Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

اچھے مسیحا ہو

ریحان علوی

اچھے مسیحا ہو

ریحان علوی

MORE BYریحان علوی

    ویسے تو بیماری کوئی اچھی نہیں ہوتی مگر معمولی کے زمرے میں آنے والی تکالیف میں دانتوں اور اس کے ڈاکٹروں سے ہمیں اللہ واسطے کا بیر رہا ہے۔ اسے شو مئی قسمت کہیے یا انتقامِ زمانہ کہ جن لوگوں سے ہماری روح کانپے، اُن سے واسطہ ضرور پڑتا ہے۔ ہمارا اشارہ ہر گز بیگم کی طرف نہیں ہے بلکہ ہمارا روئے سخن دانتوں کے طبیبوں کی جانب ہے۔ ویسے آپ نے کبھی غور کیاکہ دانتوں کے ڈاکٹروں اور بیویوں میں کئی باتیں حیرت انگیز طور پر مشترک پائی جاتی ہیں، مثلاً، دونوں کے سامنے اُف کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ دونوں کی حرکات و سکنات کے باعث مُنھ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے۔ دونوں کے سامنے آنکھیں بند کرکے سکون ملتا ہے۔ دونوں کو آپ کو بے بس کرکے لمبی لمبی تقاریر اور نصیحتیں کرنے کا شغل خوب بھاتا ہے۔

    آئیے اب ان دندان شکن طبیبوں کے کمرے یعنی تجربہ گاہ پر نظر ڈالتے ہیں۔ پہلے ان کی ٹرے کو دیکھیے تو ان میں خشک میووں کی طرح سجے ہوئے عجیب و غریب اوزار، دائیں بائیں جھولتی انواع و اقسام کی ٹونٹیاں اور ماحول کو مزید ہو لانے کے لیے چہروں پر بیزاری ٹپکتی ہوئی مددگار نرسیں اور ان سب پر طرہ وہ عجیب و غریب ترچھی سی کرسی جو نہ ڈھنگ کی کرسی ہوتی ہے نہ قرینے کا بستر۔

    اس بچی کا واقعہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے جس کے والد نے دانتوں کے ڈاکٹر کی انتظار گاہ میں طویل انتظار سے اکتا کر اپنی بچی سے کہا کہ ذرا ڈاکٹر کے کمرے کا پردہ ہٹا کر دیکھو کہ اندر اتنی دیر سے کیا ہو رہا ہے؟ بچی نے جھجکتے جھجکتے کمرے کا پردہ ہٹایا۔ اندر جھانکا اور جھٹ سے واپس لوٹ آئی۔ والد نے پوچھا اندر کیا ہو رہا ہے۔ بچی نے شرماتے ہوئے کہا، ’’ایک صاحب لمبے سے کموڈ پر لیٹے ہوئے ہیں۔‘‘

    ریڈیو کے حوالے سے یہ لطیفہ تو سنا تھا کہ بیگم کے سامنے اونچی آواز میں بولنے والوں کا آڈیشن نہیں لیا جاتا مگر خواتین کی پسند کے حوالے سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ دراز قد شوہروں کو اس لیے پسند کرتی ہیں کہ ایسے شوہر ہمیشہ سر جھکا کر اور نظریں نیچی رکھ کر بات کرتے ہیں مگر ہم اپنے عمیق مشاہدے کے باعث اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دانتوں کے ڈاکٹروں کے مستقل گاہک مردوں کو بھی خواتین میں مقبولیت حاصل ہے اور اس کی وجہ ہماری سمجھ میں یہی آتی ہے کہ ایسے مردوں کو کئی کئی گھنٹے خاموش رہنے کی خاصی مشق ہو چکی ہوتی ہے۔ دانتوں کے ایک ڈاکٹر ہی کے زُمرے میں یہ لطیفہ یا شاید واقعہ بھی سنتے چلیے کہ ایک صاحب نے دانتوں کے ڈاکٹر سے پوچھا کہ دانت نکلوانے کی کتنی فیس ہوتی ہے؟ جواب ملا سُن کرکے نکالنے کی فیس پانچ ہزار روپے بغیر سُنْ کرکے نکالنے کی ایک ہزار۔ ان صاحب نے جھٹ کہا تو پھر سُن کیے بغیر ہی نکال دیجئے۔ ڈاکٹر نے کہا لیکن اس میں بڑی تکلیف ہوگی؟ جواب ملا دانت مجھے نہیں میری بیگم کو نکلوانا ہیں۔

    لگے ہاتھوں دانتوں کے ایک ستم گر طبیب کے ہاتھوں اپنے اوپر گزری بپتا بھی سنتے چلیے۔ یہ نقشہ ہے دانتوں کے ڈاکٹر کے کمرے کااور لگا ہے بتیسیوں کا بازار اور ہم ہیں مریض اور وہ مسیحا۔ قصہ کوتاہ، ابتدائی لمحات کی رسہ کشی کے بعد تمام لوازماتِ دندان سازی کے ساتھ جب مسیحا نے ہمیں اپنی گرفت میں لے ہی لیا تو دوسری طرف سے اچانک نمودار ہونے والی دو ہٹی کٹی نرسوں نے ہمیں ۱۲۰ درجے کے زاویے والی ترچھی کرسی پر لٹا کر تمام لوازماتِ دندان شکنی سنبھالے اور ساتھ ہی ہمیں اپنے توبہ شکن حسن کی تپش کے براہ راست اثر سے محفوظ رکھنے کے لیے ہماری آنکھوں پر سیا ہ عینک چڑھا دی۔ ادھر ایک نرس نے لپک کر ہمارے جبڑے میں شکنجہ نما ایک آہنی آلہ کس دیا تو دوسری نے ایک پتلا سا اسٹرا نما ٹیوب ہونٹ کے بائیں طرف سے منہ میں کچھ اس طرح دبا دیاکہ کچھ لمحوں کے لیے خود پر ’’پوپائے دا سیلر‘‘ کا گمان ہونے لگا۔ شکنجے اور ٹیوب دونوں کا پہلا مجموعی اثر تو یہ ہوا کہ تھوک نگلنے کا قدرتی راستہ تقریباً مسدود ہونا شروع ہو گیا اور تھوڑی ہی دیر بعد سانس لینے کے عمل نے بھی ناک اور منہ کے درمیان آنکھ مچولی شروع کر دی۔ اسی دوران میں ڈاکٹر صاحب بذات خود اپنے فولادی گرائینڈر سمیت سمیت ہمارے اوپرجیسے پل ہی پڑے۔ خود ہم اس حالت میں تھے کہ ہلنے جلنے سے معذور دم سادھے صرف منہ اور آنکھوں کے سامنے آنے والی چیزوں کے علاوہ کچھ اور دیکھنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے تھے۔

    حضرتِ طبیب، ’’صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں‘‘ کے مصداق کبھی مکھڑا دکھاتے اور کبھی روپوش ہو جاتے۔ اس دوران میں ہم دَم سادھے، سانس روکے اس خوف میں مبتلا منتظر رہتے کہ دیکھیے اب پیترا بدل کر کس زاویے سے ہمیں دندان شکن کرتے ہیں، مگر اس وقفے میں وہ اپنی مددگار نرسو ں کو ہم بے یارومدد گار کو قابو میں رکھنے کے مناسب داؤ پیچ سکھاتے سنائی د یتے۔ادھرہم ہو نقوں کی طرح منہ کھولے ا ذیت وبے چارگی کے عالم میں ترچھے ٹیڑھے اپنی زندگانی سے مایوس ہو ہی رہے تھے کہ اچانک ہم نے اپنے تمام حواسِ خمسہ مجتمع کرکے کسی ملنگ بابا کی طرح ہاتھوں کو ہوا میں لہرایا اور پھر رسہ تڑائے بکرے کی طرح سارے تام جھام نلکیاں ٹونٹیاں توڑتے، بد حواسی کے عالم میں جو نظر آیا، اسے دھکیلتے بے تحاشا باہرکی طرف دوڑنے لگے اور اس سے پہلے کہ کوئی بڑا حادثہ ہوتا۔۔۔ ہماری آنکھ کھل گئی۔

    بیگم پر نظر پڑی جو مشکوک نظروں سے نجانے کب سے سوتے میں کی جانے والی ہماری حرکات وسکنات کا مشاہدہ کر رہی تھیں۔ کہتے ہیں کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ بیوی آپ کی بات غور سے سنے تو اس کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کے سوتے میں باتیں کیجئے۔ شائد یہاں اس کوشش میں ناکامی کے بعد ہی بیگم نے مایوسی بھرے لہجے میں یاد دلایا کہ آج دانتوں کے ڈاکٹر کا اپانٹمنٹ ہے۔ دفتر پہنچ کر پہلا کا م تو یہ کیا کہ خود کو یقین دلایا کہ ہمارے دانت کا درد بالکل ٹھیک ہو چکا ہے اور دوسرے ہی لمحے فون کرکے ڈاکٹر کا اپائینٹمنٹ منسوخ کروایا۔ایسے میں پچھلے دورۂ مطب کے دوران جبڑے کا وہ درد یاد آیا جو ڈاکٹر کو دیکھ کر دانت پیسنے کے باعث اور بڑھ گیا تھا مگر ڈاکٹر ہمارے دانت پیسنے کے اس عمل کو بھی مریض کی روایتی مسکراہٹ سے تعبیر کر رہا تھا اور پھر ڈاکٹر کا یہ کہنا کہ،’’اب آپ یقیناً بہتر محسوس کر رہے ہوں گے۔‘‘ مار ڈالنے کے لیے کافی تھا۔ ہمارے خیال میں تو ڈاکٹروں کو یہ پوچھنے کی عادت اتنی پختہ ہو چکی ہوتی ہے کہ ’’انتقال شدہ‘‘ مریض سے بھی عادتاً پوچھ بیٹھتے ہوں گے کہ اب آپ بہتر محسوس کر رہے ہوں گے۔ مریض تو خیر کیا جواب دیتے ہوں گے لیکن ہم اس اشتعال انگیز سوال کے جواب میں بس اتنا ہی کہ سکتے ہیں کہ،

    اچھے مسیحا ہو بیمار کا خیال اچھا ہے

    ہم مرے جاتے ہیں تم کہتے ہو حال اچھا ہے

    (یہ تحریر ۲۰۰۵ میں ہندوستان سے آنے والے معروف مزاحیہ شاعرغوث محی الدین خوامخواہ کے اعزاز میں کینبرا آسٹریلیا میں ہونے والی تقریب میں پڑھی گئی اور شگوفے حیدرآباد دکن سمیت کئی جرا ئید میں شائع ہوئی- مضمون صرف مزاح کے پیرائے میں لکھا گیاہے۔ کسی کی دل آزاری مقصود نہیں-)

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے