Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری حویلی

نجمہ نکہت

آخری حویلی

نجمہ نکہت

MORE BYنجمہ نکہت

    ہائے یہ حویلی نہ ہوئی، پورے نو مہینے کا پیٹ ہو گیا جس کا بوجھ عورت کو سنبھالنا دوبھر ہو جاتا ہے۔۔۔

    یہ کمبخت حویلی بھی صمصام الدولہ کا بوجھ بنی پڑی تھی۔ ایک دو، نہ پورے پچاس کمرے تھے۔ مرّمت کروانا تو ایک طرف ،قلعی پھر دانا بھی بس کی بات نہ تھی جگہ جگہ سے دیواروں پرچو نے کا پلستر اُکھڑ رہا تھا۔ کہیں کہیں سیڑھیاں ٹوٹ گئی تھیں مگر نواب صاحب کی نظر پڑتی بھی تو وہ نظریں چڑا جاتے۔ اتنے بڑے برآمدوں میں جھاڑو دیتے لونڈیوں کا دم نکلتا تھا۔ ہاتھوں میں موٹے موٹے گٹھے پڑ گئے تھے۔ دوہری کمر سیدھی کر کے جب گشن لمبی سانس کے ساتھ ہائے کہتی تو بڑی بیگم چیخ اٹھتیں کمبخت جل موئی، بھرے گھر میں ہائے ہائے کرتی پھرتی ہے اور گلشن دانتوں میں اپنی ننھی سی زبان دبا کے شرمندگی کا اظہار کرنے لگتی۔

    ہربرس عید آتی تو باندیاں محرمی صورت بنائے دیوڑھی کا کونہ کونہ جھاڑتی جھٹکتی پھرتیں۔ مہینوں سے گرد میں اَٹے ہوئے بلوّریں فانوس کپڑے کی دھجیاں بھگو کے صاف کئے جاتے اور نئی مومی شمعیں روشن کی جاتیں۔ باغ میں مدت سے پڑا ہوا سوکھی شاخوں و پتیوں کا ڈھیر اٹھا تو گلشن، نوبہار و چمپا کو یوں محسوس ہوتا جیسے کوڑا اٹھاتے اٹھاتے ان کی اپنی زندگی بھی گھورا بن گئی ہے جس پر ہر طرف غلاظت ہی غلاظت پھیلی پڑی ہے مگر گھورا کس سے کہے کہ مجھے صاف کرو۔ یہاں بھی خوبصورت زمین دبی پڑی ہے۔ ہر طرف کی گندگی اپنے سینے پر لیئے گھورے کی قسمت سوئی پڑی ہے۔

    سارے گھر کی مالی پریشانیوں، گھریلو الجھنوں اور ازدواجی زندگی کی تلخیوں کا نشان دہی غریب بنا کرتی ہیں۔ ہر ایک کے حصہ کا بہاؤ انھیں کی سمت رخ کرتا ہے۔

    نواب صاحب کے خاصدان سے لے کے بڑی بیگم کی پن کٹی تک کی ذمہ داری انھیں کی ذات پر آ پڑی تھی۔ گردنیں جھکائے کولھو کے بیل کی طرح گھمر گھمر گھومتی پھرتی۔ خاموشی سے سب کچھ سہے جاتے ہیں۔ ہر ایک کے جا و بیجا حکم پر جھپٹ کر دوڑتیں۔ سارے گھر کی صفائی، بیگموں کی خدمت، ہر آئے گئے کی خاطر مدارات۔ بچوں کی دیکھ بھال کے علاوہ نواب صاحب کی بے چین راتوں کا چین بھی ان ہی کو مہیا کرنا پڑتا۔ ڈانٹ ڈپٹ، کوسنے کاٹنے اور مار دھار سے بھی واسطہ پڑتا رہتا۔ جوتی تو پیر میں پہننے کو ہوتی ہے مگر یہ کوئی نہیں کرتا کہ کبھی کبھار سر پر بھی رکھ لے سو یہ کمبخت بھی پیر کی جوتی بنی گھسٹتی پھرتی ہیں۔

    صمصام الدولہ کے سہرے کے پھول کئی کئی بار اسی حویلی میں کھلے تھے۔ یہیں ان کی ماں نے بڑی بیگم کے چہرے سے زر تا گھونگھٹ الٹ کے چٹ چٹ بلائیں لی تھیں ’’دلہن کا ہے کو ہے ، چودھویں کا چاند ہے۔ دیکھنا حویلی چھک سے روشن ہو جائیں گی۔ چشم بد دور، دلہن کی بلا جھاڑ پہاڑ کی نذر‘‘۔

    مگر جب سیاہ رات نے چودھویں کے چاند کو نگل لیا اور بڑی بیگم اپنی بانجھ کوکھ پر ہتھڑ مار کے بیٹھ رہیں تو نواب صاحب بادل ناخواستہ دوسرے شادی پر سمجھانے بجھانے سے راضی ہو گئے۔ اتنا بڑا جاگیردار اور شہر کے رئیسوں کا رئیس لا ولد رہ جائے یہ کس سے دیکھا جاتا۔ آخر خاندان کا نام لیوا کوئی تو ہو پھر کوئی گمنام ہوتا تو بات دوسری تھی۔ صمصام الدولہ تو دیس دیس مشہور تھے۔ بڑی بیگم حویلی میں روشنی نہ بکھیر سکیں تو ساس نے منجھلی بیگم بھی کالی گود لیئے بیٹھی رہیں۔ توبہ ہے اللہ کوئی اپنے ہاتھ کی بات ہے؟ ہزارو منتیں مانگیں گئیں۔

    ’’یا غوث پاک چاندی کا جھولا چڑھاؤں گی‘‘۔

    شہر کی مسجدوں میں گھی کے چراغ جلاؤں گی۔

    غریب حاجت مندوں کو چالیس دن کھانا کھلاؤں گی۔

    مگر منجھلی بیگم کے جگمگاتے دن بھی بڑی بیگم کی راتوں کی طرح لمبے اور اندھیرے ہو گئے۔ انھوں نے اپنا جھومر اتار کے زیور کے صندوقچے میں ڈال دیا۔ رات کو کروٹ بدلنے میں ہاتھوں کے کنگن رگڑنے لگے۔ وزنی کرن پھول سے کانوں کی لویں پھٹنے لگیں تو منجھلی بیگم نے ہلکے پھلکے سونے کے پھول کانوں میں اٹکا لیئے۔ بڑی بیگم کی طرف نظر نہ اٹھانے والی اب ان کے دالان میں بیٹھ کے پان کھانے لگیں۔

    نواب صاحب زیادہ تر اوپر والے کوٹھے کے کمرے میں رہتے اور نیچے اترتے بھی تو بڑی بیگم و منجھلی بیگم کے سرپر آنچل اوڑھنے سے پہلے ہی دیوڑھی سے باہر چلے جاتے۔

    جب گلشن نے بتایا کہ منشی جی کہہ رہے تھے کہ ایک مصاحب نے ایک بڑے جاگیردار کے وہاں بات شروع کی ہے تو بڑی بیگم اور منجھلی بیگم نے اپنے وقار کی سلامتی اسی میں دیکھی کہ نواب صاحب کو من مانی کرنے سے پہلے تیسری شادی کی رضامندی دے دیں۔ آخر اس میں جاتا ہی کیا ہے۔ ہر شخص طویل طویل ٹیڑھی میڑھی راہوں پر چلنے کے لئے ایک مضبوط لاٹھی کا سہارا ضرور چاہتا ہے۔ بڑھاپے کی اندھیری راتوں میں چراغ کی لَو کس کو نہیں بھاتی ہے۔

    اب برسوں بعد بھی حویلی اس طرح سر اٹھائے کھڑی تھی۔ صرف چمکیلے کلس آگے کو جھک گئے تھے اور کئی برساتیں کھائی ہوئی کائی سے ڈھکی دیواروں پر پلستر کوڑھ کے دھبوں کی طرح لگتا تھا۔ جگہ جگہ پہر دیتے چوکیداروں میں سے اب صرف ایک چوکیدار نظر آتا۔ جس کے چہرے پر نوحے برس رہے تھے اور جو زندگی سے بیزار دکھائی دیتا تھا۔ بار بار اس کی گردن نیند کے جھونکے روکنے کی کوشش میں دیوار سے ٹکرا جاتی اور وہ ادھر ادھر گردن بڑھا کے یوں دیکھنے لگتا جیسے پوچھ رہا ہو، کسی نے دیکھا تو نہیں؟

    دالان میں بری بیگم اپنے ملنے جلنے والوں سے اپنے ماضی کی شاندار روایات بیان کرنے بیٹھ جاتیں۔ کان بہرے، نہ آنکھیں پھوٹیں۔ جب سے قدم رکھا حویلی میں نوبت خانہ دیکھا۔ کانوں نے سدا نوبت بجتے سنا۔ آج نوبت خانہ ویران پڑا ہے۔ گزوں جالے چھت سے لٹک رہے ہیں۔ آدمی کے قد برابر بڑے بڑے طبلہ کے جوڑ ایک دوسرے پر اوندھے پڑے ہیں تو برسوں گذر گئے۔ کسی نے انگلی نہ لگائی، وہ بھی کیا زمانہ تھا جب بڑے پھاٹک پر ہاتھی کھڑا جھومتا تھا۔ اوپر حویلی کی کھڑکیوں میں ، چلمنوں کے پیچھے ہم لوگ محرم کا تماشہ دیکھنے بیٹھتے تو شہر کی ساری رونق ہتھیلی پر معلوم ہوتی تھی۔ سویرے باندیاں ہاتھ پیر داب داب کے نیند سے جگاتی تھیں۔ ہر وقت نظر نیچی، حکم کی منتظر کھڑی ہیں۔ اب تو ان منہ زور گھوڑیوں کے لگام ہی نہیں لگتی۔۔۔

    ہائے یہ سب خواب ہو گیا اور سچ پوچھو تو چھوٹی بیگم کے قدموں نے حویلی میں جھاڑو پھیر دی۔ سارے ٹھا ٹ باٹ ان کے آتے ہی رخصت ہو گئے پن کٹی کے کھٹ پٹ سازپر ان کا گھسا پٹا نغمہ گونجتا تو چھوٹی بیگم نفرت سے منہّ پھیر لتیں۔

    ’’توبہ کیا زمانہ آیا ہے ، قبر میں پیر لٹکائے بیٹھی ہیں مگر اب بھی گناہوں سے توبہ استغفار نہیں کرتیں۔ جئے جانے کی ہوس مردہ بدن میں سانس بن کے آتی جاتی ہے۔کوئی بڑے نواب صاب ہر گھڑی ان کی نگر انی کرتے تھے؟ کتنی ہی لونڈیوں کو مار مار کے کنویں میں پھینک دیا۔ یوں بھی کوئی ظلم کرتا ہے ؟ کیا جواب دیں گی خدا کے سامنے۔۔۔؟ جب دیکھو تب میرے ہی نام کی فاتحہ پڑھتی رہتی ہیں۔ مر جائیں گی تو مٹی بھی عزیز نہ ہوگی۔‘‘

    چھوٹی بیگم اپنی لمبی چوری چوٹی میں موباف کی گرہ مضبوط کرتیں۔

    جلدی جلدی کا رگے کی کرتی پر ٹنکی ہوئی چمکیاں نوچ نوچ کے دالان کی طرف دیکھ کے پلکیں جھپکا نے لگتیں۔۔۔ جب سے جاگیر داری کا خاتمہ ہوا تھا، ان کو اپنا مستقبل خطرے میں نظر آنے لگا۔۔۔ یوں دیکھنے کو دہ اب بھی بنی سنوری اپنی بچی کھچی جوانی کو چمکانے میں مصروف رہتیں مگر دل اندر ہی اندر بیٹھا جاتا۔ کلائی بھر بھر کے پھنسی ہوئی چوڑیاں پہننے والی چھوٹی بیگم کے ہاتھوں میں جھڑے پڑے نگوں والی گوٹیں مہینوں دکھائی دیتیں مگر انھیں اپنے سہاگ کا ذراسا احترام نہ ہو پاتا۔ بات بے بات سخت سست سن کے سہم جانے والی اب کبھی کبھی تڑے منہ یہ جواب مار بیٹھیں اور پھر بھی چین نہ آتا تو معمولی سی بات پر بھی گھنٹوں بیٹھی کٹکٹایا کرتیں کرتیں مگر جب صمصام الدولہ حویلی کے بڑے پھاٹک سے گذر کر دیوڑھی میں قدم رکھتے تو چاروں طرف خاموشی چھا جاتی۔ سارا ہنگامہ، لعن طعن کے تبادلے اور بیٹھے بیٹھے کٹکٹائے جانے کی عادت جانے کہاں غائب ہو جاتی۔

    کبوتر چھتری پر چپ چاپ ایک دوسرے سے بے خبر چونچ سے پر صاف کرنے لگتے۔بڑ ی انا اور چھوٹی انا کے حویلی میں ہر طرف اچھل کود مچانے والے بچے، ایک دوسرے کو ماں بہن کی گالیوں سے مخاطب کرنا بھول جاتے اور جب نواب صاب بلند آواز سے کسی باندی کو پکارتے تو جنگل میں شیر کی خوفناک دھاڑ کی طرح فناک آواز گونجتی اور بڑی، منجھلی اور چھوٹی بیگم ایک ساتھ دردو شریف پڑھ پڑھ کے اپنے اوپر دم کیا کرتیں۔

    اور ذراسی آہٹ پا کے زمین کے ننھے منی سوراخوں میں دبک جانے والے کیڑے مکوڑوں کی طرح بیگمیں اپنے اپنے کمروں میں منہ اوندھائے پڑ رہتیں۔

    صمصام الدولہ کوٹھے والے کمرے میں دیر تک باندیوں کو احکامات دیا کرتے یہ سب ہی بیگمات جانتی تھیں کہ تین تین بیویوں کے ہوتے ہوئے بھی صمصام الدولہ ادھر ادھر سے عورتیں بٹور نے میں ذرا بھی بخیل نہ تھے۔

    کھلے ہاتھ کی طرح دل بھی کھُلا ہوا تھا۔گھر کی لونڈیاں باندیاں تک بلا شرکت غیرے نواب صاحب کی ملکیت تھیں اور ان سب کو رزق پہونچانے میں خدا کی ذات سے زیادہ نواب صاحب کا ہاتھ تھا۔

    باپ دادا کی ساری جائداد کے تنہا وارث صمصام الدولہ تھے۔ کئی شاندار حویلیاں، انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی ضرورتوں پر قربان کر دی تھیں اور جی بھر کے عیش کئے تھے۔

    اکیلے ان کے قبضے میں اتنی جائداد تھی کہ پشت ہا پشت ان کو ہاتھ پیر ہلانے کی بھی ضرورت نہ پڑتی مگر بغیر پسینہ ٹپکائے اتنی بڑی جائداد مل گئی تھی، اس کا درد بھلا کیوں ہوتا۔۔۔؟ اگر وہ اپنی محبت کے بل بوتے پران شاندار حویلیوں کی بنیاد رکھتے تو ان کی ایک ایک اینٹ سے ان کو پیار ہوتا مگر ان کا حساب ہی دوسرا تھا۔

    بالکل کہانیوں کے شہزادے کی طرح جو ہمیشہ راتوں رات تاج و تخت کا مالک بن جاتا ہے اور آنکھیں کھلتی ہیں تو پریاں مبارکباد کے نغمے چھیڑ دیتی ہیں۔ ’’اے نوجوان! آج سے تم ہمارے دیس کے بادشاہ ہو۔‘‘

    بالکل یہی حال نواب صاحب کا تھا

    صمصام الدولہ تھے تو رئیس زادے اور رئسیوں کے خون کی ساری اچھائیاں اور برائیاں بھی ترکہ میں ملی تھیں اور اس طرح انھوں نے اپنی روایتوں کی شاہراہ پر قدم بڑھائے کہ دیکھنے والوں نے آنچل پھیلا پھیلا کے دعا دی۔

    دیکھو تو بوا۔۔۔ بالکل اپنے باپ کی طبیعت پائی ہے۔۔۔ دہی کھلا ہا تھ، دہی لین دین ایک ایک بچے کی سالگرہ پر ہزار ہا روپیہ پانی کی طرح بہا دیا مگر کیا مجال جو دل بڑا کیا ہو۔گھر میں ہاتھ ، پیر پیر کو باندیاں چمٹی رہتی ہیں۔ ادھر منہ سے با ت نکلی نہیں کہ ادھر پوری سمجھو یہی حال بڑے سرکا رکا تھا۔اللہ بخشے ، درجنوں باندیاں ہاتھ باندھے ٹکر ٹکر منہ تکا کرتیں چاہے کچھ کہو پر ورش کا رئیسوں کے ہاں یہی طریقہ ہے۔

    ’’نواب صاب جگ جگ جئیں، ڈیوڑھی اللہ پاک سلامت رکھے۔‘‘

    اور صمصام الدولہ خاندانی روایتوں کے قافلے کے ساتھ چل پڑے۔قافلہ کی جلتی شمعوں نے راہ دکھائی۔

    ایک دن نوبہار چوکیدار سے ہنس ہنس کے باتیں کر رہی تھی۔ کہیں نواب صاحب نے کوٹھے سے دیکھ لیا۔۔۔ کوچوان کو بلوا کے پچاس چابک لگوا دیئے نوبہار کے نرم و نازک بدن پر موٹی رسیوں کی طرح نیلی دھاریاں ابھر آئیں یعنی کمینہ پن کی حد ہو گئی۔ رئیسوں کی مُنہ چڑھی باندی ایک ادنیٰ چوکیدار سے عشق لڑائے۔۔۔؟ کتنی بے عزتی ہے نواب صاحب کی۔

    نوبہار حویلی کے پچھواڑے اپنی اندھیری کوٹھری میں شام تک ملگجا دوپٹہ منہ پر لپیٹے پڑی رہی، مسلسل ہچکیوں نے حلق میں پھندا لگا دیا تھا اور دوپٹہ آنسوؤں سے بھیک کے چہرے پر چپک گیا تھا۔

    کبھی کبھی مسکرا کے دیکھنے، گھناؤنے اور گندے اشارے کرنے اور دنوں انجان بننے والے نواب سے اسے شدید نفرت ہو گئی۔ نواب صاحب نے اسے چھو کیا لیا جیسے زمین سے اٹھا کے آسمان پر پہونچا دیا۔ مغرب کی اذان بھی ہو گئی مگر وہ منہ ڈھانکے، گھٹنے پیٹ میں لگائے گٹھری بنی پڑی رہی اور جب گلشن نے آ کے اٹھایا تو وہ پھر پھوٹ پڑی۔۔۔ گلشن کی موٹی آنکھیں بھی بہہ نکلیں یہ حویلی تو ان کا مقبرہ بن گئی ہے۔ مردہ روحیں باغ کی ویران روشوں پر بھٹکتی پھرتی ہیں۔ ان کا کوئی غمخوار نہیں۔ کسی کو ان سے ہمدردی نہیں۔ سارا دن سب ہی ڈانٹ ڈپٹ کے کام لیتے ہیں مگر کوئی ان کی ذراسی مسکراہٹ کا روادار نہیں۔ اب یوں ہونٹ مسکرائیں تودوسری بات ہے۔ دل سے کبھی وہ مسکراہٹ نہ ابھر ی تھی، بےساختہ، الھڑ مسکراہٹ جو کسی پابندی سے نہیں رک سکتی۔ وہ دل کی چاردیواری میں مقید۔۔۔ نہ جانے کب کی دم توڑ چکی تھی۔ یہ پراسرار دیوڑھی، کہانیوں کا طلسماتی محل ہے جس میں نظر نہ آنے والے بھوت پریت آزادی سے گھومتے پھرتے ہیں۔

    کبھی بڑی بیگم موڈ میں ہوتیں اور سو سوکنوں کو طعنے دینے اور قسمت کو کوسنے سے فرصت ملتی تو گھر کے سارے چھوٹے بڑوں میں بیٹھ کر بیوی ’’اگیٹ سمیٹ‘‘ کی کہانی سناتیں اور بچوں میں گڑ و تل کی نیاز بانٹ کر جاتیں کرنے بیٹھتیں تو رات گئے تک سب ان کے گرد جمع رہتے اور وہ اندھیرے میں حویلی کی کھڑکیوں میں جھانکتی پھرنے والی روح کے بارے میں بڑے رازدارانہ انداز میں بتاتیں کہ یہ روح ہمیشہ رات کو یونہی بھٹکتی پھرتی ہے ،سر سے پاؤں تک سفید لبادے میں لپٹی ہوئی روح ضرور کسی بزرگ کی ہے تب ہی آنگن سے عود کی لپیٹیں کمروں کے اندر آتی ہیں اور باغ میں مٹی کی ایسی سوندھی سوندھی خوشبو ہر طرف پھیل جاتی ہے جیسے خشک مٹی پر کسی نے پانی کا چھڑ کا ڈکیا ہو۔ بڑی بیگم کا ایقان تھا کہ حویلی والے، دین و ایمان، سے پھر گئے ہیں تب ہی یہ روح ان میں اس جذبہ کو بیدار کرنے اور بھٹک ہوئے مسافروں کو منزل کا پتہ بتانے آتی ہے۔

    ’’کیا پتہ بند کوٹیں سے کوئی خبیث روح نکل آئی ہو۔‘‘ چھوٹی بیگم اچانک اندیشہ ظاہر کرتیں۔

    بڑی بیگم کی اندر دھنسی ہوئی آنکھیں کھڑکی بھر باہر ابل پڑتیں اور ہاتھ میں پکڑے ہوئے سروتے کی دھار ڈلی کی بجائے کھٹ سے انگلی پر لگتی تو۔۔۔ بڑی بیگم تڑپ جاتیں ہر جمعرات کو بڑی بیگم کے ہاتھ سے باریک چاول کی مٹھیاں خیرات ہوتیں۔ مسجد میں گھی کا چراغ جلتا۔گڑ تل معصوم بچوں میں تقسیم ہوتا اور وہ پورے خشوع و خضوع کے ساتھ سجدے میں گر جاتیں۔

    ’’اے دکھیوں کا دکھ دور کرنے والے! میرے دل کا گھاؤ بھر دے میں نے باندیوں کو مارا ضرور ہے مگر ان کے سوکنی دعووں سے جل کر، ان کی خطاؤں و گناہوں سے بھر ی ہوئی زندگی کو سزادینے مگر اے دعاؤں کو قبول کرنے والے اے گناہگاروں کو بخشنے والے میرا گناہ بخش دے۔۔۔‘‘

    اور مصلے پر بیٹھے بیٹھے بڑی بیگم دونوں ہاتھوں کو گالوں پر زور زور سے مارکر توبہ کرتیں اور دونوں ہاتھوں سے کانوں کی لویں پکڑے دیر تک بیٹھی رہتیں ان کواس کا پورا احساس تھا کہ نواب صاحب کی بے وفائیوں اور لا پروائیوں کا بدلہ انہوں نے ان باندیوں کو مار مارکے لیا تھا۔ یہی بے زبان جانیں تھیں جنھیں وہ ایک خالق کی طرح مارتی اور جلاتی تھیں۔۔۔ مومی گڑیاں جن کے سارے دھاگے بڑی بیگم کے ہاتھ میں تھے جس طرح چاہتیں نچاتیں۔

    جاگیرداری ختم ہو گئی تو صمصام الدولہ کو آئے دن دل کے دورے پڑنے لگے۔ ہر وقت سینہ تان کے مضبوط قدموں سے چلنے والے جسم میں خمیاؤ پیدا ہو گیا تھا۔ حویلی کے اندر باہر تیز تیز آنے والے قدم تھک کے گاؤ تکیہ کا سہارابن گئے مگر اب بھی نوابی آن نبھائے جاتے تھے۔لوگ یہ نہ کہیں کہ سارا ٹھاٹ باٹ جاگیر کے بھروسے تھا۔ اب بھی بسم اللہ وسالگرہ میں طوائفوں کے مجرے ہوا کرتے۔ منجھلی بیگم اور چھوٹی بیگم اب بھی خاندانی تقریبوں میں سو سے کم کا نوٹ نہ دیتی تھیں۔ کوئی منہ پھٹ بھری محفل میں یہ نہ کہہ دے کہ جاگیرداری کے خاتمہ نے نواب صاحب کی کمر توڑ دی۔

    حویلی کا سارا کام کا ج آج بھی پچیس آدمی مل کے کرتے تھے۔ باپ دادا کے زمانے کی مغلانیاں، بوائیں، ان کی لڑکیاں اور لے پالک لڑکے اتنے شاندار گھر کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے اور پھر بھی کام نپٹا نہ تھا۔ رات گئے تک فرصت نہ ملتی۔

    اب بھی رئیسوں کی دعوتیں بڑے کرّ و فر سے ہوتیں۔ ظاہر ی شان میں رتی برابر فرق نہ آیا تھا جانے بڑے دالان میں رکھا ہوا سنگ مرمر کا تخت نواب صاحب نے کہاں رکھوا دیا تھا کہ جگہ خالی خالی بری لگنے لگی تھی حویلی میں جگہ جگہ راہ بھٹک ہوئے مسافروں کی طرح کھڑے ہوئے اسٹیچو منزل پا کے نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ بڑی بیگم کو ماں باپ کے گھر سے لائے ہوئے سیروں وزنی زیوروں ایکدم چڑ ہو گئی تھی۔

    بہت دن سے چھوٹی بیگم کے سچے موتیوں کا کنٹھا بھی ڈھونڈے نہ ملتا تھا۔۔۔ اس حویلی پرضرورکسی آسیب نے قبضہ جما لیا ہے ورنہ یوں راتوں رات دیکھی ہوئی چیزیں گم ہو جائیں۔ کون یقین کرےگا۔

    ظہور الا مراء کی دیوڑھی کا قبالہ جب نواب صاحب کی حبیب سے چار کما ن کے ایک مارواڑی کی حبیب میں منتقل ہو گیا تو چھوٹی بیگم کو گلے گلے پانی میں ڈوبے اپنے بچے نظر آئے۔ انھوں نے مٹھی بھر خاک اپنے ماں باپ کے نام پر ڈال دی اور رو رو کے اپنی مخمور آنکھیں سرخ بنا ڈالیں۔ کہنے کو تو لڑکوں کی جوان جان تھی مگر جاگیرداری کے بھرو سے پانچوں چھٹی جماعت سے آگے نہ بڑھے تھے۔

    ’’اے لو رئیسوں کے بچے کہیں پڑھتے لکھتے ہیں۔ اجی یہ تو وہ کلموئے کریں جن کے ماں با پ فقیر ہوں۔ جن کے دستر خوان پر خود ہی پچاسوں آدمی ٹکڑے توڑتے ہوں وہ کیا کسی کی نوکری کرےگا۔ بس اللہ رسول جان گئے تو جاہل ہو نے سے بچ گئے۔ بہت ہوا آمد نامہ رٹ لیا، مولوی جی گلستان بوستاں معنوں سے پڑھا گئے۔آگے توبس نام اللہ کا۔۔۔ بڑی بیگم ہزاروں بار اپنی قیمتی رائے پیش کر چکی تھیں اور بچے اپنی سوتیلی ماں کے آگے سعادتمندی سے سر جھکاتے آتے تھے۔ ان کی بات ٹالنا بھڑوں سے بیر مول لینا تھا اور سچ پوچھا جائے تو علم کی شمع سے دامن جلانا کس کو منظور تھا۔

    چنو نواب اور منو نواب نے جس رنگ میں نواب صاحب کو دیکھا اسی رنگ میں خود کو رنگ لیا۔جاگیرداروں کے اس کو ل میں پڑھا۔سب ہی ایک حمام کے ساتھی تھے۔ زبان کی ساری رنگینیاں حصہ میں آئی تھیں۔ بیمار ذہن سے جس مسئلہ پرسو چا اسے بیمار بنا دیا۔سترہ اٹھا رہ سال کی عمر میں سارے دنیاوی رموزسے ذہن آشنا ہو چکا تھا۔ گھر میں جہاں بھی روپے پیسے پڑے ہوتے دونوں کی جیب میں چلے جاتے۔پھر ہر ماہ باقاعدہ جیب خرچ ملتا تھا۔

    مستقبل سے لاپرواہ دونوں ہاتھ میں ہاتھ دیئے جانے کن راہوں پر چلے جا رہے تھے۔ کچھ بھی ہوں، گھر بھر کے لاڈلے، آنکھوں کا تارہ بنے جگمگ چمکا کرتے بڑی بیگم، منجھلی بیگم اور چھوٹی بیگم ایک ساتھ اپنی ممتا وار کے رکھ دیتیں چاہے کسی کے ہاتھ کا چراغ ہوں گھر میں روشنی توہے۔

    منجھلی بیگم اپنی چندھی آنکھیں سامنے دیوار پر گاڑے بےحس بیٹھی رہتیں باربار جیسے وہ اپنے آپ سے پوچھتیں ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟، یہ سب اچانک کیسے ہو گیا۔۔۔؟ کیا اندھیر ہے۔انگریزوں کے دیئے ہوئے عطیئے یہ نیچ بنئے چھین لیں اور کوئی زبان بھی نہ بلائے۔۔۔؟ کبھی کسی نے سنا کہ جاگیر بھی چھین جانے والی چیز ہے؟ ائی۔۔۔ انعام بھی کسی نے واپسی مانگا ہے؟ ندیدے کہیں کے کبھی سات پشت میں کسی نے حکومت کی ہوتی تو پتہ چلتا۔چمڑی جائے پر دمڑی نہ جائے۔چڑیا کا سادل لے کے حکومت کرنے چلے ہیں۔ توبہ۔۔۔‘‘ منجھلی بیگم ہونٹ لٹکائے، آنکھیں پھیلائے دیواروں کو یوں تکنے لگتیں جیسے اب دیوار ان کے سارے ہیجانات کو تسلی دینے والا جواب ڈھونڈ نکالےگی۔

    مگر بڑی بیگم کو صبر کہاں فوراً زخموں پر پھاہا رکھنے دوڑتیں۔

    ’’یہ سب قسمت کی بات ہے۔ ہمارے قدموں نے سونا بنایا مگر دیکھ لو ہر طرف خاک اڑتی پھرتی ہے جو ہم نے کھا یا پیا، پہنا، اوڑھا۔۔۔ وہ آج کسی کو نصیب نہیں۔ یہ تو عورت کا قدم ہے کسی کا پاک۔کسی کا خاک۔

    چھوٹی بیگم کلہ میں دبا ہوا پان زور زور سے چبا نے لگتیں جیسے یہ پان نہیں بڑی بیگم کی زبان ہے ، قینچی جیسی جس کو چبا چبا کے وہ اگالدان میں تھوک دیں گی۔

    چھوٹی بیگم اوپر کوٹھے والے کمرے میں نواب صاحب کے ساتھ رہتیں۔

    بڑی بیگم اس ضعیفی کے زمانے میں تیمار داری کرنے سے رہیں۔ منجھلی بیگم کو اپنی بیماریوں کے ناز اٹھا نے سے فرصت نہ ملتی۔ ان کی دانست میں ان کے ہر عضو پر درم آ گیا تھا۔ دل جگر وگر دے تو بالکل ہی نا کا رہ ہو گئے تھے۔

    چھوٹی بیگم نواب صاحب کی تیمار داری کے بہانے ہر وقت ساتھ لگی پھرتیں باتوں باتوں میں دل جھانکنے کی کوشش کرتیں تو۔

    نواب صاحب اٹھ کے بولائے بولائے سے برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ ہوں ہاں کر کے ٹا ل جاتے۔ اس وقت ان کے ماتھے کی ساری شکنیں ابھر آتیں اور سر خ وسفید جلد کے نیچے چنگاریاں سی دوڑنے لگتیں تو چھوٹی بیگم دل مسوس کے رہ جاتیں۔

    کیا مجبوری ہے منہ سے بات نکلی اور پرائی ہو گئی۔ ان سے ان سے پوچھو تو بھرے بازار میں جا کے بات بیچ آئیں۔ نواب صاحب سے پوچھا تو دبی چنگاریوں کو ہوا دینے کے برابر ہے اور کوئی سمجھا نے والا نہیں۔

    منشی جی سے پردہ کرتے عمر گذر گئی۔ اگر دروازہ کی آڑ میں کھڑے ہوکے کو ئی بات پوچھی جائے تو گھر بھر اپنے کان کھڑے کر لے۔ ایک تو بڑی بیگم ہی تھیں جو ہر اچھے برے میں ہر وقت ٹانگ اڑانے کو تیار رہتیں۔ منجھلی بیگم تواسی دن چھوٹی بیگم کی فاتحہ کر کے بیٹھ رہیں جس دن چھوٹی بیگم نے مہندی لگا پیر ڈیوڑھی میں رکھا۔۔۔ ’’اے غفور الرحیم۔۔۔ تو سب کی سننے والا ہے مجھ دکھیا کی بھی سن چھوٹی بیگم جان سے جئیں پر دل سے ہمیشہ بے چین رہیں جیسے نواب صاحب نے ہماری طرف پیٹھ موڑی ہے۔اُن سے بھی منہ موڑ لیں۔‘‘

    مگر یہ تو نوابوں کا وطیرہ رہا ہے جہاں زمین سے اٹھا کے آسمان پر بٹھا یا ہے، وہاں آسمان سے زمین پر پھینک بھی دیا ہے۔یہ اور بات ہے کہ چھوٹی بیگم کی، ہری گود، کے احترام میں جائداد کا ایک ٹکڑا ان کے پھیلے آنچل میں ڈال دیں اور بچوں کے لئے گذارہ مقرر ہو جائے۔ چلو چھٹی ہوئی۔ فرض ادا ہو گیا کھاتی پیتی اوڑھتی پہنتی بیوی کو اور کس چیز کی ضرورت ہے؟

    مرد چاہے باہر کچھ بھی کرے اس سے بیوی کو کیا مطلب۔۔۔؟

    رہا گھر کی باندیوں پر نیت بدلا نے کا سوا ل سووہ حلال ہے، جو کھلائے پلائے، پہنائے جس کی مٹی سے بدن ڈھلے وہ خاک مالک پر سے قربان کر کے پھینک دینا بھی کوئی بڑی بات ہے۔۔۔؟ اور پھر ان نکٹی چپٹی، نیچ خاندان کی لونڈیوں کو پوچھتا ہی کون ہے جن کے باپ دادا کا پتہ ہی نہ ہو، ان سے کون رشتہ جوڑے۔۔۔ یہاں اتنی بڑی حویلی میں چہلیں کرتی پھر تی ہیں۔ اب یہ دوسری بات ہے کہ نا فرمانی و عدول حکمی پر بڑی بیگم بھیگی بید سے نصیحت کرنے بیٹھ جائیں یا سرکار کے اشارے پر کوچوان کبھی کبھار چابک دکھا دے۔ اپنی اولا د پر انسان ہاتھ اُٹھاتا ہے اور ان کم ذاتوں پر تو صدیوں کے احسانات لدے ہیں۔ صمصام الدولہ دن بدن کمزور ہونے لگے جیسے اندر ہی کوئی نا معلوم جونک خون چوستی جا رہے ہی ہو۔۔۔ ان کا سرخ چہرہ اترتی دھوپ کی طرح زرد ہوتا گیا۔ روز بڑی بیگم صدقہ اتارتیں۔۔۔ منجھلی بیگم پانی پر سینکڑوں وظیفے پڑھ پڑھ کے دم کرتیں۔ سیاہ مرغ ہر جمعرات کو سرہانے بند کر کے ساری رات گذرنے کے بعد صبح خیرات کیا جاتا۔۔۔ ہر رات مرشدوں، ملاؤں سے منگوائے ہوئے فلیتے جلا کے کمرے میں دھواں دیا جاتا۔ ڈاکٹروں حکیموں کے ساتھ ساتھ مرشد و ملا بھی روحانی تشخیص کرنے آتے۔ دوائیں منگوائی جاتیں، انجکشن لگائے جاتے۔ جھاڑ پھونک ہوتی مگر نواب صاحب ایک ہی حالت میں پڑے کہیں دور خلا میں تکا کرتے۔۔۔ خالی الذہن، کھوئے سے۔

    جاگیر داری موت سے پہلے آخری تشیخ کا شکار تھی۔

    اور جب یہ آخری حویلی بھی نیلام ہونے لگی۔ بار بار کا رمیں لگا لاوڈ اسپیکر چیخنے لگا، منشی جی دوڑے ہوئے زنانہ دروازہ پر آئے تو رو پڑے ان کی آواز کانپ کا پن گئی۔ مگر اب بیگمات بغیر سنے ہی سب کچھ جان گئیں یہ ایسی فلم تھی ،جس کے شروع ہوتے ہی دیکھنے والا نتیجہ پر پہونچ جاتا تھا۔

    وہ تینوں خوف زدہ سی ایسی ناؤ میں بیٹھی تھیں جس کے پتوار سیلاب کے زور میں بہہ چکے تھے۔ ان کو نہ طوفان کے کم ہونے کی امید تھی نہ ساحل پر پہونچنے کی۔۔۔ ہائے وہ حویلی جو بھنور میں پھنسی ناؤ کی طرح ڈوبتی جا رہی تھی۔

    اب کیا ہوگا؟ اب کیا ہوگا اس پاس کی حویلیوں میں سرگوشیاں شروع ہو گئیں۔ باہر لے پالک لڑکے ایک دوسرے کو دلا سہ دینے لگے۔ چند ہمدرد جمع ہو گئے۔

    ’’آخر کیا بھی کیا جا سکتا تھا۔ اتنے بڑے گھرانے کو جہاں ہر مہینے ہزارہا روپیہ ملتا تھا اب سہ ما ہی مختصر گذرے پریہ حویلی کہاں تک چل سکتی ہے۔ یہ روز روز کے بڑے خرچ کسی بھی کا ٹ چھا نٹ سے مختصر تھوڑا ہی ہو سکتے ہیں۔‘‘

    ’’اتنے آن بان کے رکھ رکھا و میں کوئی کہاں تک ہاتھ کھنچے؟‘‘

    ’’مگر چھپا چھپا کے رکھا ہو ا راز توسرکا رکی جان پر بن گیا۔‘‘

    ’’کبھی کسی پر ظاہر نہ کیا کہ حویلی پر اتنا قرضہ نکالا ہے۔‘‘

    ’’اور سچ پو چھو تو یہ حویلی اب ان کے سنبھا لے نہ سنبھلتی تھی۔،’‘

    ’’فقط بھرم تھا۔۔۔ بھرم‘‘

    ’’ہے ہے لاکھوں کی حویلی خاک ہوئی‘‘

    ’’جائداد تھی تو بچوں کا ارمان تھا اب بچوں کا کیا ہوگا؟‘‘

    ’’بچے تو پل ہی جائیں گے پر سرکار جیتی آنکھوں سے یہ بے عزتی نہ دیکھ سکیں گے۔‘‘

    باہر لاوڈاسپیکر صمصام الدولہ کی حویلی کے نیلام کا با آواز بلند اعلان کر رہا تھا اور اندر حویلی کا ہر زندہ وجود جیسے اپنی موت کا یقین دل میں لیئے سہما ہوا سراپا دھڑکن بن گیا تھا۔ صمصام الدولہ کے کانپتے لرزتے ہونٹ صبر و ضبط کی شعوری کوششوں کے باوجود کراہ اٹھتے تو بیگمیں مارے اذیت کے دوہری ہو جاتیں۔ تھرتھراتے ہاتھ پیر اور کانپتے دل، کے ساتھ صمصام الدولہ عجیب و غریب کرب سے تڑپ اٹھتے۔

    یہ نیلام حویلی کا نیلام نہیں تھا۔ یہ نیلام صمصام الدولہ کی ساری قدیم روایات کا نیلام تھا۔ان کی عزت، وقار اور آن بان کا نیلام تھا۔

    لالہ چھنو مل جو انھیں دور سے آتا دیکھ کر فرشی سلام کے لئے دوہرا ہو جاتا تھا آج ان کی حویلی نیلام کرنے آیا تھا۔ بےراہ روی کی اتنی بڑی سزا کے لئے وہ تیار نہ تھے۔ ان کے سامنے نظریں جھکائے گھنٹوں کھڑا رہنے والا لالہ آج حویلی کی ایک ایک اینٹ کی قیمت لگا رہا تھا۔ وہ ساری کا روائیاں کر کر کے ہار گئے تھے۔ یہ دن نہ دیکھنے کے لئے وہ کس قدر پریشان سے بولائے ہوئے گھومتے رہے مگر لالہ نے بھی ہزاروں روپیہ یونہی نہ دیا تھا۔ وہ سارے طریقے و گراس کے پاس بھی موجود تھے جن سے بنایا ہوا پھند ا نواب صاحب کے گلے میں ٹھیک بیٹھتا تھا۔

    جب آخری بولی ختم ہو گئی تو حویلی پر موت کا سنا ٹا چھا گیا۔ باغ میں ہر طرف سوکھی پتیاں ہوا کے جھونکوں پرسوار کھڑکھڑاتی پھر رہی تھیں۔

    ناریل کے پتے ایک دوسرے سے رگڑ کھا کے شور مچانے لگے تو درد ناک نوحے کی لے پھوٹ نکلی۔۔۔ ستونوں پر عشق پیچاں کی بیلوں کی ننھی منی لچکیلی ناتوان ڈالیاں کسی بیراگن کی پریشان لٹوں کی طرح ادھر ادھر پھیلی پڑی تھیں اور چمگادڑیں صبح سویرے ہی سے پر پھٹپھٹا کر برآمدے کے آگے جھکے ہوئے سائبان میں لٹک گئی تھیں۔

    اور گلشن کو برآمدے میں لٹکی ہوئی چمگادڑ دیکھ کے صمصام الدولہ کا خیال آیا، یوں لگا جیسے لالہ چھنّو مل نے بھی نواب صاحب کو چمگادڑ کی طرح حویلی کی چھٹ سے الٹا لٹکا دیا ہے۔

    بڑی بیگم کہا کرتی ہیں شاید بد روحوں کو اللہ پا ک نے چمگادڑ بنا کے عمر بھر کے لئے الٹا دیا ہے۔

    کیا پتہ نواب صاحب کب تک یونہی لٹکے رہیں گے؟

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے