں۔ یوں ہی برستے رہیں گے اور راہ میں آنے والوں کے سر پھوڑتے رہیں گے۔

    یکبارگی قہقہے خاموش ہوگئے۔ زعفران زار ماحول پر سکوت طاری ہو گیا۔ جیسے قہقہوں پر فالج گر گیا ہو۔ یا کسی نے قہقہہ لگانے والے کی گردن دبا دی ہو۔

    پیاسے پتھر اچھالتے اور زمین کو روند تے ہوئے مختلف سمتوں میں آگے بڑھتے چلے گئے۔

    ’’اے خلاؤں میں پتھر ا چھالنے اور آنکھوں سے آگ برسانے والے نوجوانِ شرربار! اے اپنے ہی ہاتھوں جانِ عزیز کو زِک پہنچانے اور اپنا مال و متاع لٹانے والے مسافرِ جاں نثار!‘‘

    اچانک کوہساری فضا کے سینے سے آبشاری آواز پھوٹ پڑی۔ صحرا زدہ سماعت میں گلستانی صوت و صدا نے آہنگِ سحر ساز بھر دیا۔

    سحر البیانی نے ایک نوجوان کا راستہ روک دیا۔ پتھر اچھالنے والے مشتعل ہاتھ ٹھٹھک گئے۔ نگاہیں آواز کے تعاقب میں بھٹکنے لگیں۔

    ’’آنکھوں کو زحمت نہ دو۔ میں تم سے دور نہیں ہوں۔ میں تو تمہارے اتنے قریب ہوں کہ تم چاہو تو میرا لمس محسوس کرسکتے ہو۔‘‘

    نوجوان کی پتلیاں ساکت ہوگئیں۔ اس کے دیدوں کے گرم شیشے نرم پڑگئے۔ سانسوں میں جاں بخش خوشبو بسنے لگی۔ کھولا ہوا دماغ لمسِ کیف آگیں سے ٹھنڈا ہونے لگا۔

    ’’واقعی‘‘ تم ضرور کہیں میرے آس پاس ہی موجود ہو اور میں تمھارا لمس بھی محسوس کررہا ہوں۔ میں یہ تو نہیں جانتا کہ تم کون ہو مگر تمھاری آواز اور خوشبو سے محسوس ہوتا ہے کہ تم جو بھی ہو میرے لیے باعثِ انبساط ہو۔ کیا میں اس دل نشیں آواز اور فرحت بخش خوشبو کے منبع کو دیکھ سکتا ہوں؟ ‘‘

    ’’کیا اتنا کافی نہیں کہ میں تمھارے قریب ہوں اور تم مجھے اچھی طرح محسوس کررہے ہو۔‘‘

    ’’نہیں، یہ کافی نہیں ہے۔ میں جلد سے جلد اُس آواز اور خوشبو کے مرقعے کو دیکھنا چاہتا ہوں جس نے میری پیاس اور یاس دونوں کو کم کردیا ہے اور شاید میرے غُصّ۔۔۔ اگر یہ ممکن ہے تو براہِ کرم میرے سامنے آؤ اور اپنا جلوہ دکھاؤ۔‘‘

    ’’تمھارے لیے سب کچھ ممکن ہے نوجوان! اس لیے نہیں کہ تم ایک مخلوقِ اشرف ہو۔ خوبرو اور نوجوان ہو بلکہ اس لیے کہ تمھارے مشتعل ہاتھوں کے پتھر اور مضطرب پیروں کے ٹھوکر تمھیں پراسرار بناتے ہیں۔ تمھارے سینے کے شور اور رگ و ریشے کے زور کا قصہ سناتے ہیں۔ تمھاری شررفشاں آنکھیں ہمارا دامنِ دل کھینچتی ہیں۔ ہمارا راستہ روکتی ہیں۔ تمھارا اشتعال ہمارے تجسّس کو بڑھاتا ہے۔ ہمارے جذبۂ شوق کو بھڑکاتا ہے اور اس لیے بھی کہ تم ایک قدر شناس نوجوان ہو۔ تمھیں لذّتِ لمس اور قدر و قیمتِ صوت کی پہچان ہے۔ تمھیں شوقِ نظارۂ رنگ و نور بھی ہے اور ذوقِ جمال یار کی لطف اندوزی کا شعور بھی۔ لو، دیکھ لو! میں پوری طرح بے حجاب ہوگئی۔ فضائے غیر مرئی سے نکل کر جہان مرئی میں آ گئی۔

    آواز کے رکتے ہی خلا کے بطن سے ایک خوبصورت خلد آشیاں مخلوق خندۂ زیرِ لبی کے ساتھ مثلِ خورشید طلوع ہو گئی۔ آن کی آن میں ایک مصفّا، مجلّیٰ، مَنوّر اور مشکبار حسن مداراتِ محبوبانہ میں مشغول ہو گیا۔ رنگ و نور اور کیف و سرور کی بارشیں شروع ہو گئیں۔

    بیاباں گزیدہ نوجوان اس جمالِ جاں نواز کی جلوہ آرائی میں کھو گیا۔ اس کی تشنگی پر مدہوشی کا غلاف چڑھ گیا۔

    کچھ دیر تک مبہوت اور بےحس و حرکت رہنے کے بعد نوجوان کے ہونٹوں پر جنبش ہوئی۔ خماری لہجے میں ہولے سے ایک سوال ابھرا۔

    ’’تم کون ہو اے روحِ حیات؟‘‘

    ’’میں جان فزا ہوں اے مسافرِ برگشتۂ جہات و کائنات!‘‘ دلبری سے لبریز لبِ لعلیں سے نغمہ ریز جواب پھوٹا۔‘‘

    ’’تم سچ مچ جاں فزا ہو جاں فزا!‘‘ زبان کے ہمراہ نوجوان کی آنکھیں بھی بولنے لگیں۔

    ’’واقعی؟‘‘ جاں فزا کی نظریں بھی سوال کرنے لگیں۔

    ’’بلاشبہ۔‘‘ نوجوان کی زبان اور آنکھوں دونوں نے یقین دلایا۔

    ’’شکریہ۔‘‘

    ’’کس بات کا؟‘‘

    ’’قدردانی کا‘‘۔

    ’’ایک سوال اور پوچھوں؟‘‘

    ’’پوچھو۔‘‘

    ’’اس بیاباں میں تم کیسے؟‘‘

    ’’سچ بتاؤں۔‘‘

    ’’ہاں، سچ بتاؤ۔‘‘

    ’’تمھیں یقین نہیں آئےگا۔‘‘

    ’’پھر بھی بتاؤ۔‘‘

    ’’میں تمھارے لیے آئی ہوں۔‘‘

    ’’کیا؟‘‘

    ’’ہاں۔‘‘

    ’’کیوں اس صحرا گزیدہ ستم رسیدہ سے مذاق کر رہی ہو؟‘‘

    ’’یہ مذاق نہیں، حقیقت ہے جاں نثار! میں سچ مچ تمھارے لیے آئی ہوں۔‘‘

    ’’تم میرا نام بھی جانتی ہو!‘‘ جاں نثار کے دیدے پھیل گئے۔

    ’’میں تمھارے بارے میں اور بھی بہت کچھ جانتی ہوں۔‘‘

    ’’کیا؟ سچ بتاؤ تم کون ہو، میں نے تمھیں خواب میں بھی نہیں دیکھا ہے اور تم میرے بارے میں۔۔۔‘‘ اس کے دیدوں کا پھیلاؤ اور بڑھ گیا۔

    ’’میں جاں فزا ہوں، پری خانے کی ایک پری۔ میرا کام تم جیسے انسانوں کو صعوبتوں سے نجات دلانا اور تمھارے اضطراب کو سکون پہنچانا ہے۔‘‘

    ’’اچھا!‘‘ جاں نثار کی حیرت بڑھتی گئی۔

    ’’تمھیں یقین نہیں ہو رہا ہے نا؟‘‘

    ’’ہاں، یقین تو نہیں ہورہا مگر تم سے میرے اضطراب کو سکون ضرور مل رہا ہے۔

    ’’آہستہ آہستہ یقین بھی ہو جائےگا۔‘‘

    ’’خدا کرے ایسا ہو! ایک اور بات پوچھوں جاں فزا؟‘‘

    ’’ضرور پوچھو۔‘‘

    ’’تم پرستان کے پرسکون ماحول کی رہنے والی ایک نازک اندام مخلوق ہو۔ ہم جیسے انسانوں کے لیے اس گرم صحرائی فضا میں کیوں آئی ہو؟‘‘

    ’’تاکہ تمھارا اضطراب کم کر سکوں۔ تمھیں سکون پہنچا سکوں اور یہ بات میں تمھیں پہلے بھی بتا چکی ہوں۔‘‘

    ’’مگر کیوں؟اس میں تمھارا کیا فائدہ ہے۔؟‘‘

    ’’یہ تو میں بھی نہیں جانتی۔ میں تو بس اتنا جانتی ہوں کہ میرے فرائض میں یہ بھی شامل ہے کہ میں مشتعل اور مضطرب مسافروں کی مدد کروں۔ ان کا اضطراب مٹاؤں۔ انھیں پرسکون بناؤں مگر تمھارے تئیں اس فرض میں میرا دل بھی شامل ہو گیا ہے۔‘‘

    ’’مطلب؟‘‘

    ’’مطلب یہ کہ تم پر میرا دل آ گیا ہے۔ کیا اس محاورے کا مفہوم بھی سمجھانا پڑےگا؟‘‘

    ’’نہیں، یہ میں سمجھتا ہوں۔‘‘

    ’’پھر تو تم یہ بھی سمجھتے ہوگے کہ دلِ عاشق اپنے محبوب کے دل کے ساتھ تنہائی میں ملنا چاہتا ہے۔ اس سے باتیں کرنا چاہتا ہے۔‘‘

    ’’ہوں۔‘‘

    ’’تو چلیں پرستان کے کسی خلوت خانے میں۔‘‘

    ’’انکار کی جرأت میں اپنے اندر نہیں پا رہا ہوں۔‘‘

    جاں فزا آگے بڑھی اور جاں نثار کو اپنے ہمراہ لے اڑی۔ پلک جھپکتے ہی وہ پرستان کے ایک خلوت کدے میں پہنچ گئے۔

    جاں فزا نے جاں نثار کے جسم سے لباسِ بیابانی اترواکر اسے پرستانی پوشاک سے آراستہ کر دیا۔

    لباس کے تبدیل ہوتے ہی جاں نثار بھی بدل گیا۔ بےتاب جسم پرسکون کا لبادہ چڑھ گیا۔ بے قرار جان کو قرار آ گیا۔ ویران آنکھوں میں نور بھر گیا۔ مضمحل اور پژمردہ چہرہ شگفتہ دکھائی دینے لگا۔

    جاں فزا کی نگاہیں جاں نثار کے سراپے پر مرکوز ہو گئیں۔

    ’’اس طرح کیا دیکھ رہی ہو جاں فزا؟‘‘

    ’’یہی کہ تم کتنے وجیہہ، کتنے پروقار اور کتنے پرکشش ہو! تمھارے مردانہ حسن میں ایسی حاذبیت ہے کہ آنکھوں کو اپنے پاس ٹھہرا لے۔ دیکھنے والے کا چین چھین لے۔ مخاطب کا ہوش اڑا دے۔ اسے پاگل بنا دے۔‘‘

    ’’تم پھر مرا مذاق اڑانے لگیں جاں فزا!‘‘

    ’’نہیں، جاں نثار! یہ مذاق نہیں ہے۔ میں حقیقت بیان کر رہی ہوں۔ تمھیں یقین نہیں آ رہا ہے تو آؤ میرے ساتھ۔‘‘

    ’’کہاں؟‘‘

    ’’آؤ تو۔‘‘

    جاں فزا جاں نثار کا ہاتھ پکڑے تیزی سے دوسرے کمرے میں داخل ہو گئی۔

    اس کمرے کے آئینے نے جاں نثار کو حیرت میں ڈال دیا۔ وہ اتنا پرکشش ہے، کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ جاں فزا کی ذرا سی توجہ اور ظاہری آرائش نے اسے اتنا خوبصورت بنا دیا تھا کہ خود اسے اپنا سراپا، اس کا اپنا نہیں لگ رہا تھا۔ اگر اس پر پوری توجہ ہو جائے اور وہ چیز اسے مل جائے جس کے لیے وہ صحرا میں بھٹکتا پھر رہا ہے تو اس میں اور کتنی شادابی پیدا ہو سکتی ہے وہ اور کتنا دل کش ہوسکتا ہے! اس کا ذہن اپنی ذات کے تصور میں کھو گیا۔

    ’’کیا میں مذاق کر رہی تھی؟‘‘

    جاں نثار خاموش رہا۔

    ’’بولو جاں نثار! کیا یہ آئینہ بھی مذاق کر رہا ہے؟ تمھاری خاموشی میری تائید کر رہی ہے جاں نثار! تم سچ مچ بہت خوبصورت ہو۔ تمھارے مردانہ حسن نے مجھے دیوانہ بنا دیا ہے۔ مجھے تم سے عشق ہو گیا ہے عشق!‘‘

    ’’مجھے یقین نہیں ہورہا ہے‘‘۔

    ’’کیوں؟‘‘

    ’’اس لیے کہ خوبصورتی ریگستان میں نہیں، پرستان میں ہوتی ہے۔ کشش خزاں رسیدوں میں نہیں، باغ و بہار کے پروردوں میں ہوتی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے جاں فزا کہ دیوانہ مجھے تم نے بنا دیا ہے۔ میں تمھارے پاس آکر سب کچھ بھول گیا ہوں۔ مجھے اب کچھ بھی یاد نہیں رہا، یہاں تک کہ...‘‘

    ’’تم سچ کہہ رہے ہو؟‘‘

    ’’بالکل سچ۔‘‘

    ’’گویا ہم دونوں ایک ہی جذبے سے مغلوب ہیں۔‘‘ جاں فزا جاں نثار کے قریب آ گئی۔ ہوش ربا خوشبوؤں کا جھونکا جاں نثار کی سانسوں کے دریچے میں اتر گیا۔

    جاں فزا نے اپنی پرفسوں آنکھیں جاں نثار کے چہرے پر مرکوز کردیں۔ آفتابی دیدوں سے نکلی نشیلی روشنی کی تیز شعاعیں جاں نثار کو بےقابو کرنے لگیں۔ وفورِ شوق میں اس کی گردن جاں فزا کے چہرے کی طرف جھک آئی مگر جھجھک اب بھی باقی رہی۔ رمز شناس پرستانی دوشیزہ نے آگے بڑھ کر اپنے لب جاں نثار کے ہونٹوں سے ملا دیے۔

    جاں نثار نے اپنے اندر شہد کا سا مٹھاس محسوس کیا۔ جاں فزا کی شفاف مخروطی انگلیاں جاں نثار کے جسم پر رقص کرنے لگیں۔ انگلیوں کی تھرکن نے جاں نثار کے رگ و پے میں ارتعاش پیدا کر دیا۔

    جاں نثار کے ہونٹ جاں فزا کے لبوں کو چومنے اور چوسنے کے بعد اس کی آبِ رواں جیسی شفّاف رانوں پر اتر آئے اور باری باری سے دونوں رانوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد وہاں سے اٹھ کر جاں فزا کے کھلے ہوئے پستانوں کی سمت لپک پڑے۔ دونوں گولائیوں پر کچھ دیر تک زبان پھیرنے کے بعد جاں نثار کے ہونٹوں نے ایک پستان کے نکیلے حصّے کو اپنے اندر لے لیا اور وہ گرسنہ لب اسے اس طرح چوسنے لگے جیسے کوئی شیر خوار بچّہ اپنی ماں کی چھاتی کو چوستا ہے۔ ایک پستان کے بعد جاں نثار نے دوسرے پستان کو اپنے منہ میں لے لیا۔

    دوسرا پستان چوستے چوستے اچانک اس کے متحرک ہونٹ ساکت ہوگئے۔ پستان ہونٹوں سے باہر نکل آیا۔ منہ کا اندرونی حصّہ خشک ہو گیا۔ ہونٹوں پر پپڑیاں جم گئیں۔ ہونٹوں کے ساتھ ساتھ جاں نثار کا جسم بھی بے دم سا ہو گیا۔

    ’’تم کہاں ہو جاں نثار؟‘‘ جاں فزا یکبارگی چونک پڑی۔

    ’’میں یہیں ہوں جاں فزا۔ تمھارے پاس۔‘‘ دبی زبان میں جواب برآمد ہوا۔

    ’’نہیں، جاں نثار! تم یہاں نہیں ہو۔ تم کہیں اور ہو۔ سچ بتاؤ، تمھارا ذہن اس وقت کہاں ہے؟‘‘

    ’’جاں فزا! میں تم سے جھوٹ نہیں بولوں گا۔ دراصل اس وقت میں پیاس کی زد میں ہوں۔‘‘

    ’’صاف صاف بتاؤ جاں نثار! اس وقت تم کہاں کھوئے ہوئے ہو۔‘‘

    ’’پانی کی تلاش میں۔‘‘

    ’’پانی کی تلاش میں؟‘‘ پانی کیا میرے ان پیارے پیارے رسیلے پستانوں سے زیادہ اہم ہے؟‘‘

    ’’ہاں، جاں فزا! پانی زیادہ اہم ہے۔ بلاشبہ تمھارے یہ پستان بہت پیارے ہیں۔ ان میں شاید رس بھی ہے اور ان میں میرے لیے پیار بھی مگر ۔۔۔۔۔

    ’’مگر کیا؟‘‘

    ’’مگر یہ کہ ان میں پانی نہیں ہے۔‘‘

    ’’حیرت ہے کہ ان کی موجودگی میں تم پانی ۔۔۔۔۔

    ’’تمھاری حیرت بجا ہے۔ اس لیے کہ تم پری زاد ہو۔ تمھیں پیاس نہیں لگتی۔ تم پیاس اور پانی کے رشتے کو نہیں سمجھ سکتیں۔ مجھے جانے دو جاں فزا! میری بھڑکی ہوئی پیاس مجھے اب اور یہاں نہیں رہنے دےگی۔ مجھے پانی کی تلاش میں نکلنا پڑےگا۔ اس لیے میں اب چلتا ہوں۔‘‘

    ’’ٹھہرو! تمھیں پانی چاہیے نا۔ میں ابھی آتی ہوں اور آبیاژوں کا ڈھیر تمھارے سامنے لگا دیتی ہوں۔ جی بھر کر اپنی پیاس ۔۔۔۔۔

    ’’آبیاژہ! تم کیسے جانتی ہو آبیاژے کو؟ آبیاژہ تو دارالامان میں ۔۔۔۔۔

    ’’جاں نثار! آبیاژہ ہماری بھی ملکیت ہے۔‘‘

    ’’میں سمجھا نہیں۔‘‘

    ’’جاں نثار! میں دارالامان کے پری خانے کی پری ہوں۔‘‘

    ’’اچھا تو تم دارالامان کی پری ہو!‘‘ جاں نثار کی آنکھوں میں ایک بار پھر سے حیرت بھر گئی۔

    ’’جاں نثار! میں ابھی آئی۔‘‘ جاں فزا تیزی سے محل کے دوسرے کمرے کی طرف روانہ ہو گئی۔

    جاں نثار کا ذہن دارالامان کے اس کمرے میں پہنچ گیا جہاں اس کی پیاس بجھانے کے لیے طرح طرح کی سبیلیں نکالی گئی تھیں۔

    ’’لو، اسے چوسو! تمھاری پیاس بجھ جائےگی۔‘‘ ڈبّے سے ایک آبیاژہ نکال کر جاں فزا جاں نثار کی طرف بڑھاتی ہوئی بولی۔‘‘

    ’’جاں نثار کی نگاہیں جاں فزا کی انگلیوں میں دبی ایک سفید چوکور ٹکیے کی جانب مرکوز ہو گئیں۔ صاف شفاف ٹکیے سے رنگ و نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔‘‘

    اس شفّاف چوکور ٹکیے میں ایک ایک کرکے وہ سارے منظر ابھر آئے جو دارالامان کے ایک پراسرار کمرے میں محدّب شیشے پر اس کی اکتاہٹ دور کرنے کے لیے ابھارے گئے تھے۔

    پہلے منظر میں ایک مطربہ ابھری۔ اس کے ارد گرد سازندے ابھرے۔ سازندوں کے آگے طرح طرح کے ساز ابھرے۔ سازوں کے تار چھڑے اور تاروں سے جھنکاریں ابھریں۔ جھنکاروں کے ساتھ ہی مطربہ کے لب کھلے اور ان لبوں سے صوت و صدا کے آبشار پھوٹتے چلے گئے۔

    دوسرے منظر میں ایک رقاصہ نمودار ہوئی۔ گھونگھرو چھنکے۔ کولھے مٹکے، ٹھمکے برسے۔ کمر لچکی۔لوچ کے تیر چلے۔ دیدے چمکے۔ پتلیاں ناچیں۔ آنکھوں سے آندھیاں اٹھیں۔ کرشمے نکلے۔ غمزے برسے۔ بھنووں کی کمانی تنیں۔ بھاؤں کے بھید کھلے۔ اداؤں کے بان چھوٹے۔

    تیسرے منظر میں جادو دکھا۔ کوزے میں دریا سمٹا۔ بوتل میں جن اترا۔ مٹھی سے کبوتر نکلا۔ خالی ڈبّا مٹھائی سے بھرا۔ آگ میں پھول کھلا۔ آب میں شعلہ اگا۔ مرد عورت بنا۔ آدمی خلا میں معلق ہوا۔

    چوتھے میں کھیلوں کا رنگ جما۔ بازیوں کا زور چلا۔ بلّے چلے۔ گیندیں اچھلیں۔ تلواریں چلیں۔ تیر چھوٹے، قلابازیاں ہوئیں۔ دوڑ لگی، گھوڑے دوڑے۔ ہاتھی دوڑے۔ مرد دوڑے۔ عورتیں دوڑیں۔ زور آزمائی ہوئی۔ پہلوان لڑے۔ جسم بھڑے۔ پانی میں پیراکیاں ہوئیں۔ ڈبکیاں لگیں۔ لڑکیاں مچھلیاں بنیں۔ گورے چٹّے، دبلے پتلے، چھریرے چھریرے جسم تیرے۔کھلے کھلے اعضا چمکے۔

    پانچویں منظر میں سائنس کے کمالات و ایجادات کا مظاہرہ ہوا۔ میزائلیں چھوٹیں۔ خلا میں تیارے اڑے۔ چاند ستاروں اور سیّاروں کا سیر ہوا۔ قطبیں ملیں۔ فاصلے مٹے۔ زمین آسمان ایک ہوئے۔

    چھٹے منظر میں ادب کو منظر میں لایا گیا۔ کہانیاں کہی گئیں۔ تجسّس بڑھایا گیا۔ تخئل کو اڑایا گیا۔ جذبۂ شوق کو جگایا گیا۔ شدّتِ احساس کو بڑھایا گیا۔ لطف و انبساط کا دریا بہایا گیا۔

    آبیاژے سے اٹھ کر جاں نثار کی نظریں جاں فزا کے پستانوں پر پہنچ گئیں۔ گورے گدرائے سڈول پستانوں سے رنگ و نور کی شعاعیں نکل رہی تھیں۔

    کچھ دیر تک پستانوں کے رنگ و نور کو دیکھنے کے بعد نگاہیں اوپر اٹھ کر جاں فزا کے لبوں کی جانب مبذول ہو گئیں۔

    رس سے بھرے سرخ لبوں کے معائینے کے بعد نگاہیں وہاں سے اترکر رانوں پر آ گئیں اور صاف شفّاف رانوں کا جائزہ لے کر پھر سے جاں فزا کی انگلیوں میں دبے آبیاژے پر مرکوز ہو گئیں۔

    اچانک اس کے کانوں میں گہرائی سے آتے ہوئے وہی قہقہے سنائی دیے جو کبھی کنویں کے پاس سنائی پڑے تھے۔

    جاں نثار کی پیشانی پھر سکڑ گئی۔ اس کی بھنویں تن گئیں۔ دیدے سلگ اٹھے۔ آنکھوں میں چنگاریاں بھر گئیں۔ جبڑے سخت ہو گئے۔ مٹھیاں بھنچ گئیں۔ ہاتھ ہوا میں لہرانے لگے۔

    وہ جاں فزا کے پاس سے اٹھ کر باہر جانے لگا۔

    ’’کہاں جا رہے ہو جاں نثار! رک جاؤ۔ اچھا! یہ آبیاژہ تو لے لو جاں نثار! دیکھو اس سے تمھاری پیاس ضرور بجھ جائےگی...‘‘ جاں فزا اسے آواز دیتی رہی مگر اس کے پاؤں نہیں رکے۔ وہ غیض و غضب میں آگے بڑھتا گیا۔

    محل سے باہر نکل کر اس کا اشتعال اور اضطراب اور بڑھ گیا۔‘‘

    اس کے کانوں میں گونجنے والے قہقہوں کی آوازیں یکبارگی خاموش ہو گئیں۔ جیسے ان پر فالج گر پڑاہو۔ یا کسی نے قہقہہ لگانے والے کی گردن دبا دی ہو۔

    کچھ دور جانے کے بعد جاں نثار کے پاؤں پھر رک گئے۔ اس کے مشتعل ہاتھ پھر ٹھٹھک گئے۔

    ایک نئی آواز اس کے کانوں میں گونجنے لگی تھی:

    آ اے دھوپ میں جھلسنے والے نوجوان اجنبی

    ترے جسم سے تمازت کے خار نکال دوں

    تجھ پر اپنی زلفیں پسار دوں

    تری زندگی کو سنوار دوں

    تجھے پیار دوں

    آ اے دشت و صحرا میں بھٹکنے والے پریشان اجنبی

    تری بے کلی کو سنبھال دوں

    ترے دل کو صبر و قرار دوں

    ترا رنگ و روپ نکھار دوں

    تری زندگی کو سنوار دوں

    تجھے پیار دوں

    اس کی نگاہیں آواز کے تعاقب میں بھٹکنے لگیں۔

    (افسانوی مجموعہ پارکنگ ایریا از غضنفر، ص 63)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے