Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عجیب لڑکا

صبا ممتاز بانو

عجیب لڑکا

صبا ممتاز بانو

MORE BYصبا ممتاز بانو

    رات نے سورج کو رہائی دی تو کرنوں نے دنیا کو بقعہ نور بنا دیا۔ میں بھی اسی انتظار میں تھی۔ روشنی کی رمق محسوس ہو تے ہی اٹھ بیٹھی۔ معمولات صبح سے فراغت کے بعد میں نے جلدی جلدی گرم گرم روٹی حلق سے اتاری۔ مجھے دفتر پہنچنے کی جلدی تھی۔آج دیر بھی تو ہو گئی تھی۔

    گھر سے نکل کر ابھی دوچار قدم ہی چلی تھی کہ وہ نظر آ گیا۔ اپنے دوستوں کے جلو میں ہنستا مسکراتا ہواوہ چلا آ رہا تھا۔ اپنے چھوٹے موٹے دوستوں کے درمیان وہ کوئی ہیرو ہی تو لگ رہا تھا۔ اس کا لباس ہمیشہ اجلا ہی نہیں قیمتی بھی ہوتا تھا۔ یقیناً کسی اچھے گھر کا تھا۔ وہ گھر بھی کوئی زیادہ دور نہیں تھا۔ میر ے گھر کے سامنے والے یا اس کے گھر کے عقبی حصے میں وہ کسی کوٹھی کا مکین تھا۔ تبھی تواکثر ادھر سے ہی نکلتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔

    میں نے کئی بار اسے دیکھا تھا۔ پہلے پہل تو میں نے اس پر کوئی تو جہ نہیں دی تھی لیکن جب اس لڑکے نے غیرمحسوس طریقے سے میرے قریب سے بائیک گزار کر یہ باور کرانا شروع کر دیا کہ ‘‘وہ بھی ہے۔’‘، تو میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس پر توجہ دینے پر مجبو رہوگئی۔ وہ لڑکپن کی آخری سیڑھی پر کھڑے ہو کر شباب کو پوری فروانی سے آوازیں دینے کی عمر میں تھا۔ عمر کے اس حصے میں بچے صرف جسم میں ہی بڑے نہیں ہو رہے ہوتے بلکہ ان کے ذہن بھی بڑھوتری کے مسافر ہو تے ہیں۔ اس ڈگر پر چلتے ہوئے اکثر حواس ڈگمگا جایا کرتے ہیں۔ اہمیت حاصل کرنے کی تمنا اور تو جہ کی طلب ہر جذبے پر غالب آ جایا کرتی ہے۔وہ بھی الٹی سیدھی حرکتیں کرتا تو لوگوں کی نگاہ نہ چاہنے کے باوجود بھی اس پر ٹھہر جاتی۔

    وہ شکل وصورت کا جتنا بھلا تھا، حرکتوں میں اتنا ہی شرارتی تھا۔ کبھی نچلا نہیں بیٹھتا تھا۔ کبھی اس کے ہاتھ میں کوئی لکڑی ہوتی جس سے وہ درختوں کی اونچی اونچی شاخوں کو نیچا دکھانے کی کوشش میں لگا ہوتا۔ کبھی اس کے ہاتھ میں فٹ بال ہو تا جسے وہ یہ سوچے بغیر سڑک پر اچھالتا رہتا کہ کوئی گزر رہا ہے۔ جب کبھی اس کی پھینکی ہوئی گیند کسی کے جسم سے ٹکرا جاتی تو وہ دھیمی سی ہنسی ہنس کر یوں پیچھے ہٹ جاتا جیسے اس کا تو کوئی قصور ہی نہ ہو۔

    گرمیوں کی دوپہر میں کبھی کبھی وہ کرکٹ کھیلتا ہوا بھی نظر آتا۔ اس کے دوست باؤ لنگ کراتے کراتے جب اکتا جاتے تو اکتا کر بولتے، ‘‘یار ہماری بھی باری آنے دو نا۔’‘

    وہ آنکھ مار کر ان کے اکتائے ہوئے چہرے دیکھتا اور کہتا۔ ’‘تم سب کو چیز لے کر دوں گا۔ کاشی تمہیں قلفی کھلاؤں گا۔ زیب تمہیں تو میں بوتل پلا ؤں گا۔ باقی سب کو ایک ایک چاکلیٹ۔’‘

    وہ تمام بچوں کی کمزوریوں سے واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ پہلے لیڈر بچوں کو بس میں کرنا چاہیے۔ جب لیڈر بچے قابو میں آجائیں تو پھر سب کو اپنے پیچھے چلا لیتے ہیں۔ وہ واقعی ایک نمبر کا کایاں بچہ تھا۔ سب کو دوست بنا کر رکھتا تھا۔ اس کی دوستی اس کے لیے تو پر امن تھی لیکن وہ اپنی نت نئی کھیلوں اور ڈرامے بازیوں سے سارے ٹاؤن میں ہنگامہ برپا کیے رکھتا۔

    کبھی کبھی تو وہ حد کر دیتا۔ جونہی کو ئی اس کے قریب سے گزرتا، وہ اتنا جاندار قہقہہ لگاتا کہ گزرنے والے کا دل سہم جاتا۔ میرے لیے تو وہ صرف ایک بچہ تھا۔ بچپن کی دہلیز سے نکلا ہوا اور لڑکپن کو چھوڑتا ہوا بچہ۔ ایک پختہ عمر عورت ایسے بچے کے بارے میں کیا سو چ سکتی تھی لیکن کبھی کبھی وہ جان بوجھ کر میرے پاس سے ایسے گزرتا کہ اس کی آنکھوں میری آنکھوں سے ٹکرا جاتیں اور ایک سوچ میرے دماغ میں منتقل کر دیتیں۔

    ‘‘وہ کیا چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ میں اس کی الٹی سیدھی حرکتوں پر اس کی تعریف کروں۔ اس کو ڈانٹوں۔ اس سے بات کروں۔’‘ میں نے اسے بارہا دیکھا تھا لیکن کبھی اس سے کوئی بات نہیں کی تھی۔ اگر وہ اچھلتا کو دتا میرے سامنے نہ آیا کرتا تو میں شایداس کو دیکھتی بھی نہ۔ آخر اسے دیکھنے کی ضرورت بھی کیا تھی لیکن وہ تو یہی چاہتا تھا کہ اسے دیکھا جائے۔ اسے سراہا جائے۔

    مجھے یاد ہے کہ ایک ایسا ہی دن تھا جب میں دفتر سے واپسی کے بعد رکشے سے اتری اور دھیمے دھیمے قدم اٹھاتی اپنے ٹاؤن میں داخل ہوئی۔ میں اپنے خیالوں میں مگن تھی۔ میرے ہاتھ میں کچھ کھانے پینے کا سامان بھی تھا۔ جونہی میں ٹاؤن کے قریب پل کے راستے پر پہنچی تو وہ تیزی سے چنگھاڑتی اور دھواں نکالتی ہوئی موٹر سائیکل پر میرے قریب سے گزرا۔ اس کے پیچھے بھی ایک دوست بیٹھا تھا۔ میرے قریب پہنچ کر اس نے موٹرسائیکل کو دوتین قلابازیاں دیں۔ میں اس اچانک ٹوٹ پڑے والی افتاد پر سہم سی گئی۔ سامان میرے ہاتھ سے گر گیا۔ وہ ون ویلنگ کرتا ہو ا تیزی سے نکل گیا۔ تب وہ پہلا دن تھا جب وہ مجھے برا لگنے لگا۔ اس سے قبل اس کا اچھا یا برا لگنا میرے لیے کوئی معنی ہی نہیں رکھتا تھا۔ میں نے اپنا سامان اٹھا یا۔ غصے سے اس طرف دیکھا۔ وہ جا چکا تھا۔ اچھا ہوا، ورنہ آج میری خاموشی کا قفل ضرور ٹوٹ جاتا۔ اس واقعے نے اس کو میری نگاہ سے مکمل طور پر گرا دیا۔ وہ مجھے زہر لگنے لگا۔

    ایک دن اتفاقاً میں نے اپنے گھر کے چھجے سے جھانکا تو وہ موٹرسائیکل پر مٹر گشت کرتا ہو ا نظر آیا۔

    ‘‘ہمارے علاقے میں، وہ یہاں کیا کر رہا تھا۔’‘ اس کو دیکھتے ہی میرے ذہن میں یہ سوال بجلی کی طرح کوندا۔

    اس کا ایک دوست بھی اس کے ساتھ تھا۔ اس سوال کے جواب کی تلاش میں جب میں نے اس کی نگاہوں کا تعاقب کیا تو اپنے گھر کے بالکل سامنے والی گلی کے ایک مکان کے سامنے زارا کو کھڑے دیکھا۔ زارا اور وہ ایک دوسرے کی توجہ پاکر مسرت کے ساتویں آسمان پر اڑ رہے تھے۔ وہ زارا کو اشارے بازی سے کچھ سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا۔ زارا بھی چوکھٹ کا پتھر بنی بیٹھی تھی۔جونہی زارا کو اس کی ماں نے آواز دی۔ وہ اندر کی طرف مڑی تو اس نے بھی چار و ناچار اپنی موٹر سائیکل کا رخ اپنے گھر کی طرف موڑ لیا۔

    ‘‘اب وہ بچہ نہیں رہا تھا۔ وہ بڑا ہو گیا تھا۔’‘ میں سب سمجھ رہی تھی۔ یہ بات شاید وہ بھی سمجھ چکا تھا۔

    گرمیوں کی چھٹیاں گزر گئیں۔ اب وہ کم کم نظر آنے لگا، سکول جو جانا ہو تا تھالیکن چھٹی کا دن وہ پورے جوش و خروش سے مناتا تھا۔ اس کے قہقہے، اس کی اچھل کود، اس کی دھینگا مشتی، اس کی شرارتیں، ارے ابھی بھی اس کے اندر بچپنا تھا مگر مجھے کیا میں تو چھٹی والے دن کو گھر پر ہو تی تھی۔

    ‘‘کھیلے کودے ناچے گائے، میری بلا سے۔ میں تو گھر پر ہوں۔ نہ وہ وہ مجھ سے ٹکرائےگا۔ نہ میرے پاس آئےگا۔’‘

    واپسی پراب بھی میرے پاس کوئی نہ کوئی سامان ضرور ہو تا تھا۔ آتے آتے مجھے شام بھی ہو جاتی تھی۔ اس دن مجھے ضرورت سے کچھ زیادہ سامان اٹھا نا پڑا تو بائیک کی اہمیت کا احساس ہوا۔

    میں نے گھر پہنچ کر چھوٹی سے کہا کہ ‘‘وہ وہ موٹر سائیکل چلانا سیکھ لے۔ آخر وہ بچپن میں سائیکل چلاتی رہی ہے۔’‘

    اس نے مسکراکر میری طرف دیکھا۔ ’‘ایک لڑکا ہے جس سے میں بائیک چلا نا سیکھ سکتی ہوں۔’‘

    میں نے جب اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا تو اس نے کھڑکی کے پاس کھڑے ہو کر اس کی طرف اشارہ کیا۔

    میں نے اسے دیکھا اور پھر چھوٹی کو دیکھا۔ یقیناً وہ اس سے بڑی تھی لیکن مسئلہ یہ نہیں تھا۔

    ‘‘ارے تم اس سے سیکھو گی۔ یہ جو موٹرسائیکل کو اندھا دھند بھگاتا ہے۔ یہ جس کے پا س سے گزرتے ہوئے دل سلامتی کی دعائیں مانگتا ہے۔ یہ تمہیں کیا سکھائےگا۔ یہ تو وہ شیطان ہے جس سے شیاطین بھی پناہ مانگتے ہیں۔’‘

    وہ میری بات سمجھ گئی۔اس لڑکے کی حرکتوں سے واقف تو تھی ہی۔ بات آئی گئی ہوگی۔ کبھی کبھی وہ مجھے نظر آتا۔ میں اسے نظر انداز کرکے آگے کو بڑھ جاتی۔ ایک دن پھر میں نے اسے موٹر سائیکل پر سوار آندھی طوفان کی طرح جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرے قریب سے گزر گیا تو میں نے سکھ کا سانس لیا۔۔۔

    ’’کتنا عجیب لڑکا ہے یہ۔’‘ میں نے نفرت سے سوچا۔

    ہفتے کے سارے مصروف دن ڈھل گئے۔ یوم فرصت تھا۔ میں نے خوب مالٹے کھا نے کے بعد ان کے چھلکے ساتھ والے خالی پلاٹ میں پھینکنے کے بعد اردگرد نگاہ دوڑائی تو وہ مجھے کچھ کرتا ہوا نظر آیا۔ وہ ایک سوراخ میں سے مٹی کھود کھودکر نکال رہا تھا۔ اس کے اجلے کپڑے آج میلے ہو ئے پڑے تھے۔ اس کے سرخ و سفید چہرے پر مشقت صاف دکھ رہی تھی۔ آخر وہ کیا کر رہا تھا۔ میں سمجھ نہیں پا رہی تھی۔

    میں اسے دیکھتی رہی۔ آج ہی تو وہ مجھے کچھ الگ سا لگا تھا۔ آج ہی تو وہ سنجیدہ تھا۔ آج ہی تو اس کے ہاتھوں میں شرارت کی کوئی پوٹلی نہیں تھی۔ آج ہی تو وہ اپنے دھیان میں مگن کام کر رہا تھا۔ آج اس کے ساتھ کوئی دوست نہیں تھا۔ وہ تنہا تھا۔ بالکل تنہا۔ اس کا دھیان صرف اپنے کام کی طرف تھا۔ اس ٹھٹھرتی ہوئی سردی میں کیا اسے کوئی نئی شرارت سوجھی تھی۔

    تھوڑی دیر بعد میں نے غور سے دیکھا۔ وہ بھوری کتیا کے نومولود پلے اٹھا اٹھا کر اس گھر میں رکھ رہا تھا جسے اس نے ان کے لیے بڑی مشقت سے بنایا تھا۔ اس کے پاس کھڑی ان کی ماں دم ہلا کر ممنونیت کا اظہار کر رہی تھی۔

    یہ دیکھ کر میری نفرت کا بت اتنے شدو مد سے ٹوٹا کہ اس کی چیخ مجھے تادیر سنائی دیتی رہی۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے