کہانی کی کہانی
اس کہانی میں سماجی بے حسی کا ماتم کیا گیا ہے۔ بلیوں کو کھانا کھلانے والی ایک بوڑھی فقیرنی سالہا سال سے ایک مخصوص مقام پر بیٹھتی تھی اور اسی وجہ سے وہ منظر کا ایک محسوس حصہ بن گئی تھی۔ لیکن جب اس کا انتقال ہو جاتا ہے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ کہانی کا راوی امریکہ جیسے مشینی شہر کو صرف اس لئے چھوڑ کر آتا ہے کیونکہ نائن الیون کے بعد ایک مخصوص شناخت کے ساتھ وہاں زندگی بسر کرنا مشکل ہو گیا تھا۔ مزید اسے اپنے شہر کی اقدار و روایات عزیز تھیں۔ لیکن جب وہ اپنے شہر آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کا معاشرہ اس قدر بے حس ہو چکا ہے کہ کسی کی موت بھی اس کے معمولات میں کوئی فرق نہیں لا پاتی۔
وہ میری آج کی موت تھی۔ اس کو مرے ہوئے نہیں دیکھا میں نے، مرتے ہوئے دیکھا۔
اتنا ہی بتا سکتا ہوں جس قدر میں نے دیکھا ہے۔
جو یوں بھی زیادہ نہیں ہے۔
اوڑھے لپیٹے کوئی لیٹا ہوا ہے۔ شاید وہ سو رہی ہے۔ میری نظر پڑی تو مجھے ایسا لگا۔ ورنہ میں تو دیکھتا بھی نہیں۔ روز اپنے ہی دھیان میں گم میں وہاں سے گزر جاتا ہوں۔
کچھ ایسا ہے بھی نہیں کہ دیکھا جائے۔
وہ لیٹی ہوئی بھی نہیں، آدھی گری ہوئی تھی۔
اس دن میں وہاں سے گزر رہا تھا۔ میں اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ اس موڑ سے کئی راستے نکلتے ہیں۔ میں اس طرف سے جاتا ہوں۔ روز صبح۔
کسی نے اسے بٹھانے کی کوشش کی ہوگی۔
چرچ کے سامنے والے پھاٹک سے چکر کاٹ کر سپاری والا بلڈنگ کے سامنے مڑا تو اسی ایک کونے میں، میں نے دیکھا کہ کوئی لیٹا ہوا ہے اور اس پر کچھ ڈھکا ہوا ہے۔ سارے بدن پر، مگر ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ وہ گری بھی نہیں تھی بلکہ ڈھلک گئی تھی۔ ایک لکڑی، جس سے ٹیک لینے کا کام لیا جاتا ہوگا اور کناروں سے چٹخا ہوا چینی کا پیالہ برابر میں رکھا ہوا تھا۔ ساتھ والی عمارت کی چار دیواری اور نئی بلڈنگ کی سیڑھیوں کے درمیان اپنی مخصوص جگہ میں وہ ڈھیر ہو رہی تھی۔ اتنے فاصلے سے چہرہ دیکھنا ممکن نہیں تھا۔ پلاسٹک کی پتلی سی تھیلی ہوا میں پھٹپھٹا رہی تھی۔ یہ وہی ہے، اس کا پتہ بھی بلی کے وہاں ہونے سے چلا جو روز کی طرح آج بھی اس کے اوپر منڈلا رہی تھی، ادھر سے ادھر جا رہی تھی۔ بلی تو وہی تھی مگر مکھیاں آج زیادہ بھنک رہی تھیں۔
کوئی اسے نہیں دیکھ رہا تھا، دو چار لوگ مجھے ہی وہاں رکتے دیکھ کر حیرت اور جھنجھلاہٹ سے گاڑیوں کے ہارن بجانے لگے۔ گاڑیوں کے ہارن لگاتار اور زور زور سے بجائے جانا وہاں کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ اسکول کے سامنے چلتی سڑک پر گاڑی روک کر بچوں کو اتارنے اور تیزی سے گھوم کر دوسری گاڑیوں سے آگے نکلنے کے لیے سب یہی کرتے ہیں۔ میں بھی روز دیکھتا ہوں اور کچھ نہیں کرتا۔ اسکول سے مڑتے ہوئے کئی لوگ رک کر اس کے چٹخے ہوئے پیالے میں سکے ڈالتے ہیں۔ گاڑی روکے بغیر بھی ایسا کرنا ممکن ہے۔ ایک اور دو روپے کے سکے میرے پاس بھی کئی جمع ہو گئے تھے جو ادھر ادھر دے ڈالتا ہوں ورنہ جیب کو بھاری کر دیتے ہیں اور بٹوے میں نشان پڑ جاتا ہے۔
میں رک گیا اور چلتا ہوا وہاں تک آیا۔ ساتھ والی عمارت کی کھڑکیاں سڑک کے رخ سے کھلتی ہیں اور ان کی بالکونیوں میں بیٹھی ہوئی بوڑھی عیسائی عورتیں۔۔۔ جن کو میں روز صبح سویرے وقت گزاری کے لیے اسکول کے بچوں کو جاتے ہوئے دیکھنے کے لیے آکر بیٹھتے ہوئے دیکھتا تھا، وہ اب مجھے دیکھ رہی تھیں، بے کار، حیرت کے ساتھ، کسی اور کام کے نہ ہوتے ہوئے۔۔۔
زمین کے اس خالی ٹکڑے پر آس پاس کی عمارتوں کا کوڑا بھی پھینکا جانے لگا تھا۔ جہاں وہ روز بیٹھتی تھی، وہیں کسی نے دیوار کے ساتھ لگاکر بٹھانے کی کوشش کی تھی، نئی بنی ہوئی عمارت کی دیوار جس کے اوپر کمپیوٹر کی دکانوں کا اشتہار جلی حروف میں نظر آتا ہے اور اندر جانے پر دکانوں کی قطاریں نظر آتی ہیں جن میں پرانے ہوکر باہر سے سستے داموں مل جانے والے کمپیوٹر کے ڈھیر بے ترتیب پڑے ہوئے، جگہ گھیرے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہاں آنے والے بہت سے لوگ وہم یا جانے کس وجہ سے بلیوں والی اس بھکارن کو بھیک دیتے تھے۔ کچھ اس کے سامنے اسی گندگی کے نزدیک اکڑوں بیٹھ کر اس سے باتیں کرتے تھے۔ ’’سٹے کے نمبر پوچھتے ہیں۔‘‘ بعد میں کسی نے بتایا تھا۔
وہ بعد تو بعد کی بات تھی۔ اس وقت مجھے کچھ بولنا تھا، کیونکہ میں وردی والے آدمی کے سامنے پہنچ گیا تھا اور لفظ مجھے بھولے جا رہے تھے۔
’’وہاں ایک عورت مری پڑی ہے۔۔۔‘‘ میں نے بہت مشکل سے کہا۔
’’عورت؟ کیسی عورت؟‘‘ وردی والے شخص نے اسی تعجب کے ساتھ مجھ سے پوچھا جو میں اس وقت سے متواتر کتنے ہی چہروں پر پڑھتا آیا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے وہ کبھی زندہ رہی ہوگی۔ میرے لیے یہ بھی یقین سے کہنا مشکل ہے کہ وہ مر چکی ہے۔ مطلب یہ کہ پوری طرح مر چکی ہے۔ لیکن کچھ نہ کچھ تو کرنا ہی ہوگا۔۔۔ نیلی اور سرخ پٹیوں والے نشان اور باوردی آدمیوں کے ہر وقت بیٹھے رہنے سے مجھے معلوم تھا کہ یہ پولیس اسٹیشن ہے۔ اس کی دیوار کےساتھ سڑک مڑتی ہے اور پرانی وضع کے پتھروں اور سرخ کھپریل والی اس عمارت کے برابر سے ہو کر میں واپس جاتا ہوں۔ اس میں داخل آج پہلی بار ہوا تھا۔۔۔ اور وہ بھی ایسے کہ مجھے لایا نہیں گیا تھا۔ میں خود آیا تھا۔ کم از کم میں یہی سمجھتا تھا۔
کچھ حیران پریشان نظروں سے ہر طرف دیکھتے ہوئے اور رکے رکے قدموں کے ساتھ بڑھتے ہوئے مجھے اس آدمی نے دیکھا جو عمارت کے اندر داخل ہوتے ہی برآمدے میں ایک کرسی ڈالے بیٹھا تھا۔ میں نے اسے بتانا شرع کیا، ’’وہ لڑکیوں کے چرچ والے اسکول سے آگے اس طرف آتے ہیں، تو الٹے ہاتھ کو مڑتے ہی وہ ایک عمارت ہے ناں، جس میں زیادہ تر ریٹائرڈ عیسائی رہتے ہیں، اس کے کمپاؤنڈ کے ساتھ۔۔۔ وہ جو بھکارن ہے، جو بلیوں کو کھانا کھلاتی، پچکارتی رہتی ہے، جو دیکھ نہیں پاتی اور رات دن وہیں بیٹھی رہتی ہے۔۔۔‘‘
’’وہ بلیوں والی مائی؟‘‘ وردی والے اس آدمی نے میری طرف دیکھا جیسے میری بات کا اعتبار نہ ہو۔ ’’وہ مر گئی ہے؟‘‘
’’آپ کے تھانے کی دیوار کے ساتھ۔۔۔‘‘ میں نے اسے باور کرانا چاہا۔
’’آپ نے پڑھا ہوتا۔ یہ تھانہ نہیں ہے۔۔۔‘‘ اس کے چہرے پر تمسخر بھری ہلکی سی مسکراہٹ ابھر آئی۔ ’’یہ جرائم کی تفتیش کا دفتر ہے۔ سارے لوگ جانتے ہیں، یہ صدر کے علاقے کا سی آئی اے سنٹر ہے۔۔۔ آپ کو تھانے میں جاکر رپورٹ درج کرانی چاہیے تھی۔۔۔‘‘
اب شاید میری باری تھی کہ چہرے پر وہ تاثر آ جائے کہ سنی ہوئی بات کا اعتبار نہیں۔
’’آپ ہیں کون؟‘‘ وہ مجھ سے پوچھ رہا تھا، ’’آپ کو کیا ہے؟ آپ کیا کہہ رہے ہیں وہ بلیوں والی مائی مرگئی ہے جو اتنے سال سے۔۔۔‘‘
اتنے سالوں اور سوالوں کی طرف میں دوبارہ واپس آیا جب شام کو واپس آنے کے بعد تازہ دم ہو کر اپنے فلیٹ کی بالکنی میں کھڑے ہوکر سمندر کی ہوا میں گہرے گہرے سانس بھرتے ہوئے اپنے گلاس کے رنگ میں شام کے سورج کو پگھلتے ہوئے دیکھ رہا تھا۔ اسی شہر میں رہنے کی تو میں خواب دیکھتا رہا تھا۔ یہ شہر جو دن میں کلفٹن ہے اور رات کی روشنیاں جل اٹھنے کے بعد مین ہٹن۔ میں اپنے آپ سے وہاں رہوں گا۔۔۔ جتنے عرصے باہر رہا، اسی شہر کا نام لے کر جیسے اپنے آپ کو تسلی دیتا رہا۔
میری ایک آزاد زندگی ہوگی۔ کہانیاں لکھوں گا، فلمیں بناؤں گا، رات کا کھانا کھانے کے بعد برتن اٹھانے کا جی نہیں چاہےگا تو میز پر یوں ہی دھرے چھوڑ دوں گا۔۔۔ برتن بھی اٹھانے ہیں اور میز صاف کرنا بھی ضروری ہے، ایک جھوٹی پلیٹ لے کر کگر کے ساتھ لگا لو اور اس طرح صاف کرو کہ بھونرے قالین پر نہ گریں، ورنہ لال بیگ اور چونٹیاں آ جائیں گے، بچپن میں مجھے اتنی تاکید کے ساتھ سکھایا گیا تھا کہ اب اسی کے نہ کرنے میں یوں لگتا جیسے دن بھر کے حبس کے بعد سمندر کے رخ سے سیلی ہوئی ہوا کے جھونکے چلنے لگے ہوں۔ ”Drudgery!“ میں باہر تھا تو اس وقت کو یاد کرکے یوں سوچا کرتا۔ میں اسی زبان میں سوچنے لگا تھا جو میں وہاں دن بھر بولتا تھا۔ بس خواب اسی زبان میں دیکھتا تھا جو میرے بچپن کی زبان تھی، اور اس شہر کی زبان۔۔۔
کبھی سارے رشتہ دار نانا جان کی پرانی اسٹیشن ویگن میں بھر کر دملوٹی جایا کرتے جہاں کنویں تھے اور ایک ریسٹ ہاؤس جس میں نہانے کا تالاب بھی تھا۔ تب شاید شہر کو پانی وہیں سے ملتا تھا۔ شہر میں پانی کی کمی تب کسی کے سان و گمان میں بھی نہیں آئی تھی، نہ پانی کے لیے جلوس نکلتے اور دھرنے دیے جاتے نہ رینجرز سے ہر ہفتے کے ٹینکرز بندھوائے جانے کا تصور تھا کہ ’’ڈبل ٹنکی‘‘ دے کے جائیں تب گھر والے نہانے اور برتن دھونے کا ارادہ کر سکیں۔ جیل روڈ سے آگے ’’شہر‘‘ ختم ہو جاتا تھا اور گلشن اقبال بسنا شروع نہیں ہوا تھا۔ فاصلے بہت واضح تھے اور دن بہت باقاعدہ۔۔۔ اسکول بہت دور تھا، صدر میں۔۔۔ جہاں میری کلاس کے دوسرے لڑکے ڈیڑھ بجے روزانہ ریڈیو پر Listener’s choice میں اپنی پسند کے نئے نئے گانوں کی فرمائش بھجواتے اور انہی پرانی عمارتوں کی محرابوں، برآمدوں اور کمپاؤنڈ میں کھڑی پرانی کھٹارا گاڑیوں کے اندر بیٹھ کر رچی رچ، کا سپر اور آرچی کا کامک پڑھتے، جن کے بارے میں اسکول والوں کی بندش تھی کہ ’’ان سے انگلش خراب ہو جائےگی۔‘‘
لیکن وہ اس کا کچھ نہیں کر سکتے تھے کہ ہم ہاف ٹائم اور چھٹی ٹائم میں ان کو ایکسچینج کرتے۔۔۔ دو رچی رچ کے بدلے میں ایک آرچی، اس لیے کہ رچی، وہ بے چارہ ’’پورلٹل رچ کڈ‘‘، کڈی کڈ تھا اور آرچی ٹین ایجر۔ بعض کامکس میں تو اس کے چہرے پر پمپل کے سائے بھی دیکھے جا سکتے تھے۔ آرچی کی مسیں ابھی تک نہیں بھیگیں اور صدر میں وہ اسکول اب بھی ہے۔ منی بس کے دھوئیں، ٹھیلے والوں کے شور، کوڑے کے ڈھیر اور گندے پانی کے جوہڑوں میں وہ شہر تحلیل ہو گیا۔ میرے ساتھ کے لڑکے چلے گئے۔۔۔ آسٹریلیا، کینیڈا۔ ہماری آخری ملاقاتیں امیگریشن کے فارم حاصل کرنے کے لیے غیرملکی قونصل خانوں کے سامنے نور کے تڑکے لگائی جانے والی لائنوں میں ہوئی، پھر آنکھ اوجھل۔۔۔ جانے کون کہاں ہے، جیتا ہے یا مر گیا؟ اور اگر باقی بچا ہے تو وہ بھی میرے بارے میں کیا یہی سوال پوچھتا ہوگا۔۔۔ گیاتو میں بھی تھا، مگر واپس آ گیا۔ کہنے کو اسی شہر نے واپس کھینچ لیا مجھے۔ مگر اب یہ شہر کون سا ہے؟ آج کوئی شہر ہے بھی؟
شاید سبھی شہر فرض کر لیے گئے ہیں۔ اجتماعی افسانے جو بہت سے لوگوں کے خوابوں سے بن لیے گئے ہیں۔ ایسا ہی شہر نیویورک تھا۔ بگ اپیل جس کا ترش رس اب بھی میرے دانتوں پر کنمنا رہا ہے۔ وہ غائب نہیں ہوا (افسانے یوں بھی غائب نہیں ہوتے!) وہ rupture ہو گیا۔ اس کے سینہ میں دراڑ پڑگئی اور اس جگہ جہاں موت واقع ہوئی تھی، ایک گہرا گڑھا پڑ گیا۔۔۔ نائن الیون۔ اب یہ کہنا مشکل ہے کہ نائن الیون نہ ہوا ہوتا تو میں نیویورک چھوڑتا بھی کہ نہیں۔
میں تو شاید چھوڑ بھی دیتا مگر نیویورک کہاں چھوڑتا ہے۔ مگر اس میں میرا دم گھٹنے لگا۔ سارے شہر کی ہوا جیسے بند ہوگئی۔ شہر کے ان لمبے بالوں میں گھس کر راستہ بھول گئی جو اس نے ماتم میں کھول ڈالے تھے۔ شہر کا اپنا سینہ کھولے ہر وقت ماتم کیے جانا میں اور کہاں تک دیکھتا۔ نائن الیون، چاروں طرف نائن الیون، چوبیس گھنٹے نائن الیون۔ ٹی وی پر، سب وے پر، لوگوں کی باتوں میں، لوگوں کی نظروں اور چہروں پر۔۔۔ تب میں نے اپنے شہر کو یاد کیا۔ ایک کراچی بھی تو ہے، ہزاروں مر گئے اور کوئی نام و نشان نہیں، حافظے پر کوئی بوجھ نہیں۔ اس شہر میں جو مارے گئے۔۔۔ They’ve all been papered-over!
اب شہر کی ہر دیوار کا پیرہن کاغذی ہے۔ سو میں واپس آ گیا۔
یہ شہر وہی ہے، یہ شہر وہی نہیں ہے۔ میں جس شہر میں آیا ہوں، وہ بدلا ہوا ہے۔ امریکا میں کیمپس کی زندگی کے دن یاد آتے ہیں۔۔۔ شاید میں ہوں ہی ایسا، ایک جگہ بیٹھ کر کسی اور جگہ کو یاد کرنا، کیے چلے جانا۔۔۔ اور ایک شہر یا اسی شہر کے کسی اور زمانے کے خواب دیکھتا رہتا ہوں جب ان مرحلوں سے گزرتا ہوں جو اب اس شہر کی زندگی کا معمول بن گئے ہیں۔۔۔ ٹریفک جیم میں پھنسی گاڑیاں، گرمی اور وقت کے تیز تیز گزرتے جانے کا احساس، یونہی، بے مصرف۔۔۔ بجلی کے شکایتی مرکز میں قطار بنائے ہوے کسی با اختیار آدمی کی توجہ حاصل کر کے شنوائی کی کوشش کہ شام ہوتے ہی وولٹیج میں اتنا fluctuation ہوتا ہے کہ ہم ہر چیز بند کردیتے ہیں ورنہ اپلائنسز جل نہ جائیں کہیں، پانی کے ٹینکر کے لیے بار بار فون کرکے یاد دہانی کیے جانا اور ہر بار وہی کمپلینٹ نمبر پانا جس سےکوئی اثر نہیں ہوتا، ٹیکس جمع کرانا، چالان بھرنا، بل کی ڈپلی کیٹ کاپی نکلوانا اور اس شہر میں جینے کی شرطیں پوری کرنا۔۔۔ اب میرے خون میں شکر کی مقدار کتنی ہے اور شریانوں میں کولسٹرول کتنا جم گیا ہے، اب کتنی دیر باقی رہ گئی ہے جب میں مر جاؤں گا؟
اس شہر میں اور آج ہی آج مر جانے کا اندیشہ گھل سا جاتا ہے، جب شام ہوتے ہوتے میں اپنے فلیٹ کی سلائڈنگ کھڑکیاں کھول دیتا ہوں کہ سارا گھر ہوا سے بھر جائے اور پھر بالکنی میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔ سخت کالر والی قمیص اور ٹائی میں نے کھول دی ہے، برموڈا شارٹس پہن کر ٹی شرٹ کا پہلا بٹن بھی کھول کر کہ ساحل کی بھیگی ہوئی ہوا میرے سینے کے بالوں کو گدگداتی رہے اور ایک سنسنی سی سارے بدن میں دوڑ جائے۔ پور پور سانس لینے لگتی ہے، روم روم ہوا سے مس ہو کر جاگنے لگتا ہے۔ میری نظروں کی سطح سے نیچے بچھا ہوا شہر سیاہی میں لپٹا ہوا ہے جس میں نیون لائٹز جگمگا رہی ہیں۔ منور نقطوں کی ایک لکیر وقفے وقفے سے جل رہی ہے، روانی سے چل رہی ہے۔۔۔
وہ سڑک ہے۔ جہاں وہ اوپر جاکر غوطہ کھاتی ہے، کلفٹن برج ہے اور اس کے پچھلی طرف، روشنیوں میں نہایا ہوا فریئر ہال جیسے شہر میں رات کے اندھیارے سمندر میں لنگر ڈالے ہوئے بحری جہاز جس کے مستول نہیں مینار ہیں اور ادھ کھلے بادبان وہ سبز رنگ کی ڈھلوان چھتیں۔ چیونٹیوں کی قطار کی طرح میں اپنی بالکنی سے ان گاڑیوں، سڑکوں کو دیکھتا ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ اندھیرے میں۔۔۔ میں اب ذرا دیر میں گھر سے نکلوں گا اور شہر میں گھوموں گا۔ صدر کی سڑکوں پر جہاں اس وقت بھی ہجوم ہوتا ہے۔۔۔ دکانیں بند ہو چکی ہیں مگر ٹھیلے والوں نے فٹ پاتھ پر ایک متوازی بازار بنا دیا ہے جس کے خریدار وہ ہیں جو یہاں سے لدالد بھر کر چلنے والی بسوں سے واپس جا رہے ہیں گھر، جو اور کہیں ہیں۔۔۔
فریئر ہال کے ساتھ والے پارک میں جہاں لکڑی کی بنچوں کے اردگرد سرسبز، گھنیرے اندھیرے ہیں، کلفٹن سے لے کر بوٹ بیسن تک اور پھر گھوم کر عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے سامنے سے جہاں اس وقت ڈھول والے زرد قمیص اور سرخ صدریاں پہنے ڈھول کو اس طرح بجائے جا رہے ہوں گے کہ اس کا آہنگ دور دور تک پھیل جائے۔ ان آوازوں کو سنتا، میں چہروں چہروں بھٹکتا پھروں گا۔ چلتی چلتے کسی ایک چہرے پر نگاہ پڑ جائے۔ اندھیرے میں سے وہ چمک کر باہر نکل آئے۔ آنکھ پرے، لب کھل جائیں۔۔۔ میرے ہاتھ کانپ اٹھتے ہیں اور میں جیب سے رومال نکال کر پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگتا ہوں۔ دل زور زور سے دھڑکنے لگتا ہے۔۔۔ آج کی رات کون میرا مہمان ہوگا، میں ایک بار پھر جی اٹھتا ہوں۔
اتنی روشنیوں اور لوگوں کے درمیان وہ بھی ہے، شہر میں گھوم پھر رہی ہے۔ موت اکیلی پڑ گئی ہے اس شہر میں۔ بھیڑ میں گم ہو گئی ہے۔ سڑک کے ساتھ ساتھ لوگ چلتے رہتے ہیں اور ان کے درمیان وہ بھی۔۔۔ بےنام، بے چہرہ، کوئی شناختی نشان نہیں۔۔۔ سگنل بند ہوتا ہے تو سڑک پار کرتے ہوئے کہنی مار کر گزر جاتی ہے۔ میں موت کو کیسے پہچانوں؟ میں نے اس کی آہٹ سنی ہے نہ اس کا سایہ دیکھا ہے۔ مجھے پتہ ہی اس وقت چلتا ہے جب میرے شہرمیں موت بھی تماشا بن جاتی ہے۔ کون کہہ سکتا ہے کہ وہ کبھی زندہ رہی ہوگی۔ میرے لیے پورے یقین سے یہ بھی کہنا مشکل ہے کہ وہ مر چکی ہے۔
اس دن بھی میں وہاں سے گزر رہا تھا۔ اس موڑ سے کئی راستے نکلتے ہیں اور میں اسی طرف سے جاتا ہوں، روز صبح۔ میں اس کے لیے تیار نہیں تھا۔ کچھ سوچے بغیر میں اس طرف چلا گیا، چرچ والے اسکول کے سامنے سے جاکر الٹے ہاتھ جو گلی مڑتی ہے اور نظر وہیں ٹھہر گئی، رہائشی فلیٹوں والی عمارت کی چاردیواری کے ساتھ اور دوسری بلڈنگ کی حد شروع ہونے سے پہلے، جو ذرا سی خالی جگہ ہے۔
کچھ ایسا بھی نہیں کہ خاص طور سے دیکھا جائے۔ ایک بلی وہاں گھوم رہی تھی۔ پہلا خیال جو میرے ذہن میں آیا، یہ تھا کہ میں نے اسے مرتے ہوئے نہیں، مرے ہوئے دیکھا تھا۔ وہ وہاں موجود تھی۔ وہ لیٹی ہوئی نہیں، بیٹھی ہوئی تھی۔ ایک پاؤں پر پلاسٹک کی تھیلی بندھی ہوئی، جگہ جگہ سے نچی ہوئی میلی چیکٹ چادر، ایک پیالہ سامنے دھرا ہوا اور آنکھیں اوپر آسمان کی طرف اٹھی ہوئی جہاں خلا تھا، کیا تھا۔
اتنے فاصلے سے مجھے یہی نظر آیا کہ بلیوں والی مائی شہر کے بیچوں بیچ اپنی اسی پرانی جگہ، تھانے اور اسکول کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اور اس کی پتلیاں ساکت ہیں۔ وہ اپنی موت تک پہنچ چکی ہے اور شہر اس کے گرد گول گول گھوم رہا ہے، چکر کاٹ رہا ہے۔۔۔ کبھی کسی کے لیے نہ رکنے والا، کبھی کسی کو یاد نہ کرنے والا۔۔۔ اسے موت کی کیا خبر؟
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.