Font by Mehr Nastaliq Web

aaj ik aur baras biit gayā us ke baġhair

jis ke hote hue hote the zamāne mere

رد کریں ڈاؤن لوڈ شعر

عجیب سزا ہے غریب ہونا بھی

ذاکرہ شبنم

عجیب سزا ہے غریب ہونا بھی

ذاکرہ شبنم

MORE BYذاکرہ شبنم

    رات کے نو بج رہے تھے، ٹرین جیسے ہی اسٹیشن پر رکی سبھی قلی ٹرین کی جانب دوڑ پڑے، ان میں جمال بھی تھا، بیچارہ جمال صبح سے دو چار روپیے کمانے کی کوشش میں اس طرح ہر ایک ٹرین کے رکنے پر اتر نے والے مسافروں کی جانب دوڑ پڑتا کہ کو ئی اسے اپنا بوجھا دے دے تو کچھ پیسے مل جائیں۔ اس سے اس کی اور اس کی بیٹی کی بھوک کچھ تو مٹ جائےگی لیکن کوئی اسے اپنا سامان اٹھانے کے لیے دینے کو تیار ہی نہ ہوتا ہر بار اسے ناکامی اور مایوسی کا ہی سامنا کرنا پڑتا۔۔۔ جمال بھی کبھی جمال خان کے نام سے جانا جاتا تھا۔ وہ بھی کبھی اپنے وطن کی ایک اسٹیل فیکٹری میں نوکری کیا کرتا تھا۔ اس کی بھی ایک عدد بیوی اور دو بچے تھے۔ ایک خوشحال کھاتا پیتا گھر تھا۔ مگر اچانک اس کے شہر میں زبردست سیلاب آیا جو اپنے ساتھ بہت کچھ بہالے گیا جس کے بہاؤ میں اس کی بیوی اور جوان بیٹا بھی بہہ گئے۔ جمال اور اس کی چودہ سالہ بیٹی کسی طرح بچ نکلے، اپنے وطن اپنے شہر کو چھوڑ کر وہ مارے مارے پھر تے رہے۔ اس طرح بہت دور نکل آئے۔ اس شہر کے بالکل آخری سرے پر پختہ سڑک کے کنارے ایک بہت ہی قدیم قبرستان کے ایک کونے میں جمال نے جگہ جگہ سے گھا س پھو س اور لکڑیاں اکٹھا کرکے ایک چھوٹی سی جھونپڑی بنائی تھی۔ اب کچھ دنوں سے اس جھونپڑی میں باپ بیٹی رہ رہے تھے مگر سب سے بڑا سوال اب جمال کے آگے دو وقت کی روٹی کا تھا۔ شہر، شہر گاؤں، گاؤں وقت سے پہلے وہ بہت بوڑھا اور کمزور دکھائی دینے لگا اور بالکل ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گیا تھا۔ بھٹکتے ہوئے وقت کی گردش سے بیچارے جمال کی زندگی بدحال ہو گئی تھی۔ اسے اپنے سے زیادہ اپنی بیٹی کی فکر اندر ہی اندر کھائی جا رہی تھی، اس کے یہاں تین دنوں سے فاقہ تھا۔ وہ اپنی بیٹی کی بھوک برداشت نہیں کرپا رہا تھا۔ جب بھی کوئی ٹرین سے مسافر اپنا سا مان لیے اترتا وہ دوڑ تا ہوا اس کے قریب پہنچ جاتا اور ان مسا فر وں سے التجا کرتا کہ۔۔۔

    مجھے اپنا سامان دے دو جتنی دور کہو اٹھا دوں گا، بدلے میں جتنا آپ مناسب سمجھو مجھے دے دینا، مگر افسوس کہ ہر کوئی اسے یہ کہہ کر آ گے بڑھ جاتا۔ بابا تم تو بہت بوڑھے اور کمزور ہو چلے ہو، یہ سامان تو بہت بھاری ہے تم نہیں اٹھا پاؤگے اور وہ لو گ کسی جوان قلی کو آواز دیتے آ گے بڑھ جاتے، غریب اور مجبور جمال منت سماجت ہی کرتا رہ جاتا۔۔۔ اسی طرح کئی دنوں سے یہی سلسلہ چل رہا تھا۔ آج اس نے اپنی پیاری سی نازک بھوکی بیٹی کا خیال کر تے ہو ئے یہ طے کر لیا تھا کہ کچھ بھی ہو وہ آج خالی ہاتھ نہیں جائےگا، کسی بھی طرح دو چار روپیے کما کر اپنی بھوکی بچی کے لیے روٹی لیکر ہی جائےگا۔۔۔

    جب ایک بھاری بھر کم آدمی ٹرین سے جیسے ہی اترا تو وہ دوڑتا ہوا جا کر اس کا بو جھا چھیننے لگا، بابوجی یہ مجھے دے دو میں اسے اٹھا دوں گا، دو تین دنوں سے میر ے گھر میں فاقہ ہے۔ میری بچی بھوکی ہے، آپ جو مناسب سمجھیں مجھے پیسے دے دینا، سامان کا فی وزن دار ہو نے کی وجہ سے مسافر جمال کو دیکھتے ہی کہنے لگا ارے یہ تو بہت بھاری ہے تم بہت کمزور ہو تم یہ نہیں اٹھا پاؤگے۔ چھوڑ دو اسے، میں کسی دوسرے کو بلا لوں گا، جمال کے تو آنسو نکل پڑے، ایسے نہ کہیے بابو جی میری بچی بھوک سے مر جائےگی میں اسے اٹھا سکتا ہوں آپ کہیے تو سہی کہ اسے کہاں تک پہنچانا ہے مگر اس آدمی نے جمال کی ایک نہ سنی اپنا سامان دوسرے کے سپرد کر کے جمال کے ہاتھوں میں کچھ رو پیے رکھتے ہوئے یہ کہہ کر چلتا بنا کہ بابا تم میری بات ما نو یہ پیسے رکھ لو اور اس سے اپنی بچی کے لیے کچھ کھانا خرید کر لے جاؤ۔۔۔ جمال کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبانے لگیں اور اس کے ہاتھ بو جھا اٹھا نے کے لیے پھیلے کے پھیلے رہ گئے جس میں کچھ رو پیے رکھ دیے گئے اور وہ جاتے ہوئے اس آ دمی کو دیکھتا ہی رہ گیا۔ اس درمیان اسے اس بات کا بھی ہوش نہیں رہا کہ اسے لوگ بھکاری سمجھ کر اس کے پھیلے ہو ئے ہاتھوں میں کچھ سکے ڈالے جا رہے ہیں، جب اسے اس بات کا احساس ہوا تو وہ چلا نے لگا کہ میں بھکاری نہیں ہوں مجھے بھیک نہیں چاہیے، میں محنت مزدوری کرنا چاہتا ہوں، آپ لوگ مجھے موقع کیوں نہیں دیتے، وقت اور حالات، غریبی اور مفلسی نے مجھے اس طرح کمزور بنا دیا ہے ورنہ میں بھی محنت مزدوری کر سکتا ہوں۔۔۔ جمال کو بھیک لیتے ہو ئے بہت برا لگا، اس نے چاہا کہ یہ پیسے اسی وقت وہیں پر بھینک دیے، مگر اس کی آنکھوں کے سامنے اس کی معصوم بھوکی پیاسی بیٹی کا چہرہ گھومنے لگا، پھر اس نے دل مضبوط کرکے ان روپیوں سے روٹی وغیرہ خرید کر لے آیا اور اپنی بیٹی کے سامنے رکھ کر کہنے لگالو بیٹی اسے کھالو تین دنوں سے تم نے کچھ بھی نہیں کھایا ہے، وہ کہنے لگی بابا میرے ساتھ آ پ بھی تو بھوکے ہیں مگر یہ بتایئے۔ ان چیزوں کے لیے آپ کو پیسے کہاں سے ملے، کیا کوئی کام مل گیا؟

    جمال اپنی بیٹی کے اس سوال پر چونک پڑا اور اس معصوم سے جھوٹ نہیں بول سکا، اس نے سارا ماجرا بیان کر دیا۔ یہ سب سننے کے بعد وہ کہنے لگی بابا آپ ہی تو ہمیں کہا کرتے تھے کہ بھیک لینا بری بات ہے، محنت مزدوری کر کے کھانا چاہیے ور نہ فا قہ ہی اچھا ہے، ہم یہ بھیک سے خریدی ہو ئی روٹی نہیں کھائیں گے۔ بھلے ہی بھوک سے مر جائیں اور پھر اس نے ایک ہی سانس میں لوٹا بھر پانی پی لیا اور اپنے بابا کو بھی پانی بھرا لوٹا پینے کے لیے تھما دیا۔

    جمال کو بیٹی کی اس حر کت سے بہت شرمندگی محسوس ہوئی، وہ آنسوؤں کے گھونٹ پی کر رہ گیا، آج کی رات بھی پیٹ کی آگ پا نی ہی سے بجھائی گئی، ساری رات آنکھوں میں کٹی، صبح سویرے جمال اٹھ کر قبرستان میں اس جھونپڑی کے باہر بیٹھا انہی سو نچوں میں غرق تھا کہ آج کیا کرے کس طرح دو چار روپیے کمائے کوئی بھی تو کچھ کام دینے کے لیے تیار نہیں ہوتا، وہ یہ سب سونچ ہی رہا تھا کہ قبرستان میں کچھ لوگ آئے اور ایک قبر کے سامنے فاتحہ خوانی کے بعد بہت سارے پھول اس قبر پر ڈال کر چلے گئے۔ یہ دیکھتے ہوئے جمال کے دماغ میں اچانک خیال آیا، اس نے جلدی سے ادھر ادھر دیکھا، جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ سبھی جاچکے ہیں وہاں پر اس کے علاوہ کوئی نہیں ہے تو وہ پھرتی کے ساتھ اس پھولوں سے ملبوس قبر کے پاس پہنچ گیا اور پل بھر میں سارے تازہ بکھرے پھول چن لیے اور جلدی سے اپنے کاندھے پر پڑی بوسیدہ سی توال میں ڈال لینے کے بعد دو چار گھروں میں جاکر انہیں بیچ دیے جس سے چند روپیے اسے مل گئے اور ان روپیوں سے کھانے کی کچھ چیزیں خرید کر وہ اپنی بیٹی کے پاس دوڑا چلا آیا جو بھوک کی آگ کو صرف پا نی سے ٹھنڈا کرتے ہو ئے ابھی تک نیند کی آغوش میں سو ئی ہوئی تھی۔ اس نے جلدی سے بیٹی کو جگایا، اٹھ بیٹی دیکھ میں تیرے لیے کھانے کو کیا لے کر آیا ہوں، وہ معصوم ہڑبڑاکر اٹھ بیٹھی، بھوک سے اس کا من کھانے کی چیزوں کو دیکھ کر للچا رہا تھا، پھر بھی اس نے اپنے بابا سے پوچھا کہ یہ سب کہاں سے آیا ہے، مگر جمال نے اسے جلدی یہ بتاکر ٹوک دیا، بیٹی یقین کر کہ یہ بھیک سے لائی ہوئی روٹی نہیں ہے تیرے لیے بس اتنا جان لینا کافی ہے، چل شروع کر اب ہم دونوں پیٹ بھر کر کھا لیتے ہیں۔ پھر نہ جانے کب ہمیں کھانا نصیب ہو، دونوں نے سیر ہو کر کھا لیا۔۔۔

    بھوک انسان کو کس قدر مجبور اور بےبس بنا دیتی ہے۔ بھوک کے آگے انسان کا بس نہیں چلتا جب اس کے پا س کوئی چارہ نہیں ہوتا تو پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے وہ کچھ بھی کر نے کو تیار ہو جاتا ہے، کوئی بھیک ما نگنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو کوئی چوری کر نے پر اتر آتا ہے۔ جمال کی سمجھ میں جب کچھ نہیں آیا تو اس نے بھیک مانگنے کی بجائے چوری کو ترجیح دی۔۔۔ چاہے وہ قبروں پر بکھرے پھولوں کی چوری ہی کیوں نہ ہو، مگر پھول بھی تو جمال کو روزانہ نہیں مل سکتے تھے۔ کبھی کبھار ہی جب قبروں پر پھول ڈالے جاتے تو وہ انہیں حاصل کر پاتا، چنانچہ ایک اور کام کو اس نے اپنا لیا۔ جب کوئی اپنے رشتہ دار کی قبر پر زیارت وغیرہ کے لیے چلا جاتا تو اس کی اجازت سے وہ بوسیدہ قبروں کی اپنے ہاتھوں سے مرمت کر دیتا اور اس کے بدلے میں اہل قبو ر خوش ہو کر کچھ روپیے دے دیتے، مگر ظاہر ہے یہ سب کام تو رو زا نہ کے نہیں تھے، موت حیات تو اللہ کے ہاتھ ہو تی ہے، جب دو چار دن یا کچھ دن کوئی قبرستان کی طرف نہیں آ تا تو جمال اور اس کی بیٹی کو فاقے ہی کر نے پڑتے۔

    ایک دن جمال کی بیٹی بخار سے تب رہی تھی دو دنوں سے گھر میں فاقہ تھا، اس معصوم کے پیٹ میں کچھ بھی نہیں تھا اور اوپر سے بخار نے آ گھیرا تھا، جمال پریشان ادھر سے ادھر بےچینی سے پھرتا رہا، پھر وہ اپنی بیٹی کو سرکاری دواخانے لے گیا، جہاں پر ڈاکٹر نے معائنہ کے بعد مفت میں دوائی تو دے دی مگر جمال کو سختی سے تاکید کی کہ دوائی خالی پیٹ ہرگز مت دینا، اپنی بچی کو بریڈ (روٹی) وغیرہ کھلانے کے بعد ہی دوائی دینا۔۔۔ وہ دواخانے سے دوائی لے کر اپنی بیٹی کو لے آیا اور صبح سے رات تک مارا مارا پھرتا رہا، مگر چند روپیوں کا بندوبست نہیں کر پایا۔۔۔ جب اپنی بچی کو بخار میں تپتے ہو ئے دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا۔ کھلانے کے لیے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا، رات کے بارہ بج رہے تھے، وہ معصوم بخار سے تڑپ رہی تھی، جب بیٹی کی یہ تڑپ باپ کو دیکھی نہیں گئی تو اس نے یہ سونچ کر دوائی بچی کو کھلا دی کہ کسی طرح اس دوائی کے کھانے سے تھوڑی بہت بخار اتر جائےگی۔ پھر صبح ہو تے ہی وہ کسی بھی طرح کچھ نہ کچھ بندوبست کر کے کچھ نہ کچھ اس کو کھلا دےگا، دوائی دینے کے بعد وہ معصوم جو پہلے سے ہی نڈھال تھی کچھ ہی دیر میں سو گئی، جمال کو کچھ تسلی ہوئی کہ وہ آرام کر رہی ہے۔ دوائی کے اثرسے بخار بھی اتر جائےگا۔

    جب صبح ہوئی تو قبرستان میں کچھ لوگ اپنے رشتہ دار کی قبر کے پاس آئے جو بہت بوسیدہ ہو چلی تھی، ان لوگوں کو دیکھتے ہی جمال دوڑتا ہوا ان کے قریب پہنچ گیا اور ان سے کہہ کر اس قبر کو جلدی جلدی اپنے ہاتھوں سے مٹی کے ذریعہ ٹھیک کرنے لگا اور اچھی خاصی مرمت کر دی، وہ لوگ خوش ہو گئے اور جمال کے ہاتھوں میں کچھ روپیے رکھ دیے، ان روپیوں کو لیتے ہی وہ جلدی سے جاکر بریڈ لے آیا، آتے ہی اپنی سوئی ہوئی بیٹی کو آواز دے کر جگانے لگا، بیٹی دیکھ میں تیرے لیے روٹی لایا ہوں اٹھ جا اسے کھا لے، مگر اس معصوم کو جگانے کی جمال کی ہر کوشش ناکام اور بےسود رہی، وہ تو ہمیشہ کے لیے سو چکی تھی، اب و ہ کہاں سے جاگ پاتی، اسے اس بےدرد دنیا سے، بھوک پیاس سے ہر طرح سے نجات جو مل گئی تھی، جمال چیختا رہا، چلاتا رہا، آنسو بہاتا رہا، مگر اس معصوم کی سانسوں کی ڈوراسی وقت ٹوٹ چکی تھی، جب اس نے رات میں خالی پیٹ دوائی لے لی تھی۔۔۔ اب جمال بالکل تنہا اپنی بچی کی قبر کے پاس ہر وقت بیٹھا خالی خالی نگاہوں سے قبر کو تکتا رہتا۔ اسے نہ کھا نے کا ہوش تھا نہ پانی کا خیال، اسی طرح گھنٹوں بیٹھا آ نسو بہاتا رہتا۔ معمول کے مطابق اپنوں کی قبروں کا حال دیکھنے اور ان کی مر مت کروا نے کے لیے کچھ لو گ قبرستان آئے، جب انہوں نے چاروں طرف دیکھا کہ ہمیشہ ان کے آتے ہی دوڑا چلا آنے والا جمال آج کہیں بھی نظر نہیں آ رہا تھا۔ جب ان کی نگاہیں جمال کو تلاشنے لگیں تو انہیں ایک قبر کے پہلو میں کوئی بیٹھا ہوا دکھائی دیا قریب جاکر دیکھنے پر انہیں معلوم ہوا کہ جمال ہی بیٹھا آ نسو بہا رہا تھا۔ انہوں نے جمال کو آواز دی، بابا آپ یہاں بیٹھے آ نسو بہا رہے ہیں، ویسے جب کبھی ہم یہاں آ تے تو آپ ہمارے پیچھے دوڑے چلے آتے تھے، قبروں کی مرمت کرنے کے لیے، آج یہاں کیوں بیٹھے آ نسو بہا رہے ہیں، یہ کس کی قبر ہے، کیا آپ کا کوئی رشتہ دار مر چکا ہے؟

    جمال زاروقطار رو تے ہو ئے کہنے لگا۔ نہ بھیا یہ میرا رشتہ دار تھوڑی ہے یہ تو میرے جگر کا ٹکڑا ہے۔ جو مجھ سے جدا ہو گیا، یہ میری معصوم بچی ہے جو مجھے چھوڑ کر چلی گئی، یہی تو میرے جینے کا واحد مقصد تھی۔ میری غریبی نے اسے مار دیا۔ بخار سے تپ رہی تھی، ڈاکٹر نے ہدایت کی تھی کہ کچھ کھلانے کے بعد اسے دوائی دینا، مگر میں ناکارہ ایک بریڈ کا انتظام نہیں کر سکا، بخار اتر جائے یہی سونچ کر میں نے اسے رات میں دوائی کھلا دی کہ صبح ہوتے ہی میں روٹی کا انتظام کر کے اسے کھلا دوں گا مگر دوائی لینے کے بعد وہ جیسے سوئی ویسے ہی سو تی رہی پھر وہ نہیں جاگ پائی غریبی اور مفلسی نے اسے مار دیا، بھیا اسے مار دیا، بھوک کے زہر نے اس کی جان لے لی۔ صرف وقت پر ایک روٹی کے نہ ملنے سے اس کی جان چلی گئی، میں اب کس کے لیے جیوں کس کے لیے کچھ کروں؟ اب میرے جینے کا کوئی مقصد ہی نہیں رہا، میں چاہتا ہوں اسی طرح ہر پل یہاں بیٹھا رہوں اور بھوک اور پیاس سے نڈھال ہوکر ایک دن مر جاؤں گا جس طرح میری بچی نے دم توڑ دیا تھا، میں بھی اس کے پاس جانا چاہتا ہوں، وہ رو ئے جا رہا تھا اور سہمے جا رہا تھا، جمال کی باتیں سن کر وہ سبھی چپ چاپ غریب اور مفلسی کی اس جیتی جاگتی مجبور اور بےبس تصویر کو دیکھتے ہو ئے سر جھکائے واپس چلے گئے۔

    Additional information available

    Click on the INTERESTING button to view additional information associated with this sher.

    OKAY

    About this sher

    Lorem ipsum dolor sit amet, consectetur adipiscing elit. Morbi volutpat porttitor tortor, varius dignissim.

    Close

    rare Unpublished content

    This ghazal contains ashaar not published in the public domain. These are marked by a red line on the left.

    OKAY

    Jashn-e-Rekhta | 13-14-15 December 2024 - Jawaharlal Nehru Stadium , Gate No. 1, New Delhi

    Get Tickets
    بولیے