Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

آخری سفر

تاج الدین محمد

آخری سفر

تاج الدین محمد

MORE BYتاج الدین محمد

    کالج دو ماہ کے لیے بند ہو چکا تھا کافی دنوں سے دل میں خیال پیدا ہو رہا تھا کہ گاؤں گھوم آوں؟ تبھی اچانک ماموں آ دھمکے اور امی سے گزارش کر کے مجھے رام گڑھ اپنے گھر لے آئے جو صوبہ جھارکھنڈ میں ضلع رانچی کے قریب واقع ہے۔ وہاں ماموں کا کوئلے کی کان میں کوئلہ کی ٹھیکیداری کا کاروبار تھا۔ کوئلے سے بھرا ٹرک بنارس کی منڈی کو ہر روز جاتا تھا۔

    انھوں نے ایک ملازم یونس نام کا پہلے سے ہی اس کام پر لگا رکھا تھا۔ مجھ سے کہنے لگے ایک دو ماہ تم بھی یہ کام کر لو ٹرک میں ڈرائیور کے ساتھ جانا ہے مال منڈی میں پہنچا کر پیسے ساتھ لے کر ٹرین سے واپس آنا ہے۔ زیادہ الجھن کا کام نہیں ہے یونس تمہیں ایک دو سفر میں سب کچھ سمجھا دے گا۔ کچھ پیسے کما لوگے تو وقت بے وقت کام آئے گا۔ میں راضی ہو گیا اور یونس کے ساتھ کام پر لگ گیا۔

    کوئلوری میں کوئلے کی کالابازاری اپنے عروج پر تھی۔ وہاں کوئی کام بغیر رشوت کے ہونا ناممکن تھا۔ ایک دو سفر میں ہی اوپر کے پیسے کس طرح کمائے جاتے ہیں اور کہاں کہاں بچائے جاتے ہیں یونس نے بہت جلد یہ سبق مجھے ازبر کرا دیا تھا اور لالچ کے کبھی نہ ٹوٹنے والے حصار میں ہمیں گرفتار کر لیا تھا۔ شیطان جو ازل سے ہی انسان کا دشمن ہے اور ہر آدمی کو بہکا کر جہنم کا ایندھن بنانے کی ذمہ داری اس نے اپنے سر لے رکھی ہے مجھ سے حامی بھروا لی اور پھر رام گڑھ سے بنارس اور بنارس سے رام گڑھ کا یہ سفر شروع ہو گیا۔

    آج بنارس سے واپسی پر میں کافی تھک چکا تھا۔ بستر پر لیٹا ہوا ایک کتاب کے مطالعے میں منہمک تھا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی میرا معمول رہا ہے کہ ایک پسندیدہ کتاب سفر میں ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتا ہوں اور فرصت کے اوقات میں مطالعہ کرتے رہنا اور وقت کو کسی حال میں ضائع نہ کرنا میرا خاصہ رہا ہے۔

    صفحہ کو پلٹتے ہی میری نظر ایک حدیث پر پڑی لکھا تھا بروز حشر انسان اپنی جگہ سے ٹل نہ پائے گا جب تک تین چیزوں کا جواب نہ دے لے۔ جس میں ایک یہ کہ مال کہاں سے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اس حدیث نے ایک لمحے میں ہی ابلیس کا بنا بنایا سارا کھیل بگاڑ دیا۔ میں نے کتاب بند کر دی اور تکیے میں سر ڈال کر دیر تک روتا رہا بار بار ایک ہی خیال کھائے جا رہا تھا کہ جب زندگی کی پہلی کمائی کی بنیاد ہی کذب بیانی و دروغ گوئی پر ہوگی تو باقی ماندہ زندگی کا اتنا طویل و دشوار گزار سفر کیسے اور کیوں کر طے ہوگا؟ جب خوب رو کر دل ہلکا ہو گیا اور قلب کو قدرے سکون نصیب ہوا تب چند ہی ساعت میں یہ فیصلہ طے پایا کہ جو پیسے غلط طریقے سے کمائے گئے ہیں اسے لازماً واپس کرنا چاہیے۔

    دل کی چہار دیواری میں بار بار یونس کا خیال ستا رہا تھا۔ میری ایمانداری سے ایک غریب کی نوکری کہیں نہ چلی جائے؟ پیسے واپس کرنے کی کوئی حکمت اور تدبیر سوچتے ہوئے میں نے ماموں کو آواز دی اور ان کے ہاتھ میں پانچ ہزار روپیہ رکھتے ہوئے کہا۔ پچھلی بار غلطی سے حساب میں پیسے زیادہ آ گئے تھے یہ اسی میں سے بچے ہوئے پیسے ہیں۔ یہ کہتے ہوئے کہ کل میرا آخری سفر ہوگا اپنے بستر پر آیا اور دل پر پڑے بوجھ اور دامن پر اٹے ہوئے گناہوں کے اس بار کو اتار کر سکون کی نیند سو گیا۔

    میں آج رات رام گڑھ سے بنارس کے لیے ٹرک کے ساتھ آخری سفر پر نکل پڑا تھا۔ علیٰ الصبح ٹرک بنارس منڈی پہنچ گیا۔ جہاں ٹرک خالی کروا کر اور دکان دار سے پیسے لے کر بنارس ریلوے اسٹیشن جلدی آ گیا۔ بنارس کوئلہ منڈی سے ریلوے اسٹیشن پاس میں ہی تھا۔ وہاں سے تقریبآ شام پانچ بجے ایک ٹرین کوڈرما کو جاتی تھی جس سے اکثر ہمارا سفر ہوا کرتا تھا۔ کوڈرما اتر کر بس سے چار پانچ گھنٹے کا ایک اور سفر ہمیں اپنی منزل رام گڑھ تک پہنچا دیتا تھا۔ یہی ہم دونوں کا اکثر معمول تھا۔ لیکن آج پہلا اتفاق تھا جب یونس ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ اس کی طبیعت دو تین دنوں سے قدرے ناساز چل رہی تھی۔

    آج خلاف توقع ٹرین میں بھیڑ بہت کم تھی۔ جبکہ ٹرین اکثر و بیشتر مسافروں سے بھری رہتی تھی۔ میں ان دو مہینوں میں اس ٹرین سے سات آٹھ بار سفر کر چکا تھا۔ دو تین گھنٹے گزر چکے تھے۔ تھوڑی بہت دیر بعد آنے والے اسٹیشن انجانے سے لگنے لگے۔ مجھے تشویش لاحق ہوئی۔ سامنے اونگھتے ہوئے ایک بزرگ سے پوچھا بابا کیا یہ ٹرین کوڈرما جائے گی؟ اس نے اثبات میں سر ہلایا اور دوبارہ سیٹ پر ٹیک لگا کر سو گیا۔

    رات کا سناٹا پسرا ہوا تھا۔ ہوا کے تیز جھونکے کھڑکی سے اندر آ رہے تھے۔ ٹرین اپنی پوری رفتار سے پٹری پر دوڑ رہی تھی۔ تبھی اچانک رفتار دھیمی ہوئی اور ٹرین ایک اسٹیشن پر رک گئی۔ چند نئے لوگ ڈبے میں داخل ہوئے اور ایک آدمی میرے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔ میں نے جگہ دیتے ہوئے اسے اپنے پاس بیٹھا لیا۔ یہ نیا اسٹیشن میرے لیے بالکل انجان سا تھا۔ مجھے اس معمر شخص کی باتوں کا اب یقین نہیں رہا تھا۔ میں نے اپنے پاس بیٹھے اس نئے شخص سے پوچھا بھائی صاحب کیا یہ ٹرین کوڈرما جائے گی؟ وہ فوراً ہی میری جانب متوجہ ہوا اور کہنے لگا نہیں، یہ تو پٹنہ جائے گی! آپ غلط ٹرین میں چڑھ گئے ہیں؟ آپ ایسا کریں تھوڑی دیر میں ایک جنکشن آنے والا ہے وہاں اتر جائیں۔ وہاں سے آپ کو ضرور کوڈرما کی کوئی نہ کوئی ٹرین مل جائے گی۔

    اس وقت میری عمر تقریباً اٹھارہ بیس برس رہی ہوگی۔ عمر کے مراحل نے دل میں اضطراب کی ایک عجیب و غریب سی لہر دوڑا دی۔ میں راہ بھٹک جانے کے خوف سے کافی ڈر گیا اور چند ہی لمحوں میں پسینہ سے شرابور بھی ہو گیا۔ تردد جان سے زیادہ کسی کی امانت کا تھا۔ بیس ہزار روپیے پاس میں تھے جو اس وقت ایک بڑی رقم تھی۔ اگلے اسٹیشن پر جیسے ہی ٹرین رکی وہ بھلا شخص میرے ساتھ نیچے اترا اور کسی سے پوچھ کر تسلی دیتے ہوئے کہا۔ بارہ بجے رات میں ایک ٹرین کوڈرما جانے والی اسی لائن پر آئے گی۔ آپ کچھ کھا پی لیں اور کرسی پر آرام سے بیٹھ جائیں۔ آپ کے پاس ٹکٹ تو ہیں نا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا اس نے تسلی دیتے ہوئے کہا گھبرانے کی ضرورت بالکل نہیں ہے سکون سے رہیں بھگوان بھلا کرے گا۔

    اسٹیشن پر گھپ اندھیرا تھا۔ شاید بجلی چلی گئی تھی۔ اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے جن میں چند محو خواب تھے۔ روشنی برائے نام تھی۔ میں ٹرین سے اتر کر سامنے پڑی ایک کرسی پر دبک کر ڈرا سہما سا ایک کونے میں بیٹھ گیا۔ خوف دماغ پر مسلط تھا۔ اعصاب مضمحل ہو چکے تھے۔ تبھی دو شخص میرے پاس آئے۔ جس میں ایک نے خاکی رنگ کی وردی پہن رکھی تھی۔ ایک کے ہاتھ میں ڈنڈا اور دوسرے کے ہاتھ میں ٹارچ تھا۔ جو ہاو بھاو سے ریلوے کا کوئی ملازم معلوم ہوتا تھا۔ اندھیرے میں اسے دیکھنے اور پہچاننے میں کافی دشواری پیدا ہو رہی تھی۔

    دونوں نے یک لخت ہی پوچھا؟ آپ کو کہاں جانا ہے؟ میرے کوڈرما کہتے ہی چہرے پر پولیس والا رعب جھاڑتے ہوئے کہنے لگا ٹکٹ دکھاو؟ تم ابھی ابھی اس ٹرین سے اترے ہو۔ میرا دماغ چند ساعت کے لیے ماؤف ہو چکا تھا؟ میں نے جیب سے ٹکٹ نکال کر اسے تھما دیا۔ ٹارچ کی روشنی میں ٹکٹ دیکھتے ہی کہنے لگا یہ تو کوڈرما کا ٹکٹ ہے؟ تم غلط ٹرین سے سفر کر رہے ہو؟ تمہیں فائن دینا ہوگا۔ میں نے احتجاجاً کہا، ٹکٹ تو میرے پاس ہے؟ بغیر ٹکٹ کے سفر تو نہیں کر رہا ہوں؟

    اس زمانے میں بنارس سے کوڈرما کے ٹکٹ کی قیمت بمشکل سو روپیے رہی ہوگی۔ خاکی وردی والا قدرے نزدیک آکر کہنے لگا پچاس روپیے دے دو چھوڑ دوں گا۔ میرے انکار کرنے پر دونوں مجھے زبردستی پکڑ کر ٹی ٹی روم کے برآمدے تک لے آئے جو وہاں سے چند گز کے فاصلے پر تھا۔

    گرین سگنل ہوئے تقریباً دس منٹ بیت چکے تھے۔ ٹرین کا انجن شور کرتا ہوا کبھی دھواں چھوڑتا تو کبھی خاموش ہو جاتا۔ اس درمیان دونوں مجھے برآمدے کے سامنے ہی سنسان پڑے ایک کمرے میں لے جانے کی کوشش کرنے لگے۔ ٹرین اب تک اسٹیشن پر ہی کھڑی تھی۔ رات گہری ہو چکی تھی۔ ٹرین کے زیادہ تر مسافر نیند کی آغوش میں تھے۔

    ایک نے میرا بازو زور سے پکڑ کر کہا، سو روپیے دیتا ہے کہ پولیس کو بلاوں؟ تین ماہ کی جیل ہو جائے گی! تبھی ایک نے دوسرے کو ذرا تلخ لہجے میں کہا پہلے اس کی تلاشی لو؟ یہ چور معلوم ہوتا ہے؟ یہ کہتے ہی اوپر سے نیچے کی جانب سرکتا ہوا اس کا گٹھیل ہاتھ انڈرویر کے اندر رکھی بیس ہزار کی گڈی پر پڑا اور وہ ایک دم سے سہم سا گیا۔ سو کے دو نوٹوں کے گڈی کی ضخامت زیادہ ہوتی ہے۔ ایک دوسرے کی کان میں کھسر پھسر کرتے ہی دونوں نے ایک آن میں اپنی نیت بدل ڈالی۔ میں سب کچھ سمجھ چکا تھا اور اب کسی انہونی کا انتظار کرنے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ باقی نہیں بچا تھا۔

    میں نے آسمان کی جانب سر اٹھایا۔ آسمان ستاروں سے پٹا پڑا تھا۔ اپنے کام میں محو خاموشی سے خالق کائنات کے حکم کی تعمیل میں گردش کرتے ہوئے لامتناہی خلاؤں میں رواں دواں تھے۔ میں حسرت و یاس کی تصویر بنا ہوا بے بس و مجبور رب ذوالجلال کی عظیم سلطنت کو حد نظر تک گھورتا ہوا ہر لمحہ یہی سوچ رہا تھا اگر آج انہوں نے یہ پیسہ مجھ سے چھین لیا تو ماموں جان یہی سمجھیں گے کہ معمولی سی رقم دے کر اور اپنی ایمانداری کا ثبوت پیش کر کے میں نے ان کے ساتھ فریب کر لیا ہے؟

    آسمان کی لامحدود کھلی فضاؤں میں جہاں تک پہنچتے پہنچتے انسانی نگاہیں خیرہ ہو جاتی ہیں اس مالک ارض و سما کو جسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ آتی ہے جو عرش پر مستوی ہے۔ دل کی بے پناہی میں چھپی خاموش صداؤں سے میں نے آواز دی۔ وہ ذات جو بندے کی بے قراری کو سنتا ہے جب وہ اسے پکارتا ہے، اور اس کی پریشانی کو دور کر دیتا ہے۔ اے میرے رب اگر میں نے وہ نیکی اس لیے کی تھی کہ تو مجھ سے بروز حشر حساب نہ لے، تو آج اپنے رسول کی اس حدیث کے صدقے ان ظالموں سے مجھے نجات عطا کر اور میری مدد کو پہنچ، یہ کہتے ہوئے آنکھوں نے آنسوؤں سے دامن کو تر کر دیا۔

    ٹرین اب تک اسٹیشن پر ہی کھڑی تھی۔ شاید انجن میں کچھ خرابی رہی ہو۔ دونوں کی نگاہیں بار بار کبھی سگنل کی جانب تو کبھی انجن کی طرف اٹھ رہی تھیں۔ ٹرین کے کھلنے کے انتظار میں ایک نے مجھے بازو سے تو ایک نے کمر سے پکڑ رکھا تھا۔ میرے رونے چلانے اور آواز نکالنے پر زدوکوب کرنے سے بھی باز نہیں آ رہے تھے اور مجھے کمرے کے اندر لے جانے پر بضد تھے۔ میں نے بے چارگی و لاچاری کی آخری انتہا میں دوبارہ آسمان کی طرف نگاہ اٹھائی اور با آواز بلند کہا۔ ائے رب العالمین میری مدد کر مجھے بچا تو ہی میرا اول و آخری سہارا ہے؟ اتنا کہنا تھا کہ انجن نے ایک اور کوشش کرتے ہوئے خوب دھواں نکالا اور ایک زور دار دھماکے کے ساتھ انجن میں آگ لگ گئی۔

    لوگ ڈر اور خوف کے مارے گھبرائے ہوئے دہشت کے عالم میں جلدی جلدی ٹرین کے دروازے سے باہر نکل رہے تھے۔ تھوڑے سے وقفے میں اسٹیشن لوگوں سے بھر گیا تھا۔ افراتفری کا عالم تھا۔ ایک شور ایک ہنگامہ برپا ہو چکا تھا۔ میں نے ہمت جٹا کر چند لوگوں کو مدد کے لیے آواز لگائی۔ جیسے ہی لوگ میری جانب بڑھے دونوں غصے سے بپھرے ہوئے ہاتھ آئے شکار کو چھوڑ کر انجن کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے۔

    میں بے انتہا خوف کی کیفیت میں ڈر اور ہیبت میں مبتلا سامنے کے ڈبے کی طرف بھاگا جو انجن سے بہت پیچھے تھا اور اوپر کی خالی پڑی کسی ایک برتھ پر بدحواسی کے عالم میں چادر تان کر سو گیا۔ مجھے بس اتنا یاد ہے پٹنہ میں ایک قلی نے مجھے آواز دیتے ہوئے اٹھایا، بھائی صاحب اٹھیے گاڑی یہاں سے آگے نہیں جائے گی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے