آدھی رات کا سورج
کہانی کی کہانی
جدید معاشرہ میں اولاد کی والدین کے تئیں بے حسی اور اپنے تاریخ و ثقافت سے بے توجہی کو اس کہانی میں موضوع بنایا گیا ہے۔ فرانسسیسی رینے کلاڈ ایک ماہر تعلیم ہے جسے ریٹائرمنٹ کے بعد اس کی اکلوتی بیٹی نے اولڈ پیپل ہوم میں ڈال دیا تھا۔ بقول رینے وہ اس مشترکہ تابوت میں بیس برس تک رہا اور پھر وہ دنیا کی سیاحت کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ وہ لاہور آتا ہے اور یہاں کی تاریخی عمارتوں میں دلچسپی لیتا ہے جبکہ عام شہری کو اس سے کوئی لگاؤ نہیں ہوتا۔ رینے کلاڈ دوران سیاحت نیپال میں مر جاتا ہے اور اس کی وصیت کے مطابق اسے وہیں دفن کر دیا جاتا ہے اور اخبار میں اشتہارات کے کالم کے پاس ایک مختصر سی خبر اس کے مرنے کی چھپ جاتی ہے۔
’’برائے فروخت۔ اعلیٰ پیڈگری کے السیشین پلے۔ خاصے پلے ہوئے۔ معزز گھرانے میں پروردہ۔ صرف کتوں سے بے پناہ پیار کرنے والے باذوق حضرات رجوع فرمائیں۔ قیمت پانچ سو روپے فی پلا۔ فون۔۔۔‘‘
’’بہت خوب۔۔۔‘‘ میں نے جماہی لیتے ہوئے کروٹ بدلی۔ میری بیوی ابھی تک لحاف میں منہ ڈھانپے سو رہی تھی۔
’’بیگم۔۔۔‘‘ میں نے اخبار تہ کر کے اپنے لحاف پر رکھ دیا، ’’کیا خیال ہے ایک عدد السیشین پلا نہ خرید لیا جائے۔۔۔ گھر میں رونق رہےگی۔‘‘
’’ہوں۔۔۔‘‘ دردنِ لحاف سرگوشی ہوئی۔
’’میں کہہ رہا تھا ایک السیشین پلا خرید لیں۔ گھر میں رونق۔۔۔‘‘
’’پلا؟‘‘ بیگم نے اپنے سر سے لحاف اتار پھینکا اور یو ں اٹھ بیٹھی جیسے غروب آفتاب کے وقت روایتی کاؤنٹ ڈریکولا اپنے تابوت میں سے اٹھ بیٹھتا ہے۔ بیگم کی آنکھیں سرخ ہو رہی تھیں، ’’اس کال کوٹھری میں میرے جہیز کا سامان تو پورا نہیں آتا۔ پلا کہاں رکھوگے۔‘‘
’’نیچے سیڑھیوں میں باندھ دیں گے۔‘‘
’’مہترانی ہر روز سیڑھیوں کے بلب اتار کر لے جاتی ہے، پلا کہاں چھوڑےگی؟‘‘
’’یہ تو ہے۔‘‘ میں نے فوراً ہتھیار ڈال دیے، ’’بہر حال اپنا مکان بنائیں گے نا تو پھر لے آئیں گے۔‘‘
’’اپنا مکان۔۔۔‘‘ بیگم نے اپنے بھاری پپوٹے یوں جھپاک سے اوپر اٹھا دیے جیسے ان میں گیس بھر گئی ہو، ’’خاک اپنا مکان۔ تیس سال ہونے کو ہیں اپنی شادی کو اور تب سے مجھے اس موئے کمرے میں قید کر رکھا ہے۔ یاد ہے بات پکی ہو رہی تھی تو تمہارے گھر والوں نے کہا تھا کہ بس آپ کی بیٹی کی ڈولی تو ہمارے نئے گھر میں اترےگی۔۔۔‘‘
’’بھئی وہ کاروباری حالات۔۔۔‘‘ خواہ مخواہ پلے کا ذکر چھیڑ کے بلا گلے میں ڈال لی تھی۔
’’لیکن تمہارے گھر والوں نے۔۔۔‘‘
’’دیکھونا بیگم‘‘ میں نے قدرے نرمی سے کہا، ’’بات پکی کرتے وقت فریقین کے درمیان جو بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں وہ درست ہوں تو پھر ان کی رو سے ہر لڑکی کے حصے میں ایک عدد شہزادہ آئے اور ہر لڑکا کوہ قاف کی پری سے شادی رچائے۔۔۔‘‘
’’کیا ہے جی میری شکل و صورت کو۔۔۔‘‘ بیگم کو جیسے بچھو نے کاٹ لیا ہو۔ میں نے جواب دینا مناسب نہ جانا اور بڑی ڈھٹائی سے اخبار پھر اپنے آگے پھیلا کر ’’برائے فروخت‘‘ کے اشتہاروں کا مطالعہ شروع کر دیا۔
’’بانگو ڈرمز۔ اے ون کنڈیشن۔۔۔ موسیقی کے شائقین کے لیے نادر موقع۔۔۔‘‘
’’جدید طرز کا نو تعمیر کردہ گھر۔ دس بیڈ روم، ملحقہ باتھ رومز۔۔۔ چار گیراج۔۔۔ مینٹل ہاسپٹل کے نزدیک۔۔۔‘‘
’’مینٹل ہاسپٹل؟‘‘ میں نے کن انکھیوں سے بیگم کی جانب نگاہ کی۔ وہ پھر اونگھ رہی تھی۔
آج اتوار تھا اور میں حسب عادت پچھلے کئی برسوں کی روٹین پر بڑی باقاعدگی سے عمل کر رہا تھا۔ آئی۔ بی۔ ایم۔ کے کسی کمپیوٹر کی مانند اتوار کو میرا ہر عمل بے حد نپا تلا ہوتا۔ میری تفریح کا واحد دن۔ صبح سات بجے اٹھ کر فلیٹ کی پوری باون سیڑھیاں اتر کر نیچے ڈیوڑھی میں سے اخبار لاتا اور پھر بستر میں لیٹ کر سب سے پہلے ’’برائے فروخت‘‘ کا کالم پڑھتا، اس کے بعد فلمی اشتہاروں کا صفحہ اور پھر چھوٹی چھوٹی خبریں۔ ایڈیٹوریل چونکہ ایک عرصہ سے صرف خوش آمدید اور خیرمقدم کہنےکے لیے مخصوص ہیں اس لیے آج کل برائے فروخت اور فلمی اشتہاروں کا صفحہ ہی پورے اخبار میں اوریجنل ہوتے ہیں۔
اخبار کی ورق گردانی کے بعد ناشتے کے لیے بیگم کی منتیں، پھر کافی کی چسکیوں کے ساتھ اخبار کے سنڈے ایڈیشن کا بغور مطالعہ کہ شاید اپنا بھی کہیں ذکر ہو۔ جسمانی اور روحانی غذا کے چٹخارے کے بعد ننھے سلجوق کو حسب معمولی چڑیا گھر دکھانا اور چڑیا گھر میں حسب معمول بیگم کے طعنے سننا کہ ہمارے گھر سے تو ان موئے بن مانسوں کے نئے تعمیر کردہ پنجرے ہی بہتر ہیں۔ اب بیگم کو کون سمجھائے کہ بن مانسوں میں شادی کا رواج نہیں ہوتا۔ بہر حال چڑیا گھر کی سیر کے بعد بیگم کو ڈمپ کرنا اور رخ وائی ایم سی۔ اے۔ کی جانب کرنا جہاں کسی ادبی محفل میں شامل ہوکر خود ساختہ انقلابی حضرات کی تقاریر سننا۔ یہ تھا میری چھٹی کے اکلوتے دن اتوار کا کمپیوٹرائزڈ مصرف۔
’’برائے فروخت‘‘ کا کالم ختم ہوا تو میں دوسرے صفحے پر فلمی اشتہاروں سے آنکھیں سینکنے لگا۔ ’’یہ پاگل پاگل پاگل دنیا۔‘‘ میں نے پھر بیگم کی جانب نگاہ کی جو اب اونگھنے کی بجائے منہ کھولے گہری نیند سو رہی تھی۔ تیسرے صفحے پر’’آج لاہور میں‘‘ کا کالم تھا۔ انجمن فلاح و بہبود رحمان گلی کا ماہانہ اجلاس۔ انٹرکان میں لاوارث بچوں کی امداد کے لیے چیریٹی ہال حلقہ ارباب ذوق کا اجلاس۔۔۔ وغیرہ۔‘‘
’’آج لاہور میں‘‘ کے پہلو میں مختصر خبروں کا بھی ایک کالم تھا۔ ’’کمال دین ریلوے مزدور لوکو شیڈ میں شراب کے نشے میں غل غپاڑہ مچاتے ہوئے گرفتار۔‘‘
’’کراچی جم خانہ کے سالانہ ڈنر میں کمشنر جناب فلاں نے پاکستان کی سلامتی کا جام تجویز کرتے ہوئے کہا۔۔۔‘‘
’’گوال منڈی میں تین جوئے باز دھرلیے گئے۔ جوئے کی رقم مبلغ سات روپے تیس پیسے برآمد۔۔۔‘‘
’’لیڈیز کلب میں تمبولا۔۔۔ پہلا انعام دو ہزار روپے۔۔۔‘‘
اور آخر میں، ’’ کٹھمنڈو (نیپال) کی ایک مسافر بس جب دہلی سے یہاں پہنچی تو اگلی نشست پر ایک نوے سالہ فرانسیسی سیاح مردہ حالت میں پایا گیا۔ حکومت نے سیاح کے سفری کاغذات میں سے برآمد ہونے والی وصیت کے مطابق اس کی لاش واپس فرانس بھیجنے کی بجائے نیپال میں ہی دفن کر دی ہے۔ رینے کلاڈ ماہر تعمیرات تھا۔‘‘
’’رینے کلاڈ؟‘‘ میں نے اخبار اپنے چہرے سے نیچا کیا۔ میری نظروں کے سامنے تانبے کے پتلے فریم کی عینک لگائے، رعشہ زدہ ہاتھوں میں کیمرہ تھامے، ایک ٹانگ سے قدرے لنگڑاتا ہوا ایک عمر رسیدہ بوڑھا کھڑا اپنے نقلی دانتوں کی نمائش کر رہا تھا، ’’میرا نام رینے کلاڈ ہے۔‘‘
چند ماہ پیشتر میرا چھوٹا بھائی مبشر کابل گیا۔ لاہور واپسی پر جہاں وہ کوہ ہندوکش کی ہیبت ناک خوبصورتی اور افغانی پوستینوں کا ذکر کرتا وہاں اپنے فرانسیسی دوست کا تذکرہ بھی بڑی عقیدت سے کرتا۔ ’’بھائی جان وہ میرا دوست نہ بنتا تو میں کابل کی تاریخی اہمیت اور وہاں کےعجائب گھر میں رکھے ہوئے نوادرات کی اہمیت سے کبھی آگاہ نہ ہوتا۔ ہے تو بڑی بڈھ قسم کی شے مگر دلچسپ شخصیت ہے۔ پچھلے دو ماہ سے کابل میں مقیم ہے۔ چھ سات لوہے کے بڑے بڑے ٹرنک ساتھ لیے پھرتا ہے۔ ایک میں تاریخ کی کتابیں۔ دوسرے میں کیمرے اور نقشے۔ تیسرے میں مختلف ملکوں سے خریدے ہوئے مجسمے اور پرانی گھڑیاں۔۔۔ پچھلے دوسال سے سیاحت پر نکلا ہوا ہے، ہر تاریخی شہر میں مہینوں پڑا رہتا ہے۔ کہتا تھا جس روز بھی کابل کے بازاروں میں چہرے جانے پہچانے لگنے لگے، اسی روز بوریا بستر لپیٹ کر پاکستان کی راہ لوں گا۔ کہتا تھا کہ لاہور آؤں گا تو تم سے ملوں گا۔ میں نے اسے دکان کا فون نمبر دے دیا تھا۔‘‘
اور پھر مبشر کو پاک فوج میں کمیشن مل گیا اور وہ اپنی ٹریننگ کے لیے کاکول چلا گیا۔ میں حسب معمول سارا دن دکان پر بیٹھ کر گاہکوں کو موسمی سبزیوں اور پھولوں کے بیجوں کے بارے میں رٹے رٹائے جملے دہرا کر روزی کماتا۔ شام کو گھر واپس آکر ٹیلی ویژن دیکھتا اور سو رہتا۔ بیچ میں ایک اتوار بھی آ جاتا۔ سنڈے ایڈیشن کا مطالعہ۔ ننھے کو چڑیا گھر دکھانا وغیرہ یعنی میں ایک مکمل نارمل پاکستانی۔۔۔ شادی شدہ پاکستانی کی زندگی بسر کرتا رہا۔ شاید لفظ خوش و خرم اسی قسم کی زندگی کے ساتھ نتھی کیا جاتا ہے۔ پھر ایک روز جب میں دکان پر بیٹھا پانی، بجلی اور ٹیلی فون، رسوئی گیس، پروفیشنل ٹیکس وغیرہ کے متعدد بل سامنے رکھے سوچ رہا تھا کہ اس مرتبہ مشرقی پاکستان کی مارکٹ ختم ہو جانے سے اتنے سارے بل کیسے ادا کروں گا کہ فون کی گھنٹی بجی۔
’’ہاں جی۔۔۔ کون اے؟‘‘ میں نے چونگے میں چیخ کر دریافت کیا۔ گوال منڈی کے علاقے میں فون پر چیخ کر بات نہ کی جائے تو آپ کی آواز پر چمن دے میوے اٹھیانی پا اور گایوں کے ڈکرانے کی آواز حاوی ہو جاتی ہے۔ چیخنے پر یہ شور بیک گراؤنڈ میوزک میں بدل جاتا ہے۔
’’آلو! مے آئی سپیک تو موباشیر پلیز!‘‘ ادھر سے فرانسیسی لہجے کی انگریزی برآمد ہوئی۔
’’موباشیر اپنی ٹریننگ کے سلسلے میں لاہور سے باہر گیا ہوا ہے۔ کون بول رہا ہے؟‘‘
’’میرا نام رین کلاڈ ہے اور میں مبشر کا دوست ہوں۔ ہم دونوں کابل میں تھے۔۔۔ کیا وہ دو ایک روز تک لاہور میں واپس آ جائےگا؟‘‘
رین کلاڈ؟ میں نے اپنے ذہن پر زور دے کر یاد کرنے کی کوشش کی۔ آہا، وہی بڈھ قسم کی شے۔۔۔ مجھے یاد آ گیا۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ وہ تو اب اپنی ٹریننگ مکمل کرنے کے بعد ہی لاہور واپس آئےگا۔۔۔ تقریباً ایک سال بعد۔۔۔‘‘
’’اوہ۔۔۔!‘‘ لہجے میں شدید مایوسی تھی، ’’تھینک یو اینڈ۔۔۔‘‘
’’دیکھیے۔‘‘ میں نے جلدی سے کہا، ’’میں اس کا بڑا بھائی ہوں، شاید آپ کسی وقت مجھ سے ملنا پسند کریں۔‘‘
’’ضرور۔۔۔ ضرور۔ میں آج لاہور کا عجائب گھر دیکھنے جا رہا ہوں۔ اگر آپ دوپہر کو وہاں آ جائیں تو ہم اکٹھے عجائب گھر دیکھ لیں گے۔ مجھے بتایا گیا ہے کہ عجائب گھر کے پہلو میں ’’کم‘‘ نام کا ایک کافی بار ہے۔ میں وہیں بیٹھ کر آپ کا انتظار کروں گا۔۔۔ خدا حافظ!‘‘
وقت مقررہ پر جب میں کم کافی بار میں داخل ہوا تو نیم تاریک کافی بار کے ایک کونے میں نیشنل کالج آف آرٹس کا ایک جوڑا سر جوڑے آرٹ کے بارے میں گفتگو نہیں کر رہے تھے۔ دوسرے کونے میں ایک بگلا میز پر پھیلے ہوئے لاہور کے نقشے پر جھکا تھا۔۔۔ یہی ہو سکتا ہے۔ میں نےسوچا۔
’’رینے کلاڈ؟‘‘ میں نے قریب جا کر بگلے سر سے کہا۔ اس نے بڑے آرام سے نقشہ لپیٹا، اپنی آنکھوں پر چپکی تانبے کی فریم کی عینک درست کی اور سر ہلا دیا۔
’’میں مبشر کا بھائی ہوں۔‘‘ میں نے نہایت انکساری سے کہا۔
’’اوہ، ہیلو ہیلو‘‘ اس نے اپنا کانپتا ہوا ہاتھ آگے کر دیا اور اٹھنے کی کوشش کی۔
’’پلیز آپ بیٹھیے۔۔۔‘‘ میں نے اس سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہا اور اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ واقعی خاصی بڈھ قسم کی شے تھی۔ سفید بال، جھریوں سے بھرپور چہرہ، رعشہ زدہ ہاتھ، چیک شرٹ اور گرے پتلون میں ملبوس وہ سیاح کی بجائے مردے دفن کرنے والی کسی یہودی کمپنی کا ڈائریکٹر لگتا تھا۔ ’کم‘ کا سابقہ ایسٹ پاکستانی، حال مسلم بنگالی اور آنے والی کل کا بنگلہ دیشی ویٹر میرے سر پر کھڑا آرڈر کا انتظار کر رہا تھا۔
’’آپ کیا کھانا پسند کریں گے؟‘‘ میں نے رینے سے دریافت کیا۔
’’حلیم اور نان۔‘‘
’’حلیم۔۔۔؟‘‘ میں نے حیرت سے پوچھا۔
’’ہاں ہاں۔ میں تو جب سے لاہور آیا ہوں، روزانہ اسٹیشن کے سامنے زمین پر بیٹھ کر حلیم اور نان کھاتا ہوں۔ نہایت اوریجنل ڈش ہے۔ بےحد مزیدار۔۔۔‘‘ اس نے چٹخارے لیتے ہوئے بتایا۔ ظاہر ہے ایسا جدید کافی بار اپنے مینو پر حلیم جیسی دیسی شے درج کر کے اپنا امیج تو خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ چنانچہ میں نے معذوری ظاہر کی، ’’حلیم تو شاید یہاں نہ مل سکے۔۔۔ برگر کے بارے میں کیا خیال ہے؟‘‘
’’برگر تو میں پچھلے نوے سال سے کھا رہا ہوں۔‘‘ وہ منھ کھول کر خوش دلی سے ہنس دیا۔ دانتوں کی بتیسی بھی نقلی تھی۔
’’بہرحال ایک اور سہی۔‘‘ میں نے اپنے لیے کلب سینڈوچ کا آرڈر دیا۔
’’آپ کو پاکستان پسند آیا؟‘‘ میں نے گفتگو شروع کرنے کی غرض سے پوچھا۔
’’مجھے سبھی ملک پسند ہیں۔۔۔‘‘ اس نے عینک درست کرتے ہوئے کہا، ’’پاکستان بھی پسند ہے۔‘‘
عجب بوڑھا ہے۔ اس سے تو بہتر تھا کہ میں دکان پر ہی بیٹھا رہتا۔ دو چار روپے کی سیل تو ہو ہی جاتی۔
’’لاہور میں آپ نے کیا کیا دیکھا؟‘‘ میں نے دوبارہ ہمت کی۔
’’کل؟‘‘ اس نے اپنا بگلا سر کھجایا، ’’صبح تو شالیمار گیا اور وہاں تصویریں بنائیں۔ پچھلے پہر واپس ہوٹل میں آکر لاہور کے بارے میں تاریخ کی ایک کتاب پڑھتا رہا۔‘‘
’’اس کا مطلب ہے کہ آپ نے اب تک صرف شالیمار باغ دیکھا ہے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ اس نے میز پر رکھا کانٹا اٹھا کر اپنی گردن کے بالوں میں پھیرتے ہوئے کہا، ’’اس سے پیشتر پورے تین دن میں نے اندرون شہر لکڑی کے منقش دروازوں کے نقش و نگار کے سکیچ بنانے میں صرف کیے۔ پرانے شہر میں واقع اکثر مکانوں کی بالکونیاں اور دروازے صناعی کے بہترین شاہکار ہیں۔۔۔‘‘
’’گویا آپ کو تاریخی عمارات سے بے حد دلچسپی ہے؟‘‘ میں نے سپاٹ لہجے میں پوچھا۔
’’عمارتوں میں میری دلچسپی قدرتی ہے۔‘‘ اس نے اپنا بگلا سر ہلاتے ہوئے کہا یا شاید میں نے نوٹ نہ کیا ہو۔ اس کا سر رعشہ کی وجہ سے ویسے ہی ہل رہا تھا۔
’’ریٹائر ہونے سے قبل۔۔۔ اور یہ بھی تقریباً تیس برس پہلے کی بات ہے۔‘‘ اس نے سلسلہ گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا، ’’میں پیرس میں ماہر تعمیرات کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ ہمارے ہاں کے جدید معاشرے میں یہ فن بھی میکانکی سا ہو گیا ہے۔۔۔‘‘ وہ پھر خاموش ہو گیا۔ اس کی نگاہیں دوسرے کونے میں بیٹھے نیشنل کالج آف آرٹس کے جوڑے پر لگی تھیں۔ ان کے سر خطرناک حد تک ایک دوسرے کے قریب پہنچ چکے تھے۔
’’مجھے تو بتایا گیا تھا کہ مشرق میں کورٹ شپ کا رواج نہیں۔‘‘ اس نے زیرلب مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’طالب علم ہیں۔۔۔‘‘ میں نے ٹھوڑی کھجا کر جلدی سے کہا، ’’شاید مسئلہ طلب پر گفتگو ہو رہی ہو، بہن بھائی بھی تو ہو سکتے ہیں۔ بہرحال ریٹائر ہونے کے بعد آپ کا کیا شغل رہا؟‘‘
’’ہاں۔۔۔‘‘ اس کا سر یقیناً خود بخود ہل رہا تھا، ’’ریٹائر ہو کر کچھ عرصہ تو میں پیرس میں اپنے فلیٹ میں مقیم رہا اور پھر میری بیٹی۔۔۔ میری اکلوتی بیٹی مجھے گردنوبل لے گئی جہاں وہ اور اس کا خاوند مقامی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔ پانچ سال تک میں ان کے ہاں رہا اور پھر ایک روز ڈنر کے بعد اس نے مجھے نہایت اعلیٰ قسم کی کوفی کا گلاس ہاتھ میں تھمایا اور بولی، ’ڈیڈی! کچھ عرصہ سے مجھے یہ احساس ہو رہا ہے کہ ہم دونوں اپنی بے پناہ مصروفیات کی بناپر آپ کا اتنا خیال نہیں رکھ رہے جتنا عمر کےاس حصے میں رکھنا چاہیے۔ یہاں سے صرف پچاس میل کے فاصلے پر ایک اولڈ پیپل ہوم ہے۔ نہایت ہی آرام دہ اور پر فضا، وہاں آپ کی عمر کے اور بہت سارے دلچسپ لوگ ہوں گے اور پھر وہاں کا سٹاف آپ کی دیکھ بھال نہایت مناسب طریقے سے کرےگا۔ کیا خیال ہے ڈیڈی؟ ‘مجھے معلوم تھا، وہ مجھ سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہے، اس کی بڑی لڑکی اب جوانی کی حدود میں قدم رکھ رہی تھی اور اسے گھر میں ایک علیحدہ کمرے کی ضرورت تھی۔۔۔ وہی ایک فالتو کمرہ جس میں میں مقیم تھا۔ میں آپ کو بور تو نہیں کر رہا؟‘‘
’’جی!‘‘ میں نے چونک کر کہا۔ در اصل میں دوسرے کونے میں بیٹھے جوڑے کی حرکات میں زیادہ دلچسپی لے رہا تھا، ’’جی نہیں۔ بالکل نہیں۔۔۔‘‘
’’اولڈ پیپل ہوم میں مجھے زندگی کی تمام سہولتیں میسر تھیں۔ سنٹرل ہیٹنگ، پنگ پانگ، لائبریری، وقت مقررہ پر ناشتہ، لنچ اور ڈنر، نزدیکی ندی پر مچھلی کا شکار کرنے کے لیے ایک خوبصورت کاٹج۔۔۔ لیکن وہاں کا ماحول۔۔۔‘‘ رینے کلاڈ نے میز پر سے پانی کا گلاس اٹھا کر ایک گھونٹ بھرا اور سلسلۂ گفتگو جاری رکھا، ’’آپ تو شاید کبھی کسی اولڈ پیپل ہوم میں نہیں گئے ہوں گے۔ صاف ستھری اور خوبصورت عمارت، جہاں میری طرح کے سیکڑوں بوڑھے زندگی کے آخری ایام کاٹنے کے لیے کچھ آ جاتے ہیں اور اکثر بھیج دیے جاتے ہیں۔ مجھے تو یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے ہم سب مر چکے ہیں اور وہ عمارت ہمارا مشترکہ تابوت ہے۔ ہر دو چار ماہ بعد ہم میں سے کوئی ایک اس مشترکہ تابوت سے نکل کر اپنے ذاتی تابوت میں جا لیٹتا۔۔۔ اور جب تک ہم رات کے کھانے کے بعد آتش دان کے سامنے بیٹھ کر مرحوم کے خصائل کا ذکر کرتے، اتنے عرصہ میں کوئی اور ملک عدم کی راہ لیتا۔۔۔ اور یہ سلسلہ یونہی جاری رہتا۔
اولڈ پیپل ہوم میں قیام کی طوالت بزرگی کی علامت تھی۔ کوئی نیا رنگروٹ آتا تو یوں تعارف ہوتا۔۔۔ فی لپ دس سال۔۔ مشیل۔ تیرہ سال۔۔۔ کلاڈ۔ اٹھارہ سال۔ میری بیٹی شروع شروع میں تو ہر ماہ مجھے ملنے آجاتی مگر آہستہ آہستہ یہ وقفہ پھیلتا گیا اور پھر آخر میں یہ ملاقات کرسمس کارڈ تک محدود ہوکر رہ گئی۔ اس تابوت میں بیس برس زندگی گزارنے کے بعد میں نے ایک روز وہاں سے فرار ہونے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔‘‘ رینے کلاڈ کے چہرے پر ایک شرارت آمیز مسکراہٹ کھیل رہی تھی، ’’میں نے ہوم کی لائبریری میں سے دنیا بھر کے نقشے اور سفرنامے کھنگال ڈالے اور اس طرح اپنے سفر کے روٹ کا تعین کیا۔ پیرس میں میرا فلیٹ عرصے سے خالی پڑا تھا میں نے اسے فروخت کیا اور پھر وہاں سے بھاگ نکلا!‘‘
اتنی دیر میں ویٹر ہمارا آرڈر لے آیا۔ رینے کلاڈ برگر کو چھری سے کاٹنے لگا تو ہاتھوں میں رعشے کی وجہ سےاس کی چھری بار بار سخت قیمے پر سے پھسل جاتی۔ ’’لائیے میں۔۔۔‘‘ میں نے ہاتھ آگے بڑھایا۔ چھری کی نوک قیمے میں چبھو کر اسے کاٹ لیا۔
’’ہاں تو میں کیا کہہ رہا تھا؟‘‘ اس نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے آلو کا ایک قتلہ منہ میں ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’جی!‘‘ میں نے بوکھلا کر کہا۔ دراصل نیشنل کالج آف آرٹس کے اس لڑکے نے ادھر ادھر دیکھ کر لڑکی کو چوم لیا تھا، ’’اور ہاں! آپ وہاں سے بھاگ نکلے۔‘‘
’’ہاں!‘‘ اس نے شہادت کی انگلی اوپر اٹھا کر کہا، ’’میں نے پیرس میں اپنا فلیٹ فروخت کیا اور اپنی بیٹی کو اطلاع دیے بغیر وہاں سے بھاگ نکلا۔۔۔ میرا خیال ہے میں بہت زیادہ باتیں کر رہا ہوں۔‘‘ وہ ایک دم شرمندہ ہو گیا، ’’آپ نے اپنے بارے میں تو کچھ بتایا ہی نہیں؟‘‘ میں نے اپنے بارے میں اسے بتایا، ’’میرا چھوٹا سا کاروبار ہے۔ صبح دکان، شام ٹیلی ویژن اور اتوار کو چڑیا گھر۔۔۔‘‘
’’چڑیا گھر!‘‘ رینے کلاڈ نے کانٹا میز پر رکھ کر ہنسنا شروع کر دیا، ’’بہت خوب چڑیا گھر بھی دلچسپ جگہ ہے۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ ایتھنز کے چڑیا گھر۔۔۔‘‘
’’آپ کو سیاحت پر نکلے ہوئے کتنا عرصہ ہو گیا؟‘‘ میں نے اس کی بات کاٹتے ہوئے دریافت کیا۔
’’دوسال۔۔۔ ایک ماہ اور آج کیا تاریخ ہے۔۔۔ گیارہ! بس بائیس دن۔۔۔‘‘ اس نے فوراً جواب دیا۔
’’ان دو سالوں میں آپ صرف پیرس سے لاہور تک ہی پہنچے ہیں؟‘‘
’’میرے منصوبے کے تحت مجھے اس وقت ہرات میں ہونا چاہیے تھا مگر افغانستان میں آج کل سیلاب آئے ہوئے ہیں اس لیے میں دو ماہ پیشتر ہی لاہور پہنچ گیا۔‘‘
’’آپ پیدل سفر کرتے ہیں کیا؟‘‘ میں نے اکتا کر پوچھا۔ در اصل وہ سامنے والے کونے میں بیٹھا ہوا جوڑا اب کافی بار سے باہر جانے کی تیاری کر رہا تھا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ اس نے خوش دلی سے کہا، ’’میں بس یا ریل گاڑی کے ذریعے سفر کرتا ہوں۔ ایران کے البرز سلسلہ کوہ میں میں نے خچروں پر بھی سفر کیا۔ میرے سامان میں سات سوٹ کیس ہیں۔ بھلا میں پیدل کیسے سفر کر سکتا ہوں!‘‘
’’تو پھر دو سال میں پیرس سے لاہور؟‘‘
’’دراصل مجھے اگر کوئی شہر یا قصبہ پسند آ جائے تو میں وہاں دوچار روز کی بجائے دو چار ماہ تک پڑا رہتا ہوں۔۔۔ پیرس والا فلیٹ بھی تو خاصے مہنگے داموں فرخت ہوا تھا۔۔۔ اور پھر میں خود نہیں چاہتا کہ میرا سفر مکمل ہو جائے۔ میں پوری دنیا دیکھ لوں اور پھر بھی زندہ رہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب میں مروں تو میری آنکھیں کسی اجنبی سر زمین کے لہلہاتے ہوئے سبز کھیتوں پر لگی ہوں۔۔۔ میری آخری سانسوں میں انجانی فضاؤں کی مہک رچی ہو۔۔۔ بجائے اس کے کہ میں اپنا سفر مکمل کر کے ایک مرتبہ پھر اس تابوت۔۔۔ اس اولڈ پیپل ہوم میں واپس چلا جاؤں جہاں مرتے وقت تمام بوڑھوں کی آنکھیں آتش دان میں سلگتی آگ پر پتھراتی ہیں اور جن کی آخری سانسوں کو سنٹرل ہیٹنگ کی گھٹن نچوڑ دیتی ہے۔۔۔ میں واقعی زیادہ باتیں کر رہاہوں۔۔۔ مگر میرے پاس وقت بھی تو کم ہے۔۔۔‘‘
کھانے کا بل آیا تو میں نے زبردستی ادا کر دیا۔
’’نہیں نہیں! میں آپ پر بوجھ نہیں بننا چاہتا۔‘‘ رینے کلاڈ نے دبے لفظوں میں اجتجاج کیا۔
’’آپ کے دوست کا بڑا بھائی ہونے کی حیثیت سے میں آپ کا بزرگ ٹھہرتا ہوں۔‘‘ میں نے ہنس کر کہا، ’’بل کی ادائیگی میرا اخلاقی فرض تھا۔‘‘
’’مجھے مشرق کی انہی روایات سے پیار ہے۔‘‘ اس نے صوفے پر رکھی چھڑی اٹھائی۔ نقشہ سمیٹ کر کیمروں والے تھیلے میں ڈالا اور اٹھ کر کھڑا ہوا۔
’’میرا خیال ہے اب عجائب گھر دیکھا جائے۔‘‘ وہ قدرے لنگڑا کر چلتا تھا۔ ’کم‘ کافی بار کے پرسکون ماحول سے باہر آئے تو لاہور کی مال پر کاریں، رکشا، ٹیکسیاں مست ہاتھیوں کی طرح چنگھاڑتے چلے جا رہے تھے۔ میرے ذہن کو جھٹکا سا لگا۔ میں نے ٹکٹ خریدے اور ہم عجائب گھر کے اندر چلے گئے۔
’’ہا۔۔۔‘‘ اس نے اندر داخل ہوتے ہی بائیں ہاتھ پر رکھے منقش دروازے کی جانب چھڑی سے اشارہ کیا، ’’پرسوں میں نے اسی قسم کے سیکڑوں دروازے شہر میں دیکھے۔ تمہیں اپنے پورے قدیم شہر کو عجائب گھر قرار دے دینا چاہیے۔‘‘ وہ ہر مجسمے کے سامنے کھڑا ہوکر یوں ساکت ہو جاتا جیسے پتھر کا ہو۔ صرف اس کے لب ہلتے رہتے۔ خوبصورت۔۔۔ پرسکون۔۔۔ حیرت انگیز۔۔۔ وہ بڑبڑاتا۔ اگرچہ میں بھی آج پہلی مرتبہ عجائب گھر دیکھنے آیا تھا مگر مجھے پتھر کے ان تودوں اور ٹوٹے پھوٹے دروازوں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ عجائب گھر میں بےشمار لڑکیاں بھی تو تھیں۔ پچھلے پہر جب ہم دونوں عجائب گھر سے باہر نکلے تو لاہور کی تپتی دوپہر ابھی تک پورے جوبن پر تھی۔ ہم باغیچے کے قریب سے گزرے تو رینے کلاڈ ایک پھولدار بیل کے پاس کھڑا ہو گیا، ’’میں نے یہ سرخ پھول مرا کو میں بھی دیکھے تھے۔۔۔ انہیں پاکستان میں کیا کہتے ہیں؟‘‘
’’پتہ نہیں‘‘ میں شرمندہ سا ہو گیا۔ حالانکہ میں خود پھولوں کے بیجوں کا کاروبار کرتا تھا۔ صرف کاروبار۔ وہ کم از کم دس منٹ اس پھولدار بیل کے پاس کھڑا بڑبڑاتا رہا۔ اگرچہ وہاں کڑاکے کی دھوپ پڑ رہی تھی۔
’’اس خبطی بوڑھے کو ضرور سن سٹروک ہو جائےگا۔‘‘ میں نے سوچا۔ عجائب گھر کے کمپاؤنڈ سے باہر آکر میں نے اس سے اجازت چاہی، ’’مجھے واپس دکان پر جانا ہے۔۔۔ کاروبار! مجھے بےحد افسوس ہے۔‘‘
’’مجھے بے حد خوشی ہوئی۔۔۔ مہربانی بہت مہربانی۔۔۔ میں بھی اب واپس ہوٹل جا کر موسیقی سنوں گا۔۔۔ پاکستانی موسیقی۔‘‘ اس نے اپنا لرزتا ہوا ہاتھ آگے کر دیا۔ میں ہاتھ ملا کر جانے کو تھا کہ اس نے مجھے روک لیا، ’’ایک منٹ!‘‘ اس نے تھیلے میں سے کیمرہ نکالا اور آنکھ سے لگاکر بٹن دبا دیا، ’’شکریہ! آپ کی تصویر۔۔۔ بطور یادگار۔‘‘
’’میں آپ کے لیے کوئی ٹیکسی روکے دیتا ہوں۔‘‘ مجھے اس کے بڑھاپے اور ہوٹل تک کے فاصلے کا خیال آ گیا۔
’’نہیں نہیں۔‘‘ اس کا متحرک سر زور سے ہلا، ’’میں بس میں سفر کرنا پسند کرتا ہوں۔ اس طرح مجھے لوگ ملتے ہیں۔ مہربان اور خوشگوار قسم کے لوگ۔‘‘
ٹولنٹن مارکٹ کے قریب مجھے ایک ٹیکسی مل گئی اور میں اس میں سوار ہو گیا، ’’چوک گوال منڈی۔‘‘ ڈرائیور نے منہ بنا لیا مگر وہ اس سے پیشتر میٹر چلا چکا تھا۔ ٹیکسی سٹارٹ ہوئی تو میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ رینے کلاڈ چلچلاتی دھوپ میں یونیورسٹی کے بس سٹاپ پر کھڑا ایک خوانچے والے سے گنڈیریاں خرید رہا تھا۔ گنڈیریاں لیتے وقت اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے۔۔۔ بڈھ قسم کی شے۔
اور آج ٹھیک چار ماہ بعد اتوار کی صبح سنڈے ایڈیشن میں السیشین پلوں، بانگو ڈرمز اور جدید بنگلوں کے درمیان نیپال میں اس کی موت کی خبر چھپی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ مرتے وقت اس کی آنکھیں اس اجنبی سرزمین کے لہلہاتے ہوئے سبز کھیتوں پر لگی ہوں گی۔ اس کی آخری سانسوں میں انجانی فضاؤں کی مہک رچ گئی ہوگی۔۔۔ اس اولڈ پیپل ہوم سے ہزاروں میل دور جہاں اس وقت اس کے ہم عمر بوڑھے آتش دان کے سامنے بیٹھے ایک دوسرے کو گھور رہے ہوں گے۔ موت کے انتظار میں اولڈ پیپل ہوم، جہاں سے وہ ایک شرارتی بچے کی مانند بھاگ نکلا تھا، وہ اپنی موت کا انتظار کرنے کی بجائے اس کے استقبال کے لیے آگے بڑھا۔ اس کی وصیت کے مطابق اسے نیپال کی کسی وادی میں دفن کر دیا گیا تھا۔ حکومت نے اس کے سات سوٹ کیس۔۔۔ جن میں سے ایک میں کسی کونے کھدرے میں اس کے پاکستانی دوست کے بھائی کی تصویر پڑی ہوگی، ’شکریہ! آپ کی تصویر بطور یادگار‘ فرانسیسی سفارت خانے کے حوالے کر دیے ہوں گے۔
اس کے یہ سوٹ کیس فرانس میں اس کی بیٹی کے حوالے کر دیے جائیں گے جو انہیں ناکارہ جان کر پیرس کے لنڈے بازار فلی مارکٹ میں بیچ ڈالےگی۔ نیپال کی وادی میں اس کا جسم مٹی میں۔۔۔ ایک انجانے دیس کی مٹی میں جذب ہوتا چلا جائےگا۔ پیرس کی فلی مارکٹ میں اس کے سامان میں شامل اشیاء آہستہ آہستہ بکتی جائیں گی اور یوں رینے کلاڈ ریزہ ریزہ ہو کر اپنا وجود اس دھرتی میں کھودےگا۔ رینے کلاڈ جو ناروے کے آدھی رات کے سورج کے مانند تھا۔ ایک ایسا رعشہ زدہ سورج جس میں حدت تو برائے نام تھی مگر جو اپنی زرد کرنیں روشن تر کرنے کی کوشش میں افق کے ساتھ ساتھ چلتا گیا یہاں تک کہ ہمیشہ کے لیے ایک اجنبی دیس کی مٹی میں اتر گیا۔
’’میں نے کہا آج ننھے کو چڑیا گھر نہیں لے جانا کیا؟‘‘ بیگم نے لحاف میں سے سر نکال کر کہا۔
’’ہاں کیوں نہیں۔‘‘ میں نے اخبار تہ کر کے رکھ دیا۔
رینے کلاڈ خوش قسمت تھا جو ایک مشترکہ تابوت میں سے بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ میں خود بھی تو ایک عظیم تابوت میں دفن ہوں۔ مجھے بھی اولڈ پیپل ہوم کی طرح زندگی کی تمام سہولتیں میسر ہیں۔ بجلی کے ہیٹر، ٹیلی ویژن، نرم بستر، نیس کیفے۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ ہم یہاں صرف مرنے کے لیے آتے ہیں۔ موت کے انتظار میں۔ اس ماحول میں میرا دم گھٹا جا رہا ہے۔ میں بھی بھاگ جانا چاہتا ہوں۔ مجھے اپنی موت، اپنے ذاتی تابوت کی تلاش میں جانا ہے۔ میرے اس عظیم تابوت میں بھی بزرگی کا معیار قیام کی طوالت پر منحصر ہے۔ میرا تعارف مستنصر حسین تارڑ۔۔۔ تینتیس سال۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.