اچھے ماموں کا چائے خانہ
اچھے ماموں ایک چائے خانے میں رہتے تھے اور ہمارے غریب، شریف خاندان کی بدنامی کا واحد سبب تھے۔
ویسے تو پندرہ بیس برس قبل چائے خانے میں گھنٹوں گزارنا کوئی بہت زیادہ معیوب بات نہیں ہوسکتی تھی۔ لیکن چوبیس گھنٹے ایک چائے خانے میں رہنا کچھ ناقابل یقین سا لگتا تھا۔
اگر آپ نے کراچی میں اپنا بچپن جمشید روڈ یا حیدرآباد کالونی یا اردگرد کے علاقوں میں گزارا ہو تو برسوں پرانا بمبئی پیراڈائز ہوٹل آپ کی یاد کے نہاں خانوں میں یقیناً کہیں چھپا بیٹھا ہوگا۔ ایک مالا باری ہوٹل۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چار سیاہی مائل لکڑی کی کرسیوں کے درمیان دیسی سنگ مر مر کی اوپری سطح والی میزیں۔ دودھ والی میٹھی مگر بےحد گرم چائے، جسے پینے والوں کا ہجوم کبھی ختم نہ ہوتا تھا۔ سڑک کی جانب ایک بڑے توے پر چھوٹے چھوٹے خستہ پر اٹھے بنتے رہتے تھے اور اس کے ساتھ ہی پیاز اور ہری مرچوں والا انڈہ آملیٹ اور بھنا ہوا قیمہ۔ گرمی ہو یا سردی، چائے خانہ کی میزیں ہمیشہ بھری رہتی تھیں۔
خاندان کے بچوں سے اچھے ماموں کا راز چھپا کر رکھا جاتا تھا۔ میں یوں بھی ایک بےوقوف سا لڑکا تھا لہٰذا مجھے پندرہ سولہ برس کی عمر تک یہ پتا نہ چل سکا کہ میں ہر صبح جمشید روڈ کو عبور کر کے جس بمبئی پیراڈائز ہوٹل کے سامنے سے گزرتا، اپنے اسکول کو جاتا ہوں وہاں اچھے ماموں رہتے ہیں۔ دور پرے کے جاننے والوں کی طرح مجھے بھی یقین تھا کہ وہ انگلینڈ چلے گئے ہیں۔
یہ چائے خانہ میرے لئے اور میری عمر کے سب لڑکوں کے لئے ایک خواب نگر تھا۔ ہماری آرزوؤں کا محور۔ ہم حسرت سے اور رشک سے محلے کے ان نوجوانوں کو دیکھتے تھے جو ہم سے عمر میں چھ سات سال بڑے تھے اور بےدھڑک وہاں بیٹھک جماتے تھے اور چائے پیتے تھے۔ مگر ہم جیسے نسبتاً کم عمر لڑکوں کو وہاں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کوئی غیرتحریری معاہدہ تھا جس پر گویا ساری دنیا متفق تھی کہ میٹرک پاس کرنے سے پہلے کسی لڑکے کو ہوٹل میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملےگی۔ لہٰذا ہم سب ان دنوں کے خواب دیکھتے تھے جب ہم کالج جاتے ہوئے اور کالج سے آتے ہوئے اور شام کو اور رات کو، جب چاہیں گے، چائے پیا کریں گے اور کسی کی خونخوار نظریں ہمارا تعاقب نہیں کریں گی اور کوئی ابا سے شکایت نہیں لگا سکےگا۔
اچھے ماموں کا راز، آصف نے کھولا۔
آصف میرے تایا کا بیٹا تھا۔ خیر پور میں رہتا تھا اور میٹرک کا امتحان دینے کے بعد چھٹیاں گزارنے ہمارے گھر آیا ہوا تھا۔ عمر میں وہ مجھ سے ایک سال بڑا تھا لیکن خیر پور کے کسی اکھاڑے میں ہر شام زور کرنے کی وجہ سے بہت بڑا لگتا تھا۔
’’بمبئی ہوٹل میں رہتے ہیں اچھے ماموں۔‘‘ اس نے انگلینڈ جا بسنے والی کہانی کو ہاتھ کے ایک معیوب اشارے کے ذریعے مسترد کرتے ہوئے کہا۔ ’’کوئی ہوٹل ہے تمہارے گھر کے پاس۔ وہیں رہتے ہیں۔ وہیں سوتے ہیں۔ وہیں نہاتے دھوتے ہیں۔ مجھے یقین نہیں آ رہا کہ تمہیں اب تک یہ بات پتا نہیں چلی۔ میں نے تو سنا تھا، کراچی والے بڑے تیز ہوتے ہیں۔‘‘
’’یہ کیسے ہوسکتا ہے۔؟‘‘ میں نے پوری بات سننے کے بعد بےیقینی سے کہا۔ ’’کوئی کیوں رہے گا سارا دن ایک ہوٹل میں۔؟‘‘
آصف بولا۔ ’’کہتے ہیں، دماغ الٹ گیا تھا ان کا۔ ممانی چھوڑ کر چلی گئی تھیں انہیں، شادی کے ایک سال بعد۔ بس، اس کے بعد وہ ایسے ہو گئے۔‘‘
میں نے آصف کو نہیں بتایا کہ مجھے اچھے ماموں کی شادی یاد تھی، نہ ممانی۔ مجھے وہی لوگ یاد رہتے تھے جو سامنے ہوں۔ اچھے ماموں کی صورت بھی مجھے اس لئے یاد تھی کیونکہ امی ابا کے کمرے میں ایک دیوار پر ان کی تصویر، دادا دادی کی تصویروں کے ساتھ آویزاں تھی جسے اماں تنہائی میں اداسی سے دیکھتی رہتی تھیں۔
’’کتنی دور ہے یہ بمبئی ہوٹل۔؟‘‘ آصف نے پوچھا۔
’’بمبئی پیراڈائز ہوٹل۔‘‘ میں نے تصحیح کی۔
’’چلو، وہی سہی۔‘‘
’’قریب ہی ہے۔‘‘
’’چلیں۔؟‘‘ آصف کے لہجے میں دبا دبا جوش تھا۔
’’ابھی نہیں۔‘‘ میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’رات کو چلیں گے۔ جب سب سوجائیں گے۔‘‘
’’رات کو تو ہوٹل بند ہوجائےگا۔‘‘
’’بند نہیں ہوگا۔ رات بھر کھلا رہتا ہے۔‘‘
آصف نے مجھے غور سے دیکھا۔ ’’ابے، تم کراچی والے پاگل تو نہیں ہو۔؟‘‘
میں کچھ نہ بولا۔ اچھے ماموں کی پراسرار داستان نے میرے دل میں ہلچل مچا دی تھی۔
اس رات ساڑھے بارہ بجے کے بعد، جب گھر والے سوچکے تھے، ہم دبے پاؤں گھر سے نکل آئے۔
گھروں پر اندھیرا چھایا ہوا تھا، دکانیں بند تھیں، مگر جمشید روڈ کا وہ کونا، جہاں بمبئی پیراڈائز ہوٹل تھا، جگمگا رہا تھا۔ رات کی اس رونق کا سبب بسوں کے انجن اور باڈی کی
مرمت اور سروس کرنے والی وہ دکانیں تھیں جہاں موبل آئل اور گریس سے لتھڑے کپڑے پہننے والے بے شمار مکینک کام کرتے تھے۔ دن بھر سڑکوں پر دوڑنے والی کھٹارا بسوں کو یہاں رات بھر میں اگلے دن کے لئے تیار کیا جاتا تھا۔ سائلنسر کی مرمت کرنے والوں، ڈینٹنگ کرنے والوں، ایک نمبر اور دو نمبر کے فاضل پرزے فراہم کرنے والوں کی دکانیں رات بھر چلتی تھیں۔
چائے خانے کے اندر داخل ہونے سے قبل میں نے احتیاطاً وہاں بیٹھے لوگوں کا سرسری جائزہ لیا۔ میزیں بھری ہوئی تھیں۔ زیادہ تر لوگ حلیوں سے ڈرائیور اور مکینک جیسے نظر آتے تھے۔
آخری سرے پر ایک میز سے تین لوگ اٹھے تو ہم دونوں وہاں جا بیٹھے۔
ارد گرد شور مچا ہوا تھا۔ زور زور سے باتیں کرتے، قہقہے لگاتے، بحثوں میں الجھے لوگوں کے اس ہجوم میں بھلا اچھے ماموں کہاں ہو سکتے تھے۔
ایک مکرانی بیرا آیا اور آرڈر لے کر چلا گیا۔ پراٹھے، آملیٹ، چائے۔
آصف اس پرہجوم چائے خانے سے سخت مرعوب نظر آ رہا تھا۔ رات کے اس پہر ایسی رونق کا خیرپور میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کی نظریں دو چھتی کی طرح بنے شیشے کے شوکیسوں پر، سیاہ توے پر تیار ہوتے پراٹھوں پر، برق رفتار بیروں پر مرکوز تھیں۔ لگتا تھا، وہ اچھے ماموں کو بھول چکا ہے۔
میں اس سے کچھ کہنا ہی چاہتا تھا کہ ایک بڑا سا ہاتھ میرے کندھے پر آجما اور کوئی غرّایا۔ ’’کیوں بھئی، تم یہاں کیا کر رہے ہو۔؟‘‘
میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا۔
گردن گھما کر دیکھنے سے پہلے ہی میں جان چکا تھا کہ یہ اسلام الدین بھائی کی آواز تھی۔ والی بالی ٹیم والے۔ مسلسل والی بال کھیلنے سے ان کے ہاتھ پتھر کی طرح سخت ہو چکے تھے۔
اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے، پراعتماد نظر آنے کی کوشش کرتے ہوئے، میں نے انہیں بتایا کہ میں آصف بھائی جان کے ساتھ آیا ہوں اور آصف بھائی جان خیر پور سے آئے ہوئے ہیں۔
آصف اتنا لمبا چوڑا تھا کہ واقعی کوئی بھائی جان لگتا تھا۔
اسلام الدین بھائی رخصت ہوئے تو میری جان میں جان آئی۔
خاصی دیر تک، یعنی پراٹھے اور آملیٹ آنے تک، میں آصف کو سمجھانے کی کوشش کرتا رہا کہ اسلام الدین بھائی کا رویہ تھانیداروں جیسا کیوں تھا۔ وہ سر ہلاتا رہا۔ مگر میں جانتا تھا کہ محلےداری کا یہ عجیب و غریب نظام اس کی سمجھ میں نہیں آ سکتا۔
جب ہم آگ کی طرح گرم پراٹھے اور پیاز والا آملیٹ کھا چکے اور شہد جیسی چائے پی چکے اور دائیں بائیں لوگوں پر نظر ڈال چکے تو میں نے جیسے فیصلہ سنایا۔ ’’اچھے ماموں کہیں نہیں ہیں۔‘‘
اس نے افسردگی سے سرہلایا۔ پھر کچھ سوچ کر بولا۔ ’’ہو سکتا ہے، وہ کوئی دوسرا بمبئی ہوٹل ہو۔‘‘
’’ایسے تو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ ہوٹل، بمبئی میں ہو۔‘‘
آصف کے چہرے پر مایوسی تھی، بے یقینی تھی۔ ہمارا ایڈونچر شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو گیا تھا۔
ہم اٹھے اور کاؤنٹر پر جا پہنچے جہاں ہوٹل کا باڈی بلڈر ٹائپ مالک، گاہکوں سے پیسے وصول کرتا تھا۔ اس نے کاؤنٹر پر رکھی ایک گھنٹی پر ہاتھ مارا۔ گھنٹی کی گونج ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ دور، میزوں کے درمیان سے مکرانی بیرے نے چلّا کر کہا۔ ’’دو پراٹھے، ایک آملیٹ، دو چائے۔‘‘
اسی وقت میری نظر اچھے ماموں پر پڑی۔!
دائیں طرف، میلے واش بیسن کے پیچھے، چائے خانے کے آخری کونے میں وہ ایک ایسی جگہ بیٹھے تھے جہاں ذرا کم روشنی تھی۔ اماں کے کمرے میں لگی ہوئی تصویر کے مقابلے میں وہ ذرا فربہ نظر آ رہے تھے۔ بڑھا ہوا شیو، بے ترتیب بال اور قمیص پر بے شمار شکنیں۔ دوسری میزوں کے برعکس ان کی میز کے گرد چار کرسیاں نہیں تھیں، ایک ہی کرسی تھی جس پر وہ بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کی نظریں چھت پر مرکوز تھیں اور وہ کسی گہری سوچ میں گم تھے۔
اتنے برس گزر جانے کے باوجود مجھے یاد ہے کہ چائے خانے کے مالک کو پیسے ادا کرنے اور باہر نکلنے کے بعد بھی مجھے اپنے دل کی دھمک اپنے کانوں میں محسوس ہورہی تھی اور میری ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔
باہر نکل کر میں نے لرزتی ہوئی آواز میں بمشکل کہا۔ ’’اندر ہیں وہ۔۔۔ اچھے ماموں۔۔۔!‘‘
میں اپنے دیوانہ وار دھڑکتے دل کے ساتھ باہر کھڑا رہا اور آصف واپس اندر چلا گیا۔
تھوڑی دیر بعد وہ آیا تو اس کی آنکھیں کسی کامیاب مہم جو کی طرح چمک رہی تھیں۔ ’’لگتے تو وہی ہیں۔ لیکن کیسی حالت بناررکھی ہے انہوں نے۔؟‘‘
اگلے دو ہفتے تک ہم ہر رات اچھے ماموں کو دیکھنے جاتے رہے۔
ہر تیسرے روز ان کے کپڑے صاف ہوتے تھے، شیو بنی ہوتی تھی۔ پھر دھیرے دھیرے ان کپڑوں پر شکنیں پڑنے لگتی تھیں، اس چہرے پر شیو بڑھنے لگتی تھی، ان آنکھوں میں تھکن اترنے لگتی تھی۔
کبھی کبھار وہ چائے پیتے نظر آتے تھے۔ کوئی بیرا کچھ کہے بغیر ان کے سامنے چائے کی پیالی رکھ کر گزر جاتا تھا۔ ایک بار وہ چائے میں پراٹھے کے نوالے ڈبو کر کھاتے ہوئے نظر آئے۔
ان کی نظریں کبھی خلا میں ہوتیں۔ کبھی کاؤنٹر کی جانب۔ کبھی میز کی سطح پر۔
ہمارے نو عمر ذہنوں میں بے شمار سوالات تھے۔ وہ وہاں کیوں بیٹھے رہتے ہیں۔؟ کیا سوچتے رہتے ہیں۔؟ کھانے پینے کی ادائیگی کہاں سے کرتے ہیں۔؟ کب اور کہاں سوتے ہیں۔؟ ہوٹل کا وہ مالک، وہ باڈی بلڈر، انہیں اٹھا کر باہر کیوں نہیں پھینک دیتا۔؟
دو ہفتے بعد آصف واپس خیر پور چلا گیا۔
اب میں تھا اور ایک راز، جس کا بوجھ سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ بات ایسی تھی کہ کسی کو نہیں بتائی جاسکتی تھی۔ محلے کے دوستوں کو، ہم جماعتوں کو، کسی کو اس راز میں شریک نہ کیا جا سکتا تھا۔
چھٹیوں کے دوران ہی میٹرک کا نتیجہ آگیا۔ مارکس شیٹ لینے کے لئے اسکول جاتے ہوئے بمبئی پیراڈائز ہوٹل کے کھلے دروازوں سے میں نے اچھے ماموں کی ایک جھلک دیکھی۔ صرف ایک دروازہ تھا جہاں سے وہ میلا واش بیسن اور اچھے ماموں کی میز نظر آتی تھی۔ وہ اسی طرح ساکت بیٹھے تھے۔ سر جھکائے، میز پر رکھے کپ اور پرچ پر نظریں جمائے۔
اتنا بہت سا وقت گزر جانے کے باوجود میں کبھی نہیں بھول پایا کہ اچھے ماموں کی وجہ سے میری زندگی کا وہ اہم دن، فرسٹ ڈویژن کی خوشی، کامیابی کا پہلا پل پار کرلینے کی مسرت، سب کچھ غارت ہو گیا تھا۔ مارکس شیٹ کے کاغذ پر چھپے ہوئے لفظوں اور ہندسوں کے درمیان کسی کا دھندلا سا عکس دکھائی دیتا تھا۔ سر جھکائے، کسی میز کی سطح کو غور سے دیکھتا۔
ڈھائی برس بعد ابّا نے اصل بات بتائی۔
ان ڈھائی برسوں میں، بہت اہم تبدیلیاں آ چکی تھی۔ میں انٹر پاس کر کے بی اے میں پہنچ چکا تھا۔ میرا قد ایک فٹ بڑھ چکا تھا اور اس کے نتیجے میں اعتماد بھی۔
اچھے ماموں کی روز مرّہ مصروفیات کے بارے میں بھی مجھے بہت کچھ معلوم ہو چکا تھا۔ وہ رات بھر جاگتے تھے۔ چائے خانے کا وہ باڈی بلڈر مالک رات دو ڈھائی بجے چلا جاتا تھا اور ایک منیجر ٹائپ آدمی کاؤنٹر سنبھال لیتا تھا۔ صبح گیارہ بجے کے قریب جب مالک واپس آتا تھا تو اچھے ماموں کاؤنٹر کے بالکل پیچھے ایک دری بچھا کر سوجاتے تھے۔ آنے جانے والوں کو بالکل پتا نہ چلتا تھا کہ وہ کاؤنٹر پر کھڑے جس آدمی کو ادائیگی کر رہے ہیں، اس کے پیچھے زمین پر کوئی آدمی سو رہا ہے۔
اچھے ماموں ہر تیسرے روز شام کے وقت ہوٹل سے پندرہ بیس منٹ کے لئے نکلتے تھے اور سڑک کے پار نائی کی دکان سے شیو بنوا کر واپس آجاتے تھے۔ ان کے پاس دو پتلونیں تھیں، تین قمیصیں اور ایک جوڑی چپل۔ جس نائی سے وہ شیو بنواتے تھے اور مہینے میں ایک بار بال کٹواتے تھے، وہ ان کا واحد شناسا لگتا تھا۔ کیونکہ وہی ایک شخص تھا جس سے وہ باتیں کرتے دکھائی دیتے تھے۔
اتنی بہت سی باتیں جان لینے کے باوجود کتنے ہی سوال باقی تھے۔ کیوں۔؟ اور کیسے۔؟ کیوں رہتے تھے وہ وہاں۔؟ رات بھر کیوں جاگتے رہتے تھے۔؟ اور دن میں، جب ہوٹل کا مالک آ جاتا تھا تو کیوں سو جاتے تھے۔؟ آخر کوئی ایک چائے خانے میں سارا دن، ساری رات، ساری زندگی کیسے بسر کر سکتا ہے۔ چوبیس گھنٹے خاموش، مہر بہ لب کیسے رہ سکتا ہے۔؟ اور ان سب سوالوں سے بڑا یہ سوال کہ کیا میری ساری زندگی اس عجیب و غریب راز کی آدھی ادھوری تفصیلات سے الجھنے میں گزر جائےگی۔؟
تنگ آکر ایک شام میں نے ہمت باندھی اور آگ میں کود گیا۔
ابا باہر صحن میں بیٹھے اپنی سائیکل کی آئلنگ کر رہے تھے۔ میرا سوال سن کر انہوں نے سر اٹھا کر مجھ پر قہر بھری نظر ڈالی اور کہا۔ ’’تمہارا دماغ تو ٹھیک ہے۔؟‘‘
میں نے زندگی میں پہلی بار پسپائی اختیار نہیں کی۔ میں وہیں کھڑا رہا اور اپنی بات دھیمے لہجے میں دہرائی۔ بالکل اسی طرح جیسے میں سنگھار میز کے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر پچاس بار، سو بار دہرا چکا تھا۔ ’’میں صرف یہ پوچھ رہا ہوں ابا، کہ اچھے ماموں چائے خانے میں کیوں رہتے ہیں۔؟ اس بمبئی پیراڈائز ہوٹل میں۔؟‘‘
کوئی اور موقع ہوتا، کوئی اور بات ہوتی، تو شاید ابا کا غصہ، جلال میں بدل جاتا اور ان کی گرج دار آواز گھر کے در و دیوار کو ہلادیتی۔ مگر یہ عام بات تھی، نہ عام موقع۔
وہ کچھ دیر مجھے سپاٹ نظروں سے دیکھتے رہے۔ شاید کوئی فیصلہ کرنے کے لئے۔ پھر انہوں نے ایک نظر کھلے دروازے پر ڈالی جس سے اندر کمروں کے پار تک دکھائی دیتا تھا۔
میں نے کہا۔ ’’اماں کھانا پکارہی ہیں۔‘‘
ان کے چہرے پر حیرت ابھری اور انہوں نے مجھے یوں غور سے دیکھا جسے پہلی بار دیکھ رہے ہوں۔ پھر انہوں نے مشین آئل کی چھوٹی سی بوتل زمین پر رکھی، ایک میلے کپڑے سے اپنے ہاتھ صاف کئے اور بولے۔ ’’اپنی ماں سے کچھ نہ کہنا۔ یہ ان کی زندگی کا سب سے بڑا دکھ ہے۔‘‘
میں ان کے پاس ہی فرش پر بیٹھ گیا۔ ’’میں جانتا ہوں، ابا۔‘‘
ابا کچھ دیر سوچتے رہے۔ پھر انہوں نے کہا۔ ’’تمہارے ماموں کی شادی بارہ سال قبل ہوئی تھی۔ تم بہت چھوٹے سے تھے۔‘‘
میں نے کہا۔ ’’مجھے معلوم ہے، ممانی نے سال بھر بعد ان سے طلاق لے لی تھی۔‘‘
ابا نے تلخ لہجے میں کہا۔ ’’طلاق نہیں لی تھی ۔وہ بھاگ گئی تھی۔!‘‘
میں ہکا بکا ابا کو دیکھتا رہا۔
وہ میلے کپڑے سے بدستور آہستہ آہستہ اپنے ہاتھ صاف کئے جارہے تھے۔
’’کیا مطلب، بھاگ گئی تھیں۔؟‘‘ اس دھچکے سے سنبھلنے کی کوشش میرے سوال سے عیاں تھی۔
’’بی اے میں آ گئے ہو، تمہیں اب تک پتا نہیں چلا کہ بھاگ جانے کا مطلب کیا ہوتا ہے۔؟‘‘
مجھے اچھے ماموں کا چہرہ یاد آیا۔ اداس، دل گرفتہ، شکست خوردہ۔ مجھے احساس ہوا کہ اچھے ماموں کی اداسی اور مایوسی تو جیسے چلا چلا کر کہہ رہی تھی کہ یہ ممانی کی بے وفائی کا معاملہ ہے لیکن میں نے کبھی اس جانب دھیان ہی نہیں دیا۔
میں نے کہا۔ ’’لیکن ابّا، چائے خانے میں کیوں رہتے ہیں وہ۔؟ ٹھیک ہے، ممانی بھاگ گئی تھیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ آدمی بمبئی پیراڈائز ہوٹل میں رہنے لگے۔ وہیں زندگی گزارنے لگے۔‘‘
ابا نے مجھے پھر غور سے دیکھا۔ صاف لگتا تھا وہ کچھ سوچ رہے ہیں۔ بتانے اور نہ بتانے کی دہلیز پر کھڑے ہیں۔ میرے اور ابّا کے درمیان ہمیشہ اجنبیت کی دیوار حائل رہی تھی۔ لیکن اب وہ دیکھ رہے تھے کہ ان کے بیٹے کا قد، اس دیوار سے اونچا ہوتا جا رہا ہے۔
انہوں نے ایک نظر اندر کمروں کی جانب ڈالی اور کہا۔ ’’تمہارے ماموں کو شبہ تھا۔۔۔ شبہ کیا، یقین تھا کہ بمبئی پیراڈائز ہوٹل کا مالک ان کی بیوی کو بھگا کر لے گیا ہے۔!‘‘
’’وہ باڈی بلڈر۔؟‘‘ میں نے حیرت سے کہا۔ ’’وہ ممانی کو بھگا کر لے گیا۔!‘‘
ابا نے کہا۔ ’’بھگا کر نہیں لے گیا۔ تمہارے ماموں کو شبہ تھا اس پر۔ وہ پڑوسی تھا تمہارے ماموں کا۔ جس دن تمہاری ممانی غائب ہوئی، اسی دن وہ بھی دس پندرہ دن کے لئے ملتان چلا گیا تھا۔ یہ تو بعد میں پتہ چلا کہ ملتان میں اس کی شادی طے تھی۔ اس سے پہلے ہی تمہارے ماموں نے چائے خانے میں مورچہ جما لیا تھا۔ تمہارے ماموں کا کہنا تھا کہ جب تک ہوٹل کا مالک واپس نہیں آئےگا، وہ وہاں سے نہیں اٹھیں گے۔ تھانے والے آگئے، بڑا جھگڑا مچا، تھک ہار کر تمہارے ماموں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ جب ہوٹل کا مالک آئےگا تو معاملہ حل ہو جائےگا۔ پندرہ دن بعد وہ آیا تو اس کے ساتھ اس کی نئی نویلی دلہن تھی۔ ایک بار پھر جھگڑا شروع ہو گیا۔ تمہارے ماموں اپنی بیوی واپس مانگ رہے تھے۔ ہوٹل کے مالک نے انہیں ہر طرح سے یقین دلانے کی کوشش کی، قسمیں کھائیں، بار بار سمجھایا کہ ان کی بیوی کی گمشدگی سے ایک ایسے آدمی کا بھلا کیا تعلق ہو سکتا ہے جو خود ابھی ابھی شادی کر کے پہنچا ہو۔ لیکن تمہارے ماموں کوئی بات سننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ ایک ایسے آدمی کی طرح، جو اپنے حواس کھو بیٹھا ہو۔ بہت تکلیف دہ تھا وہ سب کچھ۔ آدمی کی سب سے بڑی شکست شاید یہی ہوتی ہے کہ اس کی بیوی اسے دھوکہ دے جائے۔ ہوٹل کا مالک باڈی بلڈر ضرور تھا، لیکن کمزور پڑ گیا۔ ایک تو وہ بنیادی طور پر شریف آدمی تھا، جھگڑے سے دور رہنا چاہتا تھا۔ دوسرے، وہ دفاعی پوزیشن میں آ گیا تھا، اس پر ایک شادی شدہ عورت کو بھگا لے جانے کا الزام لگایا جا رہا تھا اور وہ صفائی پیش کرنے پر مجبور تھا۔ اور آخری مصیبت یہ تھی کہ وہ اپنے چوبیس گھنٹے چلنے والے ہوٹل میں کوئی مستقل جھگڑا، کوئی بار بار رونما ہونے والا فساد برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تمہارے ماموں کو اس چائے خانے سے کوئی نہ ہٹا سکا۔ بارہ سال سے وہ وہیں بیٹھے ہیں۔‘‘
میں سکتے کے عالم میں بیٹھا تھا۔
اردگرد جیسے سب کچھ تھم گیا تھا۔ زندگی رک گئی تھی۔ بس ایک داستان تھی، جو وقت کی کسی چلمن کے پیچھے سے جھانکتی تھی۔ کوئی چہرہ تھا جو نظر آتا تھا مگر نظر نہ آتا تھا۔
ابا بدستور میلے کپڑے سے ہاتھ صاف کئے جا رہے تھے۔
میں نے آہستہ سے کہا۔ ’’مگر ہوٹل ہی کیوں، ابا۔؟‘‘
ابا نے سر جھکائے جھکائے کہا۔ ’’ہوٹل کے پیچھے ہی اس کا گھر ہے۔ ہوٹل کے مالک کا۔ تمہارے ماموں کا خیال تھا کہ ہوٹل کے مالک پر نظر رکھنے سے۔۔۔‘‘ انہوں نے اپنی بات ادھوری ہی چھوڑ دی۔
دھیرے دھیرے گتھیاں سلجھتی جا رہی تھیں۔ اچھے ماموں کے معمولات کا سبب سمجھ میں آتا جا رہا تھا۔ وہ رات بھر جاگتے تھے اور صبح جب ہوٹل کا مالک آ جاتا تھا تو اس کے بالکل پیچھے، اس اعتماد کے ساتھ سو جاتے تھے کہ اب وہ کئی گھنٹے تک یہیں رہےگا۔
ابا نے کہا۔ ’’کھانے پینے کی ذمہ داری ہوٹل کے مالک کی ہے۔ شاید کچھ خرچا بھی دیتا ہے انہیں۔ شروع میں، میں نے ہر ماہ پیسے دینے کی کوشش کی تھی۔ لیکن اس نے منع کر دیا۔‘‘
اماں پیچھے سے کب آئیں، مجھے بالکل پتا نہ چلا۔ لیکن ابا چوکنے بیٹھے تھے۔ وہ اسی دھیمی آواز میں بولتے رہے۔ ’’بی اے کے پہلے سال کو معمولی نہ سمجھو۔ پہلے سال میں ہی اچھے نمبر آئیں تو فائنل میں آسانی ہوتی ہے۔۔۔‘‘
’’کیا باتیں ہو رہی ہیں۔؟‘‘ اماں نے پیچھے سے پوچھا۔
ابا نے کہا۔ ’’سمجھا رہا تھا اسے، پہلے سال میں پڑھائی کو وقت دےگا تو آگے آسانی ہو جائےگی۔‘‘
’’پہلی بار بیٹے کی پڑھائی کی فکر کرتا دیکھ رہی ہوں۔‘‘ اماں کا لہجہ طنزیہ تھا۔ ’’خیریت تو ہے۔؟‘‘
ابا نے جواب دینے کے بجائے مشین آئل کی بوتل اور میلا کپڑا اٹھایا اور اندر چلے گئے۔
اس رات بھی اور اگلی بہت سی راتوں کو بھی، میں دیر تک جاگتا رہا۔ سوچتا رہا۔ ہر جانب بکھری عام سی زندگیوں کے درمیان اچھے ماموں کی زندگی ایک الف لیلوی داستان محسوس ہوتی تھی۔ بظاہر ایک علیحدہ کہانی۔ لیکن کئی دوسری زندگیوں سے پوشیدہ طور پر جڑی ہوئی۔ اماں کی زندگی سے، جن کا دل اپنے بھائی کے دکھ سے لبالب بھرا ہوا تھا۔ ابا کی زندگی سے، جو کتنے برسوں سے جانے کیا کیا جتن کر رہے تھے۔ پھر ایک پورے خاندان سے، جسے رفتہ رفتہ سب کچھ معلوم ہوچکا تھا اور جو ہماری پیٹھ پیچھے قہقہے لگاتا تھا اور اس تماشے سے پورا لطف اٹھاتا تھا۔
اور چائے خانے میں بیٹھے اچھے ماموں تھے جنہیں کسی بات کی کچھ خبر نہ تھی۔ وہ کسی اور ہی دنیا میں رہتے تھے، میلے واش بیسن کے پیچھے، چائے خانے کے آخری کونے میں زندگی گزارتے تھے اور کسی دن کا انتظار کرتے تھے جو ان کی کھوئی ہوئی بیوی کے واپس آنے کی خبر لائے گا۔
میرا خیال تھا کہ اچھے ماموں اپنی عجیب و غریب کہانی کی بدولت زندگی بھر میرے اعصاب پر چھائے رہیں گے۔
میرا اندازہ بالکل غلط ثابت ہوا۔
رفتہ رفتہ ہر چیز کو غیراہم بنادینے والی زندگی کی مصروفیات نے چند ہی برسوں میں اچھے ماموں کو اور چائے خانے میں ان کی انوکھی مگر دل گداز زندگی کو بھی غیر اہم بنا دیا۔
میں یونیورسٹی میں تھا جب ہم وہ علاقہ چھوڑ کر فیڈرل بی ایریا منتقل ہو گئے جہاں ابّا نے ریٹائرمنٹ پر ملنے والے پیسوں سے ایک چھوٹا سا مکان بنا لیا تھا۔ میری ملازمت شروع ہوئی تو بمبئی پیراڈائز ہوٹل کی طرف جانا کم ہوگیا۔ سال چھ مہینے میں کبھی جاتا بھی تھا تو بس کھڑے کھڑے انہیں دیکھ کر آ جاتا تھا۔ ہمیشہ ایک ہی منظر۔ آخری کونے کی وہی تنہا میز اور اچھے ماموں کی بےتاثر آنکھیں۔ ان کے بال سفید ہوتے جا رہے تھے۔ مسلسل شب بیداری نے ان کی آنکھوں کے گرد حلقے ڈال دیئے تھے۔ لیکن منظر وہی رہتا تھا۔ جیسے کسی پرانی فلم کا ایک فریم، اسکرین پر منجمد ہو گیا ہو۔
پھر میری شادی ہو گئی۔ نئی مصروفیات، نئی دلچسپیاں، نئی رشتہ داریاں۔
ایک سال بعد ابا اچانک رخصت ہو گئے۔ دل کے دورے نے ہسپتال تک پہنچنے کی مہلت بھی نہ دی۔
اماں نے بھی جلدی دکھائی۔ چار مہینے بعد وہ بھی خاموشی سے چلی گئیں۔
اچھے ماموں ایک بھولی بسری یاد بنتے گئے اور زندگی ایک وحشت خیز سفر میں ڈھلتی گئی۔ آگے بڑھنے، ترقی کرنے، بہت سے پیسے کمانے کا وحشت خیز سفر، جس میں کچھ یاد نہیں رہتا۔ ایک سرکش گھوڑے کی سواری، جس میں باگ اور رکاب تو کیا، راستے اور منزلیں بھی دکھائی نہیں دیتیں۔
لیکن ایک روز سب کچھ بدل گیا۔
اس روز گھر میں مہمان بھرے ہوئے تھے۔ میری بیٹی اپنی پانچویں سال گرہ کا کیک کاٹنے کے بعد اپنے ماموں کی گود میں مچل رہی تھی۔ ’’آئس کریم کھلایئے نا پلیز۔ آپ میرے اتنے اچھے ماموں ہیں۔‘‘
میری بیوی نے اسے ڈانٹا۔ ’’بری بات ہے، گڑیا۔ خواہ مخواہ کی ضد نہ کرو۔‘‘
بیٹی پر ڈانٹ کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ’’پلیز، اچھے ماموں۔ بہت ہی اچھے ماموں۔۔۔‘‘
اچھے ماموں۔! میں جیسے کسی گہری نیند سے جاگ گیا۔
لمحہ بھر کو سب کچھ دھندلا گیا۔ لوگوں سے بھرا لاؤنج، جملے بازی کرتے، قہقہے لگاتے لوگ، سارا منظر۔ میں نہ جانے کہاں تھا۔ میرے ارد گرد نہ جانے کن اجنبیوں کا ہجوم تھا۔ مجھ سے ناواقف لوگ۔ اچھے ماموں سے ناآشنا لوگ۔ بمبئی پیراڈائز ہوٹل سے لاعلم لوگ۔
اس رات مجھے بہت دیر سے نیند آئی۔ جرم کا کوئی احساس تھا جو سینے پر بوجھ کی طرح دھرا ہوا تھا۔ کتنے برس سے میں نے ان کی کوئی خبر نہیں لی تھی۔ نہ جانے وہ کس حال میں ہوں گے۔ ہوں گے بھی یا نہیں۔
اگلی شام، دفتر سے فارغ ہونے کے بعد، میں وہاں چلا گیا۔
بمبئی پیراڈائز ہوٹل میں وہی بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ بھری ہوئی میزوں کے درمیان تیزی سے راستہ بناتے بیرے، چائے کی کھنکتی پیالیاں، باہر سڑک پر دوڑنے والی گاڑیوں کا شور۔ کرسیاں، میزیں وہی پرانی تھیں لیکن نئے رنگ و روغن کی بدولت پورا چائے خانہ صاف ستھرا لگتا تھا۔
اچھے ماموں وہیں بیٹھے تھے۔
میں نے ایک ایسی میز منتخب کی جہاں سے وہ صاف نظر آتے تھے۔
جتنی دیر میں چائے آئی، میں ان کا بغور جائزہ لیتا رہا۔ ان کا وزن پہلے کے مقابلے میں بڑھ گیا تھا۔ شاید مسلسل بیٹھے رہنے کی وجہ سے۔ ان کے بال سفید ہو گئے تھے، گردن کی کھال لٹک گئی تھی اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت بڑھ گئے تھے۔ لیکن ان آنکھوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی۔ تاثر سے خالی، ویران آنکھیں۔ اپنے سامنے رکھی میز کی سطح پر مرکوز آنکھیں۔
کاؤنٹر پر موجود ہوٹل کے مالک پر بھی بڑھتی عمر کے اثرات دکھائی دیتے تھے۔ اس کے بالوں میں سفیدی نمودار ہورہی تھی۔ وہ کسرتی بدن بھی اب ڈھیلا ڈھالا لگتا تھا۔
کچھ دیر بعد ایک بیرا آیا اور میرے سامنے سے چائے کا کپ اٹھا کر لے گیا۔
میں نے دیکھا، اچھے ماموں کی نظریں دائیں جانب فرش پر جمی ہوئی تھیں۔ کئی برس پہلے وہ ادھیڑ عمر کے آدمی لگتے تھے۔ لیکن اب وہ ایک بوڑھے آدمی تھے۔ چودہ پندرہ برس قبل جب میں نے انہیں پہلی بار دیکھا تھا تو ان کے چہرے پر جھریاں نہیں تھیں۔ ان کی آنکھوں میں اداسی تھی مگر ایسی بےپناہ ویرانی نہ تھی۔ مجھے نوعمری کی وہ بےشمار صبحیں اور شامیں یاد آ گئیں جو انہیں دیکھنے میں، ان کے معمولات پر نظر رکھنے میں، ان کے بارے میں اندازے لگانے میں گزری تھیں۔ مجھے ابّا یاد آئے جن سے میرا دوستانہ تعلق اچھے ماموں کی وجہ سے شروع ہوا تھا اور اماں، جنہوں نے آخری وقت تک دیوار پر آویزاں تصویر سے نظر نہیں ہٹائی تھی۔
میرے سینے میں دکھ کی ایک لہر اٹھی۔ رگوں کو نچوڑتی، بدن کو اذیت دیتی لہر۔
میں اٹھا اور آگے بڑھا۔
پیچھے سے بیرے کا نعرہ گونجا۔ ’’ایک چائے۔‘‘
لیکن میں کاؤنٹر کی طرف جانے کے بجائے اچھے ماموں کی میز تک جاپہنچا۔
قریبی میز سے ایک خالی کرسی گھسیٹ کر ان کے بالکل سامنے بیٹھنے کے بعد میں نے انہیں سلام کیا اور اپنا نام بتایا۔
اچھے ماموں نے مجھے یوں دیکھا جیسے کوئی کسی دیوار کو دیکھتا ہے۔ ان کی خالی آنکھوں میں کوئی جذبہ نہ تھا۔
میں نے کہا۔ ’’میں نجمہ خاتون کا بیٹا ہوں۔ آپ کی بڑی آپا کا بیٹا۔!‘‘
ان کا چہرہ بدستور سپاٹ رہا۔ ان آنکھوں میں شناسائی کے بجائے کوئی سوال تھا۔ جیسے وہ مجھ سے وہاں آنے کا، کرسی گھسیٹ کر بیٹھنے کا، مخاطب ہونے کا سبب پوچھنا چاہتے ہوں۔
شاید میں نے غلط قدم اٹھا لیا تھا۔ وہ اجنبی چہرہ، وہ بے تاثر آنکھیں مجھے احساس دلارہی تھیں کہ شاید ان کے روبرو جا بیٹھنا، اپنا تعارف کرانا، ان کی ذات کے بند دروازے کو بلا اجازت کھول کر اندر داخل ہوجانا درست نہ تھا۔ لیکن اب پیچھے ہٹنے کی، پسپائی اختیار کرنے کی گنجائش ہی نہیں تھی۔
میں نے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا۔ ’’آپ کی بڑی آپا کا انتقال ہو چکا ہے۔ سات برس پہلے۔!‘‘
وہی خالی نظریں۔
وہی سپاٹ چہرہ۔
ہم کسی کارزار میں کھڑے دو دشمن تھے۔ ایک دوسرے کی آنکھوں میں کچھ ڈھونڈتے، دو اجنبی۔ ایک دوسرے کے ارادوں کو جانچتے، دو حریف۔
پھر ان آنکھوں میں جیسے کچھ تبدیل ہوا۔ ایک بنجر، ویران سرزمین پر کسی بادل کا سایہ۔
’’بڑی آپا چلی گئیں۔؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔ مگر یوں، جیسے اپنے آپ سے پوچھ رہے ہوں۔ میں نے پہلی بار ان کی آواز سنی۔ دھیمی مگر گرج دار۔
وہ چہرہ جیسے چٹخنے لگا، بدلنے لگا۔ پتھریلے خال و خد میں جیسے دراڑیں سی پڑنے لگیں۔ میں نے ایک حیرت کے عالم میں اچھے ماموں کے چہرے پر غم کو چھاتے دیکھا اور ان خالی آنکھوں میں نمی کو اترتے دیکھا۔
مجھے پتا بھی نہ چلا کہ کب وہ ہوٹل کا مالک کاؤنٹر چھوڑ کر، میرے پیچھے آ کھڑا ہوا۔ شاید کسی ناخوشگوار صورت حال سے نمٹنے کے لئے۔ شاید یہ دیکھنے کے لئے، کہ کون اجنبی ہے جو برسوں بعد اس میز پر آیا ہے۔
اچھے ماموں نے نظریں اٹھا کر میرے عقب میں دیکھا، اپنی آنکھوں کو مسل کر صاف کیا اور کہا۔ ’’میرا بھانجا ہے۔‘‘
میں نے مڑ کر دیکھا تو ہوٹل کا مالک واپس کاؤنٹر کی طرف جا رہا تھا۔
اچھے ماموں نے مجھے غور سے دیکھا اور پوچھا۔ ’’بھائی صاحب تو ٹھیک ہیں نا۔؟‘‘
’’وہ بھی۔۔۔‘‘ میں نے سر جھکا لیا۔ مجھے اپنے دل میں اداسی اترتی محسوس ہوئی۔ اماں، ابا جاچکے تھے اور میں بمبئی پیراڈائز ہوٹل میں اچھے ماموں کے سامنے بیٹھا تھا۔ زندگی سے پہلی بار رابطہ کرنے والے اچھے ماموں کے سامنے۔
’’سب کو چلا جانا ہے۔‘‘ اچھے ماموں نے اپنی نظریں میز پر جما کر کہا۔ ’’سب چلے جاتے ہیں۔ لوگ بھی، خوشیاں بھی، زندہ رہنے کی آرزو بھی۔۔۔ یہی ہوتی ہے زندگی۔‘‘
میں خاموش بیٹھا رہا۔ خاموش مگر حیران۔ پہلی بار انہیں بولتے دیکھنا، حیران کن تھا۔ میرا خیال تھا کہ وہ مسلسل اداس اور خاموش بیٹھے رہنے کے باعث بولنے کی، اپنے جذبات کا اظہار کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ آدمی کیسے کیسے اندازے لگاتا ہے اور کس قدر غلط۔
میں نے کہا۔ ’’آپ کو شاید معلوم نہیں ہوگا، میں چودہ پندرہ سال سے آپ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس چائے خانے میں۔ میرا اسکول اسی گلی میں تھا۔ سینکڑوں بار میں آپ کو دیکھنے آیا ہوں یہاں۔‘‘
ایک بیرا اچانک ٹرے لے کر نمودار ہوا اور میز پر چائے کے ساتھ بہت کچھ سجا کر چلا گیا۔ پیٹیس، کیک پیس، کھارے بسکٹ۔
اچھے ماموں نے نگاہ اٹھا کر کاؤنٹر کی طرف دیکھا اور دھیرے سے سر ہلایا۔ ان کے چہرے پر گہری سنجیدگی تھی۔
میں نے کچھ سوچ کر کہا۔ ’’ابا جان نے مجھے آپ کے بارے میں بتایا تھا۔ بہت پرانی بات ہے۔ جب میں بی اے میں آ گیا تھا۔ پوری بات بتائی تھی ابّا نے اور کہا تھا کہ کبھی اس موضوع پر اماں سے بات نہ کروں۔ امّاں آپ کو بہت یاد کرتی تھیں۔ آخری وقت تک یاد کرتی رہیں۔ آپ کی ایک پرانی تصویر ان کے کمرے میں ہمیشہ لگی رہی۔‘‘
اچھے ماموں نے چائے کا کپ اٹھایا، ایک گھونٹ بھرا اور کپ کو احتیاط سے پرچ میں رکھ دیا۔ آس پاس زندگی اسی طرح رواں دواں تھی۔ وہی بھگدڑ، وہی ٹریفک کا شور، وہی باتیں کرتے لوگ۔ مگر میں اس تناؤ کو محسوس کر سکتا تھا جو اس چائے خانے کے آخری کونے میں ہمارے اردگرد چھایا ہوا تھا۔
میں نے بہت سنبھل کر کہا۔ ’’میں آپ سے یہ کہنے آیا ہوں ماموں، کہ آپ یہاں اپنی زندگی کا بہت وقت گزار چکے۔ اب میرے ساتھ چلیں۔ میرے گھر پر رہیں۔ آدمی اپنے ماضی سے تعلق نہیں توڑ سکتا۔ لیکن ہر وقت ماضی میں بھی تو نہیں رہ سکتا۔ اب آپ کو دیکھ بھال کی ضرورت۔۔۔‘‘
’’شادی ہو گئی ہے تمہاری۔؟‘‘ اچھے ماموں نے اچانک پوچھا۔
’’جی۔ چھ سال ہو گئے ہیں۔‘‘
وہ اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر آگے جھکے اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولے۔ ’’اگر آج تم گھر جاؤ اور تمہیں پتا چلے کہ تمہاری بیوی جا چکی ہے۔۔۔ ہمیشہ کے لئے۔۔۔!‘‘ ان کی آواز دھیمی تھی مگر ان کا لہجہ جیسے آگ برساتا تھا۔
اچھے ماموں بھلا کیسے جان سکتے تھے کہ میں ہر سوال کا جواب دینے کے لئے تیار ہو کر آیا تھا۔
’’میں اسے ڈھونڈوں گا۔‘‘ میں نے کہا۔ ’’لیکن اگر مجھے پتا چل جائے کہ وہ اپنی مرضی سے مجھے چھوڑ کر گئی ہے تو میں اس کی تلاش ترک کر دوں گا۔ میں اس کی خاطر اپنی زندگی برباد نہیں کروں گا۔‘‘
اچھے ماموں کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ لمحہ بھر کو مجھے یوں لگا جیسے وہ چلا اٹھیں گے، یا مجھے تھپڑ رسید کر دیں گے۔ میں ہر چیز کے لئے تیار تھا۔ لیکن اشتعال کی وہ لہر بس، ذرا سی دیر میں گزر گئی۔ ان کے ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور انہوں نے کہا۔ ’’تم الگ زمانے کے آدمی ہو۔ میری نسل سے مختلف۔ تم نہیں جانتے کہ کوئی اپنی زندگی برباد نہیں کرتا۔ زندگی تو بس خود بخود برباد ہو جاتی ہے۔‘‘
میں خاموش بیٹھا رہا۔
وہ بہت دیر تک جمشید روڈ کی جانب کھلنے والے چائے خانے کے ایک دروازے کو دیکھتے رہے۔ شاید باہر سے گزرنے والی گاڑیوں کو۔ یا شاید کسی اور چیز کو۔ ان کی آنکھوں کے گرد باریک جھریوں کا جال نمایاں تھا۔
’’ایک ہوتی ہے، زندگی۔‘‘ وہ میری طرف دیکھے بغیر اچانک بولے۔ وہی مدھم، گرج دار آواز۔ ’’اور ایک ہوتی ہے، تقدیر۔ ہم ڈیس ٹنی کہتے ہیں جسے۔ نصیب۔ آدمی زندگی کی منصوبہ بندی کر سکتا ہے، مقدر کی نہیں۔ کوئی گھر ایک دن بہت پیارا ہوتا ہے، محبت سے بھرا، خوشیوں سے سجا اور اگلے ہی دن ایک کھنڈر بن جاتا ہے۔ خوشیوں سے خالی، محبت سے محروم، بےروح۔‘‘
پیچھے سے ایک بیرے نے چلّا کر کاؤنٹر والے سے کہا۔ ’’دو پراٹھے، ایک قیمہ۔‘‘
اچھے ماموں کی نظریں بدستور چائے خانے کے دروازے پر جمی ہوئی تھیں۔ ’’ایک دن دامن میں اتنی مسرتیں، کہ سنبھالے نہیں سنبھلتیں اور اگلے روز دامن بالکل خالی اور دل پر کوئی گہرا زخم۔ شاید بہت کم لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے۔ پانچ، دس لاکھ لوگوں میں سے کسی ایک کے ساتھ۔ مگر ہوتا ہے۔ پہلے پہل یقین نہیں آتا۔ آدمی سوچتا ہے، ابھی آنکھ کھلےگی تو یہ بھیانک خواب ختم ہو جائےگا۔ مگر وہ بھیانک خواب ختم نہیں ہوتا اور رفتہ رفتہ آدمی پر کھلتا ہے کہ کوئی گھاؤ، بے وفائی سے گہرا نہیں ہوتا اور کوئی سزا، زندگی کی بربادی سے بڑی نہیں ہوتی۔ کوئی کوئی آدمی خود کو موٹی کھال والا سمجھتا ہے۔ جھیل جاتا ہے سب کچھ۔ گہری کھدائی کر کے ماضی کو دفن کر دیتا ہے اور نئی زندگی شروع کر دیتا ہے، یہ سوچے بغیر کہ جس زمین پر اس نے گہرا گڑھا کھودا تھا، وہ تو اس کا اپنا سینہ تھا۔!‘‘
کاؤنٹر کی گھنٹی پھر بجی۔ کوئی بیرا پھر چلایا۔
’’میں جانتا ہوں، تم کیا چاہتے ہو۔‘‘ انہوں نے کہا۔ ’’لیکن کیا تم جانتے ہو کہ میں کیا چاہتا ہوں۔؟‘‘
میں نے کہا نہیں، مگر میں جان گیا تھا۔
وہ اپنی زندگی۔۔۔ اپنی بچی کھچی زندگی اس چائے خانے میں گزارنا چاہتے تھے۔ اسی اداسی کے ساتھ، جو انہوں نے اپنے لئے منتخب کی تھی۔ یہ فیصلہ ان کی ویران آنکھوں میں لکھا ہوا تھا، ان کی جھریوں بھری جلد پر نقش تھا، ان کی بدن بولی میں جھلکتا تھا۔
باہر نکلتے ہوئے میں کاؤنٹر پر رکا۔
ہوٹل کے مالک نے ہاتھوں سے کچھ اس قسم کا اشارہ کرنا چاہا جیسے کہہ رہا ہو، ادائیگی نہیں کرنی ہے۔
میں نے کاؤنٹر پر رکھی پرانی پرچیوں کے ایک ڈھیر میں سے ایک پرچی پر اپنا نام اور ٹیلیفون نمبر لکھا اور پرچی آگے سرکادی۔ ہوٹل کے مالک نے اس پر ایک نظر ڈالی، مجھے دیکھ کر سرہلایا اور پرچی تہہ کر کے جیب میں رکھ لی۔
باہر رات اتر آئی تھی۔
پان والے کی دکان کے سامنے دو مکینک ایک دوسرے سے گتھم گتھا تھے اور کئی لوگ انہیں چھڑانے کی کوشش کر رہے تھے۔ سڑک کے پار موٹر سائیکلوں اور خریداروں کا ہجوم بتاتا تھا کہ تلی ہوئی مچھلی بیچنے والے کا کاروبار چل نکلا ہے اور اس سے آگے والی دکان پر کمزور، زرد روشنی میں دو لڑکے ویلڈنگ کررہے تھے۔ تیز نیلا شعلہ نکل کر دھات سے ٹکراتا تھا تو چنگاریاں بکھرتی تھیں اور ہر جانب تیز روشنی پھیل جاتی تھی۔ شعلہ بجھتے ہی، پھر اندھیرا۔ پھر روشنی، پھر اندھیرا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.