پھولپور واقعہ پھولپور تھا۔ جمناندی کے کنارے بسے اس چھوٹے سے قصبے میں میلوں تک رنگ برنگے خوشنما گلابوں کی فصلیں لہلہاتیں، پرندے چہچہاتے، قمریاں گیت گاتیں، تتلیاں رقص کرتیں اور بچے ان تتلیوں کے پیچھے دوڑتے دوڑتے بچپن سے جوانی تک کا سفر یوں ہی طے کر لیتے۔
پھول پور قصبے کی کل آبادی بیس ہزار کے قریب تھی۔ اعلیٰ ذات ہندوؤں جن میں برہمن کائستھ اور اگروال شامل تھے، ان کے علاوہ بہت سے دلت خاندان بھی آباد تھے لیکن اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ حالانکہ اس کا احساس کبھی کسی کونہیں ہوا۔ شاید اس لیے کہ پھول پور کی سب سے بڑی خوبی محبت اور آپسی میل جول تھا۔ یہاں گھر گھر پیار بستا تھا۔ تیج، رام نومی، جنم اشٹمی، عید، محرم، ہولی اور دیوالی سب مل جل کر مناتے تھے۔ کرشن اور رام لیلاؤں کے اسٹیج بھی ہربرس سجتے تھے۔ میلوں ٹھیلوں کا ذوق بھی اس قصبہ کی پرانی روایت میں شامل تھا۔ ایسے موقع پر آس پاس کے گاؤں سے بھی چھوٹے موٹے دکاندار ریڑھی ،خوانچہ، کرتب اور جھولے والے آکر اس پھول پور کی رونق کو اور بڑھا دیتے تھے۔
جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کے بعد پھول پور کی یہ کھیتی مسلمانوں کے حصہ میں آئی تھی جو شیخ تھے۔ سیدھے سادے ایماندار اور محنتی۔ ان کی محنت اور ایمانداری کی بدولت کا شتکاری کا یہ پیشہ اب ان کی تیسری نسل کو منتقل ہو چکا تھا، جس کے وارث تین بھائی میرعبداللہ، شاہ عبداللہ اور شیخ عبداللہ تھے۔ تینوں بھائیوں کی محنت میں جدید ٹکنیک شامل ہونے سے پھولوں اور اناج کی ان فصلوں سے ہن برسنے لگا تھا۔ سیکڑوں لوگ جن میں مسلم، ہندو اور دلت شامل تھے، کی روٹی روزی اس کھیتی سے جڑی ہوئی تھی۔
پھول پور میں رہنے والے برہمن اور کائستھ زیادہ تر کاروباری تھے۔ چھوٹی بری صنعتیں اورسونے چاندی کی دکانیں قصبے کے علاوہ شہروں میں بھی تھیں۔ کئی کی اولادیں پڑھ لکھ کر شہر میں بس گئی تھیں۔ کئی خاندانوں کی گؤشالائیں تھیں۔ قصبے کے بازار میں چھوٹی سے چھوٹی اوربڑی سے بڑی اشیا کی دکانیں زیادہ تر اگروال لوگوں کی تھیں۔ کچھ خاندان کے مرد سورج طلوع ہونے سے پہلے ہی پھیری کے لیے شہر کا رخ کرتے اور سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے اپنے آشیانوں کو واپس لوٹ آتے۔
پھول پور میں محبت، پیار اور بھائی چارے کی بےمثال نشانی یہاں کا مرلی بازار ہے۔ کچھ برس پہلے جب آبادی کم تھی اور دور تک جنگل آباد تھا جنم اشٹمی کے میلے میں کہیں سے بانس کی مرلی بنانے اوربیچنے والے چودہ پندرہ برس کے دو لڑکے آتے تھے جو مرلی بنانے کے ساتھ ساتھ مرلی بجانے کے ہنر میں بھی ماہر تھے۔ پورا قصبہ ان کی مرلی سے لطف اندوز ہوتا۔ بچے تو دیوانے ہو جاتے۔ آہستہ آہستہ وہ ہرمیلے میں آنے لگے۔ قصبہ والوں سے ان کی اچھی جان پہچان ہو گئی۔ پھرانھوں نے بانس کی ایک جھونپڑی بناکر یہیں ڈیرہ ڈال لیا اور بس یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ کئی برس بعد پتہ چلا کہ وہ بھائی نہیں بلکہ دوست ہیں۔ ایک کا نام اکبر اور دوسرے کا مرلی———اب قصبے کا یہ جنگل چھوٹی چھوٹی دکانوں سے بڑا بازار بن چکا تھا اور مرلی بازار کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ پچھلی ایک دہائی سے قصبے میں تیزی سے ترقی ہوئی تھی۔ مندر، مسجد اور اسکولوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا تھا۔ سرکاری ڈسپنری بھی کھل گئی تھی، جس سے قصبے والوں کوبڑی راحت ہوگئی تھی۔ آہستہ آہستہ ترقی کے راستے شہر کی راہوں سے ہموار ہونے لگے تو پھول پور کی قسمت ہی جاگ گئی۔ اب اعلیٰ ذات ہندوؤں کے علاوہ کاشت کاروں اور دلتوں کے بچے بھی اسکولوں میں پڑھنے لگے تھے۔ کئی تواسکول کے بعد شہر کے کالجوں میں بھی پہنچ گئے تھے۔
خوشیوں اور خوشبوؤں سے لہلہاتے اس بھرے پرے پھول پور میں کب کیوں اور کیسے شہر کی گرم ہواداخل ہو گئی، کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔ بار بار جب مندر کے اونچے چبوترے سے تقریروں کی آوازیں کانوں میں پڑیں تو گرم ہواؤں کی شدت کا احساس ہوا۔
’ہم نے یہ سبھا اس لیے بلائی ہے کہ آپ کو پرستتھی سے اوگت کرا سکیں۔ ہم آپ کو بتاسکیں کہ آپ بھی اس دیس کا ابھن انگ ہیں۔ آپ نے سدیو سماج کی سیوا کی ہے۔ اس دیس کے لیے ہی سارے خطروں کا ڈٹ کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن بدلے میں کیا ملا؟ سوتنترتا آپ کا بھی حق ہے۔ آپ اب بھی چاکری کر رہے ہیں، غلاموں کا جیون ویتیت کر رہے ہیں۔ دلت ورگ ہمارا کندھا ہے۔ ہم نے ورشوں کی اس غلامی کو ختم کرنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ آج جبکہ دلت اور ہندو دونوں ہی خطرے میں ہیں، ہمیں اور نکٹ آنے کی آوشیکتا ہے تاکہ موجودہ خطروں سے نپٹا جا سکے۔ آزادی کے اتنے ورش بیت جانے کے بعد بھی ہم غلام ہیں۔ ملیچھوں نے ایک ہزار ورش سے ہم سب کو بندی بنا رکھا ہے۔ یہ لہلہاتی کھیتیاں اور پھولوں کی فصلیں جہاں آپ مزدوری کرتے ہیں، آپ کی ہوتیں، آپ کی۔ اب سمے آ گیا ہے اپنا حق چھین کر حاصل کریں یا پھر انھیں اکھاڑ پھینکیں۔ ہمیں شدھ واتاورن چاہیے۔ ہندو دھرم کا رکھشک ہونے کے ناطے ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ سب کی رکھشا کریں۔ آپ کا ادھیکار آپ کودیں۔ ہم ایک دوسرے کی طاقت ہیں۔ اس سلسلہ میں آپ کو ہر طرح کی مدد ملےگی۔ سرکار کا وعدہ ہے، ہندوستان ہمارا ہے۔‘
موہن پٹیل اپنی تقریر ختم کرکے چبوترے سے نیچے اترآئے۔ مسکرا مسکرا کر لوگوں کے کندھے تھپتھپاتے ہوئے گاڑی تک پہنچے تو موہن پٹیل زندہ باد، موہن پٹیل زندہ باد کے نعرے گاڑی اوجھل ہونے تک سنائی دیتے رہے۔ پھول پور کو شہر سے ملانے والی سڑک پرلال کوٹھی میں دس بارہ برس سے موہن پٹیل رہتے تھے۔ کئی برس تک تو کسی کو پتہ ہی نہیں چلا کہ یہ کوٹھی کب بن گئی اوراس میں کون موہن پٹیل کہاں سے آکر بس گئے۔ لیکن آہستہ آہستہ یہ بات سامنے آئی کہ قصبے کی ترقی کے سارے کام سرکار سے انھوں نے ہی کرائے ہیں۔ تب قصبے کے سارے لوگ ان کی عزت بھی کرنے لگے اوراپنی پریشانیاں بھی جاکر بتانے لگے۔ پچھڑے دلت طبقے پر ان کی خاص نگاہ تھی۔ پارٹی کے لوگوں میں دلت طبقے کے اننت رام بھی شامل تھے تاکہ وہ اپنے لوگوں کی پریشانیاں پٹیل جی کو جاکر بتائیں اور پٹیل جی ان کی مدد کر سکیں۔
لیکن جب مندر کے اونچے چبوترے سے مسلمانوں کو ملیچھ کہہ کر ان کی کھیتیوں پر قبضہ کرنے یا پھر اکھاڑ پھینکنے کی باتیں سنیں تو مسلمانوں کے ہوش اڑ گئے۔ انھیں اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ محبت سے لبریز دل، پیار کی میٹھی زبان اور محنت کش ہاتھوں والی جس نسل نے پھول پور کو اپنے خون پسینے سے سینچا تھا کیسے یقین کریں کہ ان کے خلاف سازشیں کی جارہی ہیں۔ برسہا برس سے اپنے اجداد کی کھیتی سنبھالتے میر عبداللہ کو لگامانو ان کے ہاتھ پیرکاٹ کر الگ کر دیے ہیں۔ قصبے کے کچھ معتبر افراد کو جمع کرکے دونوں بھائیوں کے سامنے میر عبداللہ نے اس زہریلی آندھی کے نتائج پر غور کیا تومایوسی ہی ہاتھ لگی۔ پھولپور ہمیشہ سے ان کے لیے ایک بڑے خاندان کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس خاندان میں رہتے بستے سارے لوگ ان کے دکھ درد اور خوشیاں سب کچھ ان کا اپنا تھا۔ ان کے خلاف کیسے سوچا جاسکتا تھا ۔ انھوں نے کوشش کی کہ آپس میں بات چیت کرکے پیدا کردہ غلط فہمیوں کو دور کر لیا جائے۔ دوتین مرتبہ کچھ معتبر لوگوں کو لے کر وہ قصبے کے معزز گھرانوں میں گئے تو ایسی تکلیف دہ اجنبیت کا احساس ہوا۔ تب وہ پہلی مرتبہ بڑی بے دلی سے موہن پٹیل کی لال کوٹھی پر پہنچے۔ وہ سمجھ چکے تھے ۔ پھولپور قصبے کی طاقت اب کئی حصوں میں بٹ گئی ہے اور وہ کمزور ہو چکے ہیں۔
موہن پٹیل: ’آؤ میرعبداللہ ہمارے بھاگ، آپ اس نردھن کی کٹی میں پدھارے۔ کیسے یاد آ گئی ہماری؟‘
میرعبداللہ: ’ہاں بھائی آناہی پڑا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے پھول پور کی خوشبو کچھ لوگوں کو راس نہیں آرہی اوروہ آب وہوا کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔ کوئی شکوہ شکایت ہے تو آپس میں بیٹھ کر بات کرنے سے مسئلہ بھی حل ہو جائےگا اور پیارمحبت کا ماحول بھی بنا رہے گا جو اس قصبہ کی خوبی ہے۔ محبت ہمارا ایمان ہے اور ہم اس کے شیدائی ہیں۔‘
موہن پٹیل: ’نہیں مائی باپ آپ تو اس قصبہ کے مالک ہیں۔ میری کہاں مجال جو کسی معاملہ میں ٹانگ اڑاؤں اور کوئی سیوا میرے لائق ہو تو سرکے بل حاضرہو جاؤں گا۔
میر عبداللہ نے بات اور بات کی دھارکا اندازہ بخوبی لگا لیا تھا۔ جب وہ لال کوٹھی سے باہر نکلے تو فروری کی سردشام میں بھی اندر تک پسینہ سے شرابور تھے۔ پہلی مرتبہ انھیں احساس ہوا کہ ان کے چاروں طرف رنگ برنگے خوشبودار گلاب کی فصلوں میں صرف کانٹے ہی کانٹے رہ گئے ہیں۔ بہت تیزی سے برسوں سے شناسا چہرے ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوتے چلے گئے۔ فاصلے بڑھے تو رشتے ناطے اور ان کے بندھن ریشم کی ڈور کی طرح پھسلتے چلے گئے۔ ہولی، دیوالی اور تمام تہواروں کے رنگ بدل گئے۔
پھر ایک دن شورمچا کہ بڑے مندر کی سیڑھیوں پر کسی نے گوشت پھینک دیا ہے بس پھر کیا تھا۔ اس گوشت پھینکنے والے کو گھر گھر تلاش کیا گیا۔ کچھ نہ ملنے پر ہر ملیچھ کے گھر ہولی جلائی گئی۔ چیخ پکار، آہیں، سسکیاں کچھ شور میں گم ہوئیں تو کچھ جل کر راکھ ہو گئیں۔ مخالف سمت سے چلنے والی یہ آندھی اتنی تیز تھی کہ مقابل کے پاس اسے روکنے کا کوئی سامان تھا نہ کوئی ذریعہ۔
پھول پور کی زمین اور ہوا شدھ ہو گئی۔ اونچ نیچ اورذات پات کے تمام فرق مٹ گئے۔ جیت کے دیے روشن کرکے جشن منائے گئے لیکن بستی کو یہ ہوا راس نہیں آئی۔ گدھوں نے ڈیرہ ڈال لیا۔ جہاں دور دور تک کھیتیاں لہلہاتی تھیں ناگ پھنی نے پھن پھیلا لیے تھے۔ مرلی اور اکبر کی بانسری بھی خاموش ہو گئی تھی اور پھر ہوا ہوں کہ——— جن کو اشدھ سمجھا جاتا تھا وہ کندھے سے کندھاملا کر چلنے لگے۔ ملیچھوں کا لوٹا ہوا سامان اور زر زمین پاکر ان کے جینے کا ڈھنگ بدلنے لگا۔ آہستہ آہستہ سیاسی میدان میں بھی ان کے قدم جمنے لگے۔ اب طاقت ان کے ہاتھ میں تھی اور اس طاقت کا نشہ ان کے سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔
اعلیٰ ذات ہندوؤں نے اس کی بو سونگھ لی تھی۔ دلت طبقہ ان کے لیے اب ایک لمحۂ فکریہ بن گیا تھا۔ بدلتی ہواؤں کا رخ پٹیل جی نے بھی محسوس کر لیا تھا۔ ان کا ماتھا ٹھنک گیا۔ خفیہ میٹنگیں ہونے لگیں۔ موہن پٹیل نے دلت پارٹی کے نیتااننت رام کو بلا کر بدلتے حالات پر تبادلۂ خیال کیا۔ پرانے تعلقات کی دہائی دی۔ اننت رام نے بھی جی حضوری میں کوئی کمی نہیں کی۔ وہ جو کچھ تھا انھیں کی بدولت تھا۔ اس نے یقین دلایا کہ وہ حالات پر قابو رکھےگا۔ لیکن موہن پٹیل کے باقی ساتھی اننت رام کی میٹھی میٹھی باتوں سے مطمئن نہیں تھے۔
ایک دن اعلیٰ ذات ہندوؤں کے کچھ لوگ پٹیل جی کے پاس پہنچے اور انھیں باہر کے حالات سے آگاہی دی اور مدد بھی چاہی۔
’پٹیل جی، اب تو ان کی ہمت اتنی بڑھ گئی ہے کہ آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتے ہیں۔ کندھا اونچا کرکے چلتے ہیں۔ چاروں طرف غنڈہ راج چل رہا ہے۔ بہو بیٹیوں کا باہر آنا جانا مشکل ہو گیا ہے۔ ہرروز کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ان کی کنیائیں اونچے کل کے لڑکوں کو اپنے چنگل میں پھنسالیتی ہیں۔ آپ تو جانتے ہیں پچھلے تین ورش میں پانچ کیس اسی طرح کے ہو چکے ہیں۔ اپنا کل بچانا مشکل ہو رہا ہے۔ سرکاری رعایت کی وجہ سے پہلے ہی ہر میدان میں ان کا بول بالا ہے۔ آپ کی ڈِھلائی سے ان کے قدم اور جم گئے ہیں۔ ذرا سوچئے! پٹیل جی، ہمارے بچوں کا بھوشیہ کیا ہوگا! کچھ کرئیے پٹیل جی کچھ کرئیے۔ انھیں پاٹھ پڑھانا ضروری ہو گیا ہے۔ یہ ہم پر حاوی ہوتے گئے تو کایا پلٹ سکتی ہے۔ آنے والا کل بہت بھیانک اور خطرناک ہوگا۔ یہ افسر ہوں گے اور ہماری سنتانیں ان کی چاکری کریں گی۔ اس سے تو پہلے ہی ٹھیک تھے۔‘
اتنی ساری باتیں سن کر پٹیل جی کے ماتھے پرفکر کی لکیریں کچھ اور گہری ہوگئیں لیکن انھوں نے لوگوں کو یقین دلایا:
’وہ ہر طرح ان کی حفاظت کریں گے، حالات سے مقابلہ کے لیے کوئی نہ کوئی اپائے اوشیہ کریں گے‘ آ پ چنتا نہ کریں سنتُشٹ رہیں، ورنہ حالات اور بگڑ سکتے ہیں۔ آپ کی بہو بیٹیاں میری بہو بیٹیاں ہیں۔ بس آپ سب اپنے اپنے گھروں کو جائیں۔‘
دوسرے ہی دن پٹیل جی نے پارٹی کے لوگوں کی خفیہ میٹنگ بلائی۔ حالات پر قابو رکھنے کے لیے کڑے منصوبے بنائے اور سب کو اپنا اپنا کام کرنے کی ہدایت دی۔ اس سے پہلے کہ پٹیل جی کے منصوبے پایۂ تکمیل کو پہنچتے، اننت رام کا حکم صادر ہو چکا تھا۔
پورے قصبے میں جنگل کی آگ کی طرح یہ بات پھیل گئی کہ موہن پٹیل کی اکلوتی بیٹی کا اپہرن ہو گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے قصبہ پولیس چھاؤنی میں تبدیل ہو گیا۔ قصبے سے شہر جاتی شاہراہ پر بیٹی کی نچی کھسٹی لاش ملی تو پٹیل جی یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ ان کو سیویرہارٹ اٹیک آیا۔ ایک طرف بیٹی کی لاش پوسٹ مارٹم کے لیے جا رہی تھی تودوسری طرف ایمبولینس پٹیل جی کو لے کر شہر کی طرف فل رفتار سے دوڑ رہی تھی۔ ٹی وی پر بار بار بریکنگ نیوز چل رہی تھی ’پھول پور کے جانے مانے نیتا موہن پٹیل کی بیٹی کا اپہرن، بلاتکار اور ہتیا۔‘
اف گردش دوراں... دودو ارتھیاں... ایک ساتھ... لیکن حیرانی اس بات پر تھی کہ اگلی صبح ہر روز کی طرح ادھر مسجدوں میں اذانیں ہوئیں تو ادھر مندروں میں گھنٹیاں بجیں۔ سورج طلوع ہوا۔ دیکھا ہر کوئی مرلی بازار کی طرف بھاگا جا رہا ہے اور بھیڑہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ لوگ وہاں کا منظر دیکھ کر ششدر تھے کہ اکبر اور مرلی اپنے بوڑھے کنٹھ سے بانسری لبوں پر ٹکائے ایسا سریلا جادو بکھیر رہے تھے مانو ساکشات کرشن دھرتی پر اتر آئے ہوں۔ قصبے کی اس بھیڑ میں میر عبداللہ، شاہ عبداللہ اور شیخ عبداللہ بھی آنکھیں بندکیے مرلی کے سرور میں مست تھے۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.