Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آدھی عورت آدھا خواب

رومانہ رومی

آدھی عورت آدھا خواب

رومانہ رومی

MORE BYرومانہ رومی

    رات کی تاریکی اِبھی بھی چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔۔۔ میں اپنے کھیتوں میں پانی لگانے کی باری کے باعث آج ٹھنڈ کے باوجود دل مار کر آیا تھا۔۔۔ ویسے بھی سردی کی رات میں گرم لحاف اور جوان بیوی دونوں کو چھوڑ کر آنا بڑے حوصلے کی بات ہے۔۔۔۔

    میں بھی اب تک اپنی بیوی کی گرمی کو اپنے جسم کے روم روم میں محسوس کرتا ہوا اس سردی کا خوشی خوشی سامنا کر رہا تھا۔۔۔ پانی لگانے کے بعد مَیں نے جیب سے سگریٹ کا پیکٹ نکالا اور کھیتوں کے کنارے بنی ایک چھوٹی سی پگڈنڈی پر جا بیٹھا۔۔۔ ایک دو کش لینے کے بعد سردی سے ٹھٹھرتے ہاتھ پاؤں میں کچھ زندگی محسوس ہونے لگی میرے دل میں گزری ہوئی رات کے حسین لمحے کسی فلم کی طرح گھومنے لگے اور دل مسحور کن کیفیت میں جھومنے سا لگا۔۔۔ نوراں کی خود سپردگی کا نشہ کسی بھی اعلیٰ درجے کے قیمتی نشے سے کم نہ تھا اور جب سے نوراں میری زندگی میں آئی تھی مجھے کسی بھی مصنوعی نشہ کی طلب نہیں رہی تھی۔۔۔ ابھی مَیں اپنے نشہ میں ڈوبانجانے اور کیا کیا سوچتا کہ صبح کی پو پھٹی اور آسمان پر اندھیرے کا راج کم ہونے لگا کہ اچانک میری نظر اس سائے پر پڑی جو روشنی کی طرف پیٹھ کیے چلا آ رہا تھا۔۔۔ جب فاصلہ کچھ کم ہوا تو سایہ عورت کی شکل اختیار کرنے لگا۔۔۔ میں حیران تھا کہ یہ کون عورت ہے جو اس سردی کی پروا کیے بغیر نا جانے کہاں سے گاؤں کی جانب بڑھ رہی تھی وہ خالی ہاتھ تھی چونکہ روشنی کی طرف اس کی پیٹھ تھی اِس لیے میں اب تک اس کا چہرا نہیں دیکھ پایا تھا۔۔۔ تجسس اور فکر نے مجھے اکسایا اور میں اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی جانب بڑھا۔۔۔ اور۔۔۔ جیسے ہی میں اس کے قریب پہنچا تو اسے دیکھ کر چونک پڑا وہ لنگڑے فضلو کی بیوی میراں تھی۔۔۔ اس کی چال میں ایک ایسی نشیلی لچک تھی جو اُس کے جوانی سے بھرپور سراپے کو قیامت خیز بنا رہی تھی۔۔۔۔ آنکھوں کے گلابی ڈورے رات کے رتجگے کی کہانی بیان کر رہے تھے۔۔۔ شاید آج پہلی بار ہی کسی نے اس وقت اسے گاؤں میں آتے دیکھا تھا۔۔۔مگر اُس کے چہرے پر بدنامی کے خوف کا سایہ تک نہ تھا۔۔۔ وہ بےباک نظروں سے مجھے گھور رہی تھی۔۔۔ میں نے خاموشی کو توڑا۔۔۔

    ’کیوں بھابھی کہاں سے آ رہی ہو؟ وہ بھی سویرے سویرے۔۔۔ خیر تو ہے نا؟‘۔۔۔

    اس نے مجھے اور میری بات کو یکسر نظرانداز کر دیا اور اپنا قدم آگے بڑھا دیا۔۔۔

    ’ارے او بھابھی رک تو جا۔۔۔ کچھ بول تو سہی یا مَیں یہ سمجھ لو کہ آج تک گاؤں والے تیرے بارے میں جو باتیں کرتے ہیں وہ بالکل ٹھیک ہے؟‘۔۔۔

    وہ مڑی اور غصہ سے بولی۔۔۔

    ’کیا بولتے ہیں یہ گاؤں والے؟ اور تو کیا یہاں کا پنچ ہے جو سوال کر رہا ہے؟‘۔۔۔

    مگر میں تو آج اس کی کھوج لگانے کا تہیہ کر چکا تھا۔۔۔ میں نے بغیر کسی تمہید کے اس سے پوچھا۔۔۔

    (۲)

    آج تو، تویہ راز کھول ہی دے کہ ترے دل کا راجا کون ہے؟۔۔۔ اور شاید یہی وہ راجا ہے جس کے لیے تو روز صبح سویرے فضلو کی مار کھانے کوتیار ہو جاتی ہے ۔۔۔تجھے خوف بھی نہیں آتا؟‘۔۔۔

    میں اس کے راستے میں بیچوں بیچ جا کھڑا ہوا تھا۔۔۔ وہ میری آنکھوں میں دیکھتی ہوئی گزر جانے کا راستہ طلب کرنے لگی۔۔۔میری کیے گئے سوال کو وہ یکسر نظر انداز کر چکی تھی۔۔۔فضلو میرا گہرا دوست تھا یہ بات صرف وہ نہیں پورے گاؤں کو معلوم تھی اور اُسی دوستی کے ناطے مجھے یہ سوال پوچھنے کا پورا حق حاصل تھا۔۔۔ گاؤں میں لوگ میراں کے بارے میں کوئی اچھی رائے نہیں رکھتے تھے۔۔۔ عورتیں تو ویسے بھی اسے منہ لگانا پسند نہیں کرتی تھیں۔۔۔ آئے دن اُس کے گھر سے صبح سویرے لڑائی جھگڑئے کی آوازوں کا آنا اِب کوئی نئی بات بھی نہیں رہی تھی۔۔۔ مگر یہ سب کی سب باتیں بس شک کی بنیاد پر تھی جس کی وجہ سے آج تک کوئی بھی میراں سے سوال کرنے کی ہمت نہیں کر پایا تھا۔۔۔ ایک زمانہ تھا جب میری بیوی نوراں اور اس کی آپس میں بڑی گاڑھی چھنتی تھی مگر شادی کے بعد دونوں ہی ایک دوسرے سے الگ ہو گئیں۔۔۔ میں نے کئی بار نوراں سے میراں کے بارے میں جاننے کی کوشش کی مگر ہر بار وہ بڑی ہوشیاری سے بات پلٹ دیتی تھی۔۔۔ ویسے ذاتی طور پر کسی کو اس سے کوئی شکایت بھی نا تھی وہ سارے ہی کام جو گاؤں کی ہر عورت کی ذمہ داری میں شامل ہوتے ہیں اسی طرح نبھاتی تھی جیسے دوسری عورتیں۔۔۔ مگر آخر وہ کیا بات تھی جو اس کے اور فضلوکے درمیان تھی یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔۔۔ فضلو کی میراں سے شادی بھی ایک سوالیہ نشان تھی۔۔۔ کہاں جوانی کے رس سے بھری میراں اور کہاں مریل فضلو نا شکل نا صورت۔۔۔ اور سونے پر سہا گہ کہ ایک ٹانگ سے لنگڑا بھی۔۔۔ ہاں جہاں تک پیسوں کا معاملہ تھا تو فضلو کی باپ کی جائیداد پورے گاؤں میں سب سے زیادہ تھی اور لوگ بھی گھر میں گنتی کے تھے بس فضلو اور اس کا باپ، ماں تو فضلو کی پیدائش پر ہی چل بسی تھی۔۔۔ باقی نا کوئی آگے اور نا کوئی پیچھے۔۔۔

    گاؤں کا ہر غریب کسان فضلو کو اپنی بیٹی دینے پر تیار تھا مگر قرعہ نکلا تو میراں کے نام، جس کی ایک جھلک کے لیے فضلودن بھر اس کے دروازے کے سامنے اپنی ایک ٹانگ پر کھڑا رہتا تھا۔۔۔ وہ بھی پیدائشی لنگڑا نہ تھا۔۔۔ آج بھی وہ اپنی اس خامی کو ذہنی طور پر قبول نہ کر پایا تھا۔۔۔ میراں نے اس سے شادی پر انکار کر دیا تھا مگر اس کے گھر کی غربت کو فضلونے منہ مانگے داموں خرید لیا تھا۔۔۔ میراں کے گھر کی مجبوری اپنی جگہ تھی مگر میراں کا پرسرار رویہ بھی گاؤں والوں کے لیے ایک دلچسپ موضوع تھا۔۔۔ آج میں اس راز کو جاننے کا سوچ چکا تھا۔۔۔جب اس نے کو ئی راہ نہ پائی تو راستے میں ہی بیٹھ گئی اور ایک گہرا سانس لے کر بولی۔۔۔

    ’تجھے مجھ سے کیا شکایت ہے جو میرے پیچھے پڑھ گیا؟ میں اپنی مرضی کی مالک ہوں جہاں دل چاہےگا جاؤں گی جس سے مرضی ملوگی، جب فضلو نہیں روک سکا تو، تو کون ہے؟‘۔۔۔

    اس کا جواب تھا تو مکمل مگر میرا تجسس بھی اپنی جگہ برقرار تھا۔۔۔ مَیں نے ترچھی آنکھوں سے اس کے چہرے کی سرخی کو پڑھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔۔۔

    (۳)

    ’بات تو ٹھیک ہے بھابھی تیری مگر۔۔۔ تو ہمارے گاؤں کی اور میرے دوست دونوں کی عزت ہے۔۔۔ اور گھر کی عزت ۔۔۔رات کے اندھیرے میں گھر سے نکل کر صبح کی روشنی میں واپس پلٹے تو سوال تو اُٹھتا ہے نا؟‘۔۔۔

    وہ زور سے ہنسی۔۔۔

    ’گاؤں کی عزت۔۔۔ دوست کی عزت۔۔۔ آیا بڑا۔۔۔ جو لوگ اپنی عزتوں پر نظریں لگائے بیٹھے ہوں۔۔۔ ان کے منہ سے یہ سوال اچھا نہیں لگتا‘۔۔۔

    اس کی بات سچ تھی اب بھی گاؤں کے لوگ اس کو دیکھ دیکھ کر آہیں بھرتے تھے۔۔۔ وہ جس رستے سے گزرتی تھی لوگوں کی نگاہیں وہاں جم سی جاتی تھیں۔۔۔ اس کی چال کا الیبلا پن لوگوں کو آہیں بھرنے پر مجبور کر دیتا تھا اوپر اوپر سے لوگ فضلو کی قسمت پر رشک کرتے تھے مگر دل ہی دل میں فضلوسے حسد کرتے اور کوستے تھے۔۔۔ کیوں کہ ہر کوئی شادی کے بعد بھی فضلو کی بیوی کو اپنی محبوبہ بنانے کے چکر میں تھا۔۔۔ مگر کامیاب نہیں ہو پا رہا تھا کیوں کہ میراں گاؤں میں کسی کو منہ نہیں لگاتی تھی۔۔۔ چوں کہ میراں کی فضلو سے شادی کے دن سے ہی نہیں بنی تھی۔۔۔ اس لیے گاؤں والوں کو اس پر شک تھا کہ فضلو کے علاوہ بھی کوئی اس کی جوانی کے مزے لے رہا تھا ورنہ اس کی یہ رس بھری جوانی اور اس پر یہ مستانی چال فضلو سے ملن کے بعد تو آ نہیں سکتی تھی۔۔۔ سب اس بات پر متفق تھے کہ۔۔۔ مگر وہ ہے کون؟ یہ ایک سوال تھا۔۔۔ میں جانتا تھا وہ اتنی آسانی سے قابو میں آنے والی نہ تھی۔۔۔ سورج کی پہلی کرن نے زمین کو چھوا اس نے سورج کی طرف گردن گھمائی اور ایک گرم سے انگڑائی لی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں رات کے نشے کا سرور۔۔۔اس پریہ گرم انگڑائی اور جسم سے اٹھتی ہوئی جوان خوشبو نے میرے ذہن سے نوراں کے وجود کو دھو ڈالا۔۔۔ میں ٹک ٹکی لگائے اس کے اِس انوکھے روپ کو آنکھوں کے رستے دل میں اتار رہا تھا۔۔۔ ایسی الیبلی نار۔۔۔ اور ایسی جوانی کا عالم مَیں نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔۔۔ آج پہلی بار مجھے بھی فضلو سے حسد محسوس ہونے لگا۔۔۔ مجھے اپنے آپ میں کھویا ہوا دیکھ کر وہ اٹھی۔۔۔ وہ کیا اُٹھی مانو۔۔۔ ایک لمحہ کے لیے آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا۔۔۔ میں بھی پھرتی سے اٹھا اور اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ اف اتنی ٹھنڈ میں بھی اس کا جسم آگ برسا رہا تھا۔۔۔ میں اس کے سامنے۔۔۔اس کے بالکل نزدیک جا کھڑا ہوا۔۔۔ اس کے جسم سے اٹھتی ہوئی گرم سانسیں میرے دل و دماغ کو مفلوج کر رہی تھیں۔۔۔ میں نے اس کے ہاتھ پر اپنی گرفت مضبوط کر لی مگر اس نے کوئی مزاحمت نہیں کی۔۔۔ جیسے وہ میری اس کیفیت سے لطف لے رہی ہو۔۔۔

    میں منہ اس کے کان کے پاس لے گیا اور آہستہ سے بولا۔۔۔

    ’آج پہلی بار مَیں نے تجھ میں وہ بات دیکھی ہے جس کا پورا گاؤں دیوانہ ہے۔۔۔ آج سے پہلے مَیں نے تجھے صرف اپنے دوست کی امانت ہی سمجھا۔۔۔ مگر تو تو برف میں دبی وہ آگ ہے جس کو شاید میں ہی محسوس نہیں کر پایا۔۔۔ بس ایک بات کا جواب دے دے۔ وہ کون ہے جس کے لیے تو کسی ڈر یا خوف کو خاطر میں نہیں لاتی‘۔۔۔

    (۴)

    اچانک اس کی آنکھوں میں سے ملن کا رنگ غائب ہو گیا۔۔۔ اور اس کی جگہ قسمت کی بے ثباتی نے لے لی۔۔۔ آنکھوں میں سرخ ڈوروں کی جگہ نمی چھلکنے لگی۔۔۔ وہ بولی۔۔۔ ’میں جانتی ہوں تم فضلو کے دوست ہو مگر گاؤں والوں کی طرح تم نے کبھی مجھے نظر اٹھا کر نہیں دیکھا۔۔۔ مگر آج تمھارا لب ولہجہ فضلوکے دوست والا نہیں۔۔۔ اس میں کوئی الگ بات ہے کوئی الگ رنگ ہے۔۔۔ یہ جو آج تمہاری آنکھوں میں خمار سا ہے۔۔۔ یہ دراصل میرے ہی چہرے کی پرچھائیں ہے۔۔۔ جو تمہارے اندر بھی آگ لگا رہی ہے‘۔۔۔ مَیں شرمندہ سا ہو گیا۔۔۔ وہ سچ بول رہی تھی۔۔۔مگر سوال شاید اِب بھی میری آنکھوں میں ٹھہرا ہوا تھا۔۔۔وہ رکی ایک لمبی سانس لی اور بولی۔۔۔’ تم نہیں جانتے کہ محبوب کو کھونے کا غم کیا ہوتا ہے تم اور نوراں خوش نصیب ہو کہ تم دونوں نے ایک دوسرے کو چاہا اور ایک دوسرے کے ہو گئے۔۔۔ تم اس درد کو اس تکلیف کو کبھی محسوس ہی نہیں کر سکتے کہ جب محبت روٹھ جائے تو اپنے دل کو منانا آسان نہیں ہوتا۔۔۔ میں نے بھی بہت جتن کئے اس دل کو منانے کے مگر آخر جیت دل کی ہی ہوئی۔۔۔ اور جس کو تم خوف یا ڈر کہہ رہے ہو عشق میں اِس کی گنجائش ہی کہاں ہے۔۔۔ اور جب عشق اپنی انتہا کو چھو لے تو پھر یہ ڈر یہ خوف کچھ نہیں رہتا۔۔۔ جو ہوتا ہے تو بس ایک وہی جس کی دل چاہ کرتا ہے وہ چاروں اور اُس کی طرف دائرہ بنا بنا کر رقص کرتا ہے اور ایسے میں کس کو ہوش۔۔۔کس کو پرواہ۔۔۔ بس وہ ہی وہ اور اپنا وجودصفر‘۔۔۔ اس کی دیوانوں والی باتیں میری سمجھ سے باہر تھیں۔۔۔ میں اپنی جگہ سن کھڑا تھا۔۔۔ وہ مست چال چلتی گنگناتی ہوئی دور سے دور تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے