Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ابورشن

نگار عظیم

ابورشن

نگار عظیم

MORE BYنگار عظیم

    آسمان سے بادل صاف ہو چکے تھے۔ ہوا میں خنکی برقرار تھی۔ پھولوں اور پھلدار درختوں کی خوشبو ہوا میں ضم ہوکر نشہ آور ہوگئی تھی۔ جسم کا انگ انگ رومان سے بھر اٹھا تھا۔ کال بیل بج اٹھی۔۔۔ دھوبی؟۔۔۔ اف۔۔۔ دھوبی کو بھی اسی وقت آنا تھا۔۔۔؟

    منظر بدل گیا۔۔۔

    کتنا ہینڈسم تھا وہ؟ میں اس کے بارے میں قطعی نہیں سوچ رہی تھی۔ بلکہ اس نے میرے حواس کو جکڑ لیا تھا۔ صرف ایک ملاقات کا اتنا زبردست اثر؟ اس سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا۔ ایسا کیا تھا اس کی شخصیت میں؟

    ٹرن ٹرن۔۔۔ ن،... ن... توبہ۔۔۔ یہ فون پتہ نہیں لوگ کیوں لگوا لیتے ہیں؟ ہر دو منٹ کے بعد گھنٹی بج جاتی ہے۔ کوئی کام ہی نہیں کرسکتے۔ سات فون آ چکے، آدھا گھنٹے کے اندر اندر۔۔۔ یہ بچے بھی۔۔۔ نہ جانے کس کس کو نمبر دے رکھا ہے اور خود گھر میں ہوتے نہیں۔

    کس قدر بوجھل تھی وہ شام۔۔۔ ریڈیو اسٹیشن سے رکارڈنگ کے بعد جب میں باہر نکل رہی تھی تو قدم من من بھر کے ہورہے تھے۔ بے انتہا کوفت ہو رہی تھی اس مذاکرے میں حصہ لے کر۔ اس خصوصی مذاکرے کے لیے کئی آرٹسٹ قلمکار اور مختلف گوشوں سے کئی حضرات بات چیت میں حصہ لینے آئے تھے۔ خواتین بھی شامل تھیں۔ موضوع تھا ومن لبریشن۔ عورت پر ظلم اور بربریت کی بڑی بڑی مثالیں۔ جہیز، طلاق، اور عورت کو زندہ جلا دینے والے اذیت ناک واقعات، عورت کا مستقبل، تعلیم نسواں، شوہروں کی زیادتیاں، اَن پڑھ عورت کے مسائل، اس مذاکرے میں حصہ لے کر مجھے گھٹن کا احساس ہورہا تھا کیونکہ مجھے لگا سب کے سب وہاں عورت کے مسائل پر کم اور مرد کے خلاف زیادہ محاذ آرائیاں کر رہے ہیں جب کہ میرا نظریہ ذرا مختلف تھا۔ عورت ظلم سہے گی تو ظلم ہوتا رہےگا۔ ظلم سہنا بند کردےگی تو ظلم کے راستے بھی بند ہو جائیں گے۔ سینکڑوں مثالیں ہیں عورت پر عورت کے ظلم کی۔ ان کا ذکر کیوں نہیں ہوتا؟

    چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی۔ گھر پہنچ کر میں نے رابعہ کو آواز دی ’’رابعہ ایک کپ چائے۔‘‘

    ’’بی بی ہم تو جات ہیں۔۔۔ آپ کا رستہ دیکھتے دیکھتے تھک گئی ہم تو۔‘‘

    ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘

    ’’گھر۔۔۔‘‘

    ’’پاگل ہوئی ہو تم؟؟ اتنی جلدی بھول گئیں تم۔۔۔ کتنا مارا تھا تمہیں لیاقت نے شراب پی کر؟‘‘ آدھی رات کو تمہیں اس نے گھر سے نکال دیا تھا۔

    ’’کیا کریں بی بی۔۔۔ گلتی تو ہمار تھی۔

    کیا غلطی تھی تمہاری؟ بولو۔۔۔ کیا غلطی تھی؟؟

    وہ ذرا شرمائی—جھجکی۔۔۔ اور مسکراتے ہوئے بولی۔

    ’’۔۔۔اس کا کا کسور—؟ سارا کسور تو نسے کا ہے۔ نسے میں کچھ ادھک تنگ کرتا ہے نا؟ بس ہم نے اس کی بات ناہی مانی تھی۔ اس لیے مارتا تھا۔۔۔ اب کیا کریں بی جی؟ مرد تو اپنا ایچ نا۔ دوسری عورت کنے چلا گیا تو ہمار گھر برباد ہو جاوےگا۔ اپنے ببوا کا باپ بھی تو ہے وہ۔۔۔ جاویں نائی تو کا کریں؟ تنک بولو۔‘‘

    مجھے حیران اور خاموش دیکھ کر وہ لہک کر بولی۔

    ’’آپ کو چاہ بنا دوں پھر چلی جاؤں گی۔‘‘

    ’’نہیں رہنے دو۔ تم جاؤ۔ مجھے چائے نہیں پینا۔‘‘

    لڑ لو عورتوں کے حقوق کے لیے۔ میں بڑبڑائی۔۔۔ اچانک فون کی گھنٹی بج اٹھی۔ ٹرن ٹرن...

    ہلو۔۔۔ کیا۔۔۔؟ ممانی جان کی حالت نازک ہے؟؟

    یہ کیا کہہ رہی ہو۔۔۔؟ کوئی امید نہیں۔۔۔؟

    فون کا سلسلہ منقطع ہو گیا اور ساتھ میں ذہن کا بھی۔

    دوسرے دن ممانی جان کا انتقال ہو گیا۔ میاں کی ممانی بھی تو اپنی ہی ممانی ہوتی ہے۔ غم میں شریک ہونا لازمی تھا۔

    کئی دن گزر گئے۔ دماغ میں الجھنیں کچھ زیادہ ہی بڑھ گئی تھیں۔ مزاج چڑچڑا ہو گیا تھا۔ غصہ میں ہانپتی ہوئی میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ اپنے حواس درست کیے۔ یہ کیا ہوگیا ہے مجھے۔ بلاوجہ بچوں پر غصہ؟ آخر اس کی کیا غلطی تھی؟ بائک کا ٹائر پھٹ گیا حادثہ کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔۔۔ اب یہ سب اخراجات تو لگے ہی رہتے ہیں۔ اور پھر پانچ سات سو روپیہ کوئی اتنی بڑی رقم بھی نہیں۔۔۔ احساس ہوا تو لہجہ نرم کرکے بولی ’’آخر آج ہی ٹھیک کرانے کی کیا جلدی ہے؟ کل بھی تو ہوسکتی ہے۔ صبح بینک سے پیسے نکلوا لوں گی۔‘‘

    تو پھر یہ کہئے نا۔۔۔ بیٹے نے خفگی سے جواب دیا۔

    ’’تم بھی تو بے وقت ڈسٹرب کرتے ہو۔‘‘

    ’’ماں آپ کے ساتھ ہمیشہ یہی ہوتا ہے کوئی نئی بات تو ہے نہیں‘‘ بہت ضبط کے باوجود دو گرم گرم آنسو آنکھوں سے نکل کر گالوں پر لڑھکتے ہوئے میرے ہی گریبان میں جذب ہو گئے۔ ماتھے پر پھڑکتی رگوں کو دباتے ہوئے میں وہاں سے اٹھ کھڑی ہوئی۔

    نہ جانے کیسی صبح تھی وہ۔۔۔ رات بھر نیند نہیں آئی تھی۔ جسم میں شدید درد کا احساس ہو رہا تھا۔ آنکھیں بوجھل تھیں اور سر بھاری۔ میرا کرب میری تکلیف کوئی بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔ ماشاء اللہ اتنا بڑا کنبہ اور ذمہ داریوں کی میں تنہا وارث۔ میرا وجود اس کلے (مٹی) کی مانند ہو گیا تھا جسے بچے بار بار گوندھ کر مختلف شکلیں بناتے اور بگاڑتے رہتے ہیں۔

    میں جس کرب میں مبتلا تھی وہ بھی اوپر والے کی ہی دین تھی۔ بےشک ہر چیز پر وہی قادر ہے۔ اسی نے عورت کو زمین سے تعبیر کیا ہے۔ اس کو تخلیقی قوت بخشنے والا بھی وہی ہے۔

    ’’دیکھئے پلیز۔۔۔ آپ مجھے ڈسٹرب نہ کیجیے گا۔‘‘ میاں کا موڈ اچھا دیکھ کر میں نے فائدہ اٹھانا چاہا۔

    ’’پلیز— میری طبیعت بہت خراب ہے۔ میں پچھلے کئی ماہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہوں۔ کوئی بھی کام ٹھیک سے نہیں کرپا رہی ہوں۔ میں سکون سے اپنے کمرے میں بند رہنا چاہتی ہوں۔ کھانا میں نے پکا دیا ہے۔ پلیز، آپ میری مدد کریں۔

    میاں نے کچھ ایسی نظروں سے دیکھا جیسے مجھ سے کوئی بہت بڑی غلطی سرزد ہو گئی ہو۔

    کیا ہوا؟ ایسے کیا دیکھ رہے ہیں؟ کیا آپ کو قطعی احساس نہیں کہ میں کتنا پریشان ہوں؟ کیا آپ۔۔۔

    دراصل مجھے کہیں کام جانا ہے۔

    ’’لیکن آج تو چھٹی ہے۔۔۔ آپ پچھلے اتوار بھی۔۔۔

    ہاں بھئی... کیا کروں... ضروری میٹنگ ہے۔

    تم اپنا کام کرو— میں بچوں سے کہہ دوں گا۔

    بچے کیا کریں گے—؟ ہر دو منٹ میں مجھے آوازیں لگائیں گے۔ کسی بڑے کا ہونا تو ضروری ہوتا ہے گھر میں۔ اور وہ میٹنگ میں چلے گئے... بڑا بیٹا بہت محبت کا اظہار کرتے ہوئے میرے قریب بیٹھ گیا۔

    کیا بات ہے ماں؟ طبیعت خراب ہے کیا؟ آپ کچھ پریشان ہیں؟

    ’’نہیں بیٹا کچھ نہیں— بس ذرا سر میں درد سا ہے۔‘‘

    ’’میں دبا دوں؟‘‘

    ’’نہیں، کوئی بات نہیں۔ ٹھیک ہو جائےگا۔‘‘

    ’’ماں آپ کو یاد ہے کل کیا ہے؟‘‘

    ’’ہاں— کیسے بھول سکتی ہوں— پہلا پھول کھلا تھا اس گھر میں— تمہارا برتھ ڈے ہے کل— بولو کیا لوگے؟

    کچھ نہیں ماں— بس کچھ دوست... آپ کے ہاتھ کا چکن بریانی اور کباب۔۔۔ لیکن بیٹا۔۔۔؟؟

    کیا کروں ماں— بہت ٹال مٹول کیا۔۔۔ لیکن نہیں مانے۔ کل آ دھمکیں گے۔ اسکول کی بات اور تھی ماں۔ اب کالج میں بڑی بڑی پارٹیاں کرتے ہیں سب۔ بہت لمبا بل بیٹھتا ہے۔ مجھے معلوم ہے آپ اتنا۔۔۔؟؟ اسی لیے میں نے ہاں کہہ دی۔

    ہاں کہہ دی۔۔۔؟ کتنے دوست آئیں گے۔۔۔؟

    ’’بس چھ سات‘‘۔۔۔ پرانے ساتھیوں کو سموسے اور پیپسی سے ہی کام چلا لوں گا۔

    میں اس کی اس حرکت پر مسکرا پڑی۔ ٹھیک ہے۔

    سورج اپنی تمازت پھیلا رہا تھا۔ ہر چیز روز روشن کی طرح عیاں تھی۔ میرا ذہن کورا تھا اور جسم میں کمزوری محسوس ہورہی تھی۔ میرے وجود میں اندر ہی اندر کچھ کھد بد سی ہو رہی تھی۔ جیسے گولا سا گھوم رہا ہو۔ نہ جانے مجھے کیا ہو رہا تھا۔

    اف۔۔۔ بچپن میں گڑیوں کا کھیل کھیلتے کھیلتے، میں ان گلیوں میں بھٹک رہی تھی جہاں آنکھ مچولی اور آئس پاس کھیلتے کھیلتے پتہ ہی نہیں چلا کب جوانی نے دہلیز پر دستک دے دی۔ رنگ برنگی تتلیاں پکڑتے پکڑتے اچانک۔۔۔ شاید کوئی دروازے پر ہے۔۔۔ فیصلہ نہیں کرپا رہی ہوں کال بیل ہے یا فون۔۔۔؟ فون تو خاموش ہے۔۔۔ دروازہ کھولا۔۔۔ ارے واہ۔۔۔ نہ فون نہ کوئی خبر۔۔۔ یہ تو کمال کر دیا۔

    خالہ ہم نے سوچا راجہ بھائی کو سرپرائز دیں گے۔ کل برتھ ڈے ہے نہ ان کا۔۔۔

    واہ— یہ تو بہت اچھا کیا۔۔۔ دو بھانجیاں، ایک بھانجا، ایک بھتیجا رونق آ گئی تھی گھر میں۔ میں نے مسکراتے ہوئے خوشی کا اظہار کیا۔ فریج سے ٹھنڈا پانی لانے کے لیے اٹھی... لیکن اپنے ذہن و دل کو یکساں کرنے میں ناکام رہی۔

    میرے اندر کا درد اب شدت اختیار کر گیا تھا۔ اندر ہی اندر کچھ پگھل کر رگوں میں تحلیل ہو رہا تھا۔ جسم میں سینکڑوں سوئیاں سی چبھ رہی تھیں۔ دماغ میں کئی سو پاور کے بلب ایک ساتھ جل بجھ رہے تھے۔ جسم کی طاقت آہستہ آہستہ سلب ہوتی جا رہی تھی۔ کیونکہ کاغذ پر رکھا قلم میرا منہ چڑا رہا تھا۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے