Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

ایڈز

MORE BYخورشید حیات

    اور پھر وہ دن بھی آیا۔۔۔

    جب مجھے اپنا گاؤں، اپنا شہر اور اپنا ملک چھوڑنا تھا۔ جیسے جیسے ہوائی جہاز کی روانگی کا وقت قریب آ رہا تھا۔ میری تو جیسے جان ہی نکلی جا رہی تھی۔ میں نے اندر سے ٹوٹے پھوٹے، بکھرے ہوئے اور اوپر سے صحیح و سالم جسم کے اندر دھڑکتے ہوئے دل کو سمجھایا, پھر اپنے گاؤں اپنے شہر اور اپنے ملک, ہر ایک کو چھوڑتا ہوا اس سر زمین پر جا پہنچا جو برسوں سے آشی کے لئے ہی سہی زندگی کا نصب العین بنی ہوئی تھی۔

    لندن کا ہوائی اڈہ دور سے مشینی زندگی کا تعارف پیش کر رہا تھا اور کشتیٔ حیات ٹربو لینٹ موشن میں رواں تھی۔ چاروں طرف آسمان کو چھوتی ہوئی عمارتیں، بھاگ دوڑ، چمک دمک، مشینی زندگی اور ان سب کے درمیان لوگوں کی مصنوعی ہنسی۔

    جہاز سے اترتے ہی مجھے لگا کہ میں نے باہر کا کچھ پایا ضرور ہے۔ لیکن ساتھ ہی اندر کا کچھ ایسا اپناپن کھو دیا ہے جو زندہ رہنے کی پہلی شرط ہوا کرتی ہے۔ آشی ان باتوں سے بے خبر تھی۔ کئی مرتبہ چڑیوں کی طرح چہکتے ہوئے اس نے میرا دھیان موڑنا چاہا۔ لیکن میرے چہرے کے بدلتے ہوئے رنگ کو دیکھ کر اکیلے ہی نئی زندگی کو محسوس کرنے میں گم ہو گئی۔

    ریموٹ کنٹرول

    ٹی۔ وی۔

    رقص

    پرچھائیاں

    ---

    ---

    ہم سب کی پرچھائیاں دھیرے دھیرے انلارج ہونے لگیں۔ پھر انلارج ہوتے ہوتے ایک عالیشان عمارت میں گم ہو گئیں۔ کمپنی کی طرف سے جو فلیٹ ملا تھا۔ نہایت ہی خوبصورت تھا۔ ایک خوبصورت گارڈن، سوئمنگ پول اور احاطہ سے باہر گاڑیوں کی آمد و رفت!

    ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر باہر کے مناظر آسانی سے دیکھے جا سکتے تھے۔ کیونکہ اس کی کھڑکیاں پورب، پچھم، اتر اور دکھن کی طرف کھلتی تھیں۔

    میں ابھی پچھم کی طرف کے مناظر کو دیکھ ہی رہا تھا کہ ایک چڑیا سیلنگ فین سے ٹکرا کر دم توڑ دیتی ہے۔ چڑیا کمرے میں کیسے آئی اور پھر اس کی موت۔۔۔؟

    موت لفظوں کی ہو یا چرند و پرند کی اس پر ہمارا اختیار کہاں؟

    چاند پر ہم اپنے قدموں کے نشان تو چھوڑ آئے۔ مگر دو گز زمین پر ہمارا کوئی اقتدار نہیں۔

    الّلزی نہ اللّزی۔

    ----

    ہم لوگوں کو لندن میں آئے ہوئے دو ماہ ہو گئے تھے۔ دن بھر مشینوں جیسی زندگی۔ ہر جگہ بناوٹی تعلق، کوئی بھن ایسا نہیں جس سے دو منٹ بیٹھ کر گفتگو کی جا سکے۔ یہاں تک کے اپنے علاقہ کے لوگوں کی یہ حالت تھی تو غیروں سے کیا شکوہ۔ سبھی ایک ہی رنگ میں رنگ چکے تھے اس بندھے ٹکے ماحول میں اکثر میں حسین یادوں میں کھو جاتا۔

    بسکومان کی سروس، شام میں دوستوں کے قہقہوں کے بیچ وقت کیسے گزر جاتا پتا ہی نہیں چلتا۔ وہ لمبی چوڑی بحثیں اب بےمعنی لگنے لگی تھیں۔ یہاں تو سب کچھ بندھا بندھا سا تھا۔ زندگی ایک دائرے میں محدود۔ ہنسنا بھی دھیرے سے ہوتا، جیسے اس پر بھی پابندی ہو۔ ایک وقت وہ تھا جب بارات گئے تک ببلو کو کہانیاں سنایا کرتے تھے اور ببلو کی حالت یہ تھی کہ بابا سے کہانی سنے بغیر اسے نیند نہیں آتی تھی۔ لیکن یہاں اسے کہانیاں سنانے والا کوئی بابا نہیں تھا۔

    حال

    مستقبل

    ماضی

    آشی، ببلو، بابا اور میں۔

    بس یہی تو تھا چھوٹا سا پریوار۔ ایک مڈل کلاس طبقے کی زندگی گزر رہی تھی۔ لیکن آشی کسی بھی طرح مڈل کلاس طبقے کی زندگی گزارنے کو تیار نہیں تھی۔ وہ بات بات میں بگڑتی، تانے دیتی اور زور دیتی کہ غیر ممالک چلے چلئے۔ اپنے ملک میں کیا رکھا ہے۔ اس نے بڑا بابو، ماسٹر جی ان تمام لوگون کی زندگی کا حقیقی رنگ دیکھا تھا۔ کڑی محنت کے باوجود تنخواہ اتنی کم ہوتی کہ زندگی گزارنا مشکل ہی نہیں ناممکن تھا۔ اس نے ان لوگوں کی زندگی کا بھی ایک رخ دیکھا تھا جن کے مکانوں کی چھت نہیں ہوتی اور جہاں لوگ خون تھوکتے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ آشی, زندگی کی چکّی میں پستے ہوئے طبقے کی زندگی گزارنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اپنی خواہشوں کا دم گھٹتا ہوا دیکھنے کو بھی تیار نہیں تھی۔ جب دولت کی فراوانی ہوگی تو سوسایٹی میں مقام بھی بلند ہوگا۔

    حال

    ماضی

    مستقبل

    میں نے کئی مرتبہ اس زندگانی سے دور بھاگنے کی تمنا کی مگر میں اپنی کوششوں میں ناکام رہا۔ اشی کی خوشیوں کا خیال رکھنا تھا۔ کیوں کہ اس کا رشتہ اس شہر اور ملک سے سگما بونڈ سے جڑا تھا۔

    مجھے اپنے قریب بلا لو بابا اور الف لیلیٰ والی داستان اپنے ببلو کو سناؤ کہ وہ سونا بھول گیا ہے۔

    میرے پاس تو کہنے کو کچھ بھی نہیں۔ میرے جسم کا ایک ایک حصہ مشین میں تبدیل ہو گیا ہے جو کسی ریموٹ کنٹرول کے اشاروں پر اپنا کام کر رہا ہے۔ ابتداء میں وہ اور میں کے درمیان زبردست جنگ ہوتی رہی آخرکار میرے میں کی شکست ہو گئی اور وہ۔۔۔؟

    وہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی کہ وہ مجھے جس طرح چاہ رہا تھا استعمال کر رہا تھا۔ میرے ہاتھ پاؤں سب اس کے اشارے پر اپنا کام کر رہے تھے- اس کے با وجود وہ, ہاں وہ مسکرا رہا مگر تسکین کا کوئی نیا سامان بھی ایجاد کرنا تھا۔ ہم سے پہلے وہ سامان وہاں مہیا تھے۔ ایک دو بار استعمال کے بعد جسم نے تسکین پائی دماغ کو لذّت ملی۔ مگر لذت لذت کے لئے تڑپتی رہی اور اس نے انفنیٹو کے حدود چھو لئے تھے کہ جس منزل پر پہنچ کر صرف سراب ہی سراب تھا۔ سراب میں بھی لذت ہوتی ہے۔ مگر میں ایڈز کا شکار ہو چکا تھا اور ہسپتال کے ایک کونے میں پڑا سوچ رہا تھا کہ جدید دنیا نے مجھے سب کچھ دیا۔ مگر جسم کے اندرون کی طاقت چھین لی۔ جسم کی فوج آج آخری شکست کھانے والی تھی۔ بیرونی کمک بھی اس کے کام نہیں آ رہی تھی۔ بلڈ ٹرانسفیوژن کا عمل جاری تھا اور میرا ذہن خلاء میں پرواز کر رہا تھا کہ شاید جیتے جی میری یہ تمنا راس نہ آئی تھی۔ قدرت نے اس کا آج پاس رکھا تھا اور میرا ببلو بغل میں کھڑا یہ سوچ رہا تھا کہ آنے والا کل کہیں اس سے انتقام نہ لے۔

    وقفہ

    ۔۔

    ۔

    ۔۔

    سائرن کی آواز۔

    مردہ لے جانے ٹرالی وارڈ میں داخل ہو رہی تھی اور ڈاکٹر اپنے چہرہ سے ماسک ہٹاتا ہوا باہر جا رہا تھا۔ یہ کہتا ہوا۔۔۔

    VERY SORRY ACQUIRED IMMUNE DEFFICIENCY SYNDROME IS FATAL

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے