افلاس کی آغوش
ایک ہی رات میں تین قتل!شہر میں سنسنی پھیل گئی۔ ایک آدمی خبر پڑھتے پڑھتے غش کھاگیا۔ کوٹھیاں، کوٹھی خانے، کھڑکیاں، بالکنیاں، بام ودر ایک ساتھ بولنے لگے۔ مفت خورے اخبار خرید کر پڑھنے والوں پر ٹوٹ پڑے اور گھر گھر اخبار لے گئے۔ کچھ پلٹ کر نہ آئے اور کچھ پلٹ کر آئے تو چکنا چور ہوئے۔
دن بھر گھر گھاٹ، بازار ہاٹ ہر جگہ قتل کے موضوع پر گفتگو رہی۔ واردات کا اسلوب دلچسپ اور عام ڈگر سے ہٹ کر تھا۔ چاندنی رات قتل ہوئی۔ بہار کی رات قتل ہوئی۔ تین غیرمعروف شخصیتیں راتوں رات غیرفانی ہوگئیں اور ملک گیر شہرت پاگئیں۔ ایک رقاصہ، ایک معلمہ، ایک رئیس۔ تینوں ایک ہی وقت ایک ہی آلہ قتل سے موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ آخر ان تینوں میں کیا رشتہ تھا، کیا قدر مشترک تھی کہ ایک سی گولیاں تینوں کے نصیب میں اترگئیں؟ کہانی گولڈن جوبلی فلم سے زیادہ دلچسپ تھی، تصویریں بڑے اہتمام سے چھاپی گئیں۔ رقاصہ اور معلمہ کی تصویریں بڑے بڑے ثقہ حضرات کے تصور میں ٹھہر گئیں۔ اگرچہ فوراً حقیقت کے چہرے سے پوری طرح نقاب نہ اٹھا لیکن رقاصہ اور معلمہ کے ننگے چہروں نے پارساؤں کے چہرے بے نقاب کردیے۔ تصویروں کی بدولت اخباروں نے کئی دن تک اپنی سج دھج قائم رکھی اور بکری کے ریکارڈ توڑے۔
عورتوں کی شکل و صورت ایک سی دیکھ کر لوگ پریشان ہوئے۔ دونوں بہنیں لگتی تھیں۔ ان کی موٹی آنکھیں شوخ تیکھے اجالوں سے سجی تھیں۔ مکھڑے چودھویں کے چاند سے ترشے تھے۔ پیشانیاں جوانی کی شہ سرخیاں تھیں۔ کھلے گریبانوں میں سے صاف بے داغ بلوریں جلد نظر آرہی تھی اور اس سے متصل جوانی کا پگھلا ہوا سونا مغل انداز کی ترشی ہوئی گولائیوں میں سمٹا پڑا تھا۔ ان میں پومپئی کو تباہ کرنے والا دِسودی اَس سو رہا تھا۔ انگ انگ میں مستی بھری تھی۔ قتل ہونے والیوں سے ہمدردی جتانے کی بجائے لوگ خود قتل ہوئے۔ جن کے ہاتھوں میں پیار کی لکیریں ز یادہ جلی تھیں انہوں نے ان تصویروں سے اپنا تصور حسین کرلیا۔
کہانی مرتب کرنے میں کئی مہینے لگے۔ خورشید بائی، رئیس شہر کی بیگم، بگا بلڑ اور زمرد کی رکاوٹیں دور کرنے اور بیانات لینے میں جو مشکلیں پیش آئیں، وہ علیحدہ باب کا موضوع ہے۔ زبیدہ کی ڈائری نے کہانی کی کئی کڑیاں مہیا کیں۔ بیگم پروین ضمیر کی آواز سن کر شریک تفتیش ہوئی۔ بیگم پروین کی شہادت نہ ملتی تو زبیدہ اور قیصری کی اصلیت اتنی صحت سے معلوم نہ ہوتی اور کہانی ادھوری رہ جاتی۔
نظام الدین کی ایک لڑکی تھی، جس کے اردگرد اس نے اپنی ڈھیر ساری آرزوئیں لپیٹ دیں۔ صورت کے اعتبار سے زبیدہ کم روشن نہ تھی لیکن اس کے مستقبل کو روشن بنانے کی قسم نظام دین نے کھائی۔ لڑکی کیا تھی چمکتا دمکتا پھول تھی، جس کے بدن کی لکیروں سے د یکھنے والوں کی نگاہوں میں کٹاریں کھنچ جاتیں۔ نظام د ین دو دو جگہ کام کرتا او رہر مصیبت جھیلتا تاکہ زبیدہ ہر مصیبت سے محفوظ رہے۔ و یسے وہ بڑی محرومی کاشکار تھا۔ اسے ترکے میں علم کی ایک کرن، ایک اکھڑ، ایک کوڑی نہ ملی۔ اس داغ کو اس نے زبیدہ کے مستقبل کی روشنی سے دھونے کا عہد کیا۔ زبیدہ اس کے روپے سے انصاف کرتی۔ نفیس کپڑے پہنتی، بن ٹھن کے رہتی، ہنستی کھیلتی۔ اسے دیکھ دیکھ کر نظام دین کی آنکھوں میں مسرتیں ناچتیں۔ نظام دین لاکھ ان پڑھ سہی لیکن بے عقل نہ تھا۔ جانتا تھا کہ لڑکی ان پڑھ رہے تو دوکوڑی کی ہوتی ہے لیکن لکھنا پڑھنا کون سا سستا دھندا تھا؟ مہنگائی کے اس عہد زریں میں ایک اللہ کا نام سستا تھا۔ چنانچہ بیشتر لوگ اسی پر گزارا کرتے تھے۔
زبیدہ کی ماں صدق دل سے میاں کے منصوبے میں شامل ہوئی بیمار رہتی تھی لیکن اس نے اپنے غم کو غم جاناں بنالیا اور بیماری سمیت زبیدہ کے روشن مستقبل میں مرکھپ گئی۔ گھر میں زبیدہ اور اس کے مستقبل کے سوا کچھ نہ رہا۔ نظام دین نے گھر کا جو بوجھ اٹھارکھا تھا اس میں جوان لڑکی کا بوجھ سب سے زیادہ تھا لیکن گردش فلک کو یہ ادا نہ بھائی۔ دیکھتے دیکھتے وہ خود اپنے لیے، گھر بھر کے لیے بوجھ بن گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس سمیت گھر بھر کا بوجھ بیس سال کی تعلیم یافتہ لڑکی کے نازک شانوں پر آن پڑا۔ بچاری کا دل ٹوٹ گیا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ قصور اس کا نہیں، اس دور کا تھا جس میں کارخانۂ حیات برق رفتاری سے چلنے لگا۔ کلیں تھمنا بھول گئیں۔ کبھی کبھی انہیں چلانے والے ان میں گاجرمولی کی طرح کٹ جاتے۔ نظام دین کا ایک بازو اور ایک ٹانگ گاجرمولی ہوگئی۔ آنکھوں کے دیے بھی مند پڑگئے۔
نظام دین اپاہج ہوا، زبیدہ کی تعلیم چھوٹی۔ نظام دین کو اس کی مرضی سے وہاں پہنچادیا گیا جہاں آنکھوں کے دیے روشن ہوجاتے ہیں۔ اس فرار میں اس کے لیے قرار تھا۔ عالی شاہ کی خانقاہ کے دیوں کی چراند اور پھولوں کی باس اسے بھلی لگتی۔ لنگر سے کھانا مل جاتا۔ بلیک اور سمگلنگ کو جتنا فروغ ملا، لنگر کی رسد اتنی ہی بڑھی۔ اتنی دیگیں چڑھتیں کہ منتظمین اور لٹیروں کی پوری کھیپ ٹھکانہ نہ لگاسکتی۔ جب بازار میں پلاؤ زردہ بیچنے والوں سے معاہدہ ہوگیا تو مشکل آسان ہوگئی۔
زبیدہ باپ سے ملنے جاتی اور تربت کو سلام کرتی۔ جمعرات جسے دعاؤں کا دن مانا جاتا، خاص طور پر اس کے دل پر اثر کرتا اور وہ خانقاہ میں لمبی لمبی دعائیں مانگتی۔ نظام دین اور اس کی آرزوئیں سراب ہوئیں۔ علم کی خرید میں چودہ سال تک جو کمائی صرف ہوتی رہی، وہ پانی کی طرح ریگستان میں بہہ گئی۔ اس سے زیادہ بے کار سرمایہ کاری کوئی نہ تھی۔ بالآخر لٹا ہوا سرمایہ بٹورنے کے لیے زبیدہ نے ترکیب لڑائی۔ بلیک اور مہنگائی کی سہولتوں کے باوجود وہ انتہائی سستے داموں علم بیچنے لگی۔ دراصل علم و عرفان اور جسم و جاں اب بھی ارزاں تھے۔
اس نے ماسٹر چراغ دین کے رائل کوچنگ کالج میں نوکری کرلی۔ اسے ماسٹر چراغ دین کا نام پسند آیا، جس کے اجزائے ترکیبی میں چراغ ایسی بابرکت شے شامل تھی۔ ویسے ایک چراغ اصلی کی بجائے نقلی تھا یعنی ایک آنکھ کا دیا گل تھا۔
ماسٹر چراغ دین کو خوبصورت لڑکیاں اچھی لگتیں۔ وہ اپنی اندر سبھا سے توانائی حاصل کرتا اور اپنی عمر کا بوجھ ہلکا کرتا۔ زبیدہ کو تنخواہ کے علاوہ پچاس روپلی ملتے۔ اس کا سبب معلمی کا کمال نہیں بلکہ چراغ دین کا ذوقِ جمال تھا۔ رائل کوچنگ کالج اس کی ٹکسال تھا اور وہ مخیر طبع واقع ہوا تھا لیکن اس کی مخیر طبعی سے کیا ہوتا؟ یہاں تو مفلسی اور مہنگائی میں ٹھنی تھی۔ مہنگائی برابر بڑھتی جارہی تھی۔ اسی تناسب سے مفلسی میں اضافہ ہورہا تھا اور نیم مفلس زبیدہ نے ماسٹر چراغ دین کے گھر میں انقلاب برپا کردیا۔ ماسٹر چراغ دین نے غسل خانے سے داراللباس تک اودھم مچادیا۔ وہ دم بہ دم لباس بدلنے، صاف ستھرا رہنے اور اسمارٹ نظر آنے لگا۔ اسکوٹر پر ہوتا یا اندر سبھا میں، بہرحال تن کر اکڑ کر رہتا اور اسی وصف کے باعث زبیدہ اسے ’’بانکا مرغا‘‘ کہنے لگی۔
بانکا مرغ ڈیڑھ سو روپے میں سے سو کو بھول جاتا اور پچاس کو یاد رکھتا۔ اس حساب سے پچاس کی رقم سو سے بڑی تھی اور اسی کے بل پر زبیدہ کو اندر سبھا کی افسر پری بناکر اپنی کمزوری بنانے کے درپے ہوا لیکن دوسری دوپریاں نجمہ اور نوری ذرا ذرا سی حرکت، ذرا ذرا سی بات چیت کی خبر رکھتیں اور انتہائی جانبداری سے بیگم چراغ کو ڈائری دیتیں۔ بیگم چراغ دین بھاری بھرکم عورت تھی اور ہر طرح ماسٹر چراغ دین پر بھاری تھی۔ ایک مرتبہ زبیدہ کی ماں کو نمونیا ہوا اور ماسٹر چراغ دین نے اسے رواداری میں سوروپے دیے تو بیگم چراغ دین کو یہ رپورٹ مل گئی۔ اس نے زبیدہ کی تنخواہ سے پائی پائی وصول کرلی۔ اس کے بعد ماسٹر چراغ دین کی رگِ حمیت بہت کم پھڑکی۔ ماسٹر چراغ دین کے ذوقِ جمال کو ٹھکانے لگانے والی استانیاں بیگم چراغ کے باورچی خانے میں جاکر بہت کچھ ٹھکانے لگاتیں۔
زبیدہ اچھی معلمہ نہ ہوتی اور لڑکیاں اسے دل و جان سے نہ چاہتیں تو بیگم چراغ تنخواہ کے علاوہ محض دلفریب شکل و صورت کے پچاس روپے کب وصول کرنے د یتی؟نمونیے کے بعد زبیدہ کی ماں کی صحت اور بھی بگڑگئی اور وہ عضوِ معطل ہوکر رہ گئی۔ اس عضو معطل کی چار پائی چھت پر ڈال دی گئی تاکہ مرغیوں سے جی بہلاسکے۔ اس کے بعد گھر کا نظام تلپٹ ہوگیا۔
زبیدہ کو توقع تھی کہ بانکے مرغ کا ذوق جمال ترقی کرے گا لیکن بیگم چراغ نے نجمہ اور نوری کی مدد سے اس کا ترقیاتی منصوبہ خاک میں ملادیا، نتیجہ یہ نکلا کہ زبیدہ نے عالی شاہ سے میل جول بڑھایا۔ آخرکار دیے اور پھول کی پرستش آڑے آئی۔ بگا بلڑ جو زمرد کی خاطر جگہ جگہ عورتوں کی بوسونگھتا پھرتا تھا، رائل کوچنگ کالج کے بھی گرد ہوگیا۔ اس تک زبیدہ کے کھرے بدن کی خوشبو پہنچ گئی۔ مائی کی مدد سے کام بن گیا۔ زبیدہ کو زمرد کی ٹیوشن مل گئی۔ میٹھے چاول پکائے اور نظام دین کی موجودگی میں خانقاہ پر بانٹے گئے۔ باپ نے سعادت مند بیٹی کے روشن مستقبل، درازی عمر اور آبرو مندی کے لیے دعا مانگی۔ زبیدہ نے دیے پھول سے نیا پیمان باندھا۔ تربت والے سے نظرِکرم کی یوں بھیک مانگی جیسے وہ پیشہ ور بھکارن ہو۔ جاگیردارنی ایسی ریجھی کہ اس نے زمرد کی باگ ڈور زبیدہ کو سونپ دی۔ زبیدہ گھر کی باجی بن گئی۔ جاگیردار کی شرافت، سخاوت اور وجاہت مشہور زمانہ تھی۔ حویلی کا پھاٹک چوبیس گھنٹے بند رہتا اور ساری نیک نامیاں اس میں بند رہتیں زبیدہ کی ننگ و ناموس بھی اسی میں محفوظ ہوگئی۔
زبیدہ عمر کے ایسے حصے میں تھی جہاں لڑکیاں قیامت بن کر اہل نظر کے جذبہ صبر و استقلال اور قراردل کو للکارتی ہیں۔ وہ سچ مچ چلتی پھرتی قیامت تھی۔ اس کا گھر سے نکلنا رنگ لایا۔ رائل کوچنگ کالج سے آرہی تھی۔ ایک نقاب اٹھارکھا تھا، دوسرے میں چہرے کا مرمریں جمال بہار دکھارہا تھا۔ ریشمیں رخسار، بڑی بڑی آنکھیں، ان پر سنگینوں کا پہرہ، تیکھی تیکھی بھنویں اور گلاب کی پتیوں کے سے ہونٹ دیکھنے والوں کے دل میں تلنے لگتے۔ ایسے میں دل توازن برقرار نہ رکھ سکتا۔
سبک سینڈل میں سے اجلے اجلے پاؤں یوں نظر آتے جیسے ماہتاب پابہ زنجیر ہوں۔ نٹ کھٹ پنواڑی نے کچھ دور سے اس کے پاؤں دیکھے اور دل پر آہٹ محسوس کی۔ کئی روز سے تلملا رہا تھا۔ کیا ستم تھا کہ ایک فتنہ قیامت اس جیسی نامی گرامی ہستی کا نوٹس لیے بغیر بے پروایا نہ انداز میں سامنے سے گزرے اور اس کے جذبات کو جھنجوڑ کر چلاجائے۔ ہر بات کی حد ہوتی ہے۔ اس دن تو وہ رہ نہ سکا۔ زبیدہ کی گوری کلائی پر چمکتی ہوئی گھڑی دیکھ کر بولا، ’’سوہنیو! کیہ ٹیم ہویا اے؟‘‘
اس جملے نے تو اس کی نبضوں میں تیر کر قدم تیز کردیے۔ پرانی حویلی میں آکر آبدیدہ ہوئی اور اس نے زمرد کو ساری کہانی سنائی۔ اگلے لمحے یہ بات نمک مرچ لگ کر جاگیردارنی اور جاگیردار تک پہنچی۔ حویلی کی شرافت کو شرارت نے للکارا۔ بگا بلڑ نے نٹ کھٹ پنواڑی کو للکارا۔ بگا بلڑ خوفناک قسم کا ہٹا کٹا جانور تھا۔ بلڈاگ کو لے کر بازار میں نکلتا تو وہ بلڈاگ لگتا، بلڈاگ انسان لگتا۔ فراغت کا وقت نکوشاہ کے تکیے میں گزارتا جو بدمعاشی کا رائل کوچنگ کالج تھا۔
یہاں سے ایسے ایسے بے نظیر لوگ فارغ التحصیل ہوکر نکلتے کہ انہوں نے پولیس کے بیسیوں چھوٹے بڑے عہدیداروں کو تمغے اور انعام دلائے، ترقیاں دلائیں، معطل اور برطرف کرایا۔ بگا بلڑ اسی ٹیکنیکل ٹریننگ سینٹر کا سندیافتہ تھا۔ بگے بلڑ نے تکیے کے دوجی دار زیر تربیت پٹھے ہمراہ لیے اور نٹ کھٹ پنواڑی کو اس بری طرح پیٹا کہ غنڈہ لائن میں اس کی ترقی کے سارے امکانات معدوم ہوگئے۔ اس کے بعد زبیدہ نازو و انداز اور غرورتمکنت سے بازار میں سے گزرتی۔ کیا مجال جو کوئی اس کے حضور گستاخی کرتا۔ اس نے خانقاہ پر جاکر دیے جلائے، پھول چڑھائے اور جاگیردار کے حق میں دعائے خیر مانگی۔
جاگیردار بالخصوص اس کے کمرے سے وہ متعارف نہ تھی۔ اس کے روشن اور خوشبودار کمرے کے دروازوں اور دریچوں پر پردے پڑے رہتے اور اس کے مکین کی آنکھوں پر بھی۔ اس نے یہ عجائب خانہ نہیں دیکھاتھا۔ ایک دن عجائب خانے میں چلی گئی۔ قالین کے ملائم ملائم ریشوں سے اس کے ننگے ریشمیں پاؤں گدگدائے۔ اس کے بدن کے نچلے نرم حصے صوفے میں دھنس گئے۔ خاکدان سگریٹ کے ادھ جلے ٹکڑوں سے بھراپڑا تھا۔ ایک چمکتی دمکتی بوتل سے انوکھی بدبو آرہی تھی۔ بوتل دوگلاسوں کے درمیان رکھی تھی۔ طباق میں چچوڑی ہوئی ہڈیوں کا انبار تھا۔ اس نے بوتل اٹھائی اور تہہ میں پڑے ہوئے چند سنہری قطرے حلق میں ٹپکائے۔ منہ بنایا اور بوتل اپنی جگہ پر رکھ دی۔ ایک جگہ رنگین رسالے دیکھے تو بوتل کی بدبو اور کڑواہٹ جاتی رہی۔ ایک رسالے کو اتھل پتھل کیا تو تصویریں دیکھتے ہی آنکھیں اپنے آپ مند گئیں، نبضیں تیز ہوگئیں۔ اس نے رسالے کو بے ارادہ چھاتی سے لگاکر بھینچ لیا اور باہر آگئی۔
آنگن میں آئی تو جاگیردار کی آنکھوں کا بھرپور جلال سامنے آیا۔ گھبراہٹ کے عالم میں دوپٹہ سر سے ڈھلک کر شانوں پر آگیا اور ترشے ہوئے گریبان میں سے کنول کٹوروں کا سرحدی علاقہ عیاں ہوگیا۔ قہرناک، نامانوس شرارت آمیز نظریں اس کی پوری قامت پر سے گزر کر کمرے میں چلی گئیں۔ اُدھر سے جاگیردارنی آگئی جس نے اپنے کمرے میں سے آوٹ ڈور شوٹنگ دیکھ کر ’’اوکے‘‘ کردیا تھا۔ زبیدہ کا گمان غلط ثابت ہوا۔ جاگیردارنی یوں مسکرائی جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ وہ زبیدہ کو کمرے میں لے گئی۔ اس نے چاندی کا پاندان کھولا اور کلیا میں چمچی چلاکر چونا گھولا۔ پھر ہنس کر بولی، ’’باؤلی گھبرائی کیوں تھی؟‘‘
وہ سنبھل کر بولی، ’’اے واہ اپنوں کے سامنے گھبراہٹ کیسی؟‘‘
’’کچھ بھی ہو باجی! مجھ پر تو گھبراہٹ کا دورہ پڑہی جاتا ہے۔‘‘
جاگیردارنی بھانپ گئی کہ لڑکی کو کنوارپن کے خدشے لاحق ہیں۔ لڑکی کتابی علم تو رکھتی ہے، دنیاداری کا علم نہیں رکھتی۔ اتنے میں زمرد آگئی۔ جیسا نام تھا ویسی ہی صورت تھی۔ لپکتی دمکتی ماہتابی، اٹھتی جوانی پر اٹھتی ہوئی قامت، گدرے بدن سے چھوٹتی ہوئی مہک، چلتے میں انار چھوٹتے۔ بہت کچھ بن بننے کو تھی۔ تماشا نہ بنتی۔ زمردا سے وہاں سے لے آئی۔ زبیدہ کو پریشانی میں دیکھتے ہوئے پوچھا، ’’باجی! کہاں گئی تھیں؟‘‘
’’تمہارے ڈیڈی کے کمرے میں۔‘‘ زبیدہ جھینپ کر بولی۔
’’تم وہاں کیوں گئی تھیں باجی؟‘‘ زمرد گھبراکر بولی۔
’’یونہی۔‘‘
’’باجی! وہاں مت جایا کرو۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کوئی خاص بات تو نہیں۔۔۔، بس، بس یونہی۔‘‘
’’کچھ تو بات ہے۔‘‘
’’باجی۔ تم۔۔۔ تم نہیں سمجھتیں۔۔۔ فرض کرلو، کوئی چیز ادھر ادھر ہوجائے اور تمہارا نام لگ جائے؟‘‘
’’ہوں، ہوں، ہوئی نہ بات۔‘‘
جاگیردار کی شرارت آمیز ہنسی، جاگیردارنی کی درگزر اور زمرد کی گول مول باتوں نے اسے وہم کے جال میں جکڑ لیا۔ شام کو گھر گئی تو سوچ میں پڑگئی۔ ان دیکھے، انجانے خدشے اسے کہیں سے کہیں لے گئے۔ اس نے سوچ سوچ کر چند بکھری ہوئی کڑیاں سمیٹیں اور کہانی بنالی۔ اسے بلوکا خیال آیا جو حویلی میں آتے ہی جاگیردارنی سے پان طلب کرتی، گلوری منہ میں دباکے، ہونٹ لال کرکے اس ٹھسے سے نکلتی جیسے عاشقوں کا خون کرنے چلی ہو۔ کمرے صاف کرتی، باتھ روم میں جاکر بدن صیقل کرتی، سنگھار میز پر جاکر بیٹھتی اور کٹار بن کر اٹھتی۔ باورچی خانے میں جاتی اور پیٹ بھر کے آتی۔ سارا سامان، ہر کمرے کی ایک ایک شے حفظ تھی اسے۔ حویلی کی انسائیکلوپیڈیا تھی۔
زبیدہ کو یاد آیا کہ ایک دن آنگن میں سے گزری تو جاگیردار کے کمرے میں سے بلو کے قہقہے سنائی دیے۔ پھر اسے یہ کہتے سنا، ’’اے، ہٹو آج طبیعت خراب ہے۔‘‘ پھر کسی نے طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ د یا۔ دھم سے گرنے کی آواز آئی، اس پر ایسی ہی ایک اور آواز آن گری۔ اس روز بلو کمرے میں سے نکلی تو حویلی صاف کیے بغیر چلی گئی۔ آنکھیں جھکائے ہوئے تھی۔
ننھی دھوبن کا بھی دماغ خراب تھا۔ کہنے کو ننھی کہلاتی لیکن بڑی بڑی عورتوں کو مات کرتی۔ کپڑے دھوکر صاف کرتی لیکن ساتھ کپڑے والوں کی طبیعتیں بھی صاف کرتی اور جیبیں بھی۔ پھر بھی ننھی کی ننھی رہتی۔ قد چھوٹا، کام کھوٹا۔ حویلی میں بے روک ٹوک گھومتی۔ جہاں میلا کپڑا دیکھتی، اٹھالیتی، دکھاتی نہ لکھاتی اور چلتی بنتی۔ دھوبن پر جوبن تھا، رئیسانہ ٹھاٹ تھے۔
گڑوی بجانے والی بھی گاہے گاہے آتی اور جاگیردار کا جی بہلاتی، سانولے سلونے رنگ کی پتلی پتنگ تھی جس کے سنہرے بال کمر پر جھولتے تو دل جھولنے لگتا۔ گلے میں نور تھا۔ گاتی تو قیامت ڈھاتی۔ آدمیوں کو ڈھاتی اور جیبوں میں سیندھ لگاتی۔ جاگیردارنی کو بھی گیت سناتی۔
بلو اور ننھی اسے کچھ نہ کہتیں، البتہ آپس میں الجھتی رہتیں۔ دونوں کو بے باکی دکھانے اور ایک دوسرے پر سبقت لے جانے پر اعتراض تھا۔ بہرحال جاگیردار کو کسی کی بے باکی پر اعتراض نہ تھا۔ ہر ایک یہی سمجھتی تھی کہ حویلی اس کے باپ کی ہے۔ دونوں ہر روز حلوائی کی دکان پر دادا جی کی فاتحہ دیتیں۔ دونوں اصل مالکوں سے بڑھ کر حویلی پر حق تصرف جتاتیں۔ دونوں میں پیشہ وارانہ رقابت کی وجہ سے ایک دفعہ فری اسٹائل لڑائی بھی ہوئی۔ بال نوچے گئے۔ فلائنگ ککیں لگائی گئیں۔ دانت گاڑے گئے۔ دھکم پیل ہوئی اور پھر جاگیردار اوپر سے آیا تو دونوں کو گھسیٹ کر کمرے میں لے گیا۔ یہاں اس نے عملاً دونوں سے مساوات برتی اور انہیں برتنے کے بعد اتفاق و اتحاد کا سبق دیا۔ لیکن یہ سب کچھ عارضی ثابت ہوا۔ میل کاٹنے اور صفائی کرنے والی دونوں عورتوں کے دل میں میل رہا۔
زبیدہ کو پرانی حویلی میں کتنی ہی گری پڑی کڑیاں ملیں، جنہیں اس نے اٹھاکر بہ احتیاط حافظے میں رکھ لیا۔ ان گری پڑی کڑیوں اور کمزوریوں کے باوجود پرانی حویلی مضبوطی سے اپنی بنیادوں پر قائم تھی۔ ایک دن ایک اور کڑی ملی۔ وہ زمرد کے کمرے میں اکیلی بیٹھی اسلامی تاریخی ناول پڑھ رہی تھی کہ تیسرے کمرے میں جھڑپ ہوئی۔ اس نے کان ادھر کیے۔ بنائے فساد کسبی تھی۔ جاگیردار چوری چھپے اختری بائی کے یہاں جانے لگا۔ یہ چوری پاس بک کے ذریعے پکڑی گئی، جس کے اندراجات تیزی سے روبہ زوال تھے۔ جاگیردارنی کی سی آئی ڈی حرکت میں آئی تو بھانڈا پھوٹا۔ یوں تو ڈیرہ دارنی کی شکل و صورت اچھی تھی لیکن جاگیردارنی کی گرد کو نہ پہنچتی۔ کہاں جاگیردارنی کا سنبھالا ہوا بھرپور بدن اور بانکپن اور وہ فری لانسر جو دس سال سے مسلسل اناڑیوں، کھلاڑیوں، بدتمیزوں اور جانوروں کا تختہ مشق تھی۔ جاگیردارنی کا پیکر چغتائی کے موقلم پر ٹھہرا ہوا خیال تھا۔ کھڑی ہوتی تو راگ درباری کے سارے سر چھڑجاتے، آفتاب جگمگانے لگتے۔ تنگ پاجامے پر چنٹوں والی قمیض پہن کر مغل رانی بن جاتی۔ خامی یہ تھی کہ وہ عورت تھی، گھر والی تھی۔
عورت پری ہو، اپسرا ہو، ایک کی بن کر رہے گی تو ایک دن مرد کی طبیعت اس سے بھر جائے گی۔ یہی ہوا۔ جاگیردار کو گھر کی مرغی دال برابر اور باہر کی دال، مرغی برابر لگی۔ زبان کی ہوا میں پلی ہوئی اختری بائی کچھ اور ہی چیز تھی۔ وہ کنجری تھی۔ سو عورتیں مل جائیں تب بھی ایک کنجری نہ بنے۔ یہاں مردوں کو زیر کرنے والے داؤ بڑی صحت سے موقع دیکھ کر برتے جاتے۔ حرافہ کبھی قریب آکر دل کی دھڑکن بن جاتی اور کبھی کوسوں دور چلی جاتی۔ اپنے اپنے چلن میں زیر و بم رکھتی۔ جاگیردار کو کبھی برقرار اور کبھی بے قرار رکھتی۔ اس کی سوچ میں گھر کرلیتی اور پھر باہر نکل آتی۔ اسے آپے سے باہر کرتی اور آپ آپے میں رہتی۔ اپنے دل کے ساتھ پاسبانِ عقل رکھتی اور اس کے پاسبانِ عقل کو پٹوادیتی، مروادیتی۔ دھارا بن کر ناؤ کو نشیب کی طرح لے گئی۔ نائکہ رہنما تھی۔ داؤپیچ میں نوچی کوطاق رکھتی۔
تکرار ہی میں بھید کھلا کہ کسبی جاگیردار کو اپنے تھان پر مستقلاً باندھنا چاہتی ہے۔ جاگیردارنی جسے عمرقید کی سزا ملی تھی اور وہ بھی بامشقت، جانتی تھی کہ رنڈیاں گھر برباد اور چکلے آباد کرتی ہیں، گھبراکر بولی، ’’اللہ کے واسطے گھربرباد نہ کرو۔ گھر بسانا بچوں کا کھیل نہیں۔ جس گھر کو پندرہ برس میں جاکر آباد کیا ہے وہ پندرہ دن تو کیا پندرہ منٹ میں برباد ہوسکتا ہے، یوں مت کرو۔ کوئی کیا کہے گا۔‘‘
’’کیا کہے گا؟‘‘
’’شہر میں عزت آبرو بنی ہے۔ دنیا جہان پر حویلی کی شرافت کا سکہ بیٹھا ہے۔‘‘
’’شرافت مجھے نہیں چاہیے۔ اس نے تو ناک میں دم کر رکھا ہے۔ میرا تو اس سے دم گھٹنے لگا ہے۔‘‘
’’خدا کا خوف کرو۔ صاحب اولاد ہو۔ ہم سب کی مٹی پلید نہ کرو۔‘‘ لیکن جاگیردار مٹی پلید کرنے پر تلا ہوا تھا۔ جاگیردارنی بولتی رہی۔ بیچ بیچ میں عورت کا مسلم ہتھیا ر بھی آزماتی یعنی آنسو بہاتی رہی۔ ایک بار جلال میں آکر گرجی لیکن طلاق کی دھمکی ملتے ہی ادھ موئی ہوگئی۔ بھرائی ہوئی آواز میں بولی، ’’تمہیں گھر میں کس بات کی روک ٹوک ہے۔ یہ گھر بھی تو چکلہ بنا ہے۔ طلاق دی تو دیوار سے ٹکر مار مار کر جان ہلکان کرلوں گی۔‘‘ پھر آواز دھیمی پڑگئی۔ شاید وہ اپنا روایتی مقام پہچان گئی اور مرد کے پاؤں کی جوتی بن گئی۔ ہولے ہولے باتیں ہوتی رہیں۔ ایک بار زبیدہ نے جاگیردار کی زبان سے اپنا نام سنا لیکن مطلب نہ سمجھ سکی۔
زبیدہ گھر آئی اور پچھلے پہر سوئی۔ خواب دیکھا۔ ایک عورت اس کے روبرو آکر ادھ ننگی ہوئی اور ناچنے لگی۔ گلاب کا پھول حرکت میں آکر نظر فریب زاویے بنانے لگا۔ اس نے اس بے باک عورت کو اختری بائی جانا۔ اختری اس پر لپکی۔ یہ بھاگی۔ ادھر سے نٹ کھٹ پنواڑی آنکلا۔ وہ بھی پیچھے دوڑا۔ خوش قسمتی سے دھنک سامنے آگئی۔ یہ اچھل کر دھنک پر چڑھ گئی۔ دھنک اونچی ہوگئی۔ اختری بائی اور نٹ کھٹ پنواڑی منہ دیکھتے رہے۔ یہ مارے خوشی کے ناچتی گاتی آسمان پر پہنچ گئی۔ نیند کھلی، خواب کا مطلب نہ سمجھ سکی۔ اختری اور نٹ کھٹ کے خیال نے جوانی کا نشہ اور بدن کی مستی انگ انگ سے نچوڑ لی۔ جھٹ عالی شاہ کے یہاں پہنچی۔ دریچے پر لٹکی ہوئی لکڑیوں کو چوما، اس لگن سے چوما جیسے یہ اس کے محبوب کے ہونٹ ہوں۔ تیل سے چکٹے ہوئے طاقچوں پر دیے دھرے تھے۔ بتیاں غائب تھیں۔ صبح صبح حسبِ معمول کوے بتیاں اڑالے گئے تھے۔ اس لیے بتیاں بٹ بٹ کر ڈالیں۔ آنے سے پہلے پرانی حویلی کی سلامتی کے لیے لمبی دعا مانگی۔ پھر تربت شریف کے پاس بیٹھ کر مراقبے میں گئی۔ اس نے طے کیا کہ وہ مہینہ پورا کرکے زمرد کی ٹیوشن چھوڑدے گی۔ گھر اور چکلے کی محاذ آرائی کے انجام کا انتظار نہ کرے گی۔ اختری بائی اور جاگیردارنی کے فتح و شکست سے اسے کیا ملے گا؟
وہ سمجھ گئی کہ انقلاب آکر رہے گا لیکن آنے والے اس انقلاب سے پہلے جاگیردارنی کے رویے میں انقلاب آیا۔ اس کی فیاضی میں یکایک اضافہ ہوگیا۔ ایکا ایکی کئی نئے نکور کپڑے اپنے آپ تنگ ہوگئے۔ سویٹ کریپ، ولایتی جارجٹ اور بروکیڈ کی قمیضیں، نئے نکور سینڈل اور نئی نکور کوٹیاں پہنے بغیر تنگ قرار دے دی گئیں۔ انہیں ایک ایک کرکے زبیدہ کو پہنایا گیا۔ اسے دلہن بنایا گیا۔ ہر جوڑا پہنانے سے پہلے جاگیردارنی نے اس کے کنوارے ریشمی بدن پر ہاتھ پھیرا۔ ہر جوڑا اس گل ا ندام پر زیب دے گیا۔ اس کے بدن کے زاویوں او رخطوں کی تعریف کی گئی۔ جاگیردارنی نے اس کے بدن سے اپنے بدن کا موازنہ کیا۔ جاگیردارنی مسکراکر بولی، ’’ہائے کتنی پیاری لگتی ہو۔ جی چاہتا ہے منہ چوم لوں۔‘‘ اور پھر اس نے اپنے سلگتے ہوئے جذبات گلاب کی دو جڑواں پتیوں پر رکھ دیے۔ زبیدہ اس عمل سے ذرا کھلی اور بولی، ’’توبہ! آپ نے تو حد ہی کردی یوں کیا جیسے آپ پیاری نہیں لگتیں۔‘‘
’’جوانی پھر جوانی ہے۔‘‘
’’آپ تو یونہی کسر نفسی کر رہی ہیں۔ اب بھی لاکھوں میں ایک ہیں۔‘‘
’’تو آؤ پھر ادلی بدلی کرلیں۔ اپنی جوانی مجھے دے دو اور میری جوانی تم لے لو۔‘‘
’’ہوسکے تو بے شک ادلی بدلی کرلیں۔ میرے لیے یہ ذرا گھاٹے کا سودا نہیں۔‘‘
’’افسوس! ایسا نہیں ہوسکتا ورنہ گھاٹے میں تو میں بھی نہ رہتی۔‘‘
جاگیردارنی نے سر سے پاؤں تک اسے ایک بار پھر دیکھا اور کہا، ’’تم نے بدن کو خوب سنبھال کر رکھا ہے۔‘‘
’’یہ خرچ کرنے کی چیز ہے پگلی!‘‘
زبیدہ جھینپ گئی۔ زبیدہ کے حرارت اور شرارت سے بھرے بدن پر وینس کے پیکر سے قدرے زیادہ آب و تاب تھی۔ جاگیردارنی کے سامنے سروکا بوٹا کھڑا تھا۔ اس کے کنول کٹوروں کا تیکھا کنوار پن آنکھ میں چبھ رہا تھا۔ جوانی کے محشر خیز سازوسامان سے سجا سنوارا ہوا ایک نیا معشوق طلوع ہوا تھا جسے دیکھ کر جاگیردارنی نے آہ بھر کر کہا، ’’کبھی ہم پر بھی جوانی ٹوٹی پڑتی تھی۔‘‘
’’آپ تو اب بھی جوان ہیں۔ جانے کیوں ٹوٹے دل سے بات کرتی ہیں۔‘‘
’’تو کیا جانے زبیدہ، عورت کے نصیبوں میں قدرت نے کتنی ٹوٹ پھوٹ رکھی ہے۔‘‘ زبیدہ جو ٹوٹ پھوٹ کے علم اور عمل سے بیگانہ تھی، جاگیردارنی کے جملے کے مضمرات سے بیگانہ رہی۔ جاگیردارنی کے دل میں اس کے لیے پیار کی اچانک جو حدت پیدا ہوئی وہ حیران کن تھی۔ بہرحال اس کا پرسوز و گداز رویہ زبیدہ کے فیصلے پر اثرانداز نہ ہوسکا جو اس نے مراقبے میں کیا تھا۔ سمجھی کہ حویلی کے روز بد کے خوف نے جاگیردارنی کو اس کے قریب کردیا ہے اور اس نے بچاؤ کے لیے ایسا سہارا پکڑا ہے جو خود بے سہارا ہے۔‘‘
خدا خدا کرکے پہلی آئی۔ پہلی کی مسرت کے لیے اس نے گرمی، سردی، آندھی، بجلی اور مینہ پانی کی پروا نہ کی۔ پہلی کو دنیا حسین و دلفریب ہوجاتی لیکن پھر بنیا، گوالا اور قرض خواہ اسے گھناؤنا بنادیتے۔
رائل کوچنگ کالج سے تنخواہ وصول کرکے عالی شاہ کے مزار پر آئی۔ یہاں اس نے پھول چڑھائے اور حسب معمول صدق دل سے پرانی حویلی کے لیے خیر کی دعا مانگی۔ پھر تربت کے پھول اٹھائے اور چل دی۔ آج چال میں عجیب مستی تھی۔ لباس بھڑکیلا تھا۔ نیا معشوق بنی جاگیردارنی کے دل میں نئی حدت بھڑکانے اور ایمان و آگہی سے دشمنی کرنے چلی تھی۔ جاگیردارنی کی باتوں نے اسے صیقل کردیا تھا۔ نقاب اٹھائے راہ گیروں کی نگاہیں روندتی اور دلوں پر دستک دیتی چلی گئی۔
حویلی پر پہنچی تو پھاٹک پر بگا بلڑ کھڑا گنا چوس رہاتھا۔ وہ اسے د یکھ کر ہنسی اور آگے بڑھ گئی۔ زینوں پر پہنچی تو پھاٹک زور سے بند ہوا۔ اوپر پہنچ کر کمروں میں گئی۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ دھڑکتے ہوے دل سے اس نے جاگیردارنی اور زمرد کو آواز دی لیکن جواب نہ ملا۔ آنگن میں آئی تو اسے ایک فتح مندانہ مگر مہیب قہقہے نے آلیا۔ اس کے ہاتھوں سے تربت شریف کے وہ ہار گرگئے جو وہ حویلی کی سلامتی کی خاطر لائی تھی۔ وہ لوٹی اور لپک کر زینے میں آئی۔ بگا بلڑ راستہ روکے کھڑا تھا۔ بولا، ’’نیچے پھاٹک بند ہے اور میں یہاں کھڑا ہوں۔‘‘ اتنے میں آنگن والا قہقہہ بھی آگیا، ’’آج پہلی ہے اور تمہاری تنخواہ میرے پاس ہے۔‘‘
’’مجھے تنخواہ نہیں چاہیے۔‘‘
’’نہ سہی۔‘‘ کہہ کر وہ قہقہہ گرجا۔ زبیدہ نے پوری طرح چلاکر کہا، ’’مجھے جانے دو۔‘‘ جواب میں بلڈاگ بھونکا اور زبیدہ کے لیے تو جاگیردار بھی بلڈاگ ہی تھا۔ وہ اسے کمرے میں کھینچ لایا جہاں ایک سانولی سلونی عورت نشے کی حالت میں صوفے پر پڑی سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔ عورت ہنسی اور بولی، ’’بادشاہ! اسے پھڑکادے۔ بڑی ٹھن کے آئی ہے۔‘‘
’’چپ رہ گشتی!‘‘
اور گشتی ہنس کر چپ ہوگئی۔ پھر زبیدہ کو چتا پر ڈالا گیا تو گشتی اٹھ کر بیٹھ گئی اور زور زور سے ہنسنے لگی۔ وہی زبیدہ جو کچھ دیر پہلے کلی تھی، باسی جنازہ ہوکر رہ گئی۔ یہ جنازہ تین دن کے بعد سسکتا تڑپتا پرانی حویلی میں سے نکلا۔ عاشق کا جنازہ نہ تھا ورنہ دھوم سے نکلتا۔ جنازے نے فیس چھوڑ کر وہ پانچ سو روپے پھاٹک کے اندر پھینک دیے جو اسے جبراً بطور اجرت دیے گئے تھے۔ جنازہ گھر گیا، جہاں اک عضو معطل تھا۔ جہاں ریت کے پھولوں کی بات تھی اور جہاں چند روپلی سے زندگی کی حرکت و حرارت قائم تھی۔ جہاں افلاس کے جراثیم پل رہے تھے اور جنہیں مارنے والی ڈی ڈی ٹی ابھی ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ زبیدہ دربار گئی۔ اس نے باپ کو خبر سنائی۔ باپ سکتے میں آگیا۔ اسے خبر نہ تھی کہ بھیڑیے بھی اتنے خوبصورت ہوتے ہیں۔ اس نے وہ کوٹ پھاڑ دیا جو اسے پرانی حویلی سے ملا تھا۔ پھر کانپتا ہوا ہاتھ بیٹی کے گلے تک لے گیا۔ بیٹی نے گلا چھڑانے کی کوشش نہیں کی لیکن ایک ہاتھ اور وہ بھی ناتواں! وہ گلا نہ دباسکا۔ پرانی حویلی اس پر آگری۔ وہ ملبے تلے دب گیا اور وہیں پڑا پڑا مرگیا۔ تکیے میں اسے پہنچے ہوئے لوگوں کے پہلو میں دفنادیا گیا۔
وہ ساری رات قبر سے لپٹی سسکتی رہی۔ رات بھر آنسو ٹپکتے رہے۔ وہ بے سہارا ہوگئی۔ اس نے پہلی بار بیگم پروین کی دہلیز پر قدم رکھا۔ بیگم پروین بیوہ تھی اور اچھی شہرت رکھتی تھی۔ کم گو، کم آمیز تھی۔ دونوکرانیاں اور ایک نوکر افراد خانہ تھے۔ دن بھر ریڈیو سنتی اور ریکارڈ بجاتی۔ موسیقی اس کی روحانی غذا تھی۔ ہارمونیم پر خوب ہاتھ صاف تھا۔ اپنی آواز پر عاشق تھی۔ خود گاتی، خود ہی سنتی۔ مرحوم میاں اعلیٰ درجے کے ستار نواز تھے۔ بیگم پروین نے زبیدہ کا خیر مقدم کیا اور پوچھا، ’’بہن کون ہو؟ کیسے آئی ہو؟‘‘
زبیدہ نے تعارف کروایا اور بتایا کہ اسے تنہائی کاٹتی ہے۔ گھبراہٹ کا مرض ہے۔ باپ مرچکا ہے۔ ماں قبر میں پاؤں لٹکائے پڑی ہے۔ دل کا بوجھ ہلکا کرنے آئی ہے۔ بیگم پروین نے تواضع کی اور آنے جانے کی کھلی دعوت دی۔ وہ اس دعوت پر عمل پیرا ہوگئی۔ زبیدہ نے بیگم پروین کے یہاں ایک عورت کو بھی آتے جاتے دیکھا۔ اس کا نام خورشید تھا۔ بیگم پروین سے شکل ملتی جلتی تھی۔ پان کھاتی اور سگریٹ پیتی تھی۔ بیگم پروین کے ساتھ زبیدہ کی درد آشنا ہوئی۔ انہیں ہمدرد پاکر زبیدہ نے اپنا راز بتادیا۔ اس پر دونوں عورتوں نے اسے تسلی دی۔ تسلیاں ملتی رہیں۔ تنورِ شکم دم پخت ہوتا رہا، حرام کی ہنڈیا پکتی رہی۔
بیگم پروین اور خورشید نے مل کر اسے ہمدردی اور مشوروں میں جکڑ لیا۔ سہارا ضرور ملا لیکن کنوارپن کے قتل سے ایک نئی ہستی کو جو لہو مل رہا تھا اس کی گھبراہٹ دور نہ ہوئی۔ پرانی حویلی سے اسے جو نفرت تھی وہ اس کے پیٹ میں پل رہی تھی۔
رائل کوچنگ کالج میں اس کا درجہ اونچا ہوگیا۔ یہ اونچا درجہ اسے ماسٹر چراغ کے انتقال کی خوشی میں ملا لیکن اسے کوئی خاص خوشی نہ ہوئی۔ وہ ہر وقت پیٹ کی الجھن میں پڑی رہتی۔ پیٹ پالنے کے لیے اس نے دو دو جگہ نوکری کی اور پیٹ مصیبت بن گیا۔ کسی طرح اس کے کانوں میں ایک لیڈی ڈاکٹر کے بارے میں بھنک پڑی۔ وہ اکیلی ہی اس کے یہاں چلی گئی۔ مس قریشی اس وقت آپریشن روم میں تھیں جس کے بنددریچوں میں سے چیخیں نکل نکل کر ویٹنگ روم تک آرہی تھیں۔ چیخیں اتنی دلدوز تھیں کہ انہیں سن کر وہ کانپ کانپ گئی۔ لڑکی جاندار تھی لیکن چیخ چیخ کر بے جان ہوگئی۔ باہر نکلی اور ایک خوبرو، خوش جوان کا سہارا لے کر چلی گئی۔ بات چند لمحوں کی تھی لیکن چیخوں سے یوں لگتا تھا جیسے پیٹ میں جہنم اتاردی گئی ہو۔ معلوم ہوا کہ اس جہنم کو اتارنے اور لوہے کے تیز اوزاروں سے حرام کی بوٹی چھیلنے کی فیس صرف تین سو روپے یعنی زبیدہ کی دوماہ کی تنخواہ تھی۔ وہ جہنم میں سے گزرجاتی لیکن تین مہینے ہوچکے تھے۔ مس قریشی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھی۔ بولی، ’’تمہارا مرد کہاں ہے؟‘‘
’’وہ حرام زادہ باہر چلا گیا ہے۔‘‘
’’خیر، کچھ بھی سہی۔ میرے کام کا وقت گزرچکا ہے۔‘‘
’’آپ زیادہ فیس لے لیں!‘‘
’’اور ساتھ ہی تمہاری جان لے لوں۔‘‘
’’وہ کیوں؟‘‘
’’یہ کام شروع شروع میں ہوتے ہیں۔ یہ لڑکی جو تمہارے سامنے گئی ہے اسے ایک مہینہ ہوا تھا۔ تمہارا کیس تین مہینے پرانا ہے۔ اتنا پرانا کیس کون کرے گا؟ کسی نے پیسے کے لالچ میں آکر کیا تو تم بچوگی نہیں۔‘‘
زبیدہ مایوس و شرمسار لوٹی اور ازسرنو بڑے جذبے سے بیگم پروین کے مشوروں پر لگ گئی۔ ایک دن سخت آزمائش میں پڑی۔ چھٹی کے دن شوخی اور شرارت کی پتلیاں آئیں۔ یہ وہی اس کی ہم کار تھیں جو رائل کوچنگ کالج میں اس کے ساتھ پڑھاتی تھیں۔ انہوں نے کھڑے کھڑے سیر کا پروگرام ترتیب دیا اور زبیدہ کو لے کر چل د یں۔ زبیدہ حوصلے والی تھی۔ اس نے سر نہ ہونے دیا کہ اس وقت سر سے پاؤں تک زندگی کے سب سے بڑے بوجھ تلے دبی ہے۔ سہیلیاں ہنستی کھیلتی، قہقہے برساتیں، عہد جاہلیت کا مفہوم ادا کرتی شالامار پہنچیں۔ شباب کی مستی میں گم تھیں۔ انہیں زبیدہ کی طرف توجہ دینے کی توفیق نہ تھی۔ وہ تتلی کی طرح آوارہ ہوئیں۔ زبیدہ پر کٹا کبوتر بنی رہی۔ سہیلیاں ناچتی دوڑتی تختہ بہ تختہ دور نکل گئیں۔ زبیدہ کے لیے یہ سجیلے تختے تختۂ موت سے کم نہ تھے۔ بیگم پروین کی نصیحتوں کی پوٹ لیے سنبھل کر پاؤں اٹھاتی، راز چھپانے کے لیے تنگ جوتی کا بہانہ آڑے آیا۔ شریر بچھڑیاں لپک کر فصیل پر پہنچیں اور برجی میں جابیٹھیں۔ زبیدہ بھی لنگڑاتی لنگڑاتی پہنچی۔ تینوں نے گپوں اور قہقہوں کی معیت میں مالٹوں کی ٹوکری خالی کی۔ ان کی کھوپڑی بھی خالی ہوگئی۔ اعصاب کا بوجھ ٹالنے کے لیے آنکھیں میچ کر لیٹ گئیں۔ کچھ دیر تک چپ رہیں۔ پھر نجمہ نے آغازِ کلام کیا۔
’’کبھی بیگمیں اور شہزادیاں یونہی آنکھیں میچ کر یہاں لیٹ جاتی ہوں گی۔‘‘
’’لیکن وہ بات کہاں جو ہمیں نصیب ہے۔‘‘
’’ہماری طرح آزاد تھوڑی تھیں وہ، قلعے اور باغوں میں کھنچ بھنچ کر رہتی تھیں۔‘‘
’’ہم ٹھہریں پر یاں۔ جہاں چاہیں اڑکر جاپہنچیں۔‘‘
اور پھر وہ پریاں زمین سے اڑ کر آسمان پر جاپہنچیں۔ بدن کھولنے کے لیے کھڑی ہوکر انہوں نے انگڑائیاں لیں۔ جوانی کی چولیں تڑخیں، طنابیں کھینچیں اور کھڑے سروں کی راگنیاں چھڑیں۔ پھر چولیں بیٹھیں اور یہ چہکتی مہکتی پانی کی چادر اور حوض کے پاس چلی گئیں۔ ہر طرف غزلیں اور ٹھمریاں بکھری ہوئی تھیں۔ یہاں آکر جب عورتیں ایڑیاں اٹھاکر چلتیں اور ان کے دوپٹے اڑتے تو وہ پریاں بن جاتیں۔ نجمہ اور نوری سچ مچ اڑ کر دروازے پر پہنچیں۔ ز بیدہ بھی جفت ساز کو کوستی کوستی آگئی۔ آج اس نے گالیوں کی ساری لغت تمت بالخیر کی۔ وہ چاٹ کھانے لگیں اور لڑکے دور کھڑے انہیں تاکنے لگے۔ چاٹ سے فارغ ہوکر مادھو لال حسین کی خانقاہ کو نکل گئیں۔ زبیدہ کے جذبہ عقیدت نے جوش مارا اور اس نے تربت کا رخ کیا، بمشکل خانقاہ میں داخل ہوئی تھی کہ دور سے ایک لونڈے نے چلاکر کہا، ’’بی بی! مزار کے اندر نہ جا۔ عورتوں کے لیے اندر جانا منع ہے۔‘‘
زبیدہ کو یوں لگا جیسے یہ مادھو لال کی آواز تھی۔ قریب سے گزرا تو لڑکیاں اس خوبرو اور بے ریش لڑکے کو دیکھنے لگیں۔ نجمہ نے نوری سے کہا، ’’گل منڈا ہے۔ مادھو لال سے کم حسین نہیں۔‘‘ زبیدہ ڈر سہم کر باہر آگئی۔ دراصل ڈر خطرہ باہر نہیں تھا، اس کے اندر تھا اور وہ بھی دل میں نہیں، پیٹ میں تھا۔ نجمہ بولی، ’’واہ ری زبیدہ! اس لوفر کی باتوں میں آگئی۔ کیا رکھا ہے ان ڈھکوسلوں میں۔‘‘ لیکن زبیدہ تو انہی ڈھکوسلوں پر ایمان رکھتی تھی۔ باہر کھڑی کھڑی دعا مانگنے لگی۔ دل نے کہا یہ گھڑی ٹل جائے گی۔ ساتھ ساتھ پیٹ فریاد کرنے لگا۔ سہیلیاں ساتھ تھیں ورنہ پیٹ رونے چیخنے لگتا۔ مزار پر جانا اور دعا مانگنا زمانے کی ریت تھی۔ سولڑکیوں نے بھی دعا مانگی۔ لیکن زبیدہ کی طرح ہر وقت گلے میں خانقاہیں نہ لٹکائے پھرتیں۔ لڑکیاں لوٹ آئیں۔ زبیدہ کا سارا بدن ٹوٹ گیا اور اسے جوڑنے کے لیے وہ ڈیڑھ دن بچھونے میں پڑی رہی۔
بیگم پروین کی تسلیوں اور وقت آنے پر ہر قسم کے امداد کے وعدوں میں دن گزرنے لگے اور آخر وہ گھڑی آئی جب بجلی کڑکی اور مینہ نے طوفان باندھا۔ تسلیاں اور امداد کے وعدے اس طوفان کی نذر ہوئے۔ اس کے بھاگ ہی ایسے تھے۔ موسم کو آج ہی برہم ہونا تھا۔ آسمان کی درزوں میں سے شعلے تڑپ تڑپ نکلے۔ زبیدہ کے بدن کی درزوں میں سے بھی شعلے نکلے۔ ریشمیں بدن والی لڑکی پر موت کے مسلسل دورے پڑے۔ اس وقت تو ساری کائنات درد میں مبتلا تھی۔ اس نے ذرا کھڑکی کھولی، بجلیاں گھمبیر اندھیروں کو چیر رہی تھیں۔ دور سے عالی شاہ کا مزار نظرآیا۔ گنبد تلے زبیدہ کی امیدوں کو تاباں رکھنے والے دیے تھے۔ آرزوؤں کو مہکانے والے پھول تھے۔ اس نے اپنی سوچ اور ارمان انہی کے قرب میں بکھیر رکھے تھے اور اس شہزادے کا انتظار کرتی تھی جو اس کی بکھری ہوئی زندگی کو سمیٹ کر گلے سے لگالے۔ پھر کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے ارمانوں کی دھنک پر لے جائے لیکن اس وقت وہ حسین خیال اور آرزو سے محروم تھی۔
اس وقت تو چیخوں کا دوسرا نام زبیدہ تھا۔ وہ موت کی گرفت میں آکر جینے کا جتن کر رہی تھی۔ درد بڑھتا گیا۔ وہ تمام مصائب جو قرب قیامت کے لیے محفوظ تھے، اس کی جان ناتواں پر ٹوٹ پڑے۔ اکیلی بسمل وار تڑپتی رہی۔ کبھی خود کو کھری چارپائی پر پٹختی، کبھی کواڑ سے جھولتی اور کبھی دیوار کے سہارے کھڑی ہوجاتی۔ بال بکھر گئے، حواس اڑگئے۔ زندگی اور موت دونوں میں ٹھنی تھی۔ ان کی کشمکش میں زبیدہ کی ساری قوت چیخوں اور ٹیسوں میں ڈھل گئی۔ سدھ بدھ تھی تو موجودہ لمحے کی جو ٹل نہ رہا تھا۔
پچھلے پہر ایک ننھی سی چیخ سنائی دی او رزبیدہ کی قہرناک چیخیں نکل گئیں۔ روئی کا گرم گرم گالا بدن سے جدا ہوا تو اسے کل پڑی۔ غلاظت کا وہ انبار بھی ڈھلک آیا جس نے اس تازہ گل شعلہ رو کو جسم و جاں بخشے۔ عورت کی زندگی کا یہ سب سے بڑا ارمان زبیدہ کے لیے موت اور تباہی کی علامت بن گیا۔ ایک الاؤ بجھا، دوسرا سلگ اٹھا اور اسے ڈسنے لگا۔ روئی کا گالا الاؤ بن کر اس پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے غیرشعوری طور پر روئی کے گالے کو آلودگی سے پاک کیا لیکن روئی کے گالے کو خبر نہ تھی کہ دنیا کی مہیب ترین آلودگی اب بھی اس بدن سے چمٹی ہوئی ہے اور مشرقی سمندروں کا پانی اسے دھونے سے قاصر ہے۔
کام تمام نہ ہوا بلکہ اس کا آغاز ہوا۔ اس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ روئی کا گالا زمین کے اس بوجھ سے سوا تھا جو فاتح دیوتا نے مفتوح دیوتا اطلس کے شانوں پر رکھ دیا تھا۔ اس نے اسے چھاتی سے چمٹا لیا۔ دہکتا ہوا کوئلہ اس کی روح میں اترگیا۔ وہ دہکتا ہوا کوئلہ لیے گلی میں اترگئی۔ ہر طرف راستے ہی راستے تھے لیکن اس کے لیے ایک بھی راستہ نہ تھا۔ مینہ تھم گیا۔ طوفان رک گیا لیکن اس کے اندر طوفان برپا رہا۔ عظیم اور روشن شہر اسے ذلت و رسوائی اور تاریکی کے سوا کچھ نہ دے سکا۔ کچھ دیر بعد ایک راستہ عیاں ہوا اور سب راستے اس میں آکر مل گئے۔ ایک جگہ آکر رکی۔ کتے کے بھونکنے پر چونکی۔ اسے دنیا کتے کی مانند نظر آئی۔ یہ پرانی حویلی کا کتا تھا۔ وہ بے شعوری میں زور سے چیخی لیکن یہ چیخ حویلی کی مرمریں زندگی کی ریشمیں گدگدیوں میں دب کر رہ گئی۔ اس نے روئی کے گالے کے گرداچھی طرح چادر لپیٹ لی۔ اس کے بدن سے رستی ہوئی لہو کی بوندیں ایڑیاں بھگوکر مینہ کے پانی میں گھلتی رہیں اور قدم قدم پر اپنے عمل کا نشان چھوڑتی رہیں۔
کاش! وہ مرجاتی، مٹ جاتی زمین میں گڑجاتی۔ سیتا کی طرح، اینطیگونی کی طرح، ہیلن کے اس جعلی پیکر کی طرح جو آناً فاناً سچ کی آگ میں جل گیا۔
’’کاش۔ آج کی رات کبھی نہ آتی۔‘‘
اس کا دل یونہی بولتا رہا۔ کتنی بے سہارا تھی وہ! باپ کے بعد دنیا میں اس کا کوئی نہ رہا۔ اندھیری رات کا سناٹا اور ماضی کی کربناک یادوں کا ہجوم!اس کی گزرگاہ پر امید اور فرحت کی ایک کرن نہ تھی۔ ذلت کی جہنم چھاتی سے لگائے نامعلوم مستقبل کی سمت چل رہی تھی۔ آج زندگی اور لہو پانی کی طرح ارزاں تھا۔ عالی شاہ اسے اپنی سمت کھینچ رہے تھے۔ اندھیروں کی آندھی کو چیرتی ہوئی تربت پر پہنچی۔ بھول گئی کہ نجس ہے۔ اس نے اپنی ذلت کی پوٹ پھولوں کی سیج پر ڈال دی۔ موتی کی جھالروں کو چوما، چادر کو منہ پر پھیرا جیسے سرخرو ہونے کی سعی کی ہو، نظام دین کی قبر پر آکر آنسو ٹپکائے اور کنویں کی منڈیر پر فیصلہ کن انداز سے آن کھڑی ہوئی۔ پھولوں کی سیج چیخی اور بجلی کا کوندا اس کے دل میں اتارگئی۔ اس کے اندر چھپی ہوئی نوزائیدہ ماں سناٹے میں آگئی۔ پلٹی اور تربت پر پہنچی۔ اس نے روئی کا گالا اٹھایا اور چھاتی سے لگاکر چلی گئی۔
روشنی اور اندھیرے کی ملی جلی کیفیت میں سے گزرتی گزرتی بیگم پروین کی حویلی پر پہنچی۔ دروازہ کھٹکھٹایا، نوکرانی اوپر سے جھانکی۔ اس نے نیچے آکر دروازہ کھولا۔ بیگم پروین بھی آگئی اور چلاکر بولی، ’’لڑکی ہے یا لڑکا؟ لڑکا ہے تو الٹے پاؤں لوٹ جاؤ۔‘‘ اور پھر ہنس کر کہا، ’’لڑکی ہے تو سو بسم اللہ۔‘‘
’’آپ نے کہا تھا، جب بھی ضرورت پڑے چلی آنا۔‘‘ آنسو تیزی سے ٹپکے اور لفظ مرگئے۔ اس نے روئی کے گالے کو فرش پر دھردیا۔ بیگم پروین نے دیکھ کر تسلی کی اور روئی کا گالا اٹھالیا۔ اسے صوفے پر لٹایا اور زبیدہ سے کہا، ’’بے فکر رہو اور جاکر آرام کرو۔ زیادہ چلنا پھرنا ٹھیک نہیں۔‘‘ وہ روتی روتی آنسو بہاتی لوٹ آئی۔ گھر پہنچی تو ماں یاد آئی۔ چھت پر گئی۔ ماں کہاں؟ وہاں تو دو پھٹی پھٹی آنکھیں تھیں، جو خلا میں جھانک رہی تھیں۔ سانس اکھڑگیا تھا۔ منہ بار بار کھلتا مندتا تھا۔ اس نے پانی کے قطرے منہ میں ٹپکائے۔ ہچکی آئی اوردم پار ہوا۔
اب تک جو ناٹک کھیلا گیا تھا، اس میں ز بیدہ نے فعال ہیروئن کا کردار ادا کیا تھا لیکن اس کے بعد تو وہ سلیپنگ پارٹنر ہوکر رہ گئی۔ بیگم پروین دو وقت آتی۔ اس کی خبر گیری کرتی۔ اس کی نوکرانی آتی۔ حجن دائی پر بھید کھلا تو اس نے بیگم پروین کا کچا چٹھا کھولا اور رازداری کے لیے زبیدہ سے قسمیں اٹھواکر اسے بتایا کہ بیگم پروین اپنے زمانے کی نامور کنجری تھی۔ جوانی ہی میں ایک رئیس کی ملازمت پر چلی گئی اور پھر شرفاء کی آبادی میں حویلی بنواکر اس میں اٹھ آئی۔ یار کے مرنے پر اسے ڈھیرساری جائداد ملی اور آرام و آسائش کی زندگی گزارنے لگی۔ خورشید بائی اس کی سگی بہن ہے۔ وہ اب بھی بازار میں رہتی ہے۔
چلہ کاٹ کر زبیدہ رائل کوچنگ کالج کی توسیع وترقی میں ہمہ تن مشغول ہوگئی۔ بیگم چراغ دین نے اسے بہن بنالیا۔ اس کے کہنے پر اس کے ساتھ رہنے لگی۔ کبھی کبھی پرانے مکان میں جاتی اور اسے جھاڑ پونچھ کر آجاتی۔ کبھی کبھی بیگم پروین کے یہاں جاتی کیونکہ اس نے اپنی زندگی کا سب سے ہول آفریں راز اس کی تحویل میں دیا تھا۔ روئی کا گالا رات دن اس کی سوچ میں تیرتا رہتا۔ جانے وہ کس حال میں ہو؟ کیا بنے گا اس کا؟ کیا مستقبل ہوگا اس کا؟ نظام دین نے بیٹی کے لیے روشن مستقبل کی آرزو کی تھی لیکن بیٹی کی باری آئی تو اس کے پاس کوئی آرزو نہ تھی۔ وہ سراپا سوال تھی۔ سوالوں کا ہجوم رہتا اور وہ کامیاب معلمہ ہونے، رات دن سوالات کے جوابات بتاتے ہوئے بھی اپنے سوالوں کا جواب دینے سے قاصر تھی۔ بیگم پروین جو کچھ اور جتنا بتادیتی صبر و شکر سے قبول کرلیتی۔ وہ اسے دیکھنا چاہتی تھی۔ جب حد سے بڑھ کر بے کل ہوئی اور بیگم پروین اس کے اصرار کی شدت کے سامنے ٹھہر نہ سکی تو خورشید بائی اسے اپنے یہاں لے گئی۔
بازار کی ہیئت اور بے باک عورتوں کو دیکھ کر پریشان ہوئی۔ ایک عالیشان حویلی میں داخل ہوئی جس کی سج دھج قابل دید تھی۔ سبک اور روشن کپڑے پہنے ایک لڑکی صوفے پر نیم دراز تھی۔ دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے ہی دنگ رہ گئیں۔ زبیدہ نے پہلی نظر میں قیصری کو پہچان لیا۔ نقل بمطابق اصل تھی۔ عین اس کی طرح ہر نقش تیکھا۔ ہر خط صحیح، ہر زاویہ دل کش۔ ہنسی تو چاندنی نکھری، کھڑی ہوئی تو سورج ایک نیزے پر آگیا۔ اسے دیکھ کر قلب و نظر کا توازن ڈول جاتا۔ اس کے کنول کٹوروں کا چبھتا ہوا ابھار، اس کی جوانی کی جارحیت ماں سے کم نہ تھی۔ بیٹی نے ماں کو ادھ موا کردیا۔
خورشید بائی نے زبیدہ کو صوفے پر بٹھایا اور قیصری سے مخاطب ہوکر کہا، ’’خاندانی عورت ہیں۔ کالج میں پڑھاتی ہیں۔ ہمیں دیکھنے آئی ہیں۔ ’’قیصری اٹھ کر باورچی خانے میں گئی اور چائے تیار کرلائی۔ اس نے بڑے سلیقے سے چائے پیش کی۔ اس کی صورت، قامت اور تمیزداری دیکھ کر زبیدہ کا دل زور زور سے چیخنے لگا۔ اس نے پوچھا، ’’بیٹی! کچھ پڑھتی بھی ہو؟‘‘
’’ماسٹر صاحب انگریزی اور اردو پڑھاتے ہیں۔ اردو کی غزلیں اور انگلش سانگ میں نے آپ یاد کیے ہیں۔ میں نے مونکیز اور بیٹلز کے کئی ریکارڈ جمع کیے ہیں۔ انہیں اپنی ٹیپ پر بھی اتارلیا ہے۔‘‘
’’بڑی پیاری لڑکی ہو۔ میرے پاس رہوگی؟‘‘
’’امی کب جانے دیں گی۔ ویسے بھی آپ شریف زادی ہیں اور میں جو کچھ ہوں، آپ جان گئی ہوں گی۔‘‘
’’جو کچھ بھی ہو، مجھے قبول ہے۔‘‘
’’ہم یہاں کیچڑ میں رہتے ہیں، کیچڑ میں پلتے ہیں۔ دوسری جگہ رہنا ہمارے بس کی بات نہیں۔‘‘ خورشید بائی نے چرس کا سگریٹ بھرا اور پینے لگی۔ اس نے ماں بیٹی کی باتوں میں دخل نہیں دیا۔ زبیدہ بھی معلمہ تھی اور خورشید بائی بھی۔ زبیدہ کی شاگردیں سینکڑوں تھیں لیکن خورشید کی ایک ہی شاگرد تھی جو زبیدہ کی سب شاگردوں پر بھاری تھی۔ وہ سب مل کر بھی ایک قیصری نہ بناسکتی تھیں۔ زبیدہ جب تک وہاں رہی، شدید اضطراب اور کرب میں مبتلا رہی۔ اسی عالم میں لوٹ آئی۔ حجن بائی سے بات کی۔ اس نے صاف صاف بتایا کہ خورشید بائی لڑکی کو کنجری بنائے گی اور اس کی کمائی کھائے گی۔ وہ تلملاتی رہی۔ سوچ کند ہوگئی۔ بیگم پروین کے یہاں گئی۔ خورشید بھی آئی ہوئی تھی۔
’’کیسے آئی ہو زبیدہ؟‘‘ بیگم پروین نے پوچھا۔
’’کوئی ایسی صورت ہے کہ قیصری مجھے واپس مل جائے؟‘‘
’’کوئی ایسی صورت نہیں کیونکہ تم دونوں کی صورت ایک ہے اور جس راز پر تم نے پردہ ڈال رکھا ہے، وہ فاش ہوجائے گا۔‘‘
’’میں اسے بہن بناکر رکھوں گی۔‘‘
خورشید بائی نے مداخلت کرتے ہوئے کہا، ’’وہ بکاؤ مال ہے۔‘‘
’’میں اسے خریدتی ہوں۔‘‘
خورشید بائی نے اس زور کا قہقہہ لگایا کہ غلام گردش تک گونج گئی، بولی، ’’زبیدہ! یہ میری دکان کا سب سے قیمتی ہیرا ہے۔ اس کی راتیں دن سونے میں تل کر بکیں گے۔ اسے تو عام رئیس بھی نہیں خریدسکتا۔ اس کی پہلی رات کی قیمت پچاس ہزار روپے ہے۔‘‘ زبیدہ کا سرچکراگیا اور وہ کچھ نہ کہہ سکی۔
’’تم تو اس کے بڑھے ہوئے ناخنوں کی قیمت بھی نہیں دے سکتیں۔ اس کے میک اپ کا خرچ نہیں اٹھاسکتیں۔ اس کے ناز و ادا کا مول تمہاری ساری پونجی سے زیادہ ہے۔ ویسے تم خود انمول ہو۔ چاہو تو کنجری بن جاؤ۔ مولا قسم! قصیری سے زیادہ دام لگاوں گی۔‘‘
دنیا کی سب سے اچھی اور سب سے بری چیز عورت ہے۔ زبیدہ پر یہ بھید کھل گیا۔ بیگم پروین نے کہا، ’’اس کا خیال دل سے نکال دو زبیدہ!‘‘ لیکن زبیدہ اس کا خیال دل سے نہ نکال سکی۔ خاموش لوٹ آئی۔ اس کی سوچ کے بھٹکنے کو بہت بڑا خلا پیدا ہوگیا۔ زمانے بھر کے زخم مندمل کرنے والا وقت اس کا ناسور ٹھیک نہ کرسکا۔ قیصری ہر وقت اس کی سوچ میں شعلہ وار مچلتی رہتی۔ ماں کی طرح وہ بھی گوری چٹی تھی۔ اس کی جلد، اس کا پنڈا، تمام لکیریں، مسکراہٹ اور ہنسی بے داغ تھی۔ اس کے بدن کے کسی حصے پر کچھ نہ لکھا تھا لیکن پھر بھی وہ حرام زادی تھی اور خورشید بائی کی زیر نگرانی حرام کاری کی ڈگر پر پڑنے والی تھی۔
اس کی اداسی بیگم چراغ، نجمہ اور نوری کے لیے پریشان کن تھی۔ بیگم چراغ نے سیکنڈ ہینڈ کار بھی لے لی۔ چاروں مل کر سیر کو جاتیں لیکن زبیدہ اداس جاتی، اداس آتی۔ کبھی کبھی تو پڑھاتے پڑھاتے آنسورواں ہوجاتے۔ لڑکیاں پریشان ہوکر پوچھ بیٹھتیں تو کہہ دیتی، ’’ماں باپ یاد آرہے ہیں۔‘‘ بیگم چراغ اسے ہردم دلاسا دیتی۔ اس نے تو یہاں تک کہہ دیاکہ اگر اس کے کالج کی کوئی لڑکی صوبے میں اول آئی تو وہ اسے اپنی گاڑی دے دے گی۔ زبیدہ گاڑی کی خاطر خوب محنت سے پڑھانے لگی اور اس نے دوتین لڑکیاں چھانٹ لیں۔ بدرجہاں سب سے ہوشیار تھی۔ وہ اسے فاضل وقت میں بھی پڑھاتی۔ بدرجہاں نے بھی رات دن ایک کردیے۔ جب دیکھو کتاب لیے بیٹھی ہے۔ بدرجہاں صوبے میں اول تو نہ ہوسکی لیکن زبیدہ نے گاڑی خریدلی۔ ڈرائیونگ اس نے کچھ ماہ پہلے ہما ڈرائیونگ سکول سے سیکھ لی تھی۔
بیگم پروین کے یہاں جاتی تو وہ روکھے پن سے کہتی، ’’تم ناحق بار بار میرے پاس آتی ہو۔ بھلا قیصری میرے پاس ہے۔ ’’اور قیصری جس کے پاس تھی وہ بڑی اونچی اور زور دار شے تھی۔ اس نے جوانی میں بڑے بڑے طوفان اٹھائے۔ بڑی بڑی کشتیاں ڈبوئیں۔ بڑی بڑی حویلیاں منجھدھار میں لڑھکائیں۔ ان کی فتوحات میں راون کی لنکا اور ہیلن کے ٹرائے سے بڑھ کر کھنڈر بکھرے تھے۔ اب جو اس کے کھنڈر ہونے کا وقت آیا تو اسے قیصری مل گئی۔ اس نے بڑی محنت اور جان سوزی سے اسے جوان کیا۔ اس کے روز و شب میں اپنی بیداریاں بھریں۔ اس کے کنوارپن کی پوری پوری حفاظت کی۔ اس کی نتھ پر کسی قسم کے شک و شبہ کا سایہ نہ پڑنے دیا۔ استادوں نے بڑے خلوص اور پیار سے اس کی آواز میں ٹھمریاں اور دادرے بٹھائے۔ گلے میں نور بھرا۔ تب جاکر نیا معشوق تیار ہوا۔
نائکہ نے محلوں اور حویلیوں کو برباد کرنے اور انسانوں کے کھنڈروں پر چلنے کے گر سکھائے۔ اس کے ناچنے پر کائنات میں دھنک کی ہفت رنگ تلواریں کھنچ جاتیں، گانے پر گروہ عاشقاں لڑکھڑانے لگتا۔ خورشید بائی نے اس کی آواز اور بدن کے لوح سے دوسال میں سرخ اور سفید پتھر کی بہت بڑی حویلی تعمیر کی۔ یہ قیصری تھی، زبیدہ نہ تھی جس کی نتھ مفت کھلی اور چھری تلے رکھ کر کھولی گئی تھی۔ زبیدہ افلاس کی آغوش میں پلی تھی، قیصری بھوکی امنگوں اور برستے ہوئے ہن کی چھاؤنی میں رہتی تھی۔ قیصری جوان ہوکر بڑے بڑے نامور لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو رہی تھی، زبیدہ صرف اپنی پہنچ میں رہتی تھی۔
وقت نے زبیدہ کی سوچ پختہ اور دل پتھر کردیا۔ ادھر بیگم پروین کے چٹے بالوں نے اس کے دل کی سیاہی چاٹ لی۔ اس نے زبیدہ کے جس مسئلے کو اپنی دانست میں ختم کرڈالا تھا اسے پریشان کرنے لگا۔ اسی کا اثر تھا کہ وہ مولوی صاحب سے قرآن پاک پڑھنے لگی۔ قیصری بڑی اونچی چیز بن گئی اور اونچی اونچی بولیاں دینے والے بڑے بڑے لوگوں کی پہنچ سے باہر چلی گئی۔ بڑے بڑے کلبوں اور ہوٹلوں میں جاکر ناچتی۔ خورشید بائی جھولیاں بھر بھر روپیہ لاتی۔ بڑے بڑے اسمگلر جو ہتھیلی پر جان رکھ کر نکلتے اور کھڑی موت سے ٹکر لیتے، اس کی دہلیز پر آکر سر رکھ دیتے۔ بڑے بڑے رئیس مجراخانے میں یوں روپیہ لٹاتے جیسے یہ ٹھیکریاں ہوں۔ پھر ایک دن زبیدہ کو خبر ملی کہ قیصری رائل میں ننگی ناچی ہے۔ اس کی تو روح میں انگارے تیرگئے۔
وقت بڑی تیزی سے نکلا جارہا تھا۔ قیصری ننگی ناچی ہے تو ناچتی رہے گی اور جب نتھ کھلی تو شارع عام بن جائے گی۔ زبیدہ کی آنکھوں میں خون اترآیا۔ قوت برداشت ختم ہوئی۔ کار میں بیٹھی اور خورشید کے کوٹھے پر پہنچی۔ مجراخانے میں قیصری نیم عریاں لباس پہنے فلمی اسٹائل میں ناچ رہی تھی۔ جو گیت گا رہی تھی اس کے ایک ٹکڑے کا مفہوم یہ تھا کہ پانی پل تلے ہی سے گزرتا ہے۔ اس کے ادھ ننگے ناچ سے تماش بینوں کے ہوش و خرد کا تیاپانچہ ہو رہا تھا۔ زبیدہ بھی کسی کا تیاپانچہ کرنے آئی تھی۔ بے آواز گولی چلی اور قیصری چاندنی پر گر کر ڈھیر ہوگئی۔ استاد اور تماش بین سناٹے میں آگئے اور زبیدہ اس سناٹے میں وہاں سے نکل گئی۔ پرانی حویلی پر آئی۔ بگابلڑ کو پھاٹک پر کھڑا دیکھ کر اس نے اندھیری جگہ کار روکی اور ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔ وہ پاس آیا تو اس نے کہا، ’’جاگیردار کو بلاؤ۔‘‘
’’آپ کون ہیں؟‘‘
’’ان کا نیا معشوق۔‘‘ بگابلڑ ہنسا۔ اس کی جدوجہد کے بغیر نیا معشوق کہاں سے آگیا؟ بہرحال وہ جاگیردار کو بلا لایا جسے دیکھتے ہی زبیدہ بھڑکی۔ اس نے کہا، ’’تم بے غیرت ہو!‘‘
’’کون ہو تم؟‘‘
’’یہ مت پوچھو کہ میں کون ہوں! یہ جانو کہ تمہاری بیٹی کلب میں ننگی ناچے اور تم خبر نہ لو۔‘‘
’’میری ایسی کوئی بیٹی نہیں جو ناچنے کا دھندا کرتی ہو۔‘‘
’’وہ بیٹی جسے زبیدہ نے جنم دیا تھا، یہی دھندا کرتی ہے۔‘‘
’’کہاں ہے وہ؟‘‘
’’جہاں تمہیں ابھی جانا ہوگا۔‘‘
’’کیا مطلب؟‘‘
’’تم مطلب نہیں سمجھے؟ کوئی آدمی اپنے گناہوں کا حساب چکائے بغیر دنیا سے نہیں جاسکتا۔‘‘
’’تم کیا بک رہی ہو؟‘‘
گولی چلی اور جاگیردار کے بدن میں پیوست ہوکر اس کا حساب چکا گئی۔ چند سال پہلے جاگیردار نے اس کے پیٹ میں گناہ کی تلوار بھونکی تھی۔ آج اس نے حرام زادے کی دراز رسی کاٹ دی۔ وہاں سے فارغ ہوکر زبیدہ اپنے گھر آئی۔ اس کمرے میں گئی جہاں روئی کے معصوم گالے نے اس کی زندگی دولخت کی تھی۔ دوروز پہلے وہ گھر آکر ہر گوشہ روشن اور ہر شے اجلی کر گئی تھی۔ یہاں کوئی نہ تھا۔ کبھی یہاں نظام دین اپنی بیٹی کے مستقبل میں امنگوں کے تانے بانے بننا تھا لیکن ایک ننھی سی چیخ نے تمام امنگیں ریزہ ریزہ کردیں! اس کے کانوں میں چیخیں گونجنے لگیں۔ پورا گھر چیخوں سے لبریز ہوگیا۔ ان چیخوں میں لپٹا ہوا روئی کا گالا پروان چڑھنے لگا۔ روئی کا گالا جوان ہوکر فتنہ محشر بن گیا۔ فتنہ محشر بن کر ناچنے لگا۔
اس کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اس نے جان لیا کہ وہ دنیا میں چند کانٹے، چند انگارے اور چند گالیاں لینے آئی تھی۔ یہی اس کی زندگی کا مقصد تھا جو پورا ہوا۔ اب جینے سے حاصل؟ اس کا کوئی نہ رہا۔ جب کوئی نہ رہے تو کوئی کیسے جیے، کیوں جیے، کس لیے جیے؟ اس نے کھٹکا دبایا اور نظام دین مرحوم کی امنگیں عین اس جگہ ڈھیر ہوکر رہ گئیں جہاں ایک دن روئی کے گالے نے جنم لیا تھا۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.