آپ اس شہر کا مذاق نہیں اڑا سکتے
(1)
وہ بہت آرام سے باتیں کر رہا تھا۔ اتنے آرام سے ، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ لیکن شاید جو ’’حادثہ‘‘ بھی ہوا تھا، کوئی زلزلہ جیسا بھیانک المیہ بھی اتنا خوفناک نہیں ہو سکتا تھا۔ (یہ میرا ماننا ہے۔ میں کون۔۔۔؟ میں یعنی کہانی کار) لیکن وہ جیسے ان تمام امکانات سے الگ اپنی سچائیوں کا اظہار کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’نہیں! اس کے لئے شہر قصوروار نہیں ہے۔ سارا کا سارا قصور شہر پر ڈالنا ٹھیک نہیں۔ اگر کوئی قصوروار ہے تو۔۔۔؟ شہر اگر کسی خوفناک راکشس کی طرح پھیل رہا ہے تو۔۔۔ سمجھ رہے ہیں نا۔۔۔ شہر کا کوئی قصور نہیں ہے۔‘‘
*
جب وہ پہلی بار ٹکرایا تھا تو ایک سیدھا سادا معصوم سا ’’گنویڑی‘‘ تھا۔ یعنی گاؤں سے آیا ہوا ایک بھولا بھالا جانور۔ کسی بھی بات کی تمیز نہیں تھی۔
’’کیسے آئے؟‘‘
’’وہاں کام نہیں تھا۔‘‘
’’پڑھے ہو؟‘‘
’’ہاں، گاؤں کے چھوٹے درجہ تک ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔‘‘
یہاں کیسے ، ایسے ہی آ گئے؟‘‘
’’گاؤں کا ہی ایک آدمی ہے۔ یہیں رہتا ہے۔‘‘
’’اُس نے بلوایا ہو گا۔ کہا ہو گا، یہاں نوکری کی کیا کمی ہے۔ آ جاؤ۔‘‘
’’ہاں، یہی کہا تھا اس نے۔‘‘
’’پھر وہ نہیں ملا؟‘‘
’’پہلی بار میں نہیں ملا۔‘‘
’’بعد میں بچنے کی کوشش کی۔ ہے نا؟‘‘
’’ارے آپ تو سب جانتے ہیں۔‘‘
’’اس مہانگر میں یہ باتیں ، سب ہی جانتے ہیں۔ اب کیا کرو گے ،
’’سوچا نہیں۔‘‘
’’واپس لوٹ جاؤ گے؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
یہ ایک گنویڑی کا فیصلہ تھا۔ بعد میں جو بھی حادثات پیش آئے وہ شاید اسی مضبوط فیصلے کی دین تھے۔ اسی کے لفظوں میں۔۔۔ ’’کبھی کبھی شہر وہ نہیں رہتا جیسا کہ ہم یا آپ سمجھتے ہیں۔ ایک بے جان احساس، بے جان سڑکوں ، گلی کوچوں ، عمارتوں ، بھاگتی گاڑیوں میں اپنی موجودگی درج کرانے والا۔۔۔ اور جیسا کہ اُس نے بتایا۔۔۔ شہر اس کے روبرو کھڑا تھا۔ اتنے نزدیک کہ وہ شہر کے دھڑکنوں تک کو سن سکتا تھا...‘‘
مجھے اچھی طرح احساس ہے۔ شہر کہیں پاس میں کھڑا تھا۔ وہ مجھے ایسی عجیب نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ ایک پل کو مجھے ڈر کا احساس ہوا۔ لیکن نہیں، وہ مجھے پرکھ رہا تھا۔ پرکھ رہا تھا کہ میں اُس کے گربھ میں رہنے کے لائق ہوں یا نہیں۔۔۔ یا میں جلد ہی یہاں سے فرار ہو جاؤں گا۔
رات سرکنے تک پلیٹ فارم پر سوئے لوگوں کے خراٹے بجنے لگے تھے۔ کبھی کبھی اس خراٹے کو پلیٹ فارم پر تیزی سے لگنے والی گاڑی کی چیخ توڑنے کی کوشش کرتی، مگر بےسدھ پڑے لوگوں کو تو جیسے نیند پیاری تھی اور وہ کسی بھی طور نیند سے سمجھوتہ کرنے کو تیار نہ تھے۔
میں نے آواز سنی۔۔۔ کوئی مجھ سے دھیمے دھیمے لہجے میں کچھ کہنے کی کوشش کر رہا تھا۔ لیکن کون تھا وہ؟ یہاں مجھے جانتا ہی کون تھا۔ جو جانتا تھا، اس نے صاف لال جھنڈی دکھا دی تھی۔۔۔ لیکن پھر بھی کوئی تھا۔ سرگوشیوں کے باوجود۔۔۔ پلیٹ فارم پر بجتے خراٹوں اور گاڑیوں کی آوازوں کے باوجود میں اُس کی آوازیں سن سکتا تھا۔۔۔ کوئی تھا۔۔۔ بہت ہی قریب۔۔۔ جو مجھ سے ہی مخاطب تھا۔۔۔
’’واپس کیوں نہیں چلے جاتے؟‘‘
’’واپس!‘‘
’’اب پریشان ہو کر اِدھر ادھر مت دیکھو۔ یہ میں ہوں میں۔۔۔ شہر۔۔۔‘‘
’’تم۔۔۔‘‘
’’حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔۔۔ ذرا سوچو، واپس چلے جاتے تو تھوڑی سی شرمندگی اٹھانی پڑتی۔ بس۔۔۔ یعنی دو چار روز کے لئے ذرا سا بے شرم ہونا پڑتا۔‘‘
’’بس میں بےشرم نہیں ہونا چاہتا تھا۔‘‘
’’پاگل ہو۔ یہاں بے شرم کون نہیں ہے۔۔۔ شہر ہنستا ہے۔۔۔ رنڈی سے راجنیتی (سیاست) تک۔۔۔ لیکن وہاں گاؤں میں سب کچھ چار دنوں کے لئے ہوتا۔۔۔ چار دن میں سب ہنسی اڑا کر ساتھ گھوم رہے ہوتے۔ موج کر رہے ہوتے۔ اور یہاں۔۔۔ پلیٹ فارم کے پتھر چبھ تو نہیں رہے؟‘‘
’’اگر ہاں کہوں تو؟‘‘
’’عادی ہو جاؤ گے۔ شہر کسی سانپ کی طرح پھپھکارا تھا۔ اب بھی وقت ہے ، یعنی اتنے جوان ہو تم کہ نصیحت کی جا سکتی ہے۔‘‘
’’مجھے تمہاری نصیحت نہیں چاہئے۔‘‘
’’نصیحت کی ضرورت تو اب تمہیں قدم قدم پر پڑےگی۔۔۔‘‘ شہر ہنسا۔۔۔ ’’دیکھو کوئی آ رہا ہے۔ اِدھر نہیں اُدھر دیکھو۔۔۔ کیا سمجھ رکھا ہے۔۔۔ پلیٹ فارم باپ کی جاگیر ہے۔۔۔ یہاں جتنے بھی بھکاری سوتے ہیں سب ٹیکس دیتے ہیں۔۔۔ دیکھو وہ پولیس والا سیدھے تمہارے پاس ہی آ رہا ہے۔۔۔ اچھا۔۔۔ تو تم اُس سے جتنی مرضی چاہو، اُلجھ لو۔ میں پھر ملوں گا۔۔۔‘‘ شہر کی سرگوشیاں سو گئی تھیں۔
اُس نے ادھ کھلی آنکھوں سے دیکھا۔ کوئی پولیس والا تھا جو ڈنڈے سے اس کے بدن کو ایسے ٹٹول رہا تھا جیسے وہ آدمی نہیں، کوئی سامان ہو۔‘‘
’’اے۔۔۔۔۔۔؟ یہاں کون سو گیا ہے۔۔۔‘‘ اس کی آواز بھیانک تھی۔
سہما سادہ اٹھ بیٹھا۔۔۔
’’میں۔۔۔ میں۔۔۔‘‘
’’میں۔۔۔ میں کیا۔۔۔ کوئی نام تو ہوگا۔ اچھا چل۔۔۔ نام سے کیا لینا دینا۔ یہاں کیا کر رہا تھا؟‘‘
’’سو رہا تھا۔‘‘
’’سو رہا تھا؟ یہ جگہ تیرے باپ نے بنائی ہے نا؟‘‘ سو رہا تھا؟ چل نکال، جیب میں کتنے پیسے ہیں؟‘‘
’’پیسے۔۔۔؟ ‘‘
’’ہاں پیسے۔۔۔ انگریجی نہیں بول رِیا ہوں۔ کم بخت کہاں کہاں سے چلے آتے ہیں؟۔۔۔‘‘ اس نے گندی سی گالی دی۔۔۔‘‘
’’پیسے نہیں ہیں۔۔۔‘‘
اس کی آواز رات کے اندھیرے میں دور سے آتی ہوئی کسی گاڑی کے شور و غل کے بیچ کہیں کھو گئی تھی۔
’’پیسے نہیں ہیں اور یہ جگہ تیرے باپ نے خریدی ہے۔‘‘ اس بار اس نے ڈنڈا چمکایا تھا۔ نیم غنودگی میں ڈنڈے کی مار اس کے پورے وجود کو لہولہان کر گئی تھی۔
گاڑی اسٹیشن پر رک گئی تھی۔ مسافر اتر رہے تھے۔ پولیس والے نے ایک بیڑی جلالی۔ ڈھٹائی سے مسکرایا۔۔۔ ’’جا اب اِدھر مت دِکھنا، کیا سمجھے۔ ٹائم کھوٹا کر دیا۔۔۔‘‘
وہ اندھیرے میں ایک طرف بڑھ گیا۔ کنارے لوہے کی ریلنگ کے پاس وہ ایک دو مسافر بیٹھے بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ اس نے بھی ایک کانپتا ہوا ہاتھ ریلنگ پر رکھا۔ تبھی کوئی ہنسا۔۔۔ زور سے۔۔۔ اس نے پلٹ کر دیکھا، کوئی نہیں تھا، مگر کوئی تھا۔ اس بار اُس پر لفظوں سے حملہ کیا گیا تھا۔
’’مل گئی نصیحت۔ اب کیا سوچا ہے؟‘‘ یہ شہر تھا۔۔۔ ’’یعنی کوئی بھی گاڑی پکڑ کر گاؤں واپس۔۔۔؟‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ اسے کبھی کسی زمانے میں اپنے باپ کی کہی گئی ایک بات یاد رہ گئی تھی۔۔۔ ’’جو دکھ جھیلتے ہیں وہی جیتے ہیں۔ وہ جیتے بھی اسی لئے ہیں کہ دکھی ہوتے ہیں۔ وہ اسی وجہ سے جیتے ہیں۔ شاید یہ دیکھنے کے لئے کہ کبھی تو۔۔۔ کبھی تو بدن سے دُکھ کا خاتمہ ہوگا۔‘‘
’’تو تم نہیں جاؤ گے؟‘‘
’’نہیں۔۔۔!‘‘
اسے احساس ہے۔ شہر کانپ گیا تھا۔ کیوں۔۔۔؟ وہ نہیں کہہ سکتا، اگرچہ اس نے شہر کو دیکھا بھی نہیں تھا۔
(2)
’’پھر کیا ہوا؟‘‘
(ایک بار پھر سے بطور کہانی کار مداخلت کے لئے آپ سے معافی چاہوں گا۔ مگر وہ اطمینان بھری نظروں سے اب بھی میری طرف دیکھ رہا تھا۔)
’’میں جانتا ہوں آپ میری بات کا یقین نہیں کریں گے۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ آپ اُسے جھوٹ سمجھیں گے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے کوئی آپ سے رات کو یہ کہے کہ یہ دن ہے اور آپ بھولے پن سے اُس کی بات مانتے ہوئے حامی میں سر ہلا بیٹھتے ہیں۔۔۔ آپ سمجھ رہے ہیں۔۔۔ ٹھیک ویسے ہی۔۔۔‘‘
اس نے نظر جھکا لی تھی۔ کسی مہانگر میں میرے جیسے گنویڑی کو جو کام مل سکتا ہے یعنی ٹھیلا اُٹھانے ، بوجھ ڈھونے سے لے کر مزدوری تک۔۔۔ پھر ایک دن اسے مجھ پر رحم آ گیا۔۔۔
’’کون؟‘‘
’’تھا کوئی آپ کی طرح رحم دل؟‘‘
’’کہانی کار۔۔۔‘‘
’’کہانی کار بھی ہو سکتا ہے۔ ہی ہی۔۔۔ ہی۔۔۔‘‘ وہ ہنس رہا تھا۔۔۔ وہی بڑی باڑی باتیں۔ غریبی، امیری، دکھ کے اتہاس کی۔۔۔ ’’آپ سمجھے نہیں؟ ہی ہی۔ دکھ کا اتہاس۔۔۔ اسی نیک آدمی نے بتایا تھا مجھے۔۔۔‘‘ اتہاس امیروں کا نہیں ہوتا۔۔۔ امیروں کا صرف جغرافیہ ہوتا ہے۔ کتنی جغرافیائی زمین پر قبضہ کرنا ہے انہیں۔۔۔ اتہاس صرف دکھی دل والوں کا ہوتا ہے۔۔۔ میں ایک ٹھیلے کے ساتھ اُس کے گھر پہنچا تھا اور اُس نے مجھ میں کوئی کہانی ڈھونڈ لی تھی۔‘‘
’’کہانی۔۔۔؟‘‘
’’ہاں وہ سارے راستے آپ ہی کی طرح پوچھتا رہا مجھ سے۔۔۔ یعنی کون ہوں میں۔ کوئی بھوت۔ ہی ہی۔۔۔‘‘
’’پھر۔۔۔؟‘‘
گھر آ کر وہ جذباتی ہو گیا۔ پتہ نہیں ، شاید میرے گاؤں کی بدحالی کا سن کر۔۔۔ اس کی آنکھیں نم تھیں۔ وہ دھیرے دھیرے کچھ کہہ رہا تھا، یعنی ایسا کچھ جو مجھے سننے میں نہیں آ رہا تھا۔۔۔ ہاں ٹھیک سے مجھے یاد کر لینے دیجئے۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔۔ دنیا میں جب تک ایک بھی آدمی۔ ایک بھی آدمی تمہاری طرح ہے۔۔۔ سچ میں اپنے آپ کو نہیں روک پاتا۔۔۔ ایسا کیوں ہے؟ ایک طرف ایک حیران کرنے والی دنیا ہے۔ فلمی گلیمر، ڈسکو تھک سے ڈزنی لینڈ تک۔ ڈسکوری چینل سے ایم ٹی وی تک۔ اور ایک طرف تم لوگ ہو۔۔۔ کیڑے مکوڑے۔۔۔ ایک طرف اس گلوبل ویلیج میں انٹرنیٹ اور سائبر اسپیس تک پھیلے ہوئے ، کمپیوٹر کی طرح مشتعل کرنے والے دماغ ہیں۔۔۔ اور دوسری طرف تم ہو۔۔۔ اسپیس ایج اور کلوننگ کی طرف بھاگتے ہوئے ہم سکھ اور شانتی کے کلون کیوں نہیں بناتے۔۔۔؟ تم کیوں رہ جاتے ہو، ہر بار ہمارے پاس۔۔۔ ہمارے پاس۔۔۔ رونے کے لئے۔۔۔ دُکھ کے لئے۔ اُس نے میرا ہاتھ پکڑا تھا ہی۔۔۔ ہی ہی۔۔۔ کہا تھا۔۔۔ ’’رہ جاؤ یہیں۔ بہت پیسہ ہے میرے پاس۔ اس میں تمہارا حصہ بھی ہے۔ کیوں۔۔۔؟ کیوں نہیں۔۔۔؟ دُکھ شیئر کرتے ہو تم مجھ سے۔ میں تم سے سکھ شیئر کروں گا۔‘‘
’’اس نے سکھ شیئر کیا۔۔۔‘‘
’’ہاں، کیا۔۔۔ اس کے پاس واقعی بہت پیسہ تھا۔ اس کی بڑی سی حویلی کے بڑے سے صحن کو میلا کرنے کے لئے روز میرے جیسے کتنے ہی آ جاتے۔ وہ نعرے لگاتے۔۔۔ چیختے چلاّتے۔ وہ چپ کراتا۔ پھر وہ سب کو لے کر پتہ نہیں کہاں نکل جاتا۔ لوگ کہتے ہیں۔۔۔‘‘
’’نیتا ہے۔‘‘
’’نہیں ، وہ کیا ہے۔ لال منڈل۔ کمنڈل ہی۔۔۔ ہی۔۔۔ جانے دیجئے۔۔۔ وہ بس وہی تھا۔ اس کے چہرے پر بھی کافی لالی تھی مگر۔۔۔ اس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ بچے باہر ملک میں پڑھتے تھے۔ وہ اکیلا تھا اور ہمارے دکھ سنتا تھا۔ اپنے سکھ شیئر کرتا تھا۔‘‘
’’پھر؟‘‘
میں وہیں رہنے لگا۔ ایک طرح سے اس نے روک لیا تھا مجھے۔ ’’تم۔۔۔ تم اب یہیں رہوگے۔ سمجھ گئے نا؟ ٹھیلہ۔۔۔؟انسان،انسان کو بٹھا کر رکشہ کھینچتا ہے۔۔۔ تم ٹھیلہ کھینچتے ہو۔۔۔ سماج واد کیسے آئےگا بھائی۔ آں۔۔۔؟‘‘
(3)
وہ سچ مچ بہت دکھی تھا۔ اس نے مجھے باہر والا ایک چھوٹا سا کمرہ دیا۔ کہا، اپنے سامان یہیں لے آؤ۔ یہیں کھانا بناؤ۔ کھانا کھاؤ، مستی کرو۔ تھوڑا بہت صحن میں آنے والے لوگوں کے ساتھ چیخو چلاؤ۔ بس، مجھے کام سمجھا کر وہ اپنے دوسرے کاموں میں مصروف ہو گیا تھا۔ اس رات۔۔۔ اس رات۔۔۔ ہاں اس رات مجھے اچھا لگا۔ چلو مہانگر میں ایک بھلے آدمی سے ملاقات ہوئی۔ ایسے آدمی، ایسے عظیم شخص۔۔۔ رات مجھے دیر تک نیند نہیں آئی۔ وہ آدمی، اُس کا چہرہ بار بار مجھے یاد آتا رہا۔ مگر اچانک پتہ نہیں کیا ہوا، میں چونک گیا۔ وہی سرگوشیوں والی آواز۔۔۔ کوئی میرے قریب تھا۔ بہت قریب اور۔۔۔ یقیناً یہ شہر تھا اور میں شہر کی دھڑکنیں سن سکتا تھا۔
’’کیا تم مجھے دیکھ رہے ہو؟‘‘
’’نہیں۔‘‘
’’دیکھو مجھے۔۔۔‘‘ شہر نے مجھے ڈانٹ پلائی تھی۔
خوف زدہ ہو کر میں نے آواز کی سمت دیکھا۔ وہاں خوف اور شک کے میل سے ایک ٹیڑھی میڑھی شبیہ بن گئی تھی۔۔۔ تو کیا یہ شہر تھا؟
’’ہاں، یہ میں ہوں۔‘‘
مجھے ڈر سا لگا۔
شہر نے مجھے پھر خبردار کیا۔۔۔ ’’واپس کیوں نہیں چلے جاتے۔۔۔ اچھا مت جاؤ لیکن میری بات سنو۔۔۔ یہاں صرف اپنے دماغ کی سنو۔۔۔ لفظ، زبان کے جادو میں مت پھنسنا۔۔۔ کیوں کہ یہ صرف مہانگر نہیں مایا نگری ہے۔۔۔ اور ہر مہانگر مایا نگری ہوتا ہے۔ جینا ہے تو حساس مت بننا۔۔۔ رسّی بننا، کنویں کا پتھر مت بننا۔۔۔ جسے رسی گھس دیتی ہے۔ سمجھ رہے ہونا۔‘‘
شہر غائب تھا۔۔۔
وہ ٹیڑھی میڑھی شبیہ۔۔۔ شہر اب کہیں بھی نہیں تھا۔
مجھے ڈر سا لگا۔ شہر کا چہرہ اتنا عجیب سا کیوں ہو گیا تھا۔۔۔ کیا شہر ہنس رہا تھا۔۔۔؟ کیا شہر رو رہا تھا۔۔۔؟ میں بار بار شہر کے پیکر کو ٹٹول رہا تھا اور ہر بار شہر کا چہرہ پیلی دھوپ کی طرح لہولہان ہوتا مجھے نظر آ رہا تھا۔
(4)
’’پھر۔۔۔؟‘‘
کہانی کار ہونے کے ناطے ، میرے اشتیاق کا اچانک بڑھ جانا ضروری تھا۔
’’پھر‘‘ گنویڑی اپنی سوچ میں گم تھا۔۔۔ ’’پھر شاید ہم ہی غلط ہوتے ہیں۔ ہر جگہ۔ وہ نیک آدمی تھا، بھلا مانس۔ شروع میں دو بار ایک ہی ڈائننگ ٹیبل پر بیٹھ کر اس نے مجھے کھانا بھی کھلایا۔ دو بار۔۔۔ مجھے یاد ہے۔ وہ میری کوٹھری میں کھانے کی اپنی اور میری تھالی لے کر آ گیا تھا۔۔۔ ’’جو مزہ زمین پر بیٹھ کر کھانے میں ہے۔۔۔‘‘ پھر ایک دن اس نے میری تعریف کی۔۔۔ تم وہاں ، فلاں جگہ جس طرح چلائے تھے ، سمجھ رہے ہونا۔۔۔ تم جیسے چلائے تھے۔ اس وقت وہاں تم، تم نہیں تھے۔
’’پھر کون تھا؟‘‘
’’اس وقت تم میں ہزاروں ، کروڑوں غریبوں ، جدوجہد بھرے ہاتھوں کی نمائندگی ہو رہی تھی۔۔۔ نمائندگی۔۔۔ اور کون کر رہا تھا۔۔۔؟ تم۔۔۔ تم میں ایک انقلابی کا غصہ ابھر آیا تھا۔ یہ اصل تم تھے ، یعنی تم جو دِکھتے ہو، تم وہ نہیں ہو۔۔۔ تم یہ ہو۔۔۔ فائر، آگ۔۔۔ تمہارے اندر ایک پورا آتش دان چھپا ہے۔۔۔ سمجھ رہے ہو نا تم۔۔۔ آج میں سارے راستے ، تمہاری جلتی آنکھیں ، جلتا وجود اور بھنچی ہوئی مٹھیوں کو پڑھتا آیا۔۔۔ اسے رکھو، رکھو پیارے۔۔۔ ہمیشہ قائم رکھو۔‘‘
گنویڑی کی آنکھوں میں چمک تھی۔۔۔ ’’اس رات بھی دیر تک خالی زمین پر میں کروٹیں بدلتا رہا۔۔۔ لفظ۔۔۔ مایا جال۔ اُس کے لفظ بار بار چوٹ کر رہے تھے۔۔۔ فائر۔۔۔ آگ۔۔۔ اسے قائم رکھو۔۔۔ تمہارے اندر۔۔۔ ایک آتش دان۔۔۔ چھپا ہے۔۔۔ آتش دان۔۔۔‘‘
’’آہ۔۔۔‘‘
میں نے اچانک آواز سنی۔۔۔ کوئی تھا۔ جو نہ رو رہا تھا، نہ ہنس رہا تھا۔۔۔ نہ دکھی تھا نہ سکھی تھا۔۔۔ کوئی تھا، میرے بہت قریب۔۔۔ اور یقیناً یہ شہر تھا۔ وہ پورے زور سے چیخا تھا۔۔۔
’’میرا پیکر تک دیکھ چکے ہو۔ اب جہاں ہو وہیں رہو۔‘‘
’’لیکن تم کیوں آ جاتے ہو۔ ہر بار، ہر رات؟‘‘
’’میں سب کے پاس جاتا ہوں۔۔۔ شہر کی آواز میں بے رُخی تھی۔ جو بھی آتا ہے ، نیا اجنبی اس شہر میں۔ اسے سمجھانا میرا کام ہوتا ہے۔‘‘
’’مجھے سمجھا چکے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔‘‘ شہر رنجیدہ تھا۔
’’سمجھانا بھی مت، اب مجھے راستہ مل گیا ہے۔‘‘
’’خوب۔۔۔‘‘ شہر نے پھر مذاق کیا۔ ’’وہ تمہارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا، کھاتا پیتا ہے اس لئے۔۔۔‘‘
’’ہاں!‘‘
’’اور تم۔۔۔ بدلے میں تم کیا کرتے ہو۔۔۔ اس کے ساتھ۔۔۔ جگہ جگہ جاتے ہو، گلا پھاڑ کر چلاتے رہتے ہو۔ جانتے ہو تم جیسی قوم اب اس مہانگر میں کیا کہلاتی ہے۔‘‘
’’مجھے نہیں سننا۔‘‘
’’مت سنو، کل تک پیسوں کے لئے چلانے والے کہلاتے تھے تم۔۔۔ اب نہیں۔۔۔ آگے جان کر کیا کرو گے۔ مگر چلاتے چلاتے تمہارا گلہ درد نہیں کرتا۔۔۔؟‘‘
’’کرتا ہے۔‘‘
’’پھر ایک دن گلہ پھٹ گیا تو؟‘‘
’’تو؟‘‘
’’تمہیں کیا لگتا ہے۔ وہ تمہیں اپنے بغل میں جگہ دےگا۔ یعنی اپنے کمرہ میں ، اپنے ڈرائنگ روم، اپنے گھر کی اس کی کوٹھری میں جو تم کو دی ہوئی ہے۔۔۔؟ وہ سیاست کرتا ہے تم سے۔‘‘
’’نہیں ، اس کے پاس اصول ہیں۔‘‘
’’پاگل ہو۔ اصول اور سیاست سب ایک دوسرے میں مل گئے ہیں۔ اب۔۔۔ عجب گھال میل ہے۔ سیاست اور اصول نے ہر اگلی سیڑھی کیلئے کئی تعریفیں ڈھونڈ لی ہیں۔۔۔ ایک قدم والی سیاست، دوسرے قدم پر نئے روپ بدل لیتی ہے۔۔۔ جو رات میں اصول بنتے ہیں ، صبح آتے آتے برباد ہو جاتے ہیں۔۔۔ جیسے جیسے سیاست گھومتی ہے اصول محور کی طرح اس کے اردگرد چکر لگاتے رہتے ہیں۔۔۔ یعنی سیاست کون سی کروٹ لے رہی ہے۔۔۔ جس کروٹ لے رہی ہے اصول، قاعدے قانون کو اُسی سمت مڑنا ہوتا ہے۔ جانے دو تم نہیں سمجھو گے ، جب سمجھو گے تو۔۔۔‘‘
شہر سنجیدہ تھا۔ اسی طرح جیسے آدمیوں کے چہرے پر آڑھی ترچھی لکیریں ابھر آتی ہیں۔ میں اس چہرے کا صرف تصور کر سکتا تھا، یعنی ایسی بے شمار آڑی ترچھی لکیریں شہر کے چہرے پر بھی اگ آئی ہوں گی۔
’’مجھے ایسا کیوں لگا۔ پتہ نہیں۔‘‘ پھر بھی شہر سنجیدہ تھا۔
گنویڑی کچھ سوچ میں پڑ گیا تھا۔ مجھے ایسا بالکل نہیں لگا تھا۔ میرے لئے حیرت کی بات یہ تھی کہ میری اتنی کامیابی پر شہر فکر مند اور سنجیدہ کیوں ہے؟
’’تو کیا حالات بدلے۔‘‘ یہ ایک بار پھر کہانی کار کی مداخلت تھی۔
گنویڑی دھیرے دھیرے کسی گہری سوچ میں ڈوب گیا تھا۔
(5)
مجھے یاد ہے۔ اس دن پھر وہ میری کوٹھری میں حاضر تھا۔ اس کے چہرے پر گہری خاموشی تھی۔ کسی نئی بات کے لئے شاید وہ لفظوں کو چننے کی کوشش کر رہا تھا۔
’’ایک جلسہ کرنا ہے مجھے۔۔۔ بتانا ہے کہ تم ہو۔۔۔‘‘ اس لئے ہم ہیں۔۔۔ یا شاید اس کی آنکھیں پوری طرح میرے چہرے پر گڑی تھیں۔
’’سمجھ رہے ہونا۔ جلسہ کرنا ہے۔۔۔‘‘ وہ کہیں اور دیکھ رہا تھا۔ مجھے اس کی آواز کہیں بہت دور سے آتی سنائی دے رہی تھی۔۔۔ نہیں سمجھو گے تم لوگ۔۔۔ لیکن سب کچھ بدل گیا ہے۔ دھرتی بھی اور دھرتی پر رہنے بسنے والا انسان بھی۔۔۔ سمجھ رہے ہونا۔۔۔ اختیار، تعلق، رشتے ، سب معنی بدل گئے ہیں۔۔۔ ختم ہوتی ملینیئم صدی میں صرف دو چیزیں رہ گئی ہیں۔۔۔ صارف اور صنعت۔۔۔ پروڈکٹ اینڈ کنزیومر۔۔۔ ایک فروخت ہونے والی شئے ہے اور ایک بیچنے والا ہے۔۔۔ سب برانڈ ہیں یا بن گئے ہیں۔۔۔ رشتے بھی۔۔۔ پہلے دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں اپنے اپنے برانڈوں کو ہندوستان کے عظیم بازار میں پیش کرنے کے لئے دن رات مصروف رہتی تھیں۔ سوئی سے ہوائی جہاز تک، کوک سے پیپسی تک۔۔۔ لیکن اب بساط الٹ گئی ہے۔ کل ہندوستان بازار میں آنے والی بین الاقوامی کمپنی پر ہنگامہ ہوتا تھا۔۔۔ ملک، بیداری، عوام اور بھارتئیتا کی دہائی دی جاتی تھی اور اب۔۔۔ وہ بھی آ رہے ہیں اور ہم بھی۔۔۔ یعنی ہندوستانی بھی سارے تعلقات اور ماضی بھول کر صرف اور صرف صارف اور برانڈ بن چکے ہیں۔
وہ اچانک اس کی طرف مڑا تھا۔
’’جیسا کہ میں نے کہا۔۔۔ مجھے ایک جلسہ کرنا ہے۔ سمجھ رہے ہونا تم۔۔۔ تم غریبی کا برانڈ بن جاؤ۔۔۔ تمہیں غریبی کا برانڈ بننا ہی ہوگا میرے لئے۔۔۔‘‘
اس کے آخری لفظ پر میں چونک گیا تھا۔۔۔ ’’آخر اتنا خرچ کیا ہے میں نے تم پر، تمہاری ذات پر۔‘‘
وہ چپ چاپ کمرہ سے نکل گیا تھا۔ گنویڑی کی آنکھوں میں دہشت تھی۔ اُس رات میں نے ایک بےچین کرنے والا خواب دیکھا۔ میں نے دیکھا۔۔۔ یہ اسی کا گھر ہے۔ گھر میں سب چیزیں پڑی ہیں۔ ٹی وی، فریج، واشنگ مشین، ائیر کنڈیشنز اور۔۔۔ ان میں ہی کہیں بیچ میں ، میں کھڑا ہوں۔۔۔ یعنی کنزیومر۔۔۔ محض ایک پیدا کرنے والی چیز۔۔۔ میرے جسم میں سنسنی ہوئی، میں شاید زور سے چیخا بھی تھا۔
میں نے دیکھا۔۔۔ شہر میرے بغل میں کھڑا ہے۔ مجھے آنکھیں دکھا رہا ہے۔
’’اب۔۔۔ اب کیا کروگے؟‘‘
’’جیسا وہ چاہتا ہے۔‘‘ میری آواز صحیح معنوں میں گھبرائی ہوئی تھی۔
’’پروڈکٹ بننے کے لئے تیار ہو تم؟‘‘
’’راستے کل بھی میرے پاس نہیں تھے۔‘‘
’’یعنی پروڈکٹ بن جاؤگے؟‘‘
’’لیکن وہ میرا کیا کرےگا۔‘‘
شہر ہنسا۔۔۔ ’’انجان ہو،بھولے بھالے معصوم، پاگل۔۔۔ اس نے تم سے تمہاری غریبی نہیں سب کچھ مانگ لیا ہے۔ سنو! وہ صحیح معنوں میں تمہارا استحصال کر رہا ہے۔ اس کا سارا فلسفہ یہیں تک محدود تھا۔ یعنی تمہیں عالمی کمپنی کے دروازے تک لانے کے بیچ۔۔۔ سنو، کھل کر کہوں تو دنیا میں ہندوستان کی غریبی فروخت ہوتی ہے اور وہ بس تمہیں فروخت کرنا چاہتا ہے۔۔۔ سونے کی قیمت میں۔
شہر اچانک مجھ پر غصہ ہوا تھا۔ مجھے لگا، اب کسی بھی پل وہ مجھے مار بیٹھےگا۔۔۔ بولےگا۔۔۔ سالے اور کوئی جگہ نہیں ملی۔۔۔ یہاں کیوں آیا۔۔۔ یہاں عمارتیں بستی ہیں آدمی نہیں اور تم ابھی اس مہذب سماج میں عمارت نہیں بنے۔ ابھی بھی نہیں، تم ابھی معمولی آدمی ہو، بس۔
شہر مجھ پر کھلکھلا رہا تھا۔ اس طرح جیسے میں اس کی نظر میں کوئی مسخرہ تھا۔ ریڈی کیولس مین۔۔۔ نہیں ، شاید یہ غلط تھا۔۔۔ شہر نے تو مجھے دیکھنا تک بند کر دیا تھا۔۔۔ اب یہ کوئی اور تھا۔۔۔ میرے جیسا ہی۔۔۔ جو اچانک اس شہر میں آ نکلا تھا اور شہر اس کے ساتھ بھی وہی سلوک دہرانے والا تھا جو میرے ساتھ کر چکا تھا۔
(6)
’’پھر۔۔۔؟‘‘
میں نے سوچ لیا تھا۔ بحیثیت کہانی کار اب اس کے بعد میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ سچائی یہ تھی کہ مجھے اس کی اس کہانی سے اب ڈر لگنے لگا تھا۔ سچائی یہ تھی کہ اس کی کہانی میں بھی، جیسا کہ اُس نے بہت سارے اگر مگر کے بیچ بتایا۔ یا تو وہ آدمی سیاست داں تھا یا کہانی کار۔۔۔ یا جیسے دونوں ایک دوسرے میں مل گئے تھے۔۔۔ صنعت اور صارف کی طرح۔۔۔ اور شاید اسی لئے اب مجھے اُس سے الجھن ہو رہی تھی۔۔۔ جب کہ مجھے اس کہانی کا اختتام معلوم تھا۔ یا یہ کہ ایسی کہانیوں کا اختتام یہی ہوتا ہے۔ پھر بھی اپنے تجسس کو باقی رکھتے ہوئے آخری بار میں نے پوچھ ہی ڈالا۔۔۔
’’اور اس کے بعد؟‘‘
گنویڑی نے اپنی خاموشی توڑی۔ گہرا سانس لیا۔۔۔
اور پھر۔۔۔ جیسا کہ مجھے یقین نہیں ہوا۔۔۔ وہ جلسہ گھر، وہ جلسہ۔۔۔ وہ کھا دی کی ٹوپیاں۔۔۔ وہ سر ہی سر۔ کیا وہ بھیانک اندھیرا تھا۔۔۔ ایک خوفناک خواب تھا۔۔۔
ہوا کیا تھا؟ میں نے ڈر کر پوچھا۔۔۔ ’’کیا کنٹھ کام نہیں آئے ، گلا سوکھ گیا؟‘‘
’’نہیں۔۔۔ آہ۔۔۔ اسی کا تو افسوس ہے۔‘‘ اس کے چہرے پر عجب سی فریاد تھی۔ آپ یقین نہیں کریں گے ، میں بھی چیخ رہا تھا۔ مگر۔۔۔ بازو۔۔۔ بازو، اپنی جگہ ٹکا ہوا تھا۔ ہونٹ چیخ رہے تھے، مگر جسم کے دوسرے اجزاء نے اچانک ہڑتال کر دی تھی۔ پیر ساکت و جامد تھے۔ ہاتھ بے جان تھے اور اچانک۔۔۔ سب میری طرف گھورنے لگے۔ میں نے اُس کے چہرے پر غصے کو پڑھا۔ اس کی ہتھیلیوں میں پتھر تھا۔ خاکی ٹوپیاں دھیرے دھیرے کھسک رہی تھیں۔ وہ تیز چیختا ہوا پتھر اٹھا کر مجھے مارنے کو جھپٹا تھا اور۔۔۔ اور۔۔۔ نہیں جانے دیجئے۔
گنویڑی کے دانت اس شدید گرمی میں بھی بج رہے تھے، ’’جانے دیجئے۔ آگے کی داستان کا آپ کیا کریں گے۔ اُس رات میں نے کہاں گزاری، یہ بھی جانے دیجئے۔۔۔‘‘
’’مگر وہ میرے بےحد قریب کھڑا تھا۔ ارے وہی شہر۔ اس کا دھندلا پیکر چپ چاپ میرے سامنے لمبا ہو گیا تھا۔ پھر میں نے اچانک اس کے پیکر کو ٹوٹ کر گرتے دیکھا۔ ہاں۔۔۔ یقین کریں آپ۔۔۔ کیا میرے لئے شہر مر گیا تھا۔۔۔ یا شہر کے لئے میں مر چکا تھا۔۔۔ شاید شہر کو اب مجھے ٹوکنے ، روکنے یا غصہ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ شہر کی نظر میں، میں ایک بے ضرر انسان تھا۔ یعنی لاچارے مائی باپ، جس پر نہ رویا جا سکتا ہے، نہ ڈھنگ سے ہنسایا اُداس ہوا جا سکتا ہے۔
اور اسی پل میں نے فیصلہ کر لیا کہ۔۔۔‘‘
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.