آوازیں
مرمریں فرش پر دور سے نزدیک ہوتی ہوئی سخت ایڑی والے جوتوں کی ٹَک ٹَک، چوڑیوں کی چھن چھن اور موسم کے پھولوں کی نرم و لطیف خوشبو نے میرے حواس کو چھوا اور لمحہ بھر کو مجھے سحر زدہ کر دیا اور پھر ایک ہی ردھم میں رقصاں آوازیں اور پھولوں کی مہک مجھ سے آگے نکل گئے۔
ہسپتال کے کسی بستر پر کوئی صحت یاب ہوا تھا۔
میں احتیاط سے قدم اٹھاتا ہوا اپنے بھانجے سعد کی انگلی تھامے آگے بڑھتا رہا۔ پھر پہیوں کے چرچرانے کے ساتھ مختلف قدموں کی ملی جلی آوازیں میرے چاروں طرف پھیل گئیں۔ شاید کوئی نیا مریض، یا پرانے کو ایک کمرے سے دوسرے میں، یا آئی سی یو، آپریشن تھیٹر یا لیب لے جارہے ہوں۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کوئی مریض آخری سانسیں لے چکا ہو۔
تو اب جلدی کاہے کی ہے۔
شاید پوسٹ مارٹم، یا ہو سکتا ہے مریض نے وصیت کی ہو کہ اس کے کارآمد اعضاء ضرورت مندوں کو لگا دیئے جائیں۔ اب تو ایسا اکثر سُننے میں آتا رہتا ہے۔ یوں بھی یہ کام برق رفتاری سے کرنا ہوتا ہے۔ اس لیے بھاگم بھاگ سب گئے ہیں۔ مبادا میں کسی سے ٹکرا نہ جاؤں، سعد نے مجھے دیوار کے نزدیک کردیا۔ مجھے یاد تھا کہ یہاں سے تھوڑے فاصلے پر ایک ریمپ اور اس سے چند قدم آگے ایڈمنسٹریشن آفس ہے۔
میرا اس ان دیکھی دنیا میں بڑی بہن کے سوا کوئی نہیں۔ معذور ہونے کی وجہ سے اسی کے ساتھ رہتا ہوں۔ کچھ عرصے سے میرے کانوں میں عجیب سی سنسناہٹ ہو رہی تھی۔ کبھی کبھی تو یہ سنسناہٹ بڑھتے ہوئے میرے دماغ پر اثر انداز ہو جاتی اور دماغ سن ہو جاتا۔ ڈاکٹروں نے معمولی سا آپریشن بتایا اور کہا کہ آپریشن نہ کروانے کی صورت میں کانوں کے پردے متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔ جس سے سماعت کو نقصان پہنچےگا۔ یہ سن کر میں ڈر گیا اور آپا سے بولا۔
’’آپا! میں دیکھ نہیں سکتا۔ میرا سارا انحصار سننے پر ہے۔ اگر یہ بھی نہ رہے تو میں تقریباً مفلوج ہو جاؤں گا‘‘۔
آپا جانتی ہیں کہ میں مرنے سے نہیں بلکہ معذوری میں مفلوج ہونے سے ڈرتا ہوں۔ اسی لیے کچھ ہی دنوں میں انہوں نے میرا آپریشن کروا دیا۔ اب میں ساری آوازوں کو بہت واضح سن سکتا تھا۔ آج میرے طبی معائنے کا دن تھا۔ اسی لیے سعد مجھے ہسپتال لایا تھا۔
سعد نے مجھے ایڈمن آفس کے نرم صوفے پر بٹھا دیا اور خود ڈاکٹر سے بات کرنے چلا گیا۔ یہ کمرا میرے لیے اجنبی نہیں ہے۔ سامنے بنے ہوئے لمبے چوڑے شیشے کے کاؤنٹر سے دروازے تک کے حصے کو میری سفید چھڑی نے خوب ناپا ہوا ہے۔ اسی اثنا میں بیرونی دروازہ کھلا اور کچھ آوازیں کمرے میں پھیلنے لگیں۔
’’ڈاکٹر فضل نے آپ سے بات کی ہوگی؟‘‘
بھاری بھرکم آواز یوں سُنائی دی جیسے اس کے منہ میں کچھ بھرا ہوا ہو۔ شاید وہ پان کھا رہا تھا۔ کاؤنٹر کلرک جسے میں ریاض کے نام سے جانتا ہوں، نے کارپوریٹ مسکراہٹ سے جواب دیا۔
’’فرمائیے جناب! میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ڈاکٹر فضل نے بھیجا ہے‘‘۔
بھاری بھرکم آواز والے نے بےاعتنائی سے جواب دیا۔ اس دوران کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور اپنی کھردری آواز میں بولا۔
’’حافظ جی! ذرا سی جگہ دینا‘‘۔
یہ آواز مجھے ذرا اچھی نہیں لگی۔ کھردری اور سپاٹ آواز والے لوگ مجھے پسند نہیں آتے۔ تاہم میں نے اپنے ہاتھ سے دائیں طرف صوفے کو ٹٹولا لیکن وہاں تو کہنی رکھنے کی بھی جگہ نہیں تھی۔ میں نے کہا۔
’’یہ حافظ جی اب کہاں سرکےگا‘‘۔
’’ارے حافظ جی ذرا سمٹ ہی جاؤ‘‘۔
میں چڑ گیا۔
’’کیا حافظ جی حافظ جی لگا رکھی ہے۔ میں حافظ جی نظر آتا ہوں؟‘‘
’’ارے میاں نابینا آدمی کو حافظ جی نہ کہیں تو کیا کہیں؟‘‘
میں تلملا کر رہ گیا۔ اتنی دیر میں وہ زبردستی میرے پہلو میں بیٹھ گیا۔ کاؤنٹر پر گفتگو گرما گرمی میں بدل گئی تھی۔
’’پہلے آپ کو ہوسپٹل آکر پوچھنا چاہیے تھا۔ اگر آپ نے مریض کو باہر گاڑی میں ڈال رکھا ہے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ آپ کو کسی دوسرے ہوسپٹل سے مریض کو یوں نہیں لایا چاہیے تھا۔ غلطی آپ کی ہے ہماری نہیں۔ رہا سوال ڈاکٹر فضل کا تو انہیں ہوسپٹل چھوڑے ہوئے چھ ماہ ہو چکے ہیں۔ وہ یہاں کے لیے کسی بھی مریض کو ریکمنڈ نہیں کرتے‘‘۔
’’ابے ارشد! ذرا فون تو لگا ڈاکٹر فضل کو۔ دو کوڑی کے کلرک لوگ منہ لگ رہے ہیں۔ جیسے ہسپتال ان کے باپ کا ہو‘‘۔
بھاری بھرکم آواز والے نے اکڑتے ہوئے کہا۔ میرے برابر بیٹھے ہوئے شخص کا ہاتھ حرکت میں آ گیا۔ یقیناً ارشد اسی کا نام تھا۔
’’لا میں بات کرتا ہوں۔۔۔ہیلو۔۔۔ہیلو۔۔۔ڈاکٹر صاحب آپ کی تو یہاں کوئی ویلیو ہی نہیں ہے۔ کلرک کہہ رہا ہے کہ آئی سی یو میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ ہم یہاں کئی گھنٹوں سے پریشان کھڑے ہیں۔ ہمارا مریض باہر گاڑی میں تڑپ رہا ہے‘‘۔
اس نے سراسر جھوٹ بولا۔ دونوں چند منٹ پہلے آئے تھے۔ وہ ایک لمحے کو خاموش ہوا۔ دوسری طرف سے کچھ کہا گیا۔ میری سماعتوں سے آواز ٹکرائی۔
’’لو تم خود ڈاکٹر صاحب سے بات کرو‘‘
’’السلام و علیکم ڈاکٹر صاحب! میں ریاض بول رہا ہوں‘‘۔
چند ساعتوں کے لیے وہ خاموش ہوا اور پھر خوش گوار لہجے میں بولا۔
’’جی میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ کیسے ہیں؟‘‘
ایک درمیانے وقفے کے بعد اس نے حیرت سے کہا۔
’’ہیں۔۔۔؟‘‘
اس بار قدرے طویل وقفے کے بعد ریاض نے فاتحانہ انداز میں کہا۔
’’میں ان سے یہی تو کہہ رہا ہوں۔ لیکن انہیں میری بات سمجھ میں نہیں آ رہی‘‘۔
ریاض کی خوش گوار لہجے سے شروع ہونے والی گفتگو حیرت و استعجاب سے گزرتے ہوئے فاتحانہ طنز پر ختم ہوئی۔ اس دوران دروازہ کھلا اور چند قدموں کی آوازیں سنائی دیں۔ چند ثانیے کے بعد ریاض نے طنزیہ کہا۔
’’لیجئے جناب! بات کیجئے ڈاکٹر صاحب سے، انہوں نے آپ کو کہا کیا تھا اور آپ کر کیا رہے ہیں؟ اماں جی فرمائیے آپ کا کام ہو گیا؟‘‘
’’نہیں بیٹا۔۔۔بیٹا کچھ مہربانی کر دو۔ اللہ تمہارا بھلا کرےگا۔ بہت دکھیاری ہوں۔ تمہارے جیسا میرا جوان بیٹا اگر آج زندہ ہوتا تو اپنے باپ کے سارے بل ادا کر دیتا۔ بلکہ وہ زندہ ہوتا تو اس کا کڑیل باپ معذور بھی کاہے کو ہوتا‘‘۔
کسی بوڑھی عورت کی رندھی ہوئی آواز سنائی دی۔ اس دوران پان کھانے والا اور میرے ساتھ بیٹھا ہوا شخص آپس میں کھسر پھسر کرتے رہے۔
’’ابے غلطی ہو گئی یار۔ ڈاکٹر فضل نے وہ نکڑ والے ہسپتال کے لیے کہا تھا۔ ہم یہاں لے آئے اور اس سالے کے سامنے بےعزتی کروا لی‘‘۔
’’ابے کاہے کی بے عزتی۔ چپ چاپ سٹک لیتے ہیں‘‘۔
میرے برابر بیٹھا ہوا شخص بولا اور پھر کاؤنٹر سے ریاض کی آواز سنائی دی۔
’’اماں! میرے اختیار میں پہلے بھی کچھ نہیں تھا۔ اب بھی کچھ نہیں ہے۔ ہاں! آپریشن سے پہلے زکوٰۃ فارم بھرنا ضروری تھا۔ اس صورت میں رعائیت ہو جاتی ہے۔ وہ بھی کمیٹی کا کام ہے۔ فارم نہیں بھرا اور بل بن گیاتو انتظامیہ بھی نہیں مانتی‘‘۔
’’بیٹا میں اتنا بل کیسے ادا کروں گی؟‘‘
بوڑھی رندھی ہوئی آواز کچھ اور رندھ گئی۔
’’اماں یہ تو پہلے سوچنا چاہیے تھا‘‘۔
مجھے لمحے بھر کو خیال آیا کہ پوچھوں بل کتنے کا ہے، میں ادا کر دیتا ہوں۔ مگر دل مسوس کر رہ گیا۔ میں کہاں سے ادا کروں گا؟ میں تو خود بڑی بہن پر بوجھ ہوں۔ امی کے انتقال کے بعد سے ہمارے مکان کا کرایہ بہنوئی صاحب کی جیب میں جاتا ہے اور ان کے بقول میری دیکھ بھال پر کچھ زیادہ ہی خرچ ہو جاتا ہے۔ میرے آپریشن والے دن آپا اور بھائی صاحب کے بیچ خاصی کھٹ پٹ ہوئی تھی، تب میں نے سوچا تھا کہ آپریشن کے لیے منع کر دوں۔۔۔لیکن میں بہرہ ہو گیا تو پھر۔۔۔؟؟
تب میری مجبوری نے مجھے خاموش کر دیا اور اب بھی خاموشی بہتر تھی۔ میں اس بوڑھی عورت کی کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا۔ اس بےبسی پر میرا سر ندامت سے جھک گیا۔ ایک بار پھر دروازہ جھٹکے سے کھلا، میرے برابر بیٹھا ہوا شخص اٹھا اور پھر تیز قدموں کی آوازیں باہر کی طرف جاتے ہوئے مدھم ہوتی چلی گئیں۔ ان کے پیچھے بوڑھی عورت بھی دھیمی اور مایوس چال سے باہر چلی گئی۔ اب وہ دونوں نکڑ والے ہسپتال جائیں گے، جہاں آئی سی یو میں ان کے مریض کا انتظار ہو رہا ہوگا اور بوڑھی عورت شاید اسی جیسے کسی نکڑ پر کسی غیبی مدد کے انتظار میں ہاتھ پھیلا کر کھڑی ہو جائےگی۔
سعد اب تک نہیں لوٹا تھا۔ کمرے میں خاموشی چھا گئی۔ ریاض کام میں مصروف ہو گیا۔ میں اس کی مدھم سانسوں، پرنٹر پر سرکتے کاغذوں، کیبنٹ کے کھلنے بند ہونے اور کرسی کی ہلکی ہلکی چرچراہٹ کو سن رہا تھا۔ لیکن ان آوازوں میں کسی انسان کے بولنے کی آواز شامل نہ ہونے کی وجہ سے میرے لیے سناٹا ہی تھا۔ جب باہر کی فضا میں پھیلا ہوا سناٹا مجھ پر وار کرتا ہے، تو میری آنکھوں کے بند پپوٹوں کے اندر دور رگوں میں اترتا اندھیرا اور بھی گھمبیر ہو کر باہر کے حملے کو بڑھاوا دیتا ہے اور میں ڈر جاتا ہوں۔ ایسے میں کوئی نہ ہو تو میں خود سے باتیں کرنے لگتا ہوں۔ لیکن یہاں ایک ذی نفس موجود تھا۔ لہذا میں نے سناٹے کے نازک شیشے پر آواز کے بھاری پتھر کی صورت میں ریاض کی طرف یوں ہی غیرضروری سا سوال داغ دیا۔
’’آپ کا بھی کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے‘‘
’’نوک۔۔۔‘‘
ابھی نوکری اس کے ہونٹوں پر ادھورا تھا کہ دروازہ کھلنے اور بند ہونے کی آواز آئی۔ میں نے بے ساختہ گردن گھمائی۔ قدموں کی آہٹ نے بتایا کہ وہ کوئی عورت تھی۔
’’تم نے فیمیل وارڈ کا ڈسچارج رجسٹر واپس نہیں کیا۔ ہمیشہ ہی۔۔۔
یکایک طویل سکوت پھیل گیا، جیسے وہاں کوئی نہ ہو۔ لیکن کسمسانے، لباس کی سرسراہٹ اور کاؤنٹر سے کسی چیز کے گرنے کی ملی جلی آوازوں نے سکوت کو توڑ ڈالا۔
’’اوں ہوں۔۔۔ہوں۔۔۔ہٹ۔۔۔سب خراب کر دی۔۔۔بدمعاشی سے باز نہیں آنا۔ میں ڈاکٹر ضیا سے تمہاری شکایت کر دوں گی‘‘۔
’’شکایت بھی ان سے جو کیمرے تک سے آڑ نہیں کرتے۔ کم از کم ہماری فلم سیکورٹی آفس میں تو نہیں دیکھی جا رہی ہوگی‘‘۔
’’یہ سن کر ایک نقرئی قہقہہ گونج اٹھا۔ اس قہقہے میں ریاض کی ہنسی بھی شامل ہو گئی۔ دروازہ ایک بار پھر کھلا اور بند ہو گیا اور نقرئی قہقہہ باہر چلا گیا۔ میرے لبوں پر شریر مسکراہٹ پھیلنے لگی۔ میں نے اسے سمیٹنے کی کوشش کی مگر وہ اور بکھر گئی۔ ریاض نے محسوس کرلیا۔ تب ہی وہ شرارت سے بولا تھا۔
’’کاکا! اندھے ہی ہو نا؟‘‘
ابھی میں کچھ کہتا، یکایک دروازہ کھلا اور بہت ساری آوازوں کے دھویں سے کمرا بھر گیا۔ ایک ساتھ کئی لوگ کمرے میں گھس آئے تھے۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ بول رہا تھا۔ لفظوں کی تپش سے اندازہ ہو رہا تھا کہ کسی مریض کے ساتھ آئے ہیں، لیکن مسئلہ کیا ہے یہ سمجھنا مشکل تھا۔
’’اس ہسپتال کا مالک۔۔۔‘‘
’’مالک والک کو چھوڑو۔ وہ بیٹھا ہوگا کسی آرام دہ۔۔۔‘‘
’’تم اپنے ڈاکٹر کو سمجھاؤ۔ وہ ہمارے مریض کو۔۔۔‘‘
’’اڑے اس کا تو باپ بھی دیکھےگا۔۔۔‘‘
’’بھائی صاحب! کچھ سمجھائیے تو سہی۔ مسئلہ۔۔۔‘‘
’’ایمرجنسی میں کون ڈاکٹر ہے۔ اس کا نام۔۔۔‘‘
’’نام کی ایسی کی تیسی۔۔۔‘‘
’’اچھے میاں! ذرا فون لگا۔ محلے کے لڑکوں کو بلا۔ دیکھتا ہوں سالے اس ہسپتال کی اینٹ۔۔۔‘‘
’’ہیلو ڈاکٹر صاحب! آپ فوراً یہاں آئیے۔ تھوڑا مسئلہ۔۔۔‘‘
’’ابے تھوڑا نہیں بہت۔۔۔‘‘
میری سماعتوں میں بہت سی آوازیں لہجے اور اَدھورے جملے گڈمڈ ہورہے تھے۔ مجھے اپنی اندھی آنکھوں میں اندھیرا پہلے سے زیادہ گہرا اور دم گھٹتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ غریب کی جھونپڑی کی طرح کمرے میں گنجائش سے زیادہ لوگ تھے۔ میں نے دونوں ہاتھ ایک شخص کی پشت پر رکھے ہوئے تھے ورنہ وہ شخص مجھ پر گر پڑتا، تاہم میں اس کے بوجھ تلے مسلسل دبا جا رہا تھا۔ میں نے گھبراکر دائیں طرف سرکنے کی کوشش کی۔ میرے ہاتھ جوں ہی ڈھیلے پڑے وہ شخص دھڑام سے مجھ پر آ گرا۔ میری جان نکل گئی۔ میں چیخا۔
’’ارے میں مر گیا۔۔۔‘‘
’’ارے بھائی پیچھے ایک نابینا شخص بیٹھا ہوا ہے کہیں اسے مار نہ دینا‘‘۔
مجھے دور سے ریاض کی اِلتجا سُنائی دی۔ ٹھیک اسی لمحے قریب کی سرگوشی نے میرے کانوں میں خوف انڈیل دیا۔
’’جسے مارنا تھا، ہم اسے مار آئے ہیں‘‘۔
یکایک ہزاروں چیونٹیاں میرے بدن پر رینگنے لگیں۔خوف میرے پور پور میں اتر گیا۔ کمرے میں دلوں کی طرح حبس بڑھتا جا رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے کمرے میں خون کی بو بسی ہوئی ہو۔ میں نے گھبراکر اٹھنے کی کوشش کی لیکن گھٹنے بھی سیدھے کرنے کی جگہ نہ پا کر پچھلی دیوار کا سہارا لیتے ہوئے دوبارہ بیٹھ گیا۔ کمرے میں شور دھویں کی طرح پھیلا ہوا تھا۔ مکھیوں کی سی بھنبھناہٹ میں کچھ سنائی نہیں دے رہا تھا۔ اپنی حساس سماعت کے باوجود کوئی لفظ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ شاید میرے کانوں میں آپریشن سے پہلے والی سنسناہٹ عود آئی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے ساری دنیا گلا پھاڑ کر چیخ رہی ہو۔
’’ہمارے مریض کو بچاؤ۔۔۔‘‘
’’جسے مارنا تھا اسے ماردیا۔۔۔‘‘
’’ہمارے مریض کو۔۔۔‘‘
’’جسے مارنا تھا۔۔۔‘‘
’’ہمارے۔۔۔‘‘
’’جسے۔۔۔‘‘
’’ہم۔۔۔جس۔۔۔‘‘
میرے کانوں میں آوازوں کا شور بڑھتا جارہا تھا۔ خوف کی سنسناتی لہر کے زیر اثر میں زور سے چیخا۔
’’سعد! تم کہاں ہو؟‘‘
لیکن میری آواز دوسری آوازوں کے شور میں گم ہو کر رہ گئی۔ یکایک یوں لگا جیسے بصارت و سماعت کے بعد میں نے اپنی آواز بھی کھو دی ہے۔
(۲۰۰۶ء)
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.