سرمئی بادلوں نے ایک حسین شام کو تخلیق کیا تھا۔
حامد روڈ پر گہما گہمی، ریل پیل، حسن، دلفریبی، چمک دمک قہقہے اور سرگو شیاں بہہ رہی تھیں۔ مگر وہ ایئرکنڈیشنڈ ‘‘رانی ایمپوریم’‘ میں کاؤنٹر پر کھڑی بند دروازوں کے شیشوں سے باہر دیکھ رہی تھی۔سامنے ‘‘میکس فیکٹر،‘’ کے میک آپ کا سامان رکھا ہوا تھا جس پر ابھی نمبر ڈالنا رہ گیا تھا سر جھکائے کسی کسٹمر کا بل بنا رہی تھی اور پروپرائٹر صاحب اپنی، چیل کی طرح تیز اور متجسس نظروں سے اور پرشو کیس کا جائزہ لے رہے تھے۔پر بھانے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا جس کا مطلب یہ تھا کہ اب پر وپرائٹر حسد اللہ خاں ضرور کسی بات پر دیر تک بکو اس کریں گے۔ اس نے فوراً خطرے کو محسوس کیا اور نہایت انہماک سے نمبر ڈالنے لگی۔
ایک انتہائی خوبصورت شام گذر رہی تھی اور مگر نمبر لکھنے،بل بنا نے اور ہر گاہک سے زبردستی خندہ پیشانی سے پیش آنے میں وقت گذرا جا رہا تھا کاؤنٹر پر کھڑ کھڑے اور شاپ میں دوڑتے دوڑتے اس کی ٹانگیں دکھنے لگتیں تو وہ گھڑی بھر کو اسٹول کھنچ کے ٹک جاتی مگر پروپرائٹر تو سب کو بیل سمجھتا تھا۔ کسٹمر نہ آئے تو اس کے یہ معنی تھوڑا ہی ہیں کہ آپ گھڑی بھر دم لے سکتے ہیں۔ کچھ نہیں تو اسٹور روم میں پڑے ہوئے خالی ڈبے، اون کی پلا سٹک کی تھیلیاں اور گھانس پھوس ہی اپنی نگرانی میں اٹھوائے۔ نئی چیزوں پر نمبر ڈالئے۔ کچھ کیجئے مگر بیٹھنے کی جرأت نہ کیجئے اور پرو پرائٹر کی موجو دگی میں ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ سننے کے موڈ میں رہیئے۔ ہر وقت کی ہدایتوں سے الگ ناک میں دم۔۔۔
شیشے سے نظر آنے والی دنیا اس کی زندگی سے الگ ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے چھوٹے سے باغ میں پھولوں کے لاتعداد پودے لگائے تھے مگر اس نے پھولوں کو مسکراتے بہت کم دیکھا تھا۔ منی پلانٹ کی نازک سبز ڈالیاں دیواروں پر لگے ہوئے وازیز سے نیچے لٹکے آئی تھیں۔ مگر ان کو ہوا کے جھونکوں میں جھومتے دیکھنے کا اس کو ارمان رہ گیا تھا۔ رنگین پردے خالی گھر میں لہرا لہر ا کر اس کو آواز دیتے مگر وہ ان سے دور کسی گا ہک سے مسکرا کے پوچھتی:
‘‘کیا چاہیئے آپ کو؟‘‘
کون تھا جو یہ پو چھتا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ صبح 9 بجے سے شام کے 9 بجے تک شو کیس میں رہنے والی گڑیا کی طرح شیشے کی چار دیواری میں مقید ہوکے رہ جاتی ہے اور بارہ گھنٹے مسلسل کام کرنے کی قیمت صرف سو روپے تھی۔
آخر اس نے یہاں کام کرنا کیوں پسند کیا؟ کیوں؟
اس نے ہزاروں بار یہ سوال اپنے آپ سے پو چھا تھا اور اس کے جواب میں الجھے ہوئے دھا گے کی طرح اتنے جواب ذہن میں ابھرے کہ وہ پھر گھبرا کے شو کیس میں نئی نئی چیزیں رکھنے میں مصروف ہو جاتی یا کوئی نہ کوئی گا ہک اس کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیتا۔
ایک اچھی خوشگوار زندگی گذارنے کی تمنا کب کی جوان ہو چکی تھی اور مخصوص آمدنی میں وہ سارے خواب حقیقت میں نہ ڈھل پاتے تھے جو وہ بچپن سے دیکھتی آئی تھی جواس کو مسلسل گدگداتے آئے تھے۔
اپنی زندگی کا معیار برقرار رکھنے کی قیمت یہ ادا کرنی پڑی تھی کہ وہ اپنے آپ کو ماضی کی ایک چیز سمجھنے لگی تھی۔ چار پیسے کمانے کی دھن تھی مگر وہ کوشش بھی کامیاب نہیں ہوتی تھی۔ پھر بھی اس کی چھوٹی چھوٹی لڑکیاں آیا کے ساتھ ایک بڑھیا اسکول پڑھنے جاتیں، خوبصورت رنگین فراک اور قیمتی ربن باندھتی تھیں اس کا گھر جس کو اس نے اپنی ضروریات کا گلاگھونٹ کے بڑی خوبصورتی سے سجایا تھا۔ محلے والے اس گھرانے کو ایک متمول گھرانہ سمجھتے تھے کسی کو کچھ پتہ نہ تھا کہ اس گھرانے کو اونچائی پر پہونچا نے کے لئے گھر کے افراد نے کتنی پستیوں کو قبول کیا ہے ننھے منے بچوں کے مستقبل کے لئے کتنی بڑی قربانی دی گئی ہے۔ اس کا حال کسی کو معلوم نہ تھا، بچے اس چیز کو سمجھ سکتے تھے۔
اس نے پھر نظر بھر کے باہر دیکھا۔ اب سڑکوں کے بلب روشن ہو چکے تھے اور نوجوان جوڑے ہاتھوں میں ہاتھ دیئے گھوم رہے تھے۔
کاش وہ بھی ایسی شام میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ رونقوں کے اژدہام میں کھو جاتی۔۔۔ کاش۔
سامنے ایک خوبصورت سا جوڑا نہ جانے اس سے کیا پوچھنا چاہتا تھا۔ پربھا نے ایک بار اس کو چونکا نے والے انداز میں دیکھا۔ پھر خود بڑھ کے ان سے باتیں کرنے لگی اور جب وہ دونوں ٹائیلٹ بکس خرید کے چلے گئے تو پروپر ائٹر حسد اللہ خاں کی کرخت آواز شیشوں سے ٹکراکر عجیب وحشتناک طریقہ گونجی۔
‘‘اجی جناب! دوکان چلانا آسان کام نہیں ہے۔‘‘ اس نے سر اٹھا کے دیکھا وہ پربھا سے مخاطب تھے اور پربھا معصوم فاختہ کی طرح سہمی ہوئی نظروں سے اس دبلے پتلے منحنی سے انسان کو دیکھ رہی تھی جو خاندانی نواب تھا اور جس نے شہر میں ایئرکنڈیشنڈ رانی ایمپوریم کھولا تھا اور صبح دوپہر، شام تینوں وقت وہ اپنے شہر بھر میں واحد ایئرکنڈیشنڈ رانی ایمپوریم کی تعریف کرنا نہ بھولتا تھا جس کو اپنے نام کے ساتھ نواب لکھنے میں اب بھی دہنی لذت ملتی تھی آج بھی دکان میں بیٹھ کے ایک دوست سے دوسرے دوست کی مذمت کرتا تھا۔ آج بھی نوابوں جاگیر داروں کے آگے ہاتھ باندھے گھومتا تھا۔
‘‘آپ پہلے کسٹمر کو فالو کیجئے۔اس طرح تو دکان بیٹھ جائے گی۔اجی آپ تو جھونپڑے میں پیدا ہوئی ہیں۔ آپ کیا جانیں ان نازک اور بڑھیا چیزوں کو۔ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی چالیس پینتالیس سے کم کی نہیں ہیں اور سنئے آپ مکس فیکٹر کے فیس پاؤڈر اور لپ اسٹک دیتے وقت کا فی احتیاط سے کام لیجئے۔ان کو آپ نے استعمال کرنا تو کجا، دیکھا بھی نہ ہوگا۔ ایں ۔۔۔؟’‘ اس نے طنز کیا۔ پربھا کی آنکھوں میں شاید آنسو ہی تھے۔
جب نواب صاحب چلے گئے تو پربھا اپنا اسٹول قریب لے آئی اور یوں چپ چاپ بیٹھ گئی جیسے دل میں اُٹھنے والے جذبات کے طوفان کا ساتھ الفاظ نہ دے سکتے ہوں۔ کچھ کہنے کی کوشش میں صرف ہونٹ کانپ رہے تھے اور بھیگی ہوئی پلکیں بار بار سوچنے کے انداز میں جھپک رہی تھیں۔
’’روٹی نہیں کھاؤ گی؟‘‘ اس نے پر بھا کی طرف دیکھے بغیر پوچھا۔
‘‘نہیں’‘۔۔۔ پربھا نے بمشکل الفاظ ادا کئے۔
دیر سے باندھا ہوا بند ٹوٹ گیا اور آنسوؤں کے گرم قطرے گا لوں پر بہنے لگے۔
‘‘پگلی ہے۔۔۔ بالکل پگلی’‘ بابو اپنے کاؤنٹر پرسے بولا۔
ہاں بھیا۔۔۔ میں پگلی ہوں۔ کیونکہ یہاں میرا کوئی نہیں ہے۔تمہیں معلوم ہے؟ اس سا ل فیل ہو جانے کی وجہ ہاسٹل سے بھی جواب مل گیا۔ ماں باپ دیہات کے کچے گھر میں پڑے ہیں اور میں یہاں محنت کر کے بھی بھکاری کی طرح ذلیل ہوں اور یہ پروپر ائٹر کو معلوم ہے کہ میں مجبور ہوں۔ اگر یہاں سے چلی جاؤں تو بھوکوں مر جاؤں۔ بس اتنی سی بات پروہ مجھے مسلسل نشانہ بنائے جاتا ہے کیا میں اتنی نادان ہوں کہ اس کی طعنوں بھری باتیں نہ سمجھ سکوں اگر میں نے کبھی میک آپ نہیں کیا تو کیا میں پڑھی لکھی ہونے کے باوجود دوکان میں رکھی ہوئی چیزوں کے ساتھ احتیاط نہیں برت سکتی۔ ان کی قیمت و نزاکت کو نہیں سمجھ سکتی؟ بچپن سے میں شہر میں رہتی آئی ہوں۔ مشن کے اسکول میں رہ کر میں نے تعلیم حاصل کی ہے۔ ہر قسم کی سوسائٹی میں اُٹھی بیٹھی ہوں مگر اس کو میرے دیہاتی ماں باپ کا حال معلوم ہے۔میرے کچے بوسیدہ مکان کا علم ہے اور اس دکھتی رگ پر بار بار ہاتھ رکھ کے وہ خوش ہوتا ہے۔
’’اور یہ نوابی ذلالت اسے کبھی اچھا بزنس مین بنا سکےگی۔۔۔ کبھی نہیں۔’‘ پربھا نے یقین کے ساتھ سر ہلایا۔ اور آنسو پونچھ کر اسٹور روم میں چلی گئی۔
وہ بت بنی اسٹول پر بیٹھی رہی،اس کو پتہ بھی نہ تھا کہ اس ننھی منی فاختہ کے دل میں آتش فشاں چھپا ہوا ہے جو آنکھیں جھپکا کے معصوم باتیں کرتی تھی اور ہر کڑوی بات کو مسکرا کے ٹال جاتی تھی جس کے متعلق سب کو معلوم تھا کہ موم ہے۔۔۔ بالکل موم کہیں آگ کی چنگاری کی گنجائش نہیں مگر آج پربھا اچانک موم بتی کی طرح جل اٹھی تھی۔
اس کی بچیاں اسکول سے آئیں گی اور اس کو گھر میں نہ پاکر حسب عادت روئیں گی۔ضد کریں گی۔ اور آیا ان کو سمجھا تے بجھاتے میں اچانک جھنجھلا جائےگی پانچ بجے اس کا شوہر گھر آئےگا۔ کچھ دیر بچوں کے ساتھ گذار کے اکیلا ہی چائے پئے گا۔اور رات دیر گئے تک اس کے انتظار میں بغیر کھانا کھائے بیٹھا رہےگا جب وہ تھکی ماندی گھر آئےگی تو اس کی مسکراہٹ کے جواب میں بسور کر رہ جائےگی ضد کر کے سو جانے والی بچیوں کو پیار کر کے کھانے کی میز پر آ بیٹھے گی اور کھانے کے بعد پلنگ پر پڑ رہےگی۔
رات دن کا ایک مقررہ چکر تھا جو برابر چل رہا تھا۔ اتوار کے دن پچھلے چھ دنوں کی تھکن بوجھ بن کر اس پر سوار ہو جاتی اور اس دن اس کا جی چاہتا کوئی اس کے پاس نہ آئے۔ کوئی اس سے ملنے کی زحمت نہ اٹھائے۔ بس وہ چپ چاپ آنکھیں بند کئے پڑی رہے۔
کوئی اچھا شعر سن کراس پرسر دھننے کی فرصت نہ ملتی۔ شاید ہفتوں گذر گئے تھے کہ اس نے کسی اخبار کو چھوا تھا۔ کسی پرچے کو ہاتھ نہ لگایا تھا۔ دن بہ دن سارے لطیف جذبے سنگ ریزوں میں تبدیل ہو رہے تھے اور قہقہے لگانے، لطیفے سنانے، ہنسنے ہنسا نے کی عادت چھوٹتی جا رہی تھی۔ دوستوں رشتہ داروں اور جان پہچان دالوں کے خطوط آئے پڑے رہتے اور وہ خط لکھنے کے معاملہ کو آج اور کل پر ٹالتی رہتی۔ وہ کتنی سوشل اور ملنسار تھی مگر اب وہ محسوس کرتی تھی کہ رفتہ رفتہ اس کی ہر عادت ماضی بنتی جا رہی تھی وہ کیسی عورت ہے جو مستقبل کے اندھیرے میں ماضی کی روشنی سے کام لیتی ہے۔ جو زندگی کے ان روندے ہوئے لمحوں میں، ماضی کے خوشگوار لمحوں کا تصور گھول کے خوش ہو جاتی ہے۔
دوسرے دن اس پر اداسی کی اوس تھی۔ اور وہ صبح صبح پروپرائٹر کو گڈ مارننگ سر کہہ کے اسٹور روم میں اپنا کوٹ اور پرس رکھنے گئی تو باہر سے آنے والی آوازوں نے اسے سمجھایا کہ حسد اللہ خاں منیجر کو ڈانٹ رہے ہیں منیجر صاحب تو سراپا شفقت تھے۔ ان لوگوں کو ہمیشہ پیاری بچیو کہہ کے مخاطب کرتے ہر بات میں نرمی و مٹھاس تھی۔ بولتے بہت کم۔۔۔ اور جو بھی بولتے اس انداز میں جیسے کوئی خاندان کا بڑا اور بزرگ ہو منیجر تو کبھی نہ لگتے مگر حسد اللہ خاں نے ان کا بھی ناطقہ تنگ کہ رکھا تھا۔ وہ کبھی اعلی عہدہ پر فائز تھے اور اب ان کو پنشن ملتی تھی جو کبھی حکم دیا کرتے تھے اب ڈانٹ ڈپٹ سن کے حیران تھے۔ دنیا بھی کیسے کیسے جھکو لے دیتی ہے۔ کہاں تو لوگ ’’سر’‘ کہتے تھے اور کہاں وہ اب بد دماغ نواب کو جھک کر سلام کرتے تھے۔ بری بھلی سن کے صبر کے ساتھ برداشت کر جاتے مگر وہ جانتی تھی کہ جب جھک کے پروپرائٹر کو سلام کرتے ہیں تو ماضی کا تازیانہ کھٹ سے ان کی کمر پر پڑتا ہے اور ہو کراہ کے رہ جاتے ہیں۔ یہ بات تو صرف دہی سمجھتی تھی۔ ممکن ہے کہ حسد اللہ خاں بھی سمجھتا ہو مگر ہمدردی کی جگہ غصہ اور خلوص کی جگہ لعن تو نوابی خصوصیات میں شامل ہے۔
اسی لئے تو جب بھی اماں کے سامنے جاگیر داروں کا ذکر آتا ہے وہ منہ بنا لیتیں۔ ’’مجھے تواب رتی برابر موئے جاگیر داروں پر افسوس نہیں ہوتا۔ کا نٹے بونے والے، میٹھے رس بھرے آموں کی آس لگائیں تو ان بےوقوفوں کو اللہ تعالی کہاں سے آم کھلائےگا۔ میں تو، اللہ جانتا ہے دوزخ جنت کی قائل ہی نہیں ہوں اپنے کرموں کا بھوگ اسی جنم میں مل جاتا ہے سو مل رہا ہے۔ کون سا ظلم تھا جو جو اپنوں نے نہیں ڈھایا۔ کون سی سزا تھی جو یہ دیتے ڈرتے تھے۔ عیاشی، جوا، ناچ رنگ تو معمولی مشغلے تھے۔ اب بھی ان ظالموں کا جو دو وقت حلق بھیگتا ہے تو اللہ کا احسان ہے۔۔۔ دیکھتے ہی دیکھتے ڈیوڑھیاں موٹریں، گھوڑے، گاڑیاں، نوابی ٹھاٹ سب رخصت ہو گئے جنھوں نے موٹر سے نیچے قدم نہ رکھا تھا آج پیدل گلیاں ناپتے مارے مارے پھرتے ہیں مگر کوئی نہیں پوچھتا کہ میاں تم کیا ہے کیا بن گئے۔ میں تو جانوں یہ سب اپنے کئے کی سزا ہے’‘۔ وہ ہمیشہ اماں کی اس تنگ نظری پر چڑ جاتی۔ کیا بری عادت ہے اماں کی۔جب دیکھو ہمسایوں میں گھری ان کی ان کی باتیں پیٹھ پیچھے برائیاں کرنے بیٹھ جاتیں ہیں مگر اب تواماں بھی اس کو حقیقت پسند نظر آنے لگی تھیں۔ کچھ ونٹر پر آ گئی۔
‘‘پربھا۔۔۔ !‘‘ حسد اللہ خاں نے آواز دی تو پربھا ناولٹی بک اور پنسل اس کے ہاتھ میں تھما کے بے دلی سے چلی گئی۔
‘‘کل آپ نے لیڈیز پرس کتنے میں دی تھی۔۔۔؟‘‘
’’جی شاید سترہ روپے اور اسی نئے پیسے۔‘‘ وہ سوچتی ہوئی بوئی۔
’’آپ کو یقین سے کہنا چاہئیے۔‘‘ طنزیہ مسکراہٹ میں سو کھے مارے ہونٹ بھیگ رہے تھے۔
‘‘دیکھئے نا۔۔۔ میں نے بل بنایا ہے اسی میں لکھا ہے۔‘‘
’’تم دیکھو بابو۔۔۔ انھوں نے اپنے پسندیدہ مہرہ کو حکم دیا۔‘‘
اور وہ لکیر کا فقیر جوان کے ہر اشارے پر دوہرا ہو جاتا تھا جس نے کوئی تعلیمی ڈگری حاصل نہ کی تھی جس کے پاس حسد اللہ خاں کے ساتھ رہ کے جی حضوری کی قابلیت تھی جو بہت خوشی سے اپنے لئے حسد اللہ خاں کے منہ سے کڑوی کسیلی باتیں قبول کر سکتا تھا۔ جس کا کھانا پینا دہی چلاتے تھے اور وہ بھی سمجھتا تھا کہ اس کے پاس کوئی تعلیمی قابلیت نہیں ہے اور صرف پروپرائٹر کے آگے پیچھے گھومنے ہی میں اور دل پر چڑھے رہنے ہی میں عافیت ہے۔سارا کیش بابو کے ہاتھ میں ہی تو رہتا تھا اور اس سے باآسانی اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ واقعی حسد اللہ خاں کا سیدھا بازو ہے۔
’’جی سترہ روپے نود پیسے ہیں سر‘‘ بابو نے اطلاع دی۔
’’ہوں۔۔۔ ادھر آؤ پربھا۔۔۔’‘ پربھا نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے یوں دیکھا جیسے کہہ رہی ہو، دیکھا تم نے اس نواب کے بچے کو۔۔۔؟
بات کا بتنگڑ بنانا کیسے آتا ہے۔ بھلا ریکارڈ رکھنے کے بعد زبانی یاد رکھنے کی کیا ضرورت تھی۔؟ اس نے آنکھیں اٹھا کے دیکھا۔ وہ حسد اللہ خاں کے سامنے بےجان کھڑی تھی۔
’’آپ کی عمر کیا ہے؟‘‘
’’سترہ سال’‘
’’سترہ سال کی عمر اور اس قدر کمزور حافظہ؟‘‘ اس نے تعجب سے پربھا کو دیکھا۔۔۔
’’اگر یہی حال رہا تو تیس بتیس برس کی عمر میں تو کچھ بھی یاد نہ رہےگا بلکہ میں یہاں تک کہوں گا کہ آپ اپنے شوہر کو بھی پہچان نہ سکیں گی۔ کیوں ٹھیک ہے نا۔۔۔’‘ اس نے اپنی چندھی آنکھوں کو طوطے کی طرح عجیب انداز میں گھمایا اس نے لاحول بھیج کے پھر باہر نظر دوڑائی۔کتنی چھوٹی اور نیچ طبیعت کاہے یہ نواب زادہ۔
وہ کھڑی کھڑی حسد اللہ خاں کے اس ایئرکنڈیشنڈ رانی امپوریم کے متعلق سوچتی رہی۔
وہ دکا ن جو شہر کی واحد ایئرکنڈیشنڈ دکان ہے جس کو ایک نواب نے کھولا ہے جس میں کام کرنے والی لڑکیاں فضول کی بکواس لعن طعن اور ذاتیات پر راست حملوں سے تنگ آگے چلی جاتی ہیں جو بدتمیز ی و بیہودگی کی تاب نہ لاکے نکل جاتی ہیں جو ایک مہینہ بھی ٹک کے کام نہیں کر پاتیں۔ پھر نئی نئی لڑکیاں دوکان میں آئے ہوئے نئے سامان کی طرح کاؤنٹروں پر نظر آتی ہیں۔۔۔ منیجر صاحب اور بابو کے سوا کوئی نہیں جانتا کہ آخر اس دوکان میں کام کرنے کے لئے خوش خوش آنے والی، اپنی زندگی کو سنوارنے اور تابناک مستقبل کے لئے محنت کرنے کی تمنائیں ساتھ لانے والی لڑکیاں چند ہی دنوں میں چہرے پر بیزاری مایوسی اور نفرت کے نہ مٹنے والے نقوش لئے کیوں خاموشی سے چل دیتی ہیں پھر اخباروں میں ‘‘سیلز گرل’‘ کی ضرورت کا اشتہار بار بار چھپتا اور لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں۔
’’ارے ابھی نواب صاحب نے پرسوں ہی تو ایک بڑی اسمارٹ سی لڑکی کو ملازم رکھا تھا اور دو لڑکیاں بھی تو تھیں۔ کیا سب کی سب چلی گئیں؟‘‘
‘‘چلی گئی ہوں گی’‘۔۔۔ اجی بات یہ ہے کہ خداوند قدوس نے سب کو تو مٹی اور پانی سے بنایا ہے مگر نواب کے لئے تو صرف آگ ہی میسر آ سکی ‘‘آہا ہا ۔۔۔ ہی ہی ہی’‘
اور کمال تو یہ ہے کہ وہ اپنی اس شاندار دوکان کے لئے اونچے خاندان کی لڑکیوں کو رکھنا چاہتے ہیں تاکہ دوکا ن میں آئے ہوئے رئیسوں سے پورے آداب و ایٹی کیٹ کا لحاظ رکھا جا سکے۔‘‘
’’مگر وہ یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ خاص تعلیم یافتہ اونچے خاندان کہ لڑکیاں ان کی بدزبانی، ہر وقت ٹھکار کو خاطر میں کیوں لانے چلیں؟‘‘ بھئی نواب آدمی ہے تنخواہ کو محنت کا صلہ سمجھنے کی بجائے احسان سمجھتا ہے اور اس کے عوض خود کو سب کچھ کہنے کا مجاز سمجھتا ہے۔‘‘
حسد اللہ خاں لوگوں کی ان باتوں پس پشت ڈال کے کھلم کھلا دوکان میں کہتا تھا۔ ’‘ارے صاحب میرے دشمن تو یہ چاہتے ہیں کہ یہ دوکان بیٹھ جائے۔یہ واحد ایئرکنڈیشنڈ ایمپوریم ہے جو اپنے نوادرات کے لئے مشہور ہے۔ جو عجیب و غریب قیمتی تحفوں کا مرکز ہے بند ہو جائے۔ لوگ مجھ سے جلتے ہیں کیونکہ میری شاپ میں ایسی چیزیں ملتی ہیں، ایسے تحفے دستیاب ہوتے ہیں جو کسی دوکان میں نظر نہیں آتے مگر یہ یاد رکھئے نواب حسد اللہ خاں اتنی آسانی سے ہار ماننے والا نہیں ہے۔ کوئی دوکان میں کام نہ کرےگا تب بھی یہ دوکان بند نہیں ہو سکتی میری بیوی بچے دوکان چلائیں گے۔ سمجھے آپ لوگ۔۔۔؟‘‘
اور دوست احباب صوفوں پراس کے ساتھ بیٹھے ہاں میں ہاں ملاتے! تیسرے دن بھی وہ اداس تھی اس کے اندر عجیب سی تڑپ تھی جیسے بار بار کوئی اس کے کانوں میں کہتا ‘‘یہ تمہارے بس کا کام نہیں ’’اسے چھوڑ دو۔ اسے چھوڑ دو’‘ اور ہر بار وہ زیادہ یقین کے ساتھ سوچتی سچ چتی سچ مچ وہ یہ کام نہ کر سکے گی۔
صبح سویرے جب سورج کی شوخ کرنیں ڈیلیا کے پھولوں کا منہ چومنے آتیں جب جرمینیا کے سر جھکائے پھول آہستہ آہستہ مسکرانے لگتے۔جب ڈیزیز کے ننھے منے نیلے اور سفید پھول اپنی شادابی و رنگینی بکھیر نے لگتے اور بلو بلس کے اودے پھولوں سے شبنم کے قطرے زمین پر خوشی کے آنسووں کی طرح گرتے جب زرد و سرخ گلاب گردن اٹھا کے کھڑی سے جھانکتے اور منی پلانٹ کی نازک نازک پتلی ڈالیاں ہاتھ ہلا ہلا کے اس کو بلاتیں تو وہ ان سب کی باتیں سنی ان سنی کر کے اپنی ساڑی پر استری کرنے، بچیوں کو اسکول بھیجنے اور شوہر کا ناشتہ چائے دینے میں اتنی منہمک ہو جاتی کہ خوبصورتی پر جان دینے والی شاعرانہ حس نہ جانے کہاں سو جاتی۔۔۔
اور جب وہ واپس آتی تو دنیا کے سارے ہنگامے تھک کے سو جاتے۔ گلدانوں میں رکھے ہوئے سرخ پھول اونگھتے ہوئے معلوم ہوتے۔درو دیوار دم بخود سوچتے ہوئے دکھائی دیتے۔ بچوں سے باتیں کرنے اور ان کی معصوم چھوٹی چھوٹی شرارتیں دیکھنے اور ڈانٹنے کو جی چاہتا۔ادھر ادھر کے لطیفے سنانے و ہنسانے کو بھی جی چاہتا۔ وہ قہقہے جو دل سے اٹھتے ہیں تب فضا میں لاتعداد چاندی کی گھنٹیاں سی بجنے لگتی ہیں۔
مگر کی میز پر بیٹھا انتظار کرتا۔
‘‘یہ تو زندگی کے ساتھ ظلم ہے۔‘‘ اس کا شوہر بڑبڑاتا۔
بچے کبھی بیمار ہو گئے تو۔۔۔؟ تب کیا ہوگا۔ تمہیں یاد کریں گے، روئیں گے اور بچہ تو کبھی ماں کے بغیر دکھ درد میں ایک پل نہیں رہ سکتا۔
یہ بھی نہیں کہ چار بجے لوٹ آؤ۔۔۔ یہ تو قید با مشقت ہے یہ نوکری تو وہ کرے جو لا وارث ہو جس کا ٹھور ٹھکا نہ نہ ہو۔سمجھیں۔۔۔؟
وہ اس کی آنکھیں ڈال کے مسکراتا تو اس کا جی چاہتا ساری زندگی پر، یہ حسین مسکراہٹ چھائی رہے۔
‘‘انسان محنت کیوں کرتا ہے؟‘‘ اپنی زندگی کو خوشگوار اور جینے کے قابل بنانے کے لئے مگر ہم تو۔۔۔ کہتے کہتے وہ رک جاتا۔
’’یہاں آئیے۔۔۔’‘ حسد اللہ خاں نے یقیناً اسے مخاطب کیا تھا۔وہ جلدی سے ان کی طرف بڑھی۔
دیکھئے آپ کو چاہئیے تھا کہ آپ صبح لئے گئے سامان پر نمبر ڈالتیں اور قیمت لکھتیں مگر ابھی تک سامان اسٹور روم میں پڑا ہے۔‘‘
‘‘مگر سر۔۔۔ سامان کی قیمتوں دالی لسٹ بابو کے پاس رہتی ہے اور وہی ہمیشہ سامان پر قیمتیں درج کرتے ہیں۔’‘
‘‘آپ مجھ سے بحث مت کیجئے۔ جتنا میں کہتا ہوں، وہ کیجئے۔‘‘
وہ دیا سلائی دکھائے گئے پٹاخے کی طرح گرجے۔
‘‘میں نے تو بحث نہیں کی۔۔۔ آپ نے جو بھی پوچھا۔۔۔’‘
’’آپ کو معلوم ہے، میں کس خاندان کا آدمی ہوں۔؟’‘ وہ انتہائی کمینہ پن پر اتر آئے۔
میں بھی بہت اونچے خاندان سے ہوں مگر دوکان کے کام کا ج میں خاندان کا کوئی سوال نہ آنا چاہئیے۔۔۔‘‘ وہ بہت اطمینان سے بولی۔
‘‘کیوں نہیں۔۔۔ اب یہی پربھا ہے۔۔۔ اس قدر۔۔۔’‘
آپ پہلے عورتوں سے بات کرنے کا طریقہ سیکھئے۔ خلوص و ہمدردی محنت کرنے والوں کا دل بڑھاتی ہے۔ اس نے قہر آلود نگاہوں سے حسد اللہ خان کو گھورا پربھا سناٹے میں آ گئی اور بابو اس کو یوں دیکھنے لگا جیسے وہ کوئی سنسنی خیز فلم ہے۔ نواب ایک دم بھونچکا رہ گیا۔
’’مگر میں نے تو آپ کو کچھ نہیں کہا‘‘۔ لہجہ میں نرمی آ گئی تھی۔
’’میں یہاں کام نہیں کر سکتی‘‘۔ یہ دیکھئے میرا کوٹ اور پرس‘‘
’’آپ کو یہ سب بتانے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ سن رہی ہیں؟ میں کیا کہہ رہا ہوں’‘۔
’’یس سر‘‘۔ وہ بولی اور اپنے پیچھے شیشے کا دروازہ بند کر دیا۔
رونقیں اس کے چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں ’’زندگی اتنی حسین ہے؟‘‘ اس نے جیسے اپنے آپ سے حیران ہوکے پوچھا۔۔۔ لوگ بلاوجہ قہقہے لگا رہے تھے۔ عورتیں اپنے بہترین لباسوں میں تھیں۔ مردوں نے قیمتی سوٹ پہنے تھے جو معمولی کپڑوں میں تھے۔ انھوں نے بھی صاف کپڑوں پر محنت سے استری کی تھی اور سب دن بھر کی تھکن کا بوجھ حامد روڈ کے سینے پر پھینکنے آئے تھے۔
اپنے حسن، اپنے قہقہوں اور مسکراہٹوں سے مایوس دلوں میں امید کے دیئے جلانے آئے تھے جو رنجیدہ تھے، دل شکستہ تھے جو چپ چاپ اور اداس تھے۔ وہ اس رنگ و بو کے طوفان میں کھو کے سب کچھ بھولنے آئے تھے۔ اور آج وہ چھوٹی چھوٹی چیزوں کو غور سے دیکھ رہی تھی اور ان کے وجود کی اہمیت پر غور کر رہی تھی اور جب وہ گھر آئی تو یوں لگا جیسے قید کی مدت گذار کے جیل سے گھر آئی ہے۔ بچے دوڑ کے اس سے لپٹ گئے۔ گھر کا ہر ذرہ ہاتھ پھیلائے اس کی طرف بڑھا آ رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے پھولوں کو گدگدا کے ہنسا رہے تھے اور اس کا شوہر شرارت سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا جیسے کہہ رہا ہو۔
’’آخر گھر آ ہی گئیں تم؟‘‘
’’ہاں۔۔۔ ہاں’‘ اس نے ہنس کر جواب دیا۔
آج کی شام تمام گذری ہوئی شاموں سے زیادہ حسین تھی۔
حسین اور پرسکون۔۔۔ گھر اس ایئرکنڈیشنڈ امپوریم سے زیادہ پیارا تھا۔
ایئرکنڈیشنڈ رانی امپوریم جو کہ۔۔۔
Additional information available
Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.
About this sher
Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.
rare Unpublished content
This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.