کہانی کی کہانی
’’ایک ایسے شخص کی کہانی ہے، جس کا اپنےگھر کے آنگن سے گہرا لگاؤ تھا، لیکن اب اس کی بیوی اسے دو حصوں میں بانٹ کر ایک حصہ کو کرایے پر دینا چاہتی ہے۔ بیوی کی اس تجویز پر شوہر کا اس سے جھگڑا ہوتا ہے اور وہ تنہا بیٹھا اس آنگن سے جڑی یادوں کو پھر سے دہرانے لگتا ہے۔‘‘
اس دن صبح صبح ہی نیٹا کے ساتھ کچھ جھگڑا ہوگیا تھا۔ جھگڑا ہوجانے کے بعد ایک دوسرے سے کوئی بات کیے بناہی ہم نے چائے پی اور اسی طرح چپ رہ کر کھانا بھی کھالیا تھا۔ ایسا کرتے وقت ہم ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی بجائے اس آنگن کی طرف خالی خالی آنکھوں سے دیکھتے رہے جس کے سامنے ہی ہم اپنے آنگن کے کونے میں بنے ہوئے ڈائننگ روم میں بیٹھے تھے۔ ایک دیوار، ایک چق اور ایک جنوبی ہند کی سندر چتروں والی چٹائیوں سے بنی اسکرین سے گھری ہوئی جگہ کو اگر ڈائننگ روم کہا جاسکتا ہے تو وہ۔۔۔ واقعی ایک ڈائنگ روم تھا۔
ادھر کئی دنوں سے نیٹا کے ساتھ جھگڑا رہنے لگا تھا۔ یہ بات بہت عجیب تھی کہ نیٹا ایسی سندر پتنی کے ساتھ رہ کر بھی اس گھر میں ناخوش گواری پیدا ہوجاتی تھی۔ اس روز اتوار تھا۔ اتفاق سے کوئی ملنے والا بھی نہیں آنکلا ورنہ ہم اسی طرح چپ اور ایک دوسرے سے یوں کٹےکٹے سے کیسے رہ سکتے تھے۔ ہاں اس روز صبح صبح ہی تو نیٹا کی ایک جان پہچان کی مسز اگروال آگئی تھیں۔ یہ آگ انہی کی لگائی تو نہیں تھی لیکن اس دن کے جھگڑے کاکارن تو دراصل وہی تھیں۔
نیٹا نے مسز اگروال سے ہمارے اس مکان کا ایک حصہ کرائے پردے دینے کا پرا مز کررکھا تھا۔ مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں لیکن مسز اگروال چاہتی تھیں اس آنگن کا پارٹیشن کرکے رہنے کے دونوں حصے الگ الگ کردیے جائیں۔ پارٹیشن کرتے وقت دیوار کی دونوں طرف الگ الگ باتھ روم بھی بنادیے جائیں۔ مکان کی اس طرح کی تبدیلی کے لیے نیٹا مجھے کئی مہینوں سے کہہ رہی تھی۔ اس کا خیال تھا ایسا کیے بغیر ہمیں کوئی بھی ڈھنگ کا کرائے دار نہیں مل سکے گا۔ صبح اس نے اپنی بات کو پھر دہرایا تو میں نے صاف انکار کردیا۔ اسے میرا انکار کرنا برا لگا۔ برا لگنے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ میں نے مسز اگروال کی موجودگی میں انکار کیا تھا۔ اس سے نیٹا کی سبکی سی ہوئی تھی۔
مجھے اپنی اس حرکت کا افسوس تھا۔ مجھے اپنی بیوی کے جذبات کا کچھ خیال رکھنا چاہیے تھا۔ اسی کے لیے میں نے اس سے معافی بھی مانگ لی تھی۔ لیکن جو بھی ہو، زخمی جذبات کچھ دیر تک تو ٹیستے ہی ہیں۔ میں تو ابھی تک نیٹا سے خفا تھا۔ وہ آنگن کی دل کشی کو ختم کردینے کے لیے بار بار ضد کیوں پکڑ لیتی تھی!
میں دراصل روز روز کی چخ چخ سے پریشان ہواٹھا تھا۔ باپ دادا سے وراثت میں ملی ہوئی چھ کمروں والی اس ایک منزلہ عمارت کے بیچوں بیچ بنے اتنے بڑے آنگن کی خوب صورتی کیوں مٹنے دوں؟ اتنا بڑا آنگن تو ہمارے محلے میں کسی کے پاس نہیں تھا۔ اڑوس پڑوس والوں نے ضرورت پڑنے پر ہمیشہ اس کا استعمال کیا تھا۔ ہر سال اسی جگہ جمع ہوکر سب لوگ ہولی ملتے تھے۔ جب دسہرے کا تیوہار نزدیک آجاتا تو رام لیلا کمیٹی والے گھر گھر جاکر چندہ مانگنے سے پہلے یہیں آجاتے اور ہنومان، سگریو، نل نیل وغیرہ بندروں کا بھیس بدل کر اچھلتے کودتے اور کلکارتے ہوئے یہاں سے نکلتے تھے۔ یہ سلسلہ میرے پرکھوں کے سمے سے چلا آرہا تھا۔ اسی وجہ سے محلے والے ان کے نام کا بڑا آدر کرتے تھے۔ اسی سلسلے کو جاری رکھ کر میں نے بھی ویسی ہی عزت پائی تھی۔ ابھی دوتین دن پہلے نیشنل بنک کے پوری جی نے آنگن مجھ سے مانگا تھا۔ ایک ہفتے بعد ان کی بیٹی پونٹی کا بیاہ تھا۔ کچھ ایک اوروں نے بھی آگے پیچھے کی تاریخوں میں یہ جگہ اپنےلیے چاہی تھی۔
نیٹا نے میری سماجی اہمیت کے اس پہلو پر غور کیو ں نہیں کیا؟ وہ مجھے بار بار یہ طعنہ کیوں دینے لگتی ہے آپ کو تو بس لوگوں کا ہی سدبھاؤ چاہیے، اپنی مالی حالت سدھارنے کی توکوئی چنتا ہی نہیں ہے۔ اس کا بس چلتا تو مجھے اور خود کو کسی کونے میں سمیٹ کر باقی سارا مکان ہی کرائے پر اٹھادیتی!
مجھے اس کی ضد بہت عجیب سی لگی۔ خوب صورت عورتیں عام طور پر ضدی ہی ہوا کرتی ہیں۔ وہ مرد کی محبت سے فائدہ اٹھاکر اپنی ہر بات منوانے پر تل جاتی ہیں۔ نیٹا نے اس گھر میں قدم دھرتے ہی پہلے اس آنگن کا جائزہ لے ڈالا تھا۔ پھر ایک عجیب سی خوشی سے مغلوب ہوکر کہہ اٹھی تھی، ’’ہائے یہ تو بہت بڑاآنگن ہے۔ اتے بڑے آنگن پر تو دو مکان اور کھڑے ہوسکتے ہیں!‘‘
پھر ایک روز اس نے میرے پہلو میں بیٹھ کر روایتی بیویوں والے انداز میں بڑے لاڈ سے یہ پلان بنایا تھا:’’سارے مکان کو ہی ہم گروادیں گے۔ اتنے بڑے آنگن کی بھی ہمیں کوئی ضرورت نہیں۔ یہاں ہم تین منزلہ مکان بنوائیں گے۔ ہر منزل پر تین تین فلیٹ۔ ایک ایک فلیٹ کا کرایہ تین تین سو تو مل ہی جاے گا۔ آپ چاہیں تو اس کام کے لیے میرے سارے گہنے حاضر ہیں۔ مجھے ان سے کوئی لگاؤ نہیں۔ میری تین سو ہر مہینے کی تنخواہ بھی آپ لے لیا کیجیے۔ صرف آپ کی تنخواہ میں ہی گھر کا سارا خرچ چلا لیا کروں گی۔ آپ کابنک بیلنس اور پراویڈنٹ فنڈ اور۔۔۔ زیادہ ضرورت پڑی تو ہم ادھر ادھر سے قرض بھی لے لیں گے۔ مکان بنتے ہی ہم سارا قرض دو تین سال کے اندر اندر نپٹادیں گے۔‘‘
سارے مکان کو گرواکر ایک نیا مکان بنانے کا منصوبہ تو ابھی دوسال بعد ہی شروع کیا جاسکتا تھا۔ جب میری اور اس کی تنخواہ میں سو اور پچاس کی ترقی ہونے والی تھی لیکن ابھی تو وہ دو سو روپے ہر مہینے حاصل کرنے کے لیے اس آنگن کی تقسیم چاہتی تھی۔ اس دن شام تک ہمارا میل نہ ہوسکا۔ الگ الگ ہی کمروں میں ہم پڑے رہے۔ میں صوفے پر لیٹا ایک ناول پڑھتا رہا۔ پتہ نہیں وہ کیا کرتی رہی؟ میں نے دیکھنے کی کوشش نہیں کی۔ صبح کو اس کے ہاتھ میں امتحانوں کی کاپیوں کا بنڈل تھا۔
جہاں میں لیٹا تھا وہاں سے آنگن صاف دکھائی دیتا تھا۔ نومبر کے شروع کی دھوپ وہاں اتری ہوئی تھی۔ سنہری اور گن گنی دھوپ جسے آنکھیں بند کرکے شریر میں جذب کرلینے کی خواہش ہوا کرتی ہے۔ ہلکی ہلکی ہوا بھی چل رہی تھی جو دیوار پر چڑھی بیلوں اور پیڑوں کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر، ان کے پیلے سوکھے پتے گراکر سارے آنگن میں ہی ادھر سے ادھر اڑاتی پھرتی تھی۔ میں نے کچھ دیر کے لیے ناول اپنی چھاتی پر الٹا رکھ دیا۔ گردن گھماکر آنگن کی دل کشی میں کھوگیا۔
کئی سال پہلے، جب میں کچھ ہی سال کا رہا ہوں گا، میں نے یہاں پہلی بار ایک بارات کا سواگت ہوتے دیکھا تھا۔ باراتی ڈھول اور باجوں کے ساتھ ناچتے گاتے ہوئے آئے تھے۔ میں اپنے ہم عمر لڑکوں اور لڑکیوں کے ساتھ چھت کی منڈیر پر بیٹھا خوش ہو رہا تھا۔ ہم لوگ تالیاں بھی بجاتے رہے تھے۔ منڈیر کے کنارے کنارے پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے کنکر بھی نیچے گراتے رہے تھے۔ جب کوئی کنکر کسی باراتی کے سر پر جاپڑتا اور وہ سراٹھاکر ہمیں گھورنےلگتاتو ہم ڈر کر مگر ہنستے ہوئے بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اسی دن میں نے پہلی بار بندوق دیکھی تھی، جب ایک باراتی نے جوش میں آکر سب کے منع کرنے کے باوجود اپنی دونال کی بندوق سے دو ہوائی فائر داغ دیے تھے۔ ڈز ڈز کی اونچی آواز سن کر ہم سب نے کانوں میں انگلیاں دے لی تھیں۔ ساری باتیں تو مجھے یاد نہیں ہیں لیکن کچھ دھندلی دھندلی سی تصویریں اب بھی کبھی کبھی سامنے کھڑی ہوتی ہیں۔
مجھے اپنی بوا کا بیاہ بھی یاد ہے۔ تب بھی میں چھوٹا سا ہی تھا۔ جب وہ اپنے دولہا کے ساتھ جانے لگی تھی تو وہ اس گھر کے ایک ایک آدمی کے ساتھ گلے لگ لگ کر رو اٹھی تھی۔ مجھے اس کا چیخیں مار اٹھنا ابھی تک یاد ہے۔ مجھے بھی وہ اپنی بانہوں میں سمیٹ کر روتے روتے پتہ نہیں کیا کیا کہتی رہی تھی۔ اس سے مجھے بے حد لگاؤ تھا۔ وہ بھی مجھے بہت چاہتی تھی۔ مجھے روز پیسے دیا کرتی تھیں۔ میں اس کے لیے دو بار ایک فوجی کے خط بھی لے آیا تھا۔ جنہیں اس نے سب سے چھپ کر مگرآنکھوں میں آنسو لا لا کر پڑھا تھا۔ ایک بار اس نے میرے سامنے آنگن میں دروازے کی آڑ میں کھڑے ہوکر اس فوجی کے ساتھ کچھ باتیں بھی کی تھیں۔ فوجی اس دن کہیں بہت دور چلا گیا تھا۔ اور شاید پھر کبھی واپس نہیں آیا۔ میری بوا اب ادھیڑ ہوچکی ہے۔ اب بال بچوں والی ہے۔ پتہ نہیں اسے یہ سب یاد ہے یا نہیں۔ اس نے مجھ سے کبھی کچھ نہیں کہا۔ میں بھی اس سے کچھ نہیں پوچھ سکا۔
پھر ایسا ہوا کہ میں عمر میں کچھ بڑا ہوگیا۔ کچھ جسمانی ساخت بھی بڑھی۔ تب شاید میں ہائی اسکول میں تھا۔ اڑوس پڑوس کی دو ایک لڑکیاں جو عمر میں مجھ سے ایک ایک دو دو سال بڑی تھیں لیکن میرے ساتھ ہی کھیلا کرتی تھیں ان کے بیاہ بھی اسی آنگن میں ہوئے۔ وہ بھی یہاں سے روتی ہوئی وداع ہوئیں۔ انہیں روتا دیکھ کر ہم لوگ بھی کسی قدر افسردہ ہو اٹھتے تھے۔ مگر اس کی وجہ ہماری سمجھ میں نہیں آتی تھی۔
اس زمانےکاایک دلچسپ واقعہ یہ بھی مجھے یاد ہے۔ یہاں دسہرے کے دنوں میں رام اور ہنومان کی لڑائی ہوگئی۔ ہنومان نے کسی بات پرطیش میں آکر رام کو اٹھاکر دے مارا۔ رام کو بہت چوٹیں آئیں۔ کئی دنوں کی کوشش کے بعدکہیں جاکر اسی جگہ بھگت اور بھگوان کی آپس میں صلح کرائی جاسکی تھی۔
یہ واقعہ یاد آتے ہی میں مسکرا اٹھا۔ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ کمرے میں سے نکل کر آنگن کے بیچ کھڑے ہوکر ایک اور دلچسپ واقعہ بھی یاد آیا، ہماری گلی میں ایک لڑکی دلاری بھی رہتی تھی۔ بانس کی طرح لمبی اور پتلی۔ کوئی لڑکی ذرا سی لمبی نکل جائے تو وہ بہت عجیب سی لگتی ہے۔ ہم اسے بانس دیدی کہہ کر چڑاتے تھے۔ ہمیں وہ پکڑ لیتی تو ہماری ٹھکائی بھی خوب کردیتی۔ ہم اس کے منہ پر ہی کہا کرتے۔۔۔ ’بانس دیدی تیرا بیاہ کبھی نہیں ہوگا!‘ لیکن ایک دن اسی آنگن میں اسے بھی بیاہ لے جانے کے لیے ایک دولہا بارات لے کر آگیا۔ جس روز وہ ڈولی میں لے جائی جارہی تھی، ہم سب لڑکے دیوار کے سہارے کھڑی ہوئی اپنی سائیکلوں کی گدیوں اور کیرئر پر بیٹھے اس کی طرف بڑی اداس نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ وہ اس سمے بھی بانس کی مانند لمبی لگ رہی تھی۔ اپنے نئے نویلے سے دو پور اونچی! لیکن ہم لوگ ہنسنے یا مذاق اڑانے کے موڈ میں نہیں تھے۔ اسے روتا سسکتا دیکھ کر ہماری آنکھیں بھی بھیگ چلی تھیں۔
دلاری کے بیاہ کے بعد اس محلے کی کچھ اور لڑکیوں کے بیاہ بھی آگے پیچھے کی تاریخوں میں کردیے گئے تھے۔ پتہ نہیں کیا سبب تھا؟ لڑکے اور لڑکیاں ایک ساتھ کھیل کر یہاں جوان ہوتے تھے لیکن ان کے بیاہ دور دور کردیے جاتے تھے۔ اس محلے کی کوئی لڑکی اسی محلے میں دلہن بن کرنہ رہ سکی۔ یہاں کے لڑکوں کے قد بت نکالتے ہی ماں باپ کو اپنی اپنی لڑکیوں کی فکر لگ جاتی تھی۔ بارات والوں کی خاطرمدارات کی وجہ سے ہمیں کبھی کبھی تو کئی ہفتوں تک اپنے آنگن کو استعمال کرنا نصیب نہیں ہوتاتھا۔ میرے بزرگ لڑکی والوں کاہاتھ بٹانے میں بھی پیچھے نہیں رہتے تھے۔ دریاں، برتن، چارپائیاں، تخت وغیرہ ہرچیز جو وہ دے سکتے ان کے حوالے کردیا کرتے۔ میونسپلٹی نے پانی پرٹیکس لگایا تو بھی یہاں پانی کے استعمال پر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی گئی۔ یہاں بجلی آگئی تو مہمانوں کو روشنی اور پنکھوں کی سہولتیں بھی دی جانے لگیں۔ ان کے لیے انہوں نے لڑکی والوں سے کبھی خرچ لینا گوارا نہ کیا۔
میرے بزرگوں کے نام سے یہاں کا ایک اور اہم واقعہ بھی وابستہ تھا۔ اسی محلے کے ہندومسلمانوں کے درمیان ایک بار بڑا فساد مچا تھا۔ کچھ لوگ زخمی بھی ہوئے تھے، کئی روز تک بڑی پکڑ دھکڑ ہوتی رہی تھی۔ لیکن میرے دادا، اور پتا نے اپنی کوششوں سے ہندو اور مسلمانوں کو اسی آنگن میں جمع کرکے ایک دوسرے کے گلے ملوادیا تھا، ان سب کی ٹھنڈے شربت اور مٹھائیوں سے تواضع بھی کی تھی۔
لیکن یہ آخری سال تھا۔ جب محرم کا جلوس آیا تھا۔ ورنہ ہر سال جلوس تزنیہ لے کر کچھ منٹوں کے لیے یہاں رک جاتا۔ اس کی تعظیم کے لیے اس آنگن میں سیکڑوں مشہور اور قابل احترام وکیل، ڈاکٹر، حکیم، عہدے دار اور بیوپاری لوگ گھنٹوں پہلے سے آکر بیٹھ جاتے تھے۔ جن میں مسلمان، ہندو اور سکھ شامل ہوتے تھے۔ کبھی کبھی کوئی انگریز افسر بھی شامل ہوجاتا تھا۔ ماتم کرنے والے جو مرثیے پڑھا کرتے تھے ان کے کئی بند ہمیں زبانی یاد ہوگئے تھے ۔ کبھی کبھی تو میں خود اکیلے میں گانےلگتا تھا۔
دولاکھ کے حلقے نے علم دار کو گھیرا
وہ چاند تو تھا بیچ میں اور گرداندھیرا
اک تیر لگاچشم پہ اور سینے پہ بھالا
بند آنکھیں ہوئیں منہ سے لہو شیر نے ڈالا
رخصت ہوئے اب شہ سے علی اکبر ذیشان
جب میں انجینئرنگ کالج میں پڑھتا تھا اور ایک بار چھٹیوں میں گھر آیا تو ان دنوں ڈاک خانے والے بھاردواج کی لڑکی ونتی کا بیاہ ہو رہا تھا۔ ونتی نے میرے ساتھ ہائی اسکول کاامتحان دے کر آگے پڑھنا چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بیاہ میں پہلی بار میں نے بھی اپنے پرکھوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مہمانوں کی انتھک سیوا کرڈالی۔ سویرے سے شام تک بھاگا بھاگا پھرا۔ ونتی کو میں نے ایک تحفہ بھی پیش کیا تھا۔ اسے وداع کرنے اس کے ساتھ اسٹیشن بھی گیا تھا۔ ونتی کابھائی بیکنٹھ میرا گہرا دوست تھا۔ اس روز ہم دونوں ہی روپڑے تھے۔ پتہ نہیں ہم کیوں روپڑے تھے؟
بیٹھنےکے لیے میں موڑھا اٹھالایا۔ موڑھے میں بالکل ڈوب کر اپنے آنگن کے چاروں طرف اوپر، آس پاس کے اونچے اٹھے ہوئے مکانوں کو دیکھا۔ یہ سب مکان تھوڑے تھوڑے عرصے کے بعد اونچے ہوتے گئے تھے۔ ان مکانوں کی کھڑکیوں میں کتنے چمکتے مسکراتے چہرے دیکھ چکا تھا۔ میری بہنوں، پرمیلا اور شکنتلا کی کتنی ہی سہیلیاں۔۔۔ مدھو، پریما، ارملا، وغیرہ گلی پار کرکے اپنے اپنےمکان میں سے نکل کر کھیلنے کے لیے اسی آنگن میں آجاتی تھیں۔ اس آنگن میں ان کے کتنے سارے گیت، سریلے قہقہے اور کانوں کو بھی لگنے والی کلکاریاں، چٹکلے اور طنز بکھرے پڑے تھے۔ ان کی بیاہ سمے کی دبی دبی چیخیں اور سسکیاں ابھی تک کانوں کے ساتھ ٹکراتی ہوئی جان پڑتی ہیں۔
اسی آنگن کے نرم مٹی والے فرش پر سمیتا بھی چل کر آیا کرتی تھی۔ کبھی صبح کبھی شام کبھی کبھی جلتی دوپہر میں بھی وہ دبے پاؤں آنکلتی تھی۔ چھوٹے چھوٹے قدم احتیاط سےاٹھاتی ہوئی۔ کوئی دوسرا دیکھ لیتا تو اس سے صبح کا اخبار یا ویکلی مانگ کر لوٹ جاتی تھی۔ میں سامنے آجاتا تو وہ مسرور ہو اٹھتی۔ پھر تو ہم برآمدے پر پڑی ہوئی نیلے بھاری پردوں والی چقوں کے باہر اس آگ سی دھوپ سے بھرےہوئے آنگن میں پہروں کھڑے کھس پھساتے اور مسکراتے رہتے تھے۔ ہمارے گھروالے تو بند کمروں میں پانی کا چھڑکاؤ کرکے اور فل اسپیڈ پر پنکھے چھوڑ کر گہری نیند سوئے ہوئے ہوتے تھے۔ سخت گرمی اور پسینے سےشرابور ہوکر چمکتا ہوا سمیتا کا وہ چہرہ اب بھی یاد آجاتا ہے تو نہ جانے کیسا لگنےلگتا ہے۔
اسی جگہ میں نے اپنی بھابی اور ماں کی موجودگی میں آدھی آدھی رات تک سمیتا کو کئی کہانیاں سنائی تھیں۔ اپنی کالج کی زندگی کی دلچسپ شرارتوں کاحال سناسناکر اسے ہنسایا بھی تھا اور کبھی کبھی اپنی پی ڈبلیو ڈی کی سخت ملازمت کے قصے سناکر اسے فکرمند بھی بنادیا تھا۔ اسی جگہ ایک رات بھابی نے اچانک ہی سمیتا کے سامنے مجھ سے پوچھ لیا تھا، ’’تم اب شادی کیوں نہیں کرلیتے، نریندر؟ اس آنگن میں کتنا سونا پن ہے! ساتھ بات کرنے والا بھی کوئی نہیں۔ تمہاری دلہن کے آجانےسے ہرطرف جھنکار سی بکھر جائے گی۔۔۔ سچ کہتی ہوں!‘‘
اس کی بات سن کر میں اور سمیتا دونوں ہی دیر تک گم سم سے بیٹھے رہ گئے تھے۔ ہماری خاموشی پر بھابی نے ایک ہلکا سا قہقہہ لگاکر کہا تھا، ’’تم دونوں تو ایسے چپ ہوگئے ہو جیسے ایک دوسرے کو چاہتے ہو!‘‘
ہم دونوں اس وقت بھی چپ ہی بیٹھے رہے تھے۔ ماں اس سمے گہری نیند میں ڈوبی خراٹے لے رہی تھیں۔ اسی وقت اوپر چھت پر سے بھیا نے بھابی کو پانی لے آنے کے بہانے سے پکار لیا تھا۔ بھابی ہماری طرف شرارت بھری نظروں سے مسکراکر دیکھتی ہوئی اوپر چلی گئی تھی اور سمیتا مجھ سے کچھ کہے بنا ہی جلدی سے اٹھ کر اپنے گھر چل دی تھی۔ میں گلی کادروازہ بند کرتے وقت وہاں بلا مقصد ہی کھڑا سا رہ گیا تھا۔
اور پھر وہ دن بھی آگیا جب اسی آنگن میں میں نے سمیتا کے دولہااور اس کی بارات کا بھی سواگت کیا۔ یہ اس آنگن کا سب سے بڑا دلدوز واقعہ تھا۔ جسے میں پیار کرتا تھا اسے دوسرے مرد کے ساتھ وداع بھی کرنا پڑا۔ اب میں بچہ نہیں رہا تھا۔ پچیس برس کا تعلیم یافتہ اور ایک معقول سی ملازمت پر تعینات، اس بات کو بخوبی سمجھ چکا تھا کہ زندگی کے فیصلہ کن لمحوں میں چپ رہ جانے کا نتیجہ کیا نکلتا ہے؟
میرے بڑے بوڑھے ایک ایک کرکے پرلوک سدھار چکے تھے۔ اسی آنگن میں سے ہی ان کی ارتھیاں اٹھائی جاچکی تھیں۔ بھائی اور بھابی ایک دوسرے شہر میں اپنا الگ مکان بنواکر مجھے یہ سارا مکان سونپ گئے تھے۔ یہاں اکیلا رہ جانے سے مجھے بڑی گھبراہٹ ہونے لگی تھی۔ رات کو جب بستر پر لیٹتا تو مجھ پر یادوں کے پہاڑ ٹوٹ ٹوٹ کر گرنے لگتے۔ یادوں کی کچھ پریاں بھی آنکلتیں جو بہلاتی کم تھیں اور رلاتی زیادہ۔
دن کے وقت دفتر جانے سے پہلے خود کو مصروف رکھنے کے لیے میں نل پر سے پانی بھر بھر کر سارے آنگن میں چھڑکتا پھرتا۔ اتنا پانی بہاتا کہ چاروں طرف جل تھل ہوجاتا۔ لیکن پیاسی دھرتی دیکھتے دیکھتے ہی سارا پانی سوکھ لیتی اور اپنے اندر سے ایسی سوندھی سی خوشبو اگلتی کہ میری نس نس میں خوشی کی لہر دوڑجاتی۔
بیاہ ہوجانے کے بعد سمیتا صرف ایک بار پھر اس آنگن میں آئی تھی۔ مجھ سے ملنےکے لیے ہی آئی تھی۔ اس دن بھی میں پانی بھر بھر کر آنگن میں چھڑکاؤ کرتاپھرتا تھا۔ دیواروں کے ساتھ ساتھ آگے بوٹوں اور کیاریوں کو بھی سینچتا پھر رہا تھا کہ اسے اچانک اپنے سامنے پاکر ٹھٹک گیا۔ جہاں کا تہاں کھڑا رہ گیا۔ ہاتھوں میں بالٹیاں اٹھائے اور منہ میں داتن دبائے، حیران اور چپ؟
میں نےمسکراکر بالٹیاں نیچے رکھ دیں۔ کمر میں اڑسا ہوا پاجامہ ٹھیک کیا اور اس کے پاس جاکر پوچھا، ’’تم کب آئیں، سمیتا؟‘‘ اس نے میری بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ ایک ٹک میری طرف دیکھتی ہی رہ گئی۔ پتہ نہیں وہ میری آنکھوں میں کیا دیکھتی رہی۔ پھر اس نے مجھ پر سے نظریں ہٹالیں۔ میرے اور اپنے آس پاس پھیلے ہوئے اس وسیع اور کشادہ آنگن کو دیکھنے لگی جس پر ہم دونوں کے وجود محض دونکتوں ہی کے برابر تھے۔
’’چلو، چل کر اس تخت پر بیٹھو نا!‘‘
وہ اسی جگہ پر گڑی ہوئی سی کھڑی رہی۔ وہ ایسے لباس میں تھی جنہیں دلہنیں شادی کے بعد پہننے کی عادی ہوجاتی ہیں۔ اس کی مانگ میں سیندور کی ریکھا۔ اس کی رنگت کتنی بدل گئی تھی! شکل بھی جیسے بالکل دوسری ہوگئی تھی جس کاپہلے کبھی تصور نہیں کیا تھا۔ لیکن اس کی آنکھوں کی اداسی وہی تھی۔ محرومی کا گہرا نقش وہی تھا۔ وہ کتنی دیر تک کھڑی دیکھتی اور سوچتی رہی۔ اس کے ہونٹ کانپتے رہے اور اس کی آنکھیں غم ناک ہوتی گئیں۔ شاید آنسو روک نہ سکی تو جلدی سے پلٹ کر باہر چلی گئی۔
بس! یہی کچھ دکھانے کے لیے ہی یہاں تک آئی تھی! یہ تو میں جانتا ہی تھا! یہ سب تو مجھے معلوم تھا۔ اس کااحساس تو مجھے ہوتا ہی رہتا تھا۔ لیکن دہ میرے پاس آکر اس طرح اچانک لوٹ کیوں گئی؟ کچھ کہا تو ہوتا! کچھ دیر بیٹھ گئی ہوتی! نہ ہاں، نہ ہوں!! اس کے بعد میں نے سمیتا کو کبھی نہیں دیکھا۔ اس کےڈیڈی کا کسی دوسرے شہر میں تبادلہ ہوگیا تھا۔ اب اس کااس شہر میں کیا کام؟ وہ یہاں کیوں آئے گی؟ کس کے لیے آئے گی؟
آنگن کے سونے پن سے گھبراکر میں نے شادی کرلی۔ نیٹا کو گھر لے آیا۔ نیٹا کے یہاں قدم رکھتے ہی سچ مچ ہر طرف جھنکار سی بکھر گئی جیسا کہ بھابی نے اک بار کہا تھا۔
میں موڑھے میں ڈوبا ڈوبا سا اپنے آنگن کو آبدیدہ سا دیکھ رہا تھا۔ بیلوں، بوٹوں اور پیڑوں کی سوکھی زرد پتیاں میرے چاروں طرف فرش پر اڑتی اور روتی پھرتی تھیں۔ اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو میں چونک کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اسی لمحے نیٹا بھی وہی دستک سن کر برآمدے کی ڈاٹ کے نیچے آکر رک سی گئی۔ اس کے صبح کے دھوئے ہوئے لمبے کالے بال ابھی تک اس کی پیٹھ پر ہی بکھرے ہوئے تھے۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کی طرف بنا پلکیں جھپکائے دیکھا اور پھر سرجھکالیا۔ میں جلدی سے دروازے کی طرف بڑھ گیا۔
دروازے پر پنجاب نیشنل کے وہی پوری جی ہی تھے۔ بڑی معذرت سے بولے، ’’بھئی معاف کرن نریندر، تمہیں ناحق تکلیف دی۔ دراصل میں یہ کہنے آیا ہو ں کہ اب مجھے اس آنگن کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ کیونکہ پونٹی اور شیکھر نے صرف چار چھ جنوں کے ہی سامنے بغیر کسی غل غپاڑے کے شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ کہتے ہیں، ہم ہنگامے اور دعوت کا روپیہ بچاکر کسی پہاڑ پرچلے جائیں گے۔ میں نے بھی منظوری دے دی ہے۔ آخر اس میں حرج ہی کیا ہے؟ بہرحال آپ کی کوآپریشن کابہت بہت شکریہ!‘‘
اتنا کہہ کر وہ تو پلٹ گئے مگر میں بالکل گم سم سا اپنے آنگن کی طرف دیکھنے لگا۔ چاروں طرف سے اونچے اونچے مکانوں سے گھرے ہوئے آنگن کی طرف۔ جب میں نے آنگن کو پار کیا تو مجھے یوں لگا جیسے وہاں چلتے چلتے کئی گھنٹے بیت گئے ہیں۔۔۔ کئی سال۔ جب دوسرے کنارے پر پہنچا تو میں بالکل تھک چکاتھا۔ میرے سامنے نیٹا کھڑی تھی۔ اوپر کو سمیٹی ہوئی چق کے نیچے۔ دلکش مگر چپ اور مضبوط۔ اپنی ضد پر جمی ہوئی۔ میں نے مسکرانے کی کوشش کی۔ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا، ’’تم بلاوجہ ہی ناراض ہوگئیں، نیٹو، چلو چائے پلواؤ پھر بیٹھ کر اس آنگن کا نقشہ بدلنے کا اسٹیٹمیٹ بنائیں گے۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.